یہ کیسے گردش ایام نے حالات پھیرے ہیں

عبدالکریم شاد شعروسخن

نہ اب شامیں سہانی ہیں نہ اب رنگیں سویرے ہیں

یہ کیسے گردش ایام نے حالات پھیرے ہیں


کبھی خورشید تھے ہم بھی جہانِ علم و حکمت کے

اور اب سر پر ہمارے جہل کے سائے گھنیرے ہیں


ہماری محفلوں میں ایک مدت سے چراغاں تھا

مگر اب دور تک تنہائیاں ہیں گھپ اندھیرے ہیں


کہاں چرچے ہمارے ہو رہے تھے آسمانوں میں

کہاں تحت الثریٰ میں اب ہمارے بھی بسیرے ہیں


ہر اک چہرے پہ اک چہرہ ہر اک جلوے میں اک پردہ

لٹیرے ہی محافظ ہیں محافظ ہی لٹیرے ہیں


یہ کیا لیلیٰ بھٹکتی پھر رہی ہے قیس کی خاطر

جنوں ہے محو حیرت عقل نے جلوے بکھیرے ہیں


کہاں یہ حال تھا چڑیاں چہکتی تھیں درختوں پر

کہاں سنسان جنگل میں لکڑہاروں کے ڈیرے ہیں


نئی دنیا ہے ساقی زہر کا بیوپار کرتا ہے

نیا دستور ہے سانپوں کے قبضے میں سپیرے ہیں


وہی ہم تھے جنھوں نے کر لیا تھا فتح دنیا کو

عجب ہے اب ہمارے چار سو دنیا کے گھیرے ہیں

آپ کے تبصرے

3000