اک برف کا ٹکڑا تھا اور ہم نے گہر جانا

عبدالکریم شاد شعروسخن

وہ عشق کی بستی ہے ہرگز نہ ادھر جانا

جانا تو زمانے سے یک لخت مکر جانا


گزرے ہیں نگاہوں سے کتنے ہی حسیں لیکن

دل نے تو فقط تم کو منظورِ نظر جانا


پینے کو تو پیتے ہیں ہونٹوں سے لگا کر مے

آتا ہے کہاں سب کو ساغر میں اتر جانا


پھر شام وہی آئی پھر صبح وہی ہوگی

ہر روز سمٹ جانا ہر روز بکھر جانا


غمگین بھی کرتا ہے تسکین بھی دیتا ہے

اک طرفہ تماشا ہے یہ عشق میں مر جانا


آنکھوں میں تحیر ہے ہاتھوں میں پشیمانی

اک برف کا ٹکڑا تھا اور ہم نے گہر جانا


جب بارِ تہی دستی سے پانو شکستہ ہوں

آسان نہیں ہوتا مزدور کا گھر جانا


ممکن ہے محبت میں شاد ایسے دوانوں کا

صحرا میں اتر جانا دریا سے گزر جانا

آپ کے تبصرے

3000