کیسے کیسے خیال آتے ہیں

عبدالکریم شاد شعروسخن

وہ برائے وصال آتے ہیں

کیسے کیسے خیال آتے ہیں


میزبانی ہی دل کی ایسی ہے

روز رنج و ملال آتے ہیں


کیا بتائیں ہم اپنی محرومی

خواب میں بھی خیال آتے ہیں


دیکھتی ہے مری نظر کیا کیا

دل میں کیا کیا سوال آتے ہیں


قیس! کچھ انتظام ہے کہ نہیں

شہر سے ہم نڈھال آتے ہیں


کس طرح حور کا خیال آئے

راہ میں خوش جمال آتے ہیں


ڈوب جاتے ہیں لوگ ساحل پر

ہم سمندر کھنگال آتے ہیں


بانٹ لیتے ہیں درد صحرا سے

اشک دریا میں ڈال آتے ہیں


روز ہم ضبط کے درخت پہ شاد

ایک پتھر اچھال آتے ہیں

آپ کے تبصرے

3000