اک تری یادوں کی بارات نے رونے نہ دیا
کچھ تری ذات تھی جس ذات نے رونے نہ دیا
دل کے ٹکڑے بھی سمیٹے گئے ہنستے ہنستے
قلب کو صبر کی آیات نے رونے نہ دیا
دیکھ کر تجھ کو گنوا بیٹھے تھے ہم ہوش و حواس
سو ترے حسن کی شہ مات نے رونے نہ دیا
سنگ کے سنگ برستا رہا خوں آنکھوں سے
کون کہتا ہے ترے ساتھ نے رونے نہ دیا
دن میں ڈر ہے کہ ترا راز نہ کھل جائے کہیں
مر ہی جائیں گے اگر رات نے رونے نہ دیا
اشک میں ڈوب ہی جانے کا ارادہ تھا مگر
ہم کو مجنوں کی حکایات نے رونے نہ دیا
ہجر تو ایک قیامت تھا مگر کاشف کو
وصل کے لمحوں کی خیرات نے رونے نہ دیا
السلام علیکم و رحمۃ اللہ
بہت خوب کاشف صاحب
نیا انداز مبارک ہو۔
کہاں رونے کا کچھ چانس تھا وہاں سے فری لانسر والوں نے کمال ہوشیاری سے نہ غائب کردیا ہے ۔متنبہ رہیں
Mubarak ho