یہ شہرِ ممبئی

کاشف شکیل شعروسخن

یہ شہرِ ممبئی، سپنوں کی نگری، موہنی صورت
جسے مشاطِ فطرت نے کسی تتلی کی صورت نازکی اور رنگ بخشا ہے
گلستانِ عدن کے نکہتِ ریحان سے لبریز حوا زادیاں سڑکوں پہ اتراتی ہوئی
یہ ہر موسم میں اک‌ تازہ سمَن‌ جیسی
کلی کے بانکپن‌ جیسی
فرشتوں سی، دلہن‌ جیسی
خزاں جب رقص کرتی ہے بہاریں رشک کرتی ہیں
یہاں گلیاں کبھی تاریک راتوں سے نہیں ڈرتیں
نہ سڑکیں ہی کسی کی آبرو پامال کرتی ہیں
یہاں شب میں ہر اک آنگن اجالوں کا بسیرا ہے
یہ خطہ روز ہی بحرِ عرب سے باوضو ہوکر
یوں قبل از فجر چڑیوں کی طرح سے چہچہاتا ہے
کہ جیسے حمد خوانی کر رہا ہو
تہجد کی ادائی کر رہا ہو
پھر اس کے بعد اک پیاری صدا یعنی
اذاں کے پاک کلمے
فضاؤں میں بکھر کر چومنے لگتے ہیں کانوں کو
یہی وہ روح پرور نورِ‌ ایمانی ہے جس کے بعد
یہ بادل کوہساروں سے ذرا سا دور ہٹتے ہیں
پرندے آسماں سر پر اٹھا کر رقص کرتے ہیں
گلوں پر شبنمی قطرے ہیں یا رخسار پر آنسو
نسیمِ صبح کا مدہوش کن جھونکا یا پھر گیسو
شرابِ عشق میں گوندھی گئی مٹی کی وہ خوشبو
زبان حال سے کہتی زمیں اللہُ، اللہُ
یہ بستی زندہ لوگوں کی، یہ مسکن زندگی کا ہے
یہاں ڈوسے اور اڈلی کی مہک سے صبح ہوتی ہے
وڑا پاؤں کی بائِٹ سے ہی بسم اللہ ہوتا ہے
کروڑوں لوگ لوکل سے یہاں منزل پہنچتے ہیں
یہاں ہر آدمی کا روزآنہ ڈیڑھ دو گھنٹہ اسی کی بھینٹ چڑھتا ہے
یہ لوکل مختلف جسموں میں یوں قربت بڑھاتی ہے
کہ چوطرفہ یہاں ہر بھیڑ کی مڈبھیڑ ہوتی ہے
مناظر دل چراتے ہیں یہاں کے
نگاہیں کھینچ لیتا ہے کبھی حاجی علی درگاہ کا گنبد
مرِن لائن زمیں کا چاند جو پانی میں اُترا ہے
یہاں چوپاٹیوں پر حسن کی برسات ہوتی ہے
سلگتی ریت سانسوں میں تپش بیدار کرتی ہے
سمندر کے کناروں پر یہاں جذبات بہتے ہیں
یہاں دانشکدہ ہے ممبئی کا
جہاں وکٹوریہ رانی کے غازے سے مزین آرکیٹیکچر
سن اٹھارہ سو ستاون سے اب تک اپنی بنیادوں پہ قائم ہے
طلسمِ دل ربا ہے وہ
دوبارہ آج خود کو‌ میں نے اس کی لان میں پایا
لگا کہ وقت پھر سے لوٹ آیا ہے محبت کا
لگا جیسے کہ مجنوں کو کسی صحرا بیاباں میں چھپی لیلیٰ نظر آئی
لگا جیسے کہ میرے دل پہ موسیقی کا قبضہ ہو
لگا جیسے کہ نظروں میں کوئی جنت نمایاں ہو
لگا جیسے قدم حوروں کی پلکوں پر رکھا میں نے
لبوں پر حمد کے الفاظ ٹڈی دل کی صورت آ کے دھمکے ہوں
فضاؤں میں وہاں کی ایک نشّہ ہے
ہواؤں کے خیالی جسم سے یہ پھیپھڑے بھی وصل کر بیٹھے
یہاں کے بلبل و گلشن کا رشتہ آسمانی ہے
یہاں ہریالیوں کا‌ حسن‌ بھی جنت نشانی ہے
او دہلی واسیو! تم پوچھتے ہو ممبئی کیا ہے؟
یہ خوابوں کا محل ہے
یہ ڈِژنی لینڈ ہے دنیائے اصلی کا
تمھارے شہر میں مانا کشش ہے ثقل کی لیکن
یہ شہرِ عشق ہے، یاں دل‌ کشی ہے
یہاں روحوں کو بھی اک روح ملتی ہے
یہاں کے کوہساروں کو یہ بادل چومتا ہے اور
یہ اونچی بلڈنگیں اللہ سے قربت بڑھاتی ہیں
سمندر ساحلوں پر جیسے ڈیزل
دلوں میں عشق کی اگنی جلاتا ہے
چِتائیں حسرتوں کی راکھ ہوتی ہیں
سراپا سحر ہیں صبحیں یہاں کی
مجسم عشق ہیں شامیں یہاں کی
چلے آؤ تمھیں بھی ممبئی کا حسن دکھلاؤں

آپ کے تبصرے

3000