تھا یقیں جس پر بہت وہ چارہ گر بیمار ہے

حمود حسن فضل حق مبارکپوری شعروسخن

کم سے کم تھوڑی بہت تو فرصت گفتار ہے

وہ پری پیکر اگرچہ پیکر پندار ہے


گو کہ چارہ جو مرا ہر طرح سے تیار ہے

دل کو آرام جنوں سے اب مگر انکار ہے


مشکلیں جانے میں ہیں اور آنا بھی دشوار ہے

کوچۂ جاناں سے پہلے کوچۂ اغیار ہے


کیا علاج غم، شفا کی آس اور امید کیا

تھا یقیں جس پر بہت وہ چارہ گر بیمار ہے


آخرش آیا سمجھ تعمیر تنہائی کے بعد

دل کی دنیا ہی جہاں میں مونس و غمخوار ہے


موج نکہت کھینچتی ہے دم بہ دم سوئے چمن

باغباں کا حال لیکن بر سر بازار ہے


خوش نما منظر میں بھی کوئی کشش باقی نہیں

معذرت اے حسن جاناں دل بہت بے زار ہے


فرط غم سے ربط جسم و جاں بھی اب باقی نہیں

وحشت دل سے گریزاں دیدۂ خونبار ہے


ان سے قربت کا عمل ٹھہرے کبھی ممکن نہیں

ہے دماغ اپنا اگر ثابت تو دل سیار ہے


اشک، وحشت، خامشی، تنہائی اور بے تابیاں

آدمی میں غم کی کتنی قوت اظہار ہے


موت آتی تو نہیں پر آہی جائے گی کبھی

خوگر انکار میں بھی خوبئ اقرار ہے


وصل کو موت آئی تو وحشت نے بتلایا حسن

آپ کے حق میں لکھی ارث در و دیوار ہے

آپ کے تبصرے

3000