کرتے ہیں نوش جامِ شہادت ترے لیے
دعوت ترے لیے ہے عداوت ترے لیے
صدق و صفا سے ہو گیا گلزار یہ جہاں
یارانِ غار کر گئے ہجرت ترے لیے
نکلے تھے گھر سے قتلِ نبی کے لیے مگر
بدلی عمر نے اپنی طبیعت ترے لیے
مشکل گھڑی میں دیکھی صحابہ نے بارہا
عثمان کی تمام سخاوت ترے لیے
میدانِ کارزار ہو یا رزمِ زندگی
قربان ہے علی کی شجاعت ترے لیے
تیرے ہی دم سے رونقِ کون و مکان ہے
ہر چیز دے رہی ہے شہادت ترے لیے
تو نے ہی ہر کلی کو تبسم کناں کیا
گریہ کناں ہے چشمِ ریاضت ترے لیے
تو ہی درختِ صبر کو کرتا ہے بارور
برداشت ہے ہر ایک مصیبت ترے لیے
یہ کائنات حاصلِ کن ہے عجیب ہے
سجدے میں ہے جہانِ مہارت ترے لیے
تیرے ہی ذکر و فکر میں گم ہیں دل و دماغ
رہتی ہے دست و پا میں عزیمت ترے لیے
تعریف کیا زبانِ گنہگار سے کریں
ہر قسم کی ہے عظمت و شوکت ترے لیے
دنیا کا کوئی رخ ہو زمانے کا کوئی رنگ
عازم ہے شاد جانبِ جنت ترے لیے
آپ کے تبصرے