ماضی کے تمام ادوار سے زیادہ اس دور میں علماء وطلبا کی تعداد ہے۔ کسی خاص ملک اور مقام کی تحدید کے بغیر ہر جگہ علماء اور طلبا کی کثرت ہے۔ مسلمانوں کا کوئی ایسا خطہ نہیں جہاں قرآن وحدیث کا عالم نہیں ہے۔ لیکن قابل غور معاملہ یہ ہے کہ علما اور طلبا کی بہتات کے باوجود ان کا اثر نمایاں نظر نہیں آتا ہے۔ ان کے تقاریر، مواعظ، بیانات، خطابات، دورے، دروس اور پند ونصائح حسب معمول ہوتے ہیں مگر معاشرے میں قابل ذکر تبدیلی نہیں ہوتی۔ علماء کرام کے بیشتر دینی نشاطات اور ان کے تعلیمی ودعوتی مساعی محض ایک رسم نظر آتے ہیں۔ جب کہ ماضی کے ادوار سو دو سو سال قبل تک علما کی تعداد کم تو تھی مگر ان کی دعوتی وتبلیغی کوششوں کا اثر نظر آتا تھا۔ عوام وخواص کی نگاہ میں ان کی قدر ومنزلت تھی۔ ان کی للہیت اور عبادت گزاری کے مثبت اثرات خود ان کی ذات اور دوسرے مسلمانوں کے سلوک و کردار پر مرتب ہوتے تھے۔ ان کی عام گفتگو اور بات چیت سے متاثر ہو کر بڑے بڑے گنہگار اور مجرمین توبہ واستغفار کرلیتے تھے۔ ماضی اور حال کے علماء وطلبا میں جو فرق نمایاں ہے اس کے بہت سارے اسباب ہیں، جن میں سے ایک بڑا سبب آج کے بیشتر علماء وطلبا کا بے برکت ہونا ہے۔ جس کی وجہ سے ان کی خدمات کا دائرہ محدود سے محدود تر ہے۔ بڑے بڑے ذی علم حضرات اپنے خول میں بند اور اپنے حصار میں قید ہیں۔ گاہے بہ گاہے بڑے اسٹیج اور کانفرنسوں کی زینت بنتے ہیں مگر مہینوں اور سالوں کے لیے سہولت وآسانی کی نذر ہوجاتے ہیں۔ اس سے سمجھ میں آتا ہے کہ ان کی زندگی برکت سے خالی ہے۔ اس لیے علماء وطلباء کو اللہ تعالی سے برکت کی دعا کرنی چاہیے۔ با برکت لوگوں کا ہی ہر سو فیض عام ہوتا ہے۔ بے برکت لوگ بے فیض مر جاتے ہیں۔
بابرکت اور بے برکت علماء وطلباء یا عام لوگوں کی حتمی تعیین یا ان کی بستیوں اور شہروں کی نشاندہی کر پانا بہت مشکل ہے۔ لیکن بسا اوقات بعض لوگوں کے کارنامے ان کے بابرکت ہونے کا پتا دیتے ہیں۔ ان کے ان نقوش تابندہ اور درخشندہ کو دیکھ کر یہ کہنا پڑتا ہے کہ ان کے کارنامے ان کی مبارک زندگی کا آئینہ دار ہیں۔ اگر اللہ کی توفیق خاص نہ ہوتی تو اتنے بڑے بڑے کارنامے منصہ شہود پر جلوہ گر نہ ہوتے۔ سرور کائنات علیہ السلام، صحابہ کرام، تابعین عظام، محدثین باتمکین، فقہاء دین اور اجلہ علما ومبلغین کی تابناک اور روشن زندگی اور ان کی بے مثال خدمات سے یہی معلوم ہوتا ہے۔
متاخرین علماء اہل حدیث کی فہرست پر سرسری نگاہ ڈالنے پر بھی کچھ ایسے اسماء بار بار سامنے آتے ہیں جن کے بابرکت ہونے کا شدت سے احساس ہوتا ہے۔ ان کی شخصیت تعلیم ودعوت کے میدان میں منفرد اور یکتائے روز گار نظر آتی ہے۔ وہ فرد نہیں بلکہ قوم وملت کے لیے انجمن کی حیثیت رکھتے ہیں۔ اہالیان ہند بالخصوص سلفیان ہند کی علمی اور دینی قربانیوں کو ہرگز فراموش نہیں کرسکتے۔
میری اپنی معلومات اور مطالعے کی روشنی میں مبارک اور با برکت علماء ہند میں شاہ ولی اللہ محدث دہلوی اور ان کے فرزندان(بشمول پوتے اور نواسے )سر فہرست ہیں۔ جن کی تعلیمی اور دعوتی خدمات کی بدولت ہندوستان کے طول وعرض میں عمل بالحدیث کا رجحان پیدا ہوا، شرک و بدعات کے دبیز پردے چاک ہوئے۔ ان کی خدمات کو انہی کے زمانے کے تناظر میں سمجھا جاسکتا ہے۔ جب توحید وسنت پر عمل اور اس کی نشر واشاست کرنا اپنی جان کو جوکھم میں ڈالنا تھا۔ایسے زمانے میں خانوادہ ولی اللہی نے مسلمانوں کو کتاب وسنت کی طرف راغب کیا۔ فکری جکڑ بندیوں سے اہالیان ہند کو باہر کیا۔اس حوالے سے مولانا علامہ محمد اسماعیل سلفی کی کتاب “شاہ ولی اللہ محدث دہلوی کی تجدیدی مساعی ” پڑھی جاسکتی ہے۔ تفصیل سے اس کتاب میں شاہ ولی اللہ کے تجدیدی کارناموں پر روشنی ڈالی گئی ہے۔
بابرکت علماء وعوام میں تحریک شہیدین سے وابستہ حضرات بھی ہیں۔ جنھوں نے ملک ووطن کی آزادی کے ساتھ توحید وسنت کی برصغیر میں آبیاری کی۔اس جماعت کے سرخیل میں سید احمد شہید، شاہ اسماعیل شہید، مولانا عنایت علی، مولانا ولایت علی کے علاوہ سارا خانوادہ صادقپور شامل ہے۔
نواب صدیق حسن خان بھوپالی، ان کا پورا علمی ودعوتی کارواں اہالیان ہند کے لیے بابرکت ثابت ہوا۔ انھوں نے پورے عالم خصوصا عالم عرب میں سلفیان ہند کا سر فخر سے بلند کردیا، علما ودعاۃ کی کفالت، سلف صالحین کے علمی ذخائر وتراث کی وسیع پیمانے پر طباعت واشاعت، مدارس وجامعات کا قیام اور ان کی سرپرستی نواب صاحب رحمہ اللہ کے پسندیدہ میدان تھے۔ آپ کے زمانے یا بعد کے زمانے میں آپ سے زیادہ سخی اور فیاض شخص نہیں ہوا۔ آپ نے اپنے مال ودولت کا بڑا حصہ دین اور تعلیم کی راہ میں خرچ کیا۔ گویا توقع سے زیادہ اللہ تعالی نے آپ سے دین وتعلیم کا وسیع پیمانے پر کام لیا۔ دین کی عظیم خدمت کے لیے اللہ تعالی نے بالواسطہ بھوپال کی ریاست اور خزانہ علم ومعرفت کے ساتھ خزانہ مال ودولت عطا کیا۔ توفیق الہی سے اس وقت ہندوستان کے طول وعرض میں پھیلے سلفیوں کے آپ مقتدا اور محسن بن کر سامنے آئے۔ آپ کی بابرکت شخصیت کا عکس ونقش آج بھی پاسپان کتاب وسنت کی زندگیوں میں نظر آتا ہے۔
بابرکت شخصیات کا تذکرہ خاص ہو اور ان خاصان خاص میں کتاب وسنت کے عظیم المرتبت انسان، درس و تدریس کے امام، ہزاروں عرب وعجم شاگردوں کے استاد میاں نذیر حسین محدث دہلوی اور ان کے شاگردان با صفا کا تذکرہ نہ ہو یہ ممکن نہیں۔ میاں صاحب کی بابرکت شخصیت نے علم وحکمت کا وہ قندیل روشن کیا جن کی تیز لو صرف ہندوستان ہی نہیں بلکہ ہندوستان سے باہر بھی علم ودانش کی قلعے کو منور کررہی ہے۔ اس وقت بر صغیر میں کتاب وسنت کی ترویج واشاعت کے جو بھی ادارے ہیں ان کا سرا اسی عظیم انسان میاں نذیر حسین محدث دہلوی سے جاکر ملتا ہے۔ کسے معلوم تھا کہ ریاست بہار کے ضلع مونگیر کے ایک چھوٹے سے گاؤں سورج گڑھ کی خاک سے اٹھنے والا یہ ذرہ ایک دن نیر تاباں بن کر عرب وعجم کو متاثر کرے گا۔ ان کی ذات اتنی بابرکت اور عظیم ہوگی کہ ان کی طرف نسبت کو لوگ باعث افتخار سمجھیں گے۔ یہی ہے حقیقی برکت، اللہ اپنے جس بندے سے محبت کرتا اور اس سے کام لینا چاہتا ہے اس میں ودیعت کردیتا ہے۔ دیکھتے دیکھتے وہ محبوب خالق وخلائق بن جاتا ہے۔ اس کا فیض خاص ہی نہیں بلکہ خاص وعام ہوجاتا ہے۔ جس کی مثال ہمارے ممدوح میاں صاحب رحمہ اللہ ہیں۔
میاں صاحب رحمہ اللہ نے دہلی میں سکونت اختیار کی اور وہیں سے عرب وعجم کو قرآن وحدیث کے اسباق پڑھائے۔ ان کے اسباق محض کتابوں کی معلومات کو تلامذہ کے ذہن و دماغ میں اتارنا نہیں تھا،بلکہ انھوں نے اس اخلاص و محبت سے کتاب وسنت کے اسباق پڑھائے کہ ان میں کا ہر فرد میدان علم ومعرفت کا امام بن گیا۔ وہ سب بیک وقت مسند علم وحکمت کے سچے ترجمان بھی تھے اور دین خالص کے بے لوث مبلغ و پاسباں بھی۔ میاں صاحب کے شاگردوں جیسی پاکباز ہستیاں بعد میں پیدا نہیں ہوئیں۔
ہندوستان کی دیگر ریاستوں کی طرح ریاست بہار کو بھی میاں صاحب کے علم سے فیض حاصل ہوا۔ دبستان نذیریہ کے متبحر مصنف اور مورخ جناب محمد تنزیل صدیقی الحسینی صاحب نے دبستان نذیریہ کی مطبوع پہلی جلد میں ریاست بہار کے مختلف ضلعوں میں میاں صاحب کے 136شاگردوں کے اسماء تحریر فرمائے ہیں۔ میاں صاحب جیسی بابرکت شخصیت سے محبت کرنے والے اصحاب علم کو اس کتاب کا ضرور مطالعہ کرنا چاہیے۔
ریاست بہار میں اس وقت علم وعرفان کی جو باد بہاری چل رہی ہے وہ بالواسطہ میاں صاحب کے فیض یافتہ شخصیات کی مرہون منت ہے۔ علماء اہل حدیث بہار سب کے سب میاں صاحب کے ممنون ہیں۔ دہلوی چراغ سے ہی سارے چراغ جلے اور روشنی پائے ہیں۔
ریاست بہار کی بابرکت شخصیات اور میاں صاحب کے شاگردان میں نمایاں نام علامہ عبد العزیز رحیم آبادی، علامہ شمس الحق عظیم آبادی، مولانا اشرف الحق عظیم آبادی، مولانا فضل حسین مظفر پوری، مولانا شاہ علی نعمت جعفری، مولانا شاہ عین الحق جعفری پھلواری، مولانا تلطف حسین عظیم آبادی، مولانا ابو محمد ابراہیم آروی، مولانا محمد اسحاق آروی، مولانا عبد الرشید جھمکاوی وغیرہم کا ہے۔ ان کے بعد ان کے شاگردوں نے اور شاگردوں کے شاگردوں نے قافلہ حق کو آگے بڑھایا اس طرح آج بھی بہار کی علمی ودینی فضا جگمگا رہی ہے۔ نور ونکہت میں ڈوبی یہ فضا علامہ ڈاکٹر محمد لقمان السلفی رحمہ اللہ کی حیات مبارکہ کی دیا دلاتی ہے، کبھی ڈاکٹر عبد الحفیظ اور ان کے باکمال پسران کی قربانیوں کی داستان سناتے ہیں۔ علامہ رحیم آبادی اور ان کے تربیت یافتہ علماء و مشائخ کی ہی یاد گار مدرسہ اسلامیہ بھوارہ اور مدرسہ احمدیہ آرہ ہے۔ جن کے ذمہ داران سرزمین بہار کی مختلف مبارک ہستیاں رہی ہیں۔ جامعہ امام بخاری کشن گنج، جامعہ ریاض العلوم سپول اور اس علاقے کے دیگر بڑے اداروں اور ان کے قدیم وجدید ذمہ داران کی نسبتیں بھی میاں صاحب سے ملتی ہیں۔ پٹنہ میں مولانا عبد الخبیر صادق پوری، مولانا عبد السمیع صادق پوری اور پورا صادق پوری خاندان بابرکت رہا ہے۔ اہالیان ہند کا ایک ایک فرد ان کی علمی، دینی، دعوتی اور ملکی خدمات کا قرض دار ہے۔
ہماری گفتگو کا مرکزی نقطہ سلفیان ہند کی بابرکت شخصیات،دینی مراکز بالخصوص ریاست بہار کی معاصر بابرکت ہستیاں اور دینی مدارس وجامعات ہیں۔ اگر اس ضمن میں بانیان و مستفدین مدرسہ دار الحدیث رحمانیہ کی طرف اشارہ نہ کیا جائے تو شاید اس گفتگو کا حق ادا نہ ہو۔ اس عدیم النظیر ادارے کے فیوض وبرکات کے نشانات ہندوستان کے چپے چپے پر آشکارا ہیں۔ اس ادارے کے اساتذہ و تلامذہ دونوں بابرکت ثابت ہوئے، جہاں رہے اپنے علم وعمل سے خلق کثیر کو نفع پہنچاتے رہے۔ اسی دار الحدیث سے مولانا نذیر احمد املوی رحمانی، شیخ الحدیث عبید اللہ رحمانی اور خطیب الاسلام مولانا عبد الرؤف رحمانی جیسی علمی شخصیات پیدا ہوئیں۔ دار الحدیث کی تاریخ وتعارف اور اس کے فیوض وبرکات کو جاننے کے لیے شیخ اسعد اعظمی ( استاد جامعہ سلفیہ بنارس ) کی مرتب کردہ کتاب ” تاریخ وتعارف مدرسہ داد الحدیث رحمانیہ “کا مطالعہ مناسب ہوگا۔
موجودہ وقت میں علما اور عوام دونوں کو بابرکت ہونے کی ضرورت ہے اور یہ صرف تعلق باللہ اور جذبہ خدمت خلق سے ممکن ہے۔ اللہ سبحانہ وتعالی سے مضبوط رشتہ استوار کیے بغیر اور لوگوں کی طرف تعاون و ایثار کا ہاتھ بڑھائے بغیر ہم اپنی ذات کے لیے مبارک ثابت ہوسکتے ہیں نہ دوسروں کے لیے۔ یہاں یہ بات قابل ذکر ہے کہ انسان کو بے برکت بنانے میں اس کے گناہ اور معصیت کا سب سے بڑا کردار ہوتا ہے اس لیے عام لوگوں سے کہیں زیادہ خواص علما، طلبا اور صلحاء واتقیاء کو گناہوں سے بچنے کی ضرورت ہوتی ہے۔ ہماری زندگی میں برکت نہیں تو ہماری زندگی بے کار ہے۔ اللہ تعالی اخروی ودنیاوی برکات سے ہمیں نوازے۔ ہم جہاں ہوں عوام وخواص کے لیے مبارک ثابت ہوں۔ زحمت اور بے برکت بن کر امت مسلمہ کے لیے درد سر نہ بنیں۔
آپ کے تبصرے