کُلَیْب

وسیم المحمدی عقائد و نظریات

اچھے انسان کو برے آدمی کی بھی اچھی اچھی چیزیں ہی دکھائی دیتی ہیں، ہاتھ ملانے میں بدبو کا بھبھکا اتنا نہیں آتا جتنا گلے ملنے پر میل چپک جاتی ہے۔ میل ضروری نہیں ہے کہ دکھائی دے، سفید کتے کی بھی نجاست کہاں دکھائی دیتی ہے۔

اچھا انسان تو راستے میں پڑے ہوئے سور کو بھینظرانداز کردیتا ہے۔ کسی کسی راستے میں مڑیا (گندے پانی کا چھوٹا گڈھا) بھی ہوتی ہے۔ مڑیا مارتا ہوا سور چھینٹے اڑاتا ہے، آنے جانے والے لوگوں کے کپڑے گندے کرتا ہے۔ راستہ وہی ہو تو اچھا انسان کتنی بار نظرانداز کرے، آخر کتنے دن روزانہ کپڑے بدلے۔ شریف انسان بھلے ہی مڑیا میں نہ اتر سکے، مگر علاج تلاشنا اس کے لیے بہر حال ضروری ہے۔ طریقہ کچھ بھی ہو اس کی مرمت کرنے میں ہی سب کی عافیت پنہاں ہے۔

عافیت ایمان کے بعد سب سے بڑی نعمت ہے – لَمْ يُؤْتَ أَحَدٌ بَعْدَ الْيَقِينِ خَيْرًا مِنَ الْمُعَافَاةِ – عافیت میں خلل کا کوئی راستہ کھلا نہیں رکھنا چاہیے۔

بندہ آنکھیں کھلی رکھے، حواس قابو میں رہیں، دل و دماغ ورکنگ موڈ میں ہوں پھر بھی ممکن ہے کہ برے آدمی میں اچھی چیزیں دیکھ کر گمراہ ہوجائے۔ گمراہ گر کھلنے کے بعد بھی ہمدردیوں کا مستحق قرار پاتا ہے۔

استحقاق کی ایک حد ہوتی ہے، یہ حد دکھائی دے، فرق بلر نہ ہو، بلی خرگوش نہ لگے، کتا پاپوش نہ لگے، سور میڈوس نہ لگے اس مقام تک پہنچنے کے لیے فتح مکہ پر نظر ہونی چاہیے۔

یہ نظارہ زیر نظر مضمون میں جس سیاق و سباق میں استعمال کیا گیا ہے وہ دکتور وسیم المحمدی صاحب کا خاصہ ہے۔

حاسہ خطا نہ کرے، عورت ہو یا مرد، چاہے کعبہ سے لپٹ جائے قتل کا مستحق ہے تو قتل کرنا ہے۔

دراصل اس مضمون کے تین اسٹیج ہیں۔ کتاب و سنت کے حوالوں اور صحابہ کرام – رضی اللہ عنہم – کی مثالوں سے مزین اس مضمون کی تمہید دھیرے دھیرے قاری کو جذبات و احساسات کی ایسی دنیا میں لے کر چلی جاتی ہے کہ کب آنکھیں بھیگ گئیں پتہ نہیں چلتا۔ بیت القصید تک پہنچتے پہنچتے مضمون ختم ہوجاتا ہے۔

پہلے اسٹیج میں مدلل مستفادات ہیں، دوسرے میں مفصل حوالہ جات اور تیسرے اسٹیج میں تجربات کی ایسی آنچ، گرمی دل سے جڑے ہوئے جس کے تار کرسٹل کلیئر دکھائی دیتے ہیں۔

ٹرانسپیرنسی کے لیے دل و دماغ کی نسوں کو نصوص کی سپریمیسی کا معتقد ہونا چاہیے۔ ہوی پرستی آدمی کو کہیں کا نہیں رکھتی، انسانیت سے بھی عاری کردیتی ہے۔ لباس زیب تن کرنے کے باوجود بھی بندہ جامے سے باہر دکھائی دیتا ہے۔ ایسا ننگاپن علم و ادب کے نام پر ہو تو کیا فائدہ ایسی زبان کا جو پٹوادے، کیا مطلب ایسے قلم کا جو نوچوادے۔

تعلیم و تربیت تہذیب و شہریت کے ضامن ہوتے ہیں، وہی رہیں۔ ٹوپیاں پھرانے، پگڑیاں اڑانے، حادثے بنانے، سانحے پکانے کی وجہ نہ بنیں۔

دکتور وسیم صاحب نے اس‌ مضمون میں جو پیغام دیا ہے اس کا ادراک ایمان کے بغیر ممکن نہیں ہے، عافیت کی جنھیں ہوا بھی نہیں لگی ہوگی انھیں کیا پتہ راحت کیا اذیت کیا۔ (ایڈیٹر)


اللہ تعالى خوبصورت ہے۔ خوبصورتی کو پسند کرتا ہے۔ یوسف علیہ السلام کو حسن وجمال کا وافر حصہ عطا کیا گیا تھا۔ آپ صلى اللہ علیہ وسلم کا چہرہ مبارک چودھویں کے چاند سے زیادہ خوبصورت اور دل کو بھا جانے والا تھا۔ کوئی چیز غیر معمولی خوبصورت ہو تو علامت بن جاتی ہے۔ یوسف علیہ السلام بھی حسن وجمال کی علامت اور خوبصورتی کا استعارہ ہیں۔

خوبصورتی بذات خود پر کشش ہوتی ہے۔ حسن بنفس نفیس خلاب ہوتا ہے۔ خوبصورتی چاہے ذی روح میں ہو یا غیر ذی روح میں، انسان میں ہو یا حیوان میں، نباتات میں ہو یا جمادات میں، ایک باذوق انسان کو اپنی طرف متوجہ کرتی ہے۔ مقناطیس کی طرح کھینچ لیتی ہے۔

حسن عورت میں ہو تو فتنہ بن جاتا ہے۔ اس حسن فتنہ ساز پر حیا ہلکوریں لینے لگے تو اسے دو آتشہ کردیتی ہے۔ حیا کی ہلکوریں لیتے اس حسن پر مسکراہٹ کی جھلملاتی چادرتن جائے تو اسے قاتل بنا دیتی ہے۔

فتنہ صرف صنف نازک کے حسن میں نہیں ہوتا۔ حسن فتنہ ساز کو فقط حیا کی چادر دو آتشہ نہیں کرتی۔ محض عفیفہ کے حسن پر جھلملاتی مسکراہٹ اسے قاتل نہیں بناتی۔

طبیعی مناظر میں پنہاں خوبصورتی بھی فتنہ ہوتی ہے۔ اگرچہ اس فتنہ کا احساس سب كونہیں ہوتا۔ اس احساس کے لیے باذوق ہونا شرط ہے۔ رم جھم برستی بارش بھی شعور واحساس کو جکڑلیتی ہے۔ مگر اس کے لیے طبیعت کی سرشاری شرط ہے۔ مزاج پر کرختگی کا کمبل پڑا ہو۔ طبیعت پرکھردری چادر تنی ہو تو بارش میں صرف کیچڑ نظر آتا ہے۔

قتل حسن اخلاق بھی کرتا ہے مگر ہر مرد پر اس کا اثر یکساں نہیں ہوتا۔ حسن اخلاق سے قتل ہونے کے لیے مقتول کا با ضمیر و بامروت ہونا شرط ہے۔ مخلوق بے ضمیر ہو۔ ذی روح بے مروت ہو تو حسن اخلاق کے لیے وہ چکنا گھڑا ثابت ہوتا ہے۔

قتل فضل واحسان بھی کرتا ہے۔ مگر اس کے لیے مقتول کا خود دار و باکردار ہونا شرط ہے۔ شقاوت وبد بختی کی اسیری سے رہائی ضروری ہے۔ ورنہ محسن احسان کرکے زندگی بھر “واتَّقِ شرَّ مَنْ أحسنتَ إلَیہِ” کی گردان کرتا رہتا ہے۔

عفو ودرگزر کرنا بہت عظیم اور مبارک عمل ہے۔ فضل واحسان کا اعلى ترین مرتبہ ہے۔ ان مبارک اعمال کا کلیدی حصہ ہے جن کا اجر لا محدود ہے: (فَمَنْ عَفَا وَأَصْلَحَ فَأَجْرُهُ عَلَى اللهِ)۔

عمل جس قدر عظیم ہوتا ہے اسی قدر دقیق بھی ہوتا ہے۔ یہ عمل بھی جس قدر عظیم ہے اسی قدر حساس اور باریک بھی ہے۔ جس قدر اجر کا حامل ہے اسی قدر اپنے محالّ ومواقع کے اعتبار سے جلیل بھی ہے۔ اس عمل کو انجام دینے سے پہلے یہ دیکھنا ضروری ہے کہ اس کا اہل کون ہے؟ ورنہ عفو و درگزر بسا اوقات عمر بھر کی بھول ثابت ہوتا ہے ۔ انجام کے اعتبار سے بجائے نیکی کے کسی بڑے جرم کا ارتکاب بن جاتا ہے۔

حقیقت یہ ہے کہ عفو ودرگزر اور عقاب وسزا دونوں اجتماعی ضرورت ہیں۔ دونوں ایسے متوازی عمل ہیں جو معاشرہ کا بیلنس برقرار رکھتے ہیں۔ ان میں افراط وتفریط سسٹم کا توازن خراب کردیتا ہے۔ لہذا یہ جاننا نہایت ضروری ہے کہ کہاں عفو ودرگزر سے کام لینا ہے اور کہاں سزا دینا ناگزیر ہے؟ جس طرح سزا دینےکے لیے درست مقام کی تحدید شرط ہے ۔ اسی طرح معاف کرنے کے لیے بھی صحیح محل کی تعیین نہایت ضروری ہے۔

آپ صلى اللہ علیہ وسلم رؤوف و رحیم تھے۔ ساری دنیا کے لیے رحمت بنا کر بھیجے گئے تھے۔ عفو ودر گزر کی علامت اور حسن تجاوز کا استعارہ تھے۔ فتح مکہ عفو ودرگزر کی ایسی داستان ہے کہ پوری تاریخ انسانیت ویسا افسانہ بھی پیش کرنے سے قاصر ہے۔ اس یادگار دن جس انداز میں عفو ودرگزر کااعلان ہوا ۔ جن جانی دشمنوں کو عام معافی دی گئی وہ تاریخ کا ایسا واقعہ ہے جس کی مثیل موجود نہیں ہے۔

یوسف علیہ السلام نے سگے بھائیوں کو معاف کیا تھا۔ قرآن نے انھیں محسن کا خطاب دیا۔ آپ صلى اللہ نے اپنے رشتہ داروں سے لے کر عام دشمنوں تک سب کو معاف کردیا۔ دشمن بھی ایسے جنھوں نے وطن سے نکالا تھا۔ گھر بار چھوڑنے پر مجبور کیا تھا۔ مدینہ ہجرت کرجانے کے باوجود پیچھا نہیں چھوڑا تھا۔ جان ومال کے دشمن اور مٹا دینے کے درپے تھے۔ آپ صلى اللہ علیہ وسلم رحمۃ للعالمین اور محسن انسانیت ہیں۔

فتح مکہ کی اس عام معافی کے باوجود شقاوت کے شکار بعض نفوس ایسے بھی تھے جن کے بارے میں آپ صلى اللہ علیہ وسلم کا خصوصی فرمان صادر ہوا کہ اس مبارک وعظیم دن بھی انھیں معافی نہیں دی جائے گی۔ جہاں ملیں انھیں قتل کر دیا جائے۔ بھلے ہی وہ خانہ کعبہ کے پردوں سے لٹکے ہوئے ملیں۔

آپ صلى اللہ علیہ وسلم نے کبھی کسی عورت پر ہاتھ نہیں اٹھایا۔ حالت جنگ میں بھی عورتوں کو قتل کرنے سے خصوصی طور سے منع کیا۔ فتح مکہ کے اس عظیم دن جب دوست دشمن سب عام معافی سے فیضیاب ہو رہے تھے۔ نامی گرامی جانی دشمن بھی عفو ودرگزر کا پروانہ لیے گھوم رہے تھے۔ ایسے وقت میں بھی آپ نے دو عورتوں کو خصوصی طور سے قتل کرنے کا حکم صادر فرمایا۔ ابن خطل تو واقعی کعبہ کے پردے سے لٹکا جان کی امان مانگتے ہوئے ملا۔ حکم ہوا اسے بھی قتل کردیا جائے۔ یہ وہ بد نصیب اشخاص تھے جو عفو ودر گزر کے اس عظیم موقع پر بھی اس کے مستحق نہیں ٹھہرے۔ معافی کے اس قدر وسیع ڈھانچے میں بھی وہ فٹ نہیں بیٹھ سکے ۔ایک رؤوف ورحیم ذات کے خصوصی حکم پر قتل کردیے گئے۔

انسان کا نفس اگر صحیح معنوں میں آزادہو۔ضمیر میں زندگی کی رمق باقی ہو۔ مروت ہوش وحواس میں ہو۔ ہوائے نفس کی زنجیر سےاس کی خودی جکڑی نہ ہو، تو عفو و در گزر کی ایک ہلکی سی چپت ہی اسے قتل کرنے کے لیے کافی ہوتی ہے:

وما قتلَ الأحرارَ کالعفوِ عنہمُ

ومَنْ لکَ بالحُرِّ الذی یحفَظُ الیدا

ثمامہ بن اثال رضی اللہ عنہ بنی حنیفہ کے سرداروں میں سے تھے۔ بڑے انسان تھے۔ اسلام لانے سے قبل گرفتار کرکے مدینہ لائے گئے۔ مسجد نبوی کے ستون سے باندھ دیے گئے۔ آپ صلى اللہ علیہ وسلم ان سے پوچھتے: ثمامہ کچھ فرماؤ؟ وہ ہر بار یہی جواب دیتے: اگر آپ فضل واحسان فر ماکر مجھے رہا کردیں گےتو ایک شکر گزار بندہ پر آپ کا احسان ہوگا۔ اگر آپ مجھے قتل کردیں گے تو میں اس قتل کا مستحق ہوں۔ اگر آپ کو مال چاہیے تو جتناکہیں میں آپ کو مال دے سکتا ہوں۔ تیسرے دن بھی وہی سوال ہوا۔ یہی جواب آیا۔ آپ صلى اللہ علیہ وسلم نے انھیں رہا کرنے کا حکم صادر کردیا۔ ثمامہ بن اثال رضی اللہ عنہ واقعی بڑے انسان تھے۔ بڑے گھرانے سے تعلق رکھتے تھے۔ حساس دل کے مالک تھے۔ احساس وشعور کی زمین زرخیز تھی۔ نبوی حسن خلق کے چند قطرات پڑتے ہی دل کی شاداب زمین لہلہااٹھی۔ آپ پر اس فضل واحسان اور عفو درگزر کا اس قدر اثر ہوا کہ مسجد نبوی سے نکلے۔ کچھ دور گئے۔ غسل فرمایا۔ واپس آئے اور یہ کہتے ہوئے آپ صلى اللہ علیہ وسلم کے حلقہ اصحاب میں داخل ہوگئے: (أشهد أن لا إله إلا الله، وأشهد أن محمدًا رسول الله)۔ صدق اعتراف سے گراں بار ہو کر فرمایا: ( يا محمد! واللهِ ما كانَ على الأرض وجهٌ أبغضَ إليَّ من وجهك، فقد أصبحَ وجهُك أحبَّ الوجوه إليَّ۔ والله ما كان من دينٍ أبغضَ إليَّ من دينك، فأصبحَ دينُك أحبَّ الدين إليَّ۔ واللهِ ما كانَ من بلدٍ أبغضَ إليَّ من بلدِك، فأصبحَ بلدُك أحبَّ البِلادِ إليَّ)۔

وہیں کچھ ایسے بھی بدبخت تھے جنھیں کسی مناسبت پرآپ صلى اللہ علیہ وسلم سے معافی کا پروانہ تو ملا مگر نفس امارہ سے بوجھل ان کی طبیعت اسے ہضم نہیں کرپائی۔ دوبارہ خست ونذالت کی راہ پر چل پڑے اور پھر بد ترین انجام سے دوچار ہوئے۔

قتل جود وسخا بھی کرتا ہے۔ فیاضی اسیر بنا لیتی ہے۔ سخاوت گراں بار کردیتی ہے۔ فضل واحسان زیر بار کردیتا ہے۔ حسن تعامل گرویدہ کر لیتا ہے۔ شرط یہ ہے کہ جسم پر نفس مطمئنہ کی حکومت اور نفس لوامہ کی دھاک ہو۔ جسد خاکی قلب سلیم کا مالک ہو۔ مزاج پر ملکوتی صفات کا غلبہ ہو : (ما سُئِلَ رَسولُ اللهِ صَلَّى اللَّهُ عليه وسلَّمَ علَى الإسْلَامِ شيئًا إلَّا أَعْطَاهُ، قالَ: فَجَاءَهُ رَجُلٌ فأعْطَاهُ غَنَمًا بيْنَ جَبَلَيْنِ، فَرَجَعَ إلى قَوْمِهِ، فَقالَ: يا قَوْمِ أَسْلِمُوا، فإنَّ مُحَمَّدًا يُعْطِي عَطَاءً لا يَخْشَى الفَاقَةَ)۔

جس طرح زندگی کے نازک لمحات میں ساتھ چھوڑدینے والے بھلائے نہیں بھولتے اسی طرح ایسے حالات میں ساتھ دینے والے بھی ہمیشہ یاد رہتے ہیں ۔ پریشان کن حالات اور سنگین ظروف میں آپ کی طرف سے اٹھایا گیا ایک مثبت قدم دل کے نہاں خانے میں ہمیشہ کے لیے اسی طرح محفوظ ہوجاتا ہے جس طرح ایسے مواقع پر آپ کے تخلف وخذلان کا بھالا اس کے جگر میں پیوست ہوکر ہمیشہ کے لیے درد وکراہ کا سبب بن جاتا ہے۔

غزوہ تبوک کے بعد آزمائش کا شکار ہونے والے جلیل القدر صحابی کعب بن مالک انصاری رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ جب آزمائش بالکل اپنے چرم پر پہنچ گئی۔ زمین اپنی وسعت کے باوجود بالکل تنگ لگنے لگى۔ میں ضیق نفس کا شکار ہوگیا۔ ان مشکل بھرے حالات میں آزمائش کے پچاسویں دن فجر کی نماز کے بعد جبل سلع سے کسی نے پکارا: (يَا كَعْبُ بْنَ مَالِكٍ أَبْشِرْ) کعب بن مالک تمہارے لیے خوشخبری ہے۔ کہتے ہیں میں خوشی سے سجدے میں گرپڑا اور سمجھ گیا کہ آزمائش کے دن اب ختم ہوگئے۔

در اصل آپ صلى اللہ علیہ وسلم نے فجر کى نماز کے بعد تینوں صحابہ کے توبہ کی قبولیت کا اعلان کردیا تھا۔ خبر پھیلتے ہی لوگ انھیں جوق در جوق مبارک باد دینے کے لیے دوڑ پڑے۔ کعب بن مالک کہتے ہیں: (فَلَمَّا جَاءَنِي الَّذِي سَمِعْتُ صَوْتَهُ يُبَشِّرُنِي نَزَعْتُ لَهُ ثَوْبَيَّ فَكَسَوْتُهُ إِيَّاهُمَا بِبُشْرَاهُ. وَاللَّهِ مَا أَمْلِكُ غَيْرَهُمَا يَوْمَئِذٍ. وَاسْتَعَرْتُ ثَوْبَيْنِ فَلَبِسْتُهُمَا، وَانْطَلَقْتُ إِلَى رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ) جس شخص نے پہاڑ پر چڑھ کر اس خوش کن خبر کا اعلان کیا تھا جب وہ مجھ سے بالمشافہ مل کر مجھے خوشخبری دینے آیا تو میں نے اس کی اس مبارکبادی سے خوش ہوکر اپنےجسم پر پڑے دونوں کپڑے اتار کر اسے پہنا دیے۔ جبکہ ان دنوں میری حالت یہ تھی کہ میرے پاس ان کے علاوہ اور کپڑے نہیں تھے۔ میں نے دو کپڑے کسی سے عاریتا لیے۔ انھیں پہنا اور آپ صلى اللہ علیہ وسلم سے ملنے چل پڑا۔

آپ صلى اللہ علیہ وسلم کی عادت تھی کہ فجر کی نماز پڑھ کر صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کے ساتھ مسجد میں بیٹھتے اور ان سے مختلف امور پر گفتگو فرماتے تھے۔ کعب بن مالک رضی اللہ عنہ نے سیدھے مسجد نبوی کا رخ کیا۔

کعب بن مالک رضی اللہ عنہ جب مسجد میں داخل ہوئے تو آپ صلى اللہ علیہ وسلم حسب معمول صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کے ساتھ بیٹھے ہوئے تھے۔ طلحہ بن عبید اللہ رضی اللہ عنہ نے جیسے ہی کعب بن مالک رضی اللہ عنہ کو دیکھا تیزی سے ان کی طرف بڑھے ۔ ان سے مصافحہ کیا۔ ان کو توبہ کی قبولیت پر مبارک باد دی۔ کعب بن مالک رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں: ( وَاللّہِ مَا قَامَ إِلَيَّ رَجُلٌ مِنْ الْمُهَاجِرِينَ غَيْرَهُ، وَلَا أَنْسَاهَا لِطَلْحَة) کہ اللہ قسم طلحہ کے علاوہ مہاجرین میں سے اور کوئی شخص اس طرح میری طرف لپک کر نہیں آیا۔ میں طلحہ کے اس موقف کو کبھی نہیں بھول نہیں سکتا۔

زندگی میں بعض واقعات ایسے بھی ہوتے ہیں جنھیں انسان چاہ کر بھی نہیں بھول پاتا۔ کچھ حادثات ایسا زخم دے جاتے ہیں کہ عمر بھر اس سے خون رستا رہتا ہے۔ آپ صلى اللہ علیہ وسلم کے لیے طائف کا دعوتی سفر بھی کچھ ایسا ہی تھا۔ ام المؤمنین عائشہ رضی اللہ تعالى عنہا نے ایک بار آپ صلى اللہ علیہ وسلم سے پوچھا: (هلْ أتَى عَلَيْكَ يَوْمٌ كانَ أشَدَّ مِن يَومِ أُحُدٍ؟ قالَ: لقَدْ لَقِيتُ مِن قَوْمِكِ ما لَقِيتُ، وكانَ أشَدَّ ما لَقِيتُ منهمْ يَومَ العَقَبَةِ) کیا آپ پر غزوہ احد سے بھی سخت دن آیا؟ آپ صلى اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: تمہاری قوم سے مجھے بہت اذیتیں پہنچیں۔ مگر سب سے زیادہ تکلیف مجھے ان سے عقبہ (طائف) والے دن پہنچی۔

جب آپ بے حال ہو کر، بے یارو مددگار طائف سے واپس مکہ پہنچے تو مطعم بن عدی نے آپ کو سہارا دیا۔ امان دی۔ یہ وہی مطعم تھے جنھوں نے اس سے قبل کفار مکہ کے اس ظالمانہ صحیفہ کو ختم کرانے میں کلیدی کردار ادا کیا تھا جس کی بنا پر بنو ہاشم اور بنو مطلب کا بائیکاٹ کرکے انھیں شعب ابی طالب میں محصور کردیا گیا تھا۔ آپ صلى اللہ علیہ وسلم ان کے یہ احسانات کبھی نہیں بھولے۔ غزوہ بدر سے پہلے ہی مطعم کی وفات ہوگئی تھی۔ جب جنگ بدر کے قیدی لائے گئے تو آپ نے مطعم بن عدی کو یاد کیا۔ ان کے احسانات کا تذکرہ کیا۔ حالانکہ وہ کافر تھے۔ کفر کی حالت میں ان کی وفات ہوئی تھی۔ آپ صلى اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: (لو كانَ المُطْعِمُ بنُ عَدِيٍّ حَيًّا، ثُمَّ كَلَّمَنِي في هَؤُلَاءِ النَّتْنَى؛ لَتَرَكْتُهُمْ لَه) کہ اگر آج مطعم بن عدی زندہ ہوتے اور ان گندے افراد کے بارے میں مجھ سے گفتگو کرتے تو میں ان کی خاطر انھیں چھوڑ دیتا۔

آپ صلى اللہ علیہ وسلم اس امت کے محسن اعظم ہیں۔ بھلا کوئی مسلمان ایک نبی پر کسی احسان کا کیا دعوى کر سکتا ہے؟ ہر مسلمان اور ہر مومن آپ صلى اللہ علیہ وسلم کے احسان سے گراں بار ہے۔ اس کی ہر نیکی آپ صلى اللہ علیہ وسلم کے لیے صدقہ جاریہ ہے۔ پوری امت آپ کی ممنون اور شکر گزار ہے۔

ابو بکر صدیق رضی اللہ عنہ نے آپ صلى اللہ علیہ وسلم کا زندگی کے ہر موڑ پر ساتھ دیا۔ دھوپ میں سایہ اور چھاؤں میں ٹھنڈک بنے رہے، آپ صلى اللہ علیہ وسلم نے خود فرمایا: (إنَّ مِن أمَنِّ النَّاسِ عَلَيَّ في صُحْبَتِهِ ومالِهِ أبا بَكْرٍ) اپنی صحبت اور مال کے اعتبار سے مجھ پر سب سے زیادہ احسان ابو بکر کا ہے ۔ واقعی وہ آپ صلى اللہ علیہ کے مخلص ساتھی، سچے رازدار اور پکے دوست تھے۔ روئے زمین پر صدق وصفا اور اخلاص ومحبت سے لبریز ایسی داستان شاید ہی کسی نے سنی ہو۔حادثات ومواقف میں ایسا غیر متزلزل ساتھی شاید ہی کسی نے پایا ہو۔

دوست کیسے بھی ہوں۔ کسی بھی مقام پر فائز ہوں۔ دوست دوست ہوتے ہیں۔ دوستی کے کچھ طبعی تقاضے ہوتے ہیں جو بشریت کا لازمی نتیجہ ہوتے ہیں۔ دوستوں میں فطری بے تکلفی ہوتی ہے۔ وہ ایک دوسرے سے اپنے ہموم وغموم، فرحت وسرور بلا جھجھک شیئر کرلیتے ہیں۔ جہاں تکلف ہو وہاں دوستی کہاں ہوتی ہے؟ بس ایک تعلق ہوتا ہے جسے ہر انسان اپنے اپنے ظرف اور اپنے اپنے فہم کے اعتبار سے کچھ بھی نام دے لیتا ہے۔

حقیقی دوستی کی بنیاد اخلاص وخیر خواہی پر ہوتی ہے۔ اخلاص وخیرخواہی کے تقاضے ہی کچھ اور ہوتے ہیں۔ دوستوں میں سب سے بڑا مسئلہ راز کی حفاظت کا ہوتا ہے۔ یہ وہ نقطہ ہے جو اچھے سے اچھے دوستوں اور گہرے سے گہرے تعلقات کے حقیقی معیارکو طے کرتا ہے۔ دوست اگر رازدار نہیں ہے تو وہ سب کچھ ہو سکتا ہے حقیقی دوست نہیں ہو سکتا۔ اس پیمانہ سے آپ ہر قسم کی دوستی کو بہت باریکی سے ناپ سکتے ہیں۔

جب حفصہ بنت عمر رضی اللہ عنہا کے پہلے شوہر خنیس کی وفات ہوگئی تو عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ ان کے لیے رشتہ تلاشنے لگے۔ عثمان بن عفان رضی اللہ عنہ سے آپ کی ملاقات ہوئی تو آپ نے اس سلسلے میں ان سے کھل کر بات کی۔ عثمان رضی اللہ عنہ نے کہا: غور کرکے بتاتا ہوں۔ کچھ دنوں بعد دونوں کی ملاقات ہوئی تو عثمان رضی اللہ عنہ نے کہا: ان دنوں مجھے شادی کی ضرورت نہیں محسوس ہو رہی ہے۔ پھر آپ کی ابو بکر رضی اللہ عنہ سے ملاقات ہوئی۔ ان سے بھی آپ نے کہا کہ آپ چاہیں تو میں اپنی بیٹی حفصہ کاآپ سے نکاح کردوں؟ یہ سن کر ابو بکر رضی اللہ عنہ بالکل چپ ہوگئے ۔ جوابا کچھ بھی نہیں کہا۔ دونوں جگہ سے رشتہ کو قبولیت نہیں ملی۔ بظاہر ناکامی ہاتھ لگی۔ عمر رضی اللہ عنہ باپ تھے۔ تکلیف ہونا طبعی امر تھا۔ دونوں کے موقف سے آپ کوتکلیف ہوئی۔ تاہم ابوبکر رضی اللہ عنہ کے رویہ سے آپ کو زیادہ تکلیف محسوس ہوئی کیونکہ انھوں نے مطلق خاموشی اختیار کرلی تھی۔ کچھ دن مزید گزرے تو آپ صلى اللہ علیہ وسلم نے حفصہ رضی اللہ عنہا کو شادی کا پیغام دیا اور عمر رضی اللہ نے حفصہ رضی اللہ عنہا کی آپ سے شادی کردی۔ اس طرح وہ ام المؤمنین کے عظیم مرتبہ سے سرفراز ہوگئیں۔

کچھ دنوں کے بعد ابو بکر رضی اللہ عنہ عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ سے ملے تو کہا: شاید تمھیں اس دن مجھ سے تکلیف پہنچی تھی جب تم نے حفصہ کا رشتہ مجھ پر پیش کیا تھا اور میں نے بالکل خاموشی اختیار کر لی تھی؟ عمر رضی اللہ عنہ نے کہا: جی بالکل۔ مجھے آپ کے اس رویہ سے تکلیف ہوئی تھی۔ ابو بکر رضی اللہ عنہ نے کہا: بات در اصل یہ تھی کہ ایک دن آپ صلى اللہ علیہ وسلم نے حفصہ کا مجھ سے تذکرہ کیا تھا ۔ (فَلَمْ أكُنْ لِأُفْشِيَ سِرَّ رَسولِ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عليه وسلَّمَ) میں آپ صلى اللہ علیہ وسلم کا راز فاش نہیں کر سکتا تھا۔ اس لیے خاموش رہا۔ اگر آپ شادی نہیں کرتے تو میں ضرور کرلیتا۔

ابو بکر رضی اللہ عنہ نے اس حساس موقع پر خاموشی اختیار کی۔ جبکہ آپ صلى اللہ علیہ وسلم نے ان سے بس تذکرہ کیا تھا۔ کہیں ذکر کرنے سے منع نہیں کیا تھا۔ منع کرتے تو ابو بکر رضی اللہ عنہ بعد میں عذر پیش کرتے وقت عمر رضی اللہ عنہ سے ضرور کہتے کہ میں نے اس لیے کچھ نہیں کہا کیوں کہ آپ صلى اللہ علیہ وسلم نے مجھے منع کیا تھا۔ کیونکہ یہ عذر زیادہ قوی تھا۔ آپ صلى اللہ علیہ وسلم نے اپنے مخلص دوست سے تذکرہ کیا تھا۔ جیسے ایک دوست دوسرے دوست سے اپنی حساس باتیں بھی شیئر کرلیتا ہے۔ دوست سمجھدار تھا۔ بھانپ گیا۔ بعینہ وہی موضوع سامنے آگیا تو وقتی طور سے اپنی کریڈٹ قربان کردیا مگر اپنے دوست کے راز کو فاش نہیں کیا۔ نہ ہی یہ تسلی دے کر کریڈٹ بنانے کی کوشش کی کہ آپ فکر نہ کریں ان شاء اللہ ان کا رشتہ آپ صلى اللہ علیہ وسلم سے ہوگا۔ نہیں ہوا تو میں کر لوں گا۔ ان سب فضولیات سے اعراض کیا۔ بالکل خاموشی اختیار کرلی۔ بعد میں جب عذر بھی پیش کیا تو کوئی تفصیل نہیں ذکر کی۔ بس اتنا کہا کہ آپ صلى اللہ علیہ وسلم نے ان کا تذکرہ کیا تھا۔ کیا تذکرہ کیا تھا؟ کیسے ذکر کیا تھا؟ اس سے قطعا تعرض نہیں کیا۔ نہ ہی عمر رضی اللہ عنہ نے مزید استفسار کیا کہ کیا بات ہوئی تھی؟ کیسی بات ہوئی تھی؟ عذر کو قبول کیا۔ آگے بڑھ گئے۔ صدیق اکبر رضی اللہ عنہ آپ صلى اللہ علیہ وسلم کے دوست تھے۔ عمر فاروق رضی اللہ عنہ ابو بکر رضی اللہ عنہ کے دوست تھے۔ دوستوں نے اپنا اپنا فرض بخوبی ادا کیا۔

دوستی گہری ہو۔ اس کی جڑوں میں اخلاص ہو۔ صدق وصفا کے زمزم سے وہ سیراب ہوتی ہو تو خونی رشتہ میں تبدیل ہو جاتی ہے۔ صداقت کی محبت کو اخوت کی رسی مضبوطی سے جکڑ لیتی ہے۔ احساس وشعور ایک ہوجاتے ہیں۔ ایک غمگین ہو تو دوسرے کا چہرہ بجھ جاتا ہے۔ دوسرا خوش ہو تو پہلے کا چہرہ جگمگانے لگتا ہے۔ ایک سیراب ہو تو دوسرے کی پیاس مر جاتی ہے۔ دوسرا آسودہ ہو تو پہلا خود کو مطمئن محسوس کرنے لگتاہے۔ اکثر اوقات یہ باتیں کتابی لگتی ہیں۔ تاہم ایسا کبھی کبھی ہی سہی مگر ہوتا ہے۔

ہجرت کے عظیم سفر میں ابو بکر صدیق رضی اللہ عنہ آپ کے رفیق تھے۔ سفر کی تھکاوٹ سے چور ہوئے تو ایک چٹان کے سائے میں آرام کرنے کا ارادہ ہوا۔ صدیق اکبر رضی اللہ عنہ نے آپ صلى اللہ علیہ وسلم کے لیے بستر لگایا۔ آپ کو سلا کر خود نگرانی کرنے لگے۔ آپ صلى اللہ علیہ وسلم کو شدید پیاس لگی۔ دودھ لے کر آئے اور آپ کی خدمت میں پیش کردیا۔ ابو بکر صدیق رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں: (فَشَرِبَ حتَّى رَضِيتُ) چنانچہ آپ صلى اللہ علیہ وسلم نے اسے نوش فرمایا یہاں تک کہ میرا دل خوش ہوگیا اور میں مطمئن ہوگیا۔ آپ صلى اللہ علیہ وسلم آسودہ ہو گئے تو صدیق اکبر بھی مطمئن اور آسودہ ہوگئے۔

آپ صلى اللہ علیہ وسلم ابو بکر رضی اللہ عنہ کے دوست تھے۔ نبوت ملنے کے بعد یہ تعلق الگ ہی نوعیت اختیار کرگیا۔ صدیق کی دوستی جانثاری میں تبدیل ہوگئی۔ آپ صلى اللہ علیہ وسلم اور آپ کی عظیم دعوت کے سب سے بڑے خادم بن کر سرخرو ہوئے۔ آپ کی زندگی میں بھی اور آپ کی وفات کے بعد بھی۔

آپ صلى اللہ علیہ وسلم کی وفات کے بعد جب فتنہ ارتداد سے تاریکی چھانے لگی۔ اسلام سمٹ کر محدود ہونے لگا۔ ایسا لگنے لگا کہ سب کچھ ختم ہونے کے کگار پر ہے۔ ایک طرف مدعیان نبوت کا فتنہ۔ دوسری طرف مانعین زکوۃ کا فتنہ۔ جاہلیت لوٹنے کے لیے پورا زور لگا رہی تھی۔ بڑے بڑے صحابہ کرام رضی اللہ عنہم فیصلہ نہیں کر پارہے تھے کہ کیا کریں؟ کون سا موقف اختیار کریں؟ ایسے وقت میں ابو بکر صدیق رضی اللہ عنہ چٹان بن گئے۔ اپنے یار غار کے مشن کو پوری قوت وعزیمت سے آگے بڑھایا۔ تمام فتنوں کی سرکوبی کی ۔ صرف ڈھائی سال کی مدت میں راستے کے تمام روڑوں کو ہٹا کر جزیرہ عرب کو ہر طرح کے فتنوں سے پاک صاف کردیا۔ اسلامی لشکر قیصر وکسرى کے دروازں پر دستک دینے لگا۔ جب وفات ہونے لگی تو ایک بارعب اور طاقتور اسلامی سلطنت کو سنہری طشت میں سجا کر عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ کو پیش کر دیا۔ ارتدار کے اسی فتنہ میں یمامہ کی جنگ کے بعد اپنے آقا اور جگری دوست پر نازل کردہ عظیم کتاب قرآن کریم کو ایک جگہ جمع کروا کر اس کی حفاظت کے اسباب کا کلیدی حصہ بھی بن گئے۔ جب بھی کوئی قرآن پڑھتا ہوگا تو یقینا ابو بکر وعمررضی اللہ عنہما کو بھی اس کا اجر ضرور ملتا ہوگا۔ پہلی بار قرآن کریم کے متفرق اور منتشر اجزاء کو صدیق اکبر نے فاروق اعظم ہی کے مشورہ سے یکجا کیا تھا۔ اس کے لیے جلیل القدر صحابہ کرام کی ٹیم بنائی۔ انھیں اس عظیم کام پر مامور کیا۔ اس طرح یہ عظیم تر شرف بھی انھی کے حصہ میں آیا۔ رضی اللہ عنہم وأرضاہم وحشرَنا فی زمرتہم وجمعَنا معہم فی الفردوس الأعلى۔

صدق ووفا کی جتنی لازوال داستانیں ہوں گی۔ محبت واخوت کے جتنے اسباق دنیا کو یاد ہوں گے۔ صدیق اکبر رضی اللہ عنہ کے عہد وفا اور آپ کی محبت واخوت کا کوئی مقابلہ نہیں کرسکتا۔ سچی دوستی کے جتنے معانی ومفاہیم نکلتے ہوں گے سب آپ کے اندر موجود تھیں۔ محبت کے جتنے تقاضے بنتے ہوں سب آپ نے پورے کیے۔ اس عہد وفا، اس بے غرض محبت، اس بے لوث تعلق کو آپ صلى اللہ علیہ وسلم نے ایک بار ان الفاظ میں خراج تحسین پیش کی: (لَوْ كُنْتُ مُتَّخِذًا خَلِيلًا لَاتَّخَذْتُ أَبَا بَكْرٍ خَلِيلًا، وَلَكِنَّهُ أَخِي وَصَاحِبِي، وَقَدِ اتَّخَذَ اللَّهُ عَزَّ وَجَلَّ صَاحِبَكُمْ خَلِيلًا)۔ جب آپ صلى اللہ علیہ وسلم کے رفیق اعلى سے ملنے کا وقت بالکل قریب آگیا اس وقت بھی آپ اپنے اس ہجرت کے ساتھی اور یار غار کو نہیں بھولے۔ اس نازک لمحہ اور دنیا سے بیگانہ کردینے والے مرحلہ میں بھی نہ صرف اسے یاد کیا بلکہ یہ کہہ کر اس راہ وفا کے عظیم مسافر کی احقیت وافضیلت پر مہر لگا دی: (يَأْبَى اللَّهُ وَالْمُؤْمِنُونَ إلَّا أَبَا بَكْر)

یہ سب کچھ ہے مگر یہ کہنا کتنا مشکل ہے کہ ابو بکر صدیق رضی اللہ عنہ آپ صلى اللہ علیہ وسلم کے محسن ہیں۔ تاہم آپ صلى اللہ علیہ وسلم مکارم اخلاق کی عظمت کا نشان تھے۔ حسن تعامل اور رد جمیل کی علامت تھے۔ نہ صرف اپنے جگری دوست کی قربانیوں کو محسوس کرتے تھے بلکہ برملا اس کا اعتراف بھی کیا کرتے تھے۔ ایک بار صدق اعتراف سے بوجھل ہو کر فرمایا: (ما لِأَحدٍ عندَنَا يَدٌ إلَّا وقَدْ كافأناهُ ، ما خلَا أبا بكرٍ ، فإِنَّ لَهُ عِندنَا يَدًا يُكافِئُهُ اللهُ بِها يَومَ القيامَةِ، ومَا نفَعَنِي مَالُ أحَدٍ قَطُّ مَا نَفَعِني مالُ أبي بِكْرٍ ، ولَوْ كنتُ متخِذًا خَلِيلًا ، لاتّخذْتُ أبا بكرٍ خلِيلًا ) ہم پر جس کسی کا بھی احسان تھا ہم نے اس کا بدلہ چکا دیا۔ مگر ابو بکر کا احسان نہیں چکا سکے۔ ان کے احسان کا بدلہ اللہ تعالى بروز قیامت چکائے گا۔ جس قدر مجھے ابو بکر کے مال سے فائدہ پہنچا کسی اور کے مال سے نہیں پہنچا۔ اگر میں کسی کو خلیل بناتا تو ابو بکر کو خلیل بناتا۔

جسم اگر نفس امارہ کا دربان ہو۔ اعضاء وجوارح مصلحت کے غلام ہوں، تو فیاضی الٹا اثر دکھاتی ہے۔ سخاوت ریکشن کر جاتی ہے۔ اس لیے یہ جاننا بہت ہی ضروری ہے کہ کہاں طبیعت میں موجود سخاوت کو بروئے کار لانا ہے اور کہاں اسے دبا کر رکھنا ہے۔ کہاں جود وسخا کی زبان سے بات کرنی ہے اور کہاں سیف وسنان کی زبان سے گفتگو ضروری ہے۔ دونوں کے مقامات کو جاننے میں غلطی ہوئی تو اذیت وضرر کا راستہ فورا کھل جاتا ہے:

ووضعُ النَّدى فی مَوضعِ الَّسیفِ بالعُلا

مُضِرٌّ کوَضعِ السَّیفِ فِی مَوْضِعِ النَّدَى

قتل تقدیر واحترام بھی کرتا ہے مگر اس کے لیے مقتول کا عزیز النفس ہونا شرط ہے۔ انسان کریم النفس ہو، قدرت نے طبیعت میں فیاضی اور مزاج میں سخاوت ودیعت کی ہو توتکریم کی ایک معمولی سی خلعت ہی اسے اسیر کرلیتی ہے۔ بس احسان کرتے وقت کریم اور لئیم کا فرق جاننا اور اسے بروئے کار لانا بہت ضروری ہے۔ ورنہ وہی تکریم واحسان گلے کی ہڈی بن جاتا ہے:

إذا أنتَ أکرمتَ الکریمَ ملکتَہ

وإنْ أنتَ أکرمتَ اللئیمَ تمرَّدا

کسی چیز سے محبت محض اندھا اور بہرہ نہیں بناتی: (حُبُّکَ الشَّیءَ یُعْمِي ویُصِمُّ)۔ محبت بڑی خوبی سے قتل بھی کرتی اور کراتی ہے: (وَمِنَ الحُبِّ ما قَتَلَ)۔ اہل محبت کی سنیں اور اصحاب عشق کی مانیں تو محبت کے ظل ظلیل میں اتنے قتل ہوئے ہیں کہ تلواروں کے سائے میں بھی اتنی لاشیں نہیں گری ہیں۔ مگر اس کے لیے محبوب کے شعور واحساس کا زندہ رہنا ضروری ہے۔

اگر کوئی انسان بے ضمیر و بے مروت ہو۔ خود داری و باکرداری سے مکمل آزاد ہو۔ عزت نفس کا جانی دشمن ہو، شرف ومنزلت سے اسے ازلی بیر ہو، ابن الوقتی کا شعار اور مصلحت پرستی کا استعارہ ہو۔ شعور واحساس کو دفن کرکے ایک زمانے سے اس پر منوں مٹی ڈال چکا ہو؛ تو ایسے مردِ نادان پر کسی حسن اخلاق، کسی فضل واحسان، کسی تقدیر واحترام، کسی محبت وعنایت کا کوئی اثر نہیں ہوتا۔

پھول کی پتی سے کٹ سکتا ہے ہیرے کا جگر

مردِ ناداں پر کلام نرم ونازک بے اثر

ایسا محروم انسان “اتّقِ شرَّ مَنْ أحسنتَ إليه” کی عملی تصویر، بد خلقی وبد عملی کا نایاب نمونہ، بے ضمیری کی نادر مثال، خست ونذالت کی معروف علامت ، شقاوت وحرماں نصیبی کا ایسا متفق علیہ مرجع اور شر پسندی وشر انگیزی کا ایسا بلا اختلاف مشار الیہ بن جاتا ہے کہ اِدھر ان صفات خسیسہ کا ذکر ہوا اُدھر دماغ کے اسکرین پر آٹومیٹک اس کی تصویر ابھر آتی ہے۔ اِدھر کسی نے ان کی بابت سوال کیا اُدھر سارے ہاتھ خود بخود ایک ہی طرف اٹھ جاتے ہیں۔ ساری انگلیاں ایک ہی جانب اشارہ کرنے لگتی ہیں:

إذا قيلَ أيُّ الناسِ شرٌّ قبيلةً

أشارتْ كُليبٍ بالأكفِّ الأصابعُ

آپ کے تبصرے

3000