بر سرِ نیزہ سر ہے مرا

کاشف شکیل شعروسخن

شامِ غریباں شام ہے میری، شہرِ خموشاں گھر ہے مِرا

دشتِ محبت کا کربل ہے، بر سرِ نیزہ سر ہے مرا


آنکھیں وحشت کی دلدادہ، قدم بہکنے کے عادی

راہِ راست کی تاریکی میں صبح کا سورج ڈر ہے مرا


رقص بسمل رقص ہے میرا، آہیں میرا نغمہ ہیں

اس کے دل کا پتھر ہی تو، سب سے قیمتی زر ہے مرا


مست ہے بت سازی میں ہر دم، ذہن مرا کچھ اس درجہ

گرچہ قلب ہے ابراہیمی، ذہن مگر آزر ہے مرا


مجھ سے ناطہ توڑ کے اس نے دھیرے سے اتنا ہی کہا

سدِّ ذو القرنین کے جیسا، کاشف! دل کا در ہے مرا

آپ کے تبصرے

3000