گلہ وغیرہ تو بین السطور جچتا ہے

عبدالکریم شاد شعروسخن

کوئی گمان نہ کوئی فطور جچتا ہے

ترا خیال ہی تحت الشعور جچتا ہے


کسی بھی روپ میں آؤ حسین لگتے ہو

کوئی لباس پہن لو حضور جچتا ہے


اسی لیے مجھے خود کو جلائے رکھنا تھا

وہ کہہ رہا تھا مرے رخ پہ نور جچتا ہے


مرے ہی پیار نے مغرور کر دیا ہے اسے

سو اتنے پیار پہ تھوڑا غرور جچتا ہے


یہ کیا کہ پاسِ ادب بھی نہیں رکھا تم نے

گلہ وغیرہ تو بین السطور جچتا ہے


شکن بھی آئے نہ جاناں تمھارے ماتھے پر

کہاں کلی پہ خزاں کا ظہور جچتا ہے


سنور کے آتے ہیں کتنے ہی مے کدے سے مگر

کسی کسی پہ قبائے سرور جچتا ہے


میں قیس ہوں مجھے صحرا نورد رہنے دو

مرا وجود محبت میں چور جچتا ہے


کسی کو دہلی کسی کو ہے ممبئی محبوب

ہمیں تو شاد فقط عشق پور جچتا ہے

آپ کے تبصرے

3000