ڈاکٹر ابو الحیات اشرف مورخہ 22 جون 2025ء کو دہلی میں وفات پاگئے۔ انا للہ وانا الیہ راجعون
اللہ پاک ان کی قبر پر نور کی بارش برسائے۔ ان کے گناہوں پر عفو و درگزر کی چادر ڈال دے۔ ان کی خدمات جلیلہ کو قبولیت کا شرف بخشے۔ ان کے اہل خانہ کو صبر وسلوان عطا کرے۔
ڈاکٹر صاحب رحمہ اللہ اصلا اور نسلا ریاست بہار کے ضلع مشرقی چمبارن کے باشندہ تھے۔ دوستیا گاؤں آپ کا آبائی وطن تھا۔ شروع سے یہ گاؤں علما وفضلا کا مسکن رہا ہے۔ اس گاؤں کے قدیم فضلا میں مولانا صداقت حسین دوستیاوی (والد ماجد ڈاکٹر ابو الحیات اشرف) کا شمار علاقہ ہی نہیں بلکہ ریاست کے جید علماء میں ہوتا تھا۔ آپ ایک خدا ترس انسان تھے۔ آپ کے علمی اور روحانی فیض سے کئی ضلعے فیضیاب ہوئے۔ ایک زمانے تک آپ مدرسہ اصلاح المسملین پتھر کی مسجد پٹنہ میں تدریس کا فریضہ انجام دیتے رہے۔
مولانا شفیع احمد اصلاحی اسی بستی کے چشم وچراغ تھے۔ مولانا اصلاحی زندگی کے آخری مرحلہ میں جامعہ امام ابن تیمیہ سے منسلک ہوگئے تھے۔ اس وقت جامعہ کی تاسیس کے ابتدائی ایام تھے۔ مولانا اصلاحی ہی کے فرزندان ہمارے استاد مشہور خطیب اور صحافی شیخ خورشید عالم سلفی مدنی، شیخ نور الاسلام مدنی ہیں۔ شیخ صلاح الدین سلفی بھی اسی گاؤں کے ہیں جن سے مجھے مدرسہ احمدیہ سلفیہ بیراگنیا میں سبق لینے کا شرف حاصل رہا ہے۔ اسی بستی میں ہمارے ایک اور درویش صفت استاد اور عالم دین شیخ صدر عالم سلفی رحمہ اللہ تھے۔ ان مشاہیر کے علاوہ بھی ماضی اور حال میں کئی ایک ذی علم شخصیات اس بستی میں اپنے فیوض وبرکات سے لوگوں کو فائدہ پہنچاتی رہی ہیں۔
مذکورہ شخصیات کے چند ناموں سے یہ اندازہ لگانا مشکل نہیں ہے کہ دوستیا بستی علم اور اہل علم کے لحاظ سے کتنی زرخیز رہی ہے۔ اسی مشہور بستی میں ہمارے ممدوح ڈاکٹر ابو الحیات اشرف صاحب پیدا ہوئے۔ ان کی تاریخ پیدائش کا علم تو مجھے بر وقت نہیں ہوسکا ہے۔ لیکن میرا اندازہ ہے کی ان کی عمر نوے سال سے زائد رہی ہوگی۔ اچھے اچھے تجربہ کار لوگوں کو ان کی صحیح عمر کا اندازہ نہیں ہوپاتا تھا۔ اس کی وجہ یہ تھی عملی طور بڑھاپا ان کو اور وہ کبھی بڑھاپے کو پا نہیں سکے۔ جسم ضرور بوڑھا ہوگیا تھا مگر وہ ہمیشہ دل اور ذہن سے جوان رہے۔ اسی(80 ) سال میں بھی چستی اور پھرتی بیس پچیس سال کے جوان جیسی تھی۔ وہ کہتے بھی تھے کہ آدمی بوڑھا اس وقت ہوتا ہے جب وہ اپنے کو بوڑھا سمجھ لے۔ میں تو ہمیشہ اپنے کو جوان پاتا ہوں۔
واقعی ڈاکٹر صاحب علیہ الرحمہ بلا کے نشیط آدمی تھے۔ ان کی جوانی تو میں نے نہیں دیکھی، بڑھاپا ضرور دیکھا، مگر اس بڑھاپے میں بھی ان میں جوانوں والی محنت اور لگن کو پورے طور پر مشاہدہ کیا۔ کئی جوان کارکنوں پر اپنے اعمال اور اپنی کار کردگی سے وہ بھاری پڑتے تھے۔
مرکزی جمعیت اہل حدیث ہند سے انگریزی زبان میں جب دی سمپل ٹروتھ کا آغاز ہوا تو اس وقت کے ناظم عمومی اور موجودہ وقت کے امیر جمعیت شیخ اصغر علی امام مہدی سلفی نے ان کو اس میگزین کا اڈیٹر منتخب فرمایا۔تب سے آج کی تاریخ تک کم وبیش بیس سالوں تک وہ پوری یکسوئی اور توجہ سے اس میگزین کو ایڈٹ کرتے رہے۔ اس دوران کئی اہم موضوعات پر خصوصی شمارے بھی شائع کیے۔ دہشت گردی مخالف خصوصی شمارہ بھی منظر عام پر آیا جس کو اہل ذوق حضرات کے درمیان بڑی پذیرائی حاصل ہوئی۔ اہم سرکاری اور غیر سرکاری محکموں میں بھیجا گیا۔ ابھی حالیہ دنوں میں احترام انسانیت کے زیر عنوان قیمتی موضوعات کا حسین گلدستہ اپنے میگزین میں سجا کر قارئین کے سامنے پیش کیا۔ دی سمپل میں شائع شدہ آپ کے سارے مقالے کو اگر اکٹھا کردیا جائے تو ایک ضخیم کتاب تیار ہوجائے گی۔
آپ کی خدمات کا دائرہ بڑا وسیع ہے۔ تدریس، دعوت، تنظیم، تصنیف،ترجمہ،ادارت، کالم نگاری،تاریخ نویسی اور معیشت وغیرہ جیسے اہم میدانوں میں آپ نے کارہائے نمایاں انجام دیے ہیں۔ آپ کی زندگی پر سیمینار، کانفرنس اور خصوصی شمارے طبع ہونے چاہئیں۔ کسی ایک مضمون میں آپ کی کاوشوں کو قید کرپانا مشکل ہی نہیں بلکہ ناممکن ہے۔
چونکہ آپ کے والد مولانا صداقت حسین دوستیاوی مدرسہ اصلاح المسلمین پٹنہ میں مدرس تھے اس وجہ سے آپ کی تعلیم وہیں ہوئی۔ آپ کا شمار مدرسہ کے ہونہار طلبہ میں ہوا کرتا تھا۔ دوران تعلیم مدرسہ کے تمام نشاطات میں شریک ہوکر نمایاں کامیابی حاصل کرتے تھے۔ یہاں پر قارئین کے لیے یہ درج کرنا مفید ہوگا کہ جب میں اخبار اہل حدیث امرتسر کی پرانی فائلوں پر مرکزی جمعیت میں سال(2007.2008) پر کام کررہا تھا تو مدرسہ اصلاح المسلمین کی طرف سے بھیجی گئی رپورٹ پر ڈاکٹر صاحب کا نام کئی جگہوں پر درج تھا۔ یہ اخبارات 1947ء سے پہلے کے تھے۔ جب میں نے ڈاکٹر صاحب کو یہ رپورٹیں دکھلائیں تو بڑے خوش ہوئے اور مجھے دعائیں دیں۔ اصلاح المسلمین پٹنہ سے فراغت کے بعد آپ نے مسلم یونیورسٹی علی گڑھ سے اعلی تعلیم حاصل کی یہاں تک کہ ڈاکٹریٹ کی ڈگری حاصل کرنے میں کامیاب ہوئے۔ اردو اور عربی کے ساتھ انگریزی کا اعلی ذوق علی گڑھ ہی میں پیدا ہوا۔ بعد کے زمانے میں سب سے زیادہ کام آپ نے انگریزی زبان ہی میں کیا۔
آپ کی زندگی کا ایک حصہ افریقہ کے نائیجریا شہر میں گزرا۔ مسلمانوں کے ساتھ غیر مسلموں کو بھی آپ نے توحید وسنت کی دعوت وتبلیغ کی۔ یہاں رہتے ہوئے کئی ایک دعوتی کتابیں اور پمفلیٹ بھی تحریر کیں۔ آج بھی وہاں کے مدرسوں اور اسکولوں میں آپ کی تصنیف کردہ کئی کتابیں شامل نصاب ہیں۔
افریقہ سے ہندوستان واپسی پر دہلی کو آپ نے مستقل جائے سکونت بنا لیا۔ یہاں تک کہ بہاری سے زیادہ دہلوی سمجھے جانے لگے۔ کبھی کبھار آبائی وطن آنا ہوتا تھا، بیشتر دہلی ہی میں رہا کرتے تھے۔ دہلی میں رہتے ہوئے اتنے سارے علمی، تعلیمی، دعوتی، رفاہی، تنظیمی اور سماجی کاموں سے اپنے کو منسلک کرلیا تھا کہ آپ کو بالکل ہی فرصت نہیں رہتی تھی۔ میرے خیال میں آپ کی مشغولیت ہی آپ کی صحت اور زندہ دلی کی راز تھی۔ کاہل لوگ بالکل آپ کو اچھے نہیں لگتے تھے۔ موقع ملتے ہی ایسے نوجوانوں، جوانوں اور کام چور لوگوں پر جملہ چست کردیتے تھے۔ ایک بات ہمیشہ کہتے تھے کہ ہمارے سونے کے لیے صرف ایک رات ہے اور وہ عشاء بعد ہے۔ جو لوگ فجر بعد اور ظہر بعد بھی گہری نیند لیتے ہیں وہ دنیا میں ترقی سے محروم رہتے ہیں۔ یہی وجہ تھی کہ ڈاکٹر صاحب مرکزی جمعیت(اہل حدیث منزل ) اپنے گھر جو دہلی کے باہر تھا آفس کھلنے سے قبل پہنچ جاتے تھے۔ تقریبا دو سال تک میں ان کے ساتھ ایک آفس میں کام کرتا رہا ہوں۔ بہت ساری چیزیں ان سے سیکھی ہیں۔ بسا اوقات اپنی تحریریں بھی ان کو پیش کرتا تھا جن پر ایک نگاہ ڈال کر واپس کردیتے تھے۔ ایک دفعہ کشمیر کے حسن اور اس کی تاریخ پر میں نے ایک مضمون لکھ کر ان کو اصلاح کی غرض سے دیا، انھوں نے اس کو پڑھنے کے بعد مشورہ دیا کہ اس کو شائع نہ کرائیں اس لیے کہ اس میں کچھ ایسی اصطلاحات ہیں جو سیاسی نقطہ نظر سے مشکلات کھڑی کرسکتی ہیں۔ میں نے ان کے مشورہ پر عمل کیا اور وہ مضمون یونہی ضائع ہوگیا۔
اسی (80) کی دہائی میں جب دہلی سے ماہنامہ نوائے اسلام جاری ہوا تو ڈاکٹر صاحب اپنا مشہور کالم “السلام علیکم” لکھا کرتے رہے۔ بلا کسی انقطاع کے ایک دہائی سے زائد آپ کا یہ مشہور کالم اپنے قاری کو اپنی طرف مائل کرنے میں کامیاب رہا۔ بلکہ نوائے اسلام کا یہ کالم نوائے اسلام کا تعارف تھا۔ قارئین کو شدت سے اس کالم کا انتظار رہتا تھا۔ ہمارا بھی پہلی بار غائبانہ تعارف ڈاکٹر صاحب سے اسی کالم کے ذریعہ ہوا تھا۔ جامعہ امام ابن تیمیہ میں سب سے پہلے ہم نوائے اسلام کا یہی کالم پڑھتے تھے۔ جب تک کالم مکمل پڑھ نہ لیتے دم نہیں مارتے تھے۔ پڑھنے میں جو مزہ آتا تھا وہ ناقابل بیان ہے۔ پورا پڑھے بغیر کوئی رہ ہی نہیں سکتا تھا۔ اردو زبان کے ساتھ معلومات میں بھی یہ کالم اضافے کا سبب بنتا تھا۔ طنز و مزاح کا اعلی نمونہ ہوتا تھا یہ کالم۔ ڈاکٹر صاحب رحمہ اللہ نے مجلہ طوبی میں بھی ”السلام علیکم” کے طرز پر “اللہ اکبر” کے نام سے کالم لکھنا شروع کیا تھا مگر وہ کالم زیادہ دنوں تک جاری نہ رہ سکا۔
ڈاکٹر صاحب اردو زبان کے صاحب طرز ادیب تھے۔ بالخصوص انشا پردازی اور طنز ومزاح جیسے اصناف پر آپ کامل دسترس رکھتے تھے۔ دینی اور علمی موضوعات پر لکھنے کے ہنر سے بھی واقف تھے۔ جو بھی لکھتے اس میں ادب کا چٹخارہ ہوتا۔ صاف ستھرا لکھتے۔ ایسا لکھتے کہ کوئی پڑھے بغیر رہ نہ سکے۔ شائقین کو ان کی کتابیں تلاش کرکے پڑھنی چاہئیں۔
مرکزی جمعیت دہلی کے زیر اہتمام جب المعہد العالی کا قیام عمل میں آیا تو ڈاکٹر صاحب موصوف اس کے اولین اساتذہ میں شامل کیے گئے۔ دور دراز دہلی کے باہر سے ہفتہ میں ایک یا دو دن آکر ہمیں زبان وادب کا درس دیا کرتے تھے۔ آپ کے محاضرے نہایت علمی اور معلوماتی ہوتے تھے۔ بصد شوق ہم طلبا آپ کے درس کو سنا کرتے تھے۔ یہیں مجھے آپ کی شاگردی کا شرف حاصل ہوا۔ دو سال تک آپ ہمارے استاد رہے۔ المعہد العالی کے بعد بھی میرا علمی تعلق ان سے وابستہ رہا۔ جب دلی جانا ہوتا ان سے ملاقات ہوتی تو بڑی محبت کا اظہار کرتے۔ قیمتی نصیحتیں فرماتے۔ زمانے کے اتار چڑھاؤ سے آشنا کرتے۔ محنت اور مشقت سے کام کرنے کی تلقین کرتے۔
پینٹ شرٹ زیب تن کرتے تھے۔ مگر نہایت دیندار اور اعلی اخلاق و کردار کے حامل انسان تھے۔ صف اول کے نمازی تھے۔ غیرت اور خود داری ان میں کوٹ کوٹ کر بھری تھی۔ صاف ستھرا پوشاک استعمال کرتے تھے۔ وقت کے بڑے قدر داں تھے۔ تاریخ اسلام اور تاریخ ہند سے گہری دلچسپی تھی۔ ہمہ وقت مطالعہ میں مشغول رہنا پسند کرتے تھے۔ کتابوں اور لائبریریوں کا اچھا ذوق رکھتے تھے۔ آپ کی وفات سے زبان وادب اور تعلیم وتنظیم کا بڑا خسارہ ہوا ہے۔ آپ جیسے قابل لوگ بڑی مشکل سے پیدا ہوتے ہیں۔ یہ چند بے ربط سطور میں نے محض اپنے استاد کی محبت وعقیدت میں تحریر کیے ہیں امید ہے کہ منظم اور مرتب تحریریں اور مقالے جلد ہی منظر عام پر آئیں گے جن سے ڈاکٹر صاحب کے چاہنے والے استفادہ کر سکیں گے۔
آپ کے تبصرے