ہر راہ سے گزرتے ہیں توحید کے لیے
ہم جیتے اور مرتے ہیں توحید کے لیے
توحید کے لیے ہیں ہماری حیات و موت
شام و سحر نکھرتے ہیں توحید کے لیے
کس نے بتوں کو توڑ کے سمجھایا قوم کو
کیا کیا سلیقے برتے ہیں توحید کے لیے
کیا بات تھی کہ آگ بھی گلزار ہوگئی
یہ معجزے ابھرتے ہیں توحید کے لیے
صحرا میں چھوڑ آتے ہیں اہل و عیال کو
جذبات سے مکرتے ہیں توحید کے لیے
قربانیاں خلیل کی کس کو نہیں ہیں یاد
کیا کیا نہ کر گزرتے ہیں توحید کے لیے
یوسف کی پاک دامنی مشہور ہے تو کیوں
انسان یوں سنورتے ہیں توحید کے لیے
تھکتی نہیں زبان بھٹکتے نہیں قدم
نو سو برس گزرتے ہیں توحید کے لیے
ہر ظلم کو گلے سے لگاتے رہے بلال
خباب آہ بھرتے ہیں توحید کے لیے
دنیا کی زندگی کا مزہ ان سے پوچھیے
جو صبح و شام کرتے ہیں توحید کے لیے
انسانیت نواز ہیں سب کے لیے مگر
میدان میں اترتے ہیں توحید کے لیے
توحید کے لیے ہی سجاتے ہیں لب پہ گل
آنکھوں میں اشک بھرتے ہیں توحید کے لیے
پرواز کرنے لگتا ہے جب حد سے ماسوا
ہم دل کے پر کترتے ہیں توحید کے لیے
جب پھیلتی ہے شرک کی بدبو جہاں میں شاد!
ہم مشک سے بکھرتے ہیں توحید کے لیے
آپ کے تبصرے