فرقت کا غم وصال کی لذت تجھی سے ہے
ممتاز اس جہاں میں محبت تجھی سے ہے
تجھ سے مہک رہا ہے گلستانِ بحر و بر
ہر پھول پر بہار کی رنگت تجھی سے ہے
روشن ہے تیرے اذن سے دنیا کا ہر چراغ
چاروں طرف ہوا کی حکومت تجھی سے ہے
تو نے ہی ماہتاب کو دی ہے چمک دمک
سورج کے اندرون تمازت تجھی سے ہے
تھم جائیں آسمان و زمیں اذن سے ترے
خلقت میں تیری رونق و حرکت تجھی سے ہے
تیری ہی شاہکار ہے یہ شوخ رنگ شام
اتنی حسین صبح کی صورت تجھی سے ہے
تجھ سے ہی سارے شہر میں شور و خروش ہے
جلوہ فروز دشت کی وحشت تجھی سے ہے
ابرِ رواں ہے تیرے اشارے کا منتظر
تشنہ لبوں کی پیاس میں شدت تجھی سے ہے
تو ہی مکانِ دل کی مرمت کر اے خدا!
منسوب بام و در کی حفاظت تجھی سے ہے
اس دورِ حادثات میں یا رب! ہزار شکر
شادِ گناہ گار سلامت تجھی سے ہے
آپ کے تبصرے