اس نے دیکھا تھا مجھ اجنبی کی طرف
میں نے دیکھا نہیں پھر کسی کی طرف
ساتھ دیتا نہیں کیوں مقدر مرا
پاؤں بڑھتے تو ہیں اس گلی کی طرف
پھر کسی سے ہوا سامنا ایک دن
پاؤں مڑنے لگے زندگی کی طرف
یاد آتی ہے کاغذ کی کشتی مجھے
دھیان جاتا ہے سوکھی ندی کی طرف
آج پھر ایک لڑکی سسکنے لگی
دیکھ کر اک نظر پالکی کی طرف
چار جانب اندھیروں کا آشوب تھا
دھیان جاتا کہاں روشنی کی طرف
موت آواز دیتی رہی عمر بھر
کان تھے زیست کی بانسری کی طرف
جو سمندر کی جانب روانہ ہوا
وہ نہ لوٹا کبھی پھر ندی کی طرف
دوڑتی ہے سرابوں کی جانب نظر
عقل مائل ہے دیوانگی کی طرف
دن گزرتا ہے سورج کو تکتے ہوئے
رات بھر دیکھتا ہوں گھڑی کی طرف
کیا کہا قیس ہوتے نہیں آج کل
دیکھ لیتے کبھی شاد جی کی طرف



آپ کے تبصرے