خود تراشیدہ در و بام سے ڈر جاتا ہوں
اپنے ہاتھوں کو دیے کام سے ڈر جاتا ہوں
بند کمرے کی اداسی ہے مسلط مجھ پر
شور کی وحشت بے نام سے ڈر جاتا ہوں
عشرتیں دل کی اگرچہ ہیں سحرکار بہت
ترک آگاہئ انجام سے ڈر جاتا ہوں
مقتل عمر خیالوں میں گزر جائے اگر
بین کرتے ہوئے ایام سے ڈر جاتا ہوں
غیر مانوس ہوئی جاتی ہے دل کی دھڑکن
سعئ بے سود غم خام سے ڈر جاتا ہوں
رقص مرصاد اجل کہیے یا انفاس جنوں
عشق کے کام کے دو نام سے ڈر جاتا ہوں
پیشتر خواب سے تعبیر نظر آتی ہے
وجد بیتابئ اوہام سے ڈر جاتا ہوں
محور جبر تنفس پہ اگر زور نہیں
کیوں شب و روز کے ہنگام سے ڈر جاتا ہوں
دل کو کافی نہ ہوا حلقۂ فتراک جنوں
اور میں دھاگا نما شام سے ڈر جاتا ہوں
آپ کے تبصرے