آتی ہے صدا عالم افلاک سے اب تک

عبدالکریم شاد شعروسخن

بیزار ہیں مجموعۂ املاک سے اب تک

منسوب ہیں جو صاحبِ مسواک سے اب تک


باقی ہے گل و خار کی پہچان تجھی سے

دنیا میں بہاراں ہے تری خاک سے اب تک


ہر شب شبِ معراج کی صورت ہو خدایا

آتی ہے صدا عالم افلاک سے اب تک


تو اسوۂ کامل ہے تو آئینہ ہستی

شہکار اترتے ہیں ترے چاک سے اب تک


چہروں پہ ترا رنگ ہے باتوں میں ترا ڈھنگ

آراستہ جگ ہے تری پوشاک سے اب تک


باطل کے طرف دار ہوں کتنے ہی زباں داں

ڈرتے ہیں ترے لہجہ بے باک سے اب تک


جن پر ترے قدموں کے نشانات پڑے تھے

سجتی ہے زمیں ان خس و خاشاک سے اب تک


جاتے ہوئے دیکھا ہے تجھے اہل نظر نے

“ٹپکے ہے لہو دیدہ نمناک سے اب تک”


وہ شاد ہو ناشاد ہو سب کے لیے خیرات

جاری ہے تری بارگہِ پاک سے اب تک

آپ کے تبصرے

3000