رفیق احمد رئیس سلفی

چٹھی

دی فری لانسر پر چھپنے والے مضامین کا معاوضہ

نئی نسل کی سوچ کو مبارک باد۔ ابھی یہ اعلان اور اس پر عمل ایک مثبت قدم ہے۔ اس سے ان شاء اللہ لکھنے والوں کی حوصلہ افزائی ہوگی۔ جہاں تک سوال مضامین کے معیار اور اس کی قدر وقیمت کی تعیین کا ہے، اس کے لیے ناقدین کی ایک مختصر ٹیم درکار ہے جو اس وقت بہ ظاہر مشکل ہے۔ اس لیے ناظرین/قارئین کی تعداد کو معیار قرار دینا ایک وقتی اور آسان حل ہے۔ کسی دوست نے اسے معاوضہ کی بجائے انعام کہنے کی وکالت کی ہے، تعبیر حسب حال اور مناسب ہے۔ امید ہے کہ جلد ہی ذمہ داران پورٹل پر چھپنے والے مضامین کا ایک معیار متعین کرلیں گے اور پھر تمام قابل اشاعت مضامین پر حق خدمت ادا کرنے کا سلسلہ شروع ہوگا۔ اس کے لیے ہمارے نوجوانوں کو چاہیے کہ زیادہ سے زیادہ تجارتی کمپنیوں سے اشتہارات حاصل کرکے اس شعبے کے مالیاتی مسئلے کو حل کریں۔ بعض اہل ثروت اور مخیر حضرات کو بھی اس طرف متوجہ کرنے کی ضرورت ہے۔

اب وقت آگیا ہے کہ دوسروں کے رویے کو تنقید کا نشانہ بنانے کی بجائے یہ دیکھا جائے کہ ہم کیا کرسکتے ہیں اور کتنا کرسکتے ہیں۔ دوسروں کو ترغیب دینے کا یہ بھی ایک اچھا طریقہ ہے۔ ممکن ہے کہ اسی سے ایک اچھی سنت کا آغاز ہوجائے اور ہمارے دوسرے رسائل وجرائد بھی اپنے وسائل کو بروئے کار لاکر مضمون نگاروں کو حق خدمت دینے کا سلسلہ شروع کردیں۔ اب تو بحمداللہ ہمارے بیشتر قلم کار براہ راست کمپیوٹر پر لکھتے ہیں اور  وہی ان کا مسودہ اور مبیضہ بن جاتا ہے۔ جن دوستوں نے ابھی کمپیوٹر پر لکھنے کا آغاز نہ کیا ہو، وہ تھوڑا وقت نکال کر کی بورڈ کو سمجھ لیں، سیکھنے میں صرف ایک یا دو دن لگیں گے اور پھر آپ کی انگلیاں کمپیوٹر پر گردش کرنے لگیں گی۔ ابھی دو تین سال ہوئے، میں نے بھی اسے سیکھ لیا ہے اور اپنے تمام کام کاغذ پر نہیں کمپیوٹر اسکرین پر ہی کرتا ہوں۔ اس سے بہت آسانی ہوگئی ہے۔
فالحمدللہ علی ذلک

آپ کے تبصرے

3000