درد کا تیرے کسی طور تو حل نکلے گا

حمود حسن فضل حق مبارکپوری شعروسخن

راہ تعبیر میں گر پہلے پہل نکلے گا

پیکر خواب مری آنکھ سے شل نکلے گا


یوں نہیں ہے کہ نہیں نکلے گا، چل، نکلے گا

درد کا تیرے کسی طور تو حل نکلے گا


میں نکل جاؤں مگر وہ نہیں نکلے گا کبھی

پھر بھی دل کہتا‌ ہے تو پہلے نکل، نکلے گا


ایسا ممکن ہی نہیں آنکھ سے نکلے نہ لہو

درد کھا، سانس نہ لے، آنکھ مسل، نکلے گا


کیوں نہیں نکلے گا سامان سخن کا جذبہ

موم کی طرح سر شام پگھل، نکلے گا


گھر سے کب نکلے گا آسانی سے وہ تیرے لیے

چیخ، چلا، سر بازار مچل، نکلے گا


سب سے پہلے میں چکھاؤں گا تجھے ہی ظالم

صبر کے پیڑ پہ جس روز بھی پھل نکلے گا


کچھ نہ نکلے گا زمانوں کو اگر کھودیں تو

غم کا سرمایہ تہہ خاک ازل نکلے گا


وحشتیں آخری حالت کو پہنچ آئی ہیں

سینۂ شب سے بس اب دست اجل نکلے گا


شک نے گھیرا ہے کچھ ایسے کہ اگر غور کریں

میری ہر بات میں بس “ہمزہ و ھل” نکلے گا

آپ کے تبصرے

3000