شریعتِ مطہرہ نے ہمیں عزتِ نفس کا درس دیا ہے، دوسروں کے آگے ہاتھ پھیلا کر ذلیل وخوار ہونے سے منع فرمایا ہے۔ خود داری کی ایسی عظیم تعلیم دی ہے کہ اگر جوتے کا تسمہ بھی ٹوٹ جائے تو الله عزوجل کے حضور ہی دستِ سوال دراز کیا جائے۔
رزق کی تلاش میں پرندوں جیسی محنت اور توکل کی تلقین کی ہے کہ جس طرح ایک پرندہ صبح سویرے اپنے گھونسلے سے نکل کر محنت کرتا ہے اسی طرح محنت مشقت کرکے روزی حاصل کی جائے۔
نبی ﷺ نے جنگل سے لکڑیوں کا گٹھر پیٹھ پر لاد کر بازار میں بیچ کر کمانے کھانے والوں کی پیٹھ تھپتھپائی ہے اور بھیک مانگنے والوں پر ملامت کے تیر برسائے ہیں۔
خون پسینے کی کمائی کو بہترین کمائی قرار دیا ہے۔ آپ ﷺ نے فرمایا: ”مَا أَكَلَ أَحَدٌ طَعَامًا قَطُّ خَيْرًا مِنْ أَنْ يَأْكُلَ مِنْ عَمَلِ يَدِهِ، وَإِنَّ نَبِيَّ اللَّهِ دَاوُدَ عَلَيْهِ السَّلَامُ كَانَ يَأْكُلُ مِنْ عَمَلِ يَدِهِ“( بخاری:٢٠٧٢)
یعنی اپنے ہاتھ کا کمایا ہوا کھانا سب سے بہتر ہے اور اللہ کے نبی داؤد علیہ السلام بھی اپنے ہاتھ سے کام کرکے کھایا کرتے تھے۔
انبیاء علیہم السلام کی سیرت کا مطالعہ کرنے سے معلوم ہوتا ہے کہ انھوں نے بھی محنت مزدوری کرکے ہی اپنا اور اپنے بال بچوں کا پیٹ پالا ہے اور صحابہ کرام بھی تجارت، زراعت، مزدوری یا دیگر جائز پیشوں سے وابستہ تھے۔انھوں نے کبھی معاش کے لیے ہاتھ پھیلانے کو ترجیح نہ دی، بلکہ اپنی محنت اور خودداری سے اپنے پیروں پر کھڑے ہوئے۔
حضرت عبدالرحمن بن عوف رضی اللّٰہ عنہ مکہ سے ہجرت کرکے مدینہ پہنچے تو بالکل خالی ہاتھ تھے۔ نبی ﷺ نے آپ کا مواخاتی رشتہ مالدار صحابی حضرت سعد بن ربیع رضی اللّٰہ عنہ کے ساتھ قائم کیا۔ حضرت سعد رضی اللّٰہ عنہ نے عبدالرحمن بن عوف رضی اللّٰہ عنہ سے کہا کہ اللّٰہ نے مجھے خوب نوازا ہے آج سے میرے پاس جو کچھ بھی ہے وہ آدھا آپ کا۔ حضرت عبدالرحمن بن عوف رضی اللّٰہ عنہ بھی خود دار انسان تھے انھوں دعا دی کہ اللّٰہ آپ کے مال اور اہل و عیال میں برکت دے۔ آپ اپنا سب کچھ اپنے پاس رکھیں مجھے بس بازار کا رستہ بتادیں۔ انھوں نے بغیر محنت مشقت کے حاصل ہونے والے مال پر تجارت کو ترجیح دی اور محنت مشقت کر کے ترقی کے منازل طے کیے۔
روزی روٹی حاصل کرنے کے سلسلے میں لوگ مختلف ہوتے ہیں بعض لوگ پل دو پل کی نقل و حرکت سے اچھا خاصا مال کما لیتے ہیں اور خوب ترقیاں کرتے ہیں جبکہ کچھ لوگ ایسے ہوتے ہیں جو دن رات کام کاج کرتے ہیں اس کے باوجود اپنا اور اپنے بچوں کا پیٹ مشکل سے پال پاتے ہیں، کچھ افراد ایسے بھی ہوتے ہیں جو جسمانی معذوری یا شدید بیماری کے باعث کام نہیں کر سکتے اور واقعی دوسروں کے سہارے کے محتاج ہوتے ہیں۔
شریعت نے أہل ثروت حضرات کو یہ تعلیم دی ہے کہ ایسے لوگوں کا بھرپور تعاون کیا جائے اور اس انداز میں ان کی مدد کی جائے کہ دائیں ہاتھ سے دیں تو بائیں ہاتھ کو خبر بھی نہ ہو کہ کیا دیا ہے؟ تاکہ ان کی عزت نفس مجروح نہ ہو اور وہ بھی سر اٹھا کر جی سکیں۔
اور کچھ لوگ ایسے بھی ہوتے ہیں جو ہٹے کٹے اور صحت مند ہوتے ہیں ان میں کمانے کھانے کی صلاحیت موجود ہوتی ہے لیکن اس کے باوجود کام کاج کرنے پر بھیک مانگنے کو ترجیح دیتے ہیں۔ طرح طرح کے حیلے بہانے بناکر بھیک مانگتے ہیں اور روزانہ موٹی رقم جمع کر لیتے ہیں۔ عورتیں اور بچّے اس میدان میں خوب ماہر ہوتے ہیں۔
یہ طبقہ خاص طور پر عبادت گاہوں، ہوٹلوں، اسپتالوں اور ٹریفک سگنلوں پر کثرت سے پایا جاتا ہے اور یہ جھوٹ بولنے میں غیر معمولی مہارت رکھتے ہیں۔ ان کا رونا دھونا دیکھ کر انسان دھوکہ کھا جاتا ہے اور ان پر ترس کھاکر اپنے خون پسینے کی کمائی ان کی جھولی میں ڈال دیتا ہے۔ حقیقت میں یہ اس مال کے حقدار نہیں ہوتے ہیں بلکہ یہ اصل مستحقین کا حق بڑی ڈھٹائی سے کھا جاتے ہیں۔
اور یہ لوگ مانگنے میں ایسی مہارت رکھتے ہیں کہ بندہ بے ساختہ جیب میں ہاتھ ڈالنے پر مجبور ہو جاتا ہے۔
اِن بھیک منگوں کی مدد کرنے کے بجائے اپنے اعزہ و اقارب اور نادار پڑوسیوں کا خاص خیال رکھیں اور ان کی مدد کریں جو محنت مشقت کے بعد بھی اپنی ضرورتیں پوری کرنے میں ناکام رہتے ہیں، ان کی نہیں جو محنت ترک کرکے گدا گری پر تکیہ کرکے بیٹھے ہوتے ہیں کیونکہ ایسے لوگوں کی مدد کرکے ہم بھیک منگوں کی تعداد میں اضافہ کرنے کا سبب بنیں گے۔
شریعت کی تعلیم بھی یہی ہے کہ صدقہ و خیرات کرتے وقت سب سے پہلے اپنے رشتے داروں اور اعزہ و اقارب کا خیال رکھا جائے۔ نبی ﷺ نے رشتے داروں کی مدد کرنے پر ڈبل اجر کی نوید سنائی ہے۔
اس لیے پہلے اپنوں کی مدد کریں تاکہ وہ دوسروں کے آگے ہاتھ پھیلانے سے بچ جائیں اور بھیک منگوں کی جھولی خالی رہے تاکہ وہ محنت مزدوری کرنے پر مجبور ہوں۔
آپ کے تبصرے