مصلحت آئین ہے اور خواہشیں دستور ہیں
پھر بھی کہتے ہیں کہ ہم ایمان سے معمور ہیں
وہ علوم و آگہی میں ہیں ترقی یافتہ
ہم فقط اجداد کی میراث پر مغرور ہیں
زندگی وہ جرم ہے جس کی سزا بس موت ہے
چند گھڑیاں کاٹ کر مرنے پہ سب مجبور ہیں
بے حمیّت، فتنہ ساز و سخت گو، شعلہ مزاج
عصرِ حاضر میں جنابِ شیخ یوں مشہور ہیں
فیسبک پر فالتو بحثیں ہیں ان کا مشغلہ
داعیانِ دین اب اس کام پر مامور ہیں
خارجی حملوں سے کیا ڈرنا کہ اب یہ حال ہے
ملّت احمد کے سینے کا ہمی ناسور ہیں
جنت و دوزخ کو ہم تقسیم کرتے رہ گئے
دعوتِ اسلام سے ہم آج بھی کیوں دور ہیں
کچھ ریاکاروں سے دوری ٹھیک ہے کاشف مگر
مخلصوں کی کاوشوں پر دل سے ہم مشکور ہیں
ماشاءاللہ بہترین غزل اور حکمت سے بھر پور