مکرمی ومحترمی ایڈیٹر صاحب
السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ
دی فری لانسر کے پچھلے شمارے اور اس کی یادیں ذہن میں آج بھی تازہ ہیں ساتھ ہی اس کے کچھ ایک شمارے ہماری لائبریری میں بھی موجود ہیں۔ جامعہ سلفیہ بنارس میں میرا ابتدائی دور تھا اور مرکزی لائبریری میں فری لانسر کے دو ایک شمارے کیا دیکھ لیا ہمیشہ اگلے شمارے کا انتظار رہتا تھا!! اگر لائبریری میں نہیں ملتا تو آن لائن موبائل ہی میں دیکھتا اور پڑھتا تھا۔
عالمیت سال آخر کے لیے مقالہ مکمل کرنے کے بعد قلمی لگاؤ نے سر ابھارا جس کے لیے جرائد ومجلات کا سہارا لیا۔ سب سے پہلے سیرت پر مشتمل چھوٹا سا ایک مضمون دی فری لانسر نے بادل ناخواستہ مگر حوصلہ افزائی کے لیے شائع کیا. اس کے بعد کئی دفعہ ابوالمیزان بھائی سے فون پر مضامین لکھنے کے سلسلے میں گفتگو ہوئی۔ انھوں نے مضامین لکھنے کے ٹپس اور اصول بتائے۔ آج بھی میں اس بات کا اعتراف اپنے دوستوں میں کرتا رہتا ہوں کہ قلم پکڑنے میں ابوالمیزان بھائی کا گراں قدر تعاون ہے۔
جب میں نے سیرت نبوی پر مضمون لکھا تو انھوں شائع کردیا لیکن فون پر گفتگو کرتے ہوئے کہا ہلال بھائی آپ سب سے پہلے اخبارات و مجلات میں مراسلات وغیرہ لکھیں پھر آہستہ آہستہ لکھنا آجائے گا اور مضامین لکھنے کی شروعات یہیں سے کریں۔ اس کے بعد میں نے دی فری لانسر میں کئی ایک مراسلے لکھے ساتھ ہی اردو اخبارات میں مراسلات لکھنا شروع کردیا۔ آج جو کچھ بھی ٹوٹی پھوٹی شکل میں تحریریں آپ دیکھتے ہیں یہیں سے اس کی ابتدا ہوئی ہے۔
ابوالمیزان بھائی کے علاوہ بھی میری رہنمائی بہت سے لوگوں نے کی جن کا تذکرہ میں وقتا فوقتا کرتا رہتا ہوں جس میں سب سے بڑا ہاتھ استاد محترم شیخ اسعد اعظمی حفظہ اللہ اور انقلاب کے یوپی ایڈیشن سابق بیوروچیف فضل الرحمن بھائی کا بھی ہے۔
کاشف شکیل بھائی کی زبان پر اکثر فری لانسر کی بات ہوتی تھی وہ بڑے مزے سے اس کا تذکرہ کرتے اور کہتے کہ آج اس کی کمی بڑی شدت سے محسوس کی جارہی ہے اُس طرح کے مضامین دیکھنے اور پڑھنے کو آنکھیں ترس گئی ہیں!! آخر قارئین کی خواہشیں اور امیدیں دوبارہ مکمل ہوئیں اور دوبارہ فری لانسر اسی آب و تاب کے ساتھ اپنے قارئین کے درمیان روشنی بکھیر رہا ہے۔۔۔۔۔
مارچ 2018 کے اواخر میں دی فری لانسر کے پورٹل کی شکل میں آنے کی خبریں موصول ہونے لگی تھیں اور الحمد للہ 30/ مارچ کو پورٹل لانچ بھی کیا گیا۔
اس کا بے ساختہ اداریہ، بین السطور کی خاموشیاں اور بلالاگ لپیٹ کی آزادانہ تحریریں کافی مقبول ہوئی تھیں اور پورٹل کی شکل میں آنے کے بعد تو سوشل میڈیا میں کافی مقبول ہوگئی ہیں ۔
دراصل میں مارچ کے اوائل میں گھر چلا گیا اس لیے نہ تو فری لانسر کے نام چٹھی لکھ سکا اور نہ ہی مبارکبادی پیش کرسکا۔ لیٹ صحیح پر دوبارہ پورٹل کی شکل میں اجراء کے لیے ہزاروں مبارکبادی قبول فرمائیں اور قارئین تک اپنی فری روش کے مطابق کھل کر باتیں پہنچائیں، ان شاء اللہ کوشش کروں گا کہ فری لانسر کے لیے مضمون لکھ سکوں لیکن ابھی آج بس اتنا ہی ۔۔۔
والسلام
دی فری لانسر کا پرانا قاری
ہلال احمد
ایڈیٹر
ماہنامہ الاتحاد ممبئی
آپ کے تبصرے