نہ دوست جانیے ہر ایک آس پاسی کو
مگر جو بھانپ لے ہنستی ہوئی اداسی کو
نظر کے زاویے بدلے تو اس قدر بدلے
لباس مان لیا سب نے بے لباسی کو
دلِ تباہِ محبت کا حال کیا کہیے
یہ بادشاہ ترستا ہے ایک داسی کو
پھر اس کے بعد نہ وہ شخص بے حجاب ہوا
نہ کوئی جان سکا میری بد حواسی کو
کوئی ہٹا نہ سکا پردۂ گمانِ نظر
نہ کوئی دیکھ سکا میری بے لباسی کو
عجیب حال رہا عشق کی ریاضی کا
نواسی مان لیا بارہا اناسی کو
بریڈ کیسے نباہے گی ساتھ روٹی کا
ملی ہے شہر کی معشوق گاؤں باسی کو
وہ مانتا تھا کہ دولت ہے باعثِ تسکین
پھر اس نے دیکھ لیا شاد کی اداسی کو



آپ کے تبصرے