برصغیر ہندوپاک میں جماعت اہل حدیث کو جن شخصیتوں کی مبارک کوششوں سے پھیلاؤ اور استحکام نصیب ہوا، ان میں علامہ نواب صدیق حسن خان بھوپالی؍رحمہ اللہ (متوفیٰ ۱۳۰۷ھ) کی شخصیت بڑی اہمیت کی حامل ہے۔ علامہ نواب صدیق حسن خان بھوپالی؍رحمہ اللہ کی ولادت ۱۴؍اکتوبر ۱۸۳۲ء کو ننہال ’’بانس بریلی‘‘ میں ہوئی۔ بچپن ہی میں والدِ محترم کا سایۂ عاطفت سرسے اٹھ گیا۔ امی جان نے ان کی خوب پرورش وپرداخت کی اورگاؤں کے مکتب میں تحصیل علم وفن کے لیے بھیجنا شروع کیا۔ پھرمزید تعلیم کی تحصیل کے لیے دہلی کا رخ کیا، جہاں پر ایک سال آٹھ ماہ رہ کر مولانا صدرالدین سے کسبِ فیض کیا۔ اِن کے علاوہ دیگر اساطین علوم وفنون سے تحصیل تعلیم وتربیت کی اور اکیس سال کی عمر میں تمام متداول علوم سے فراغت حاصل کرلی۔ اس کے بعد تلاشِ ملازمت کے لیے مختلف جگہوں میں آمدورفت کی۔ آپ نے دوشادیاں کیں۔ پہلی شادی منشی جمال الدین خان ، جو ریاست بھوپال کے نائب اول تھے، کی بیٹی ذکیہ بیگم سے، اس بیوی کے انتقال کرجانے کے بعد دوسری شادی نواب شاہ جہاں بیگم سے ۸؍مئی ۱۸۷۱ء کو کی۔ قابلِ ذکر بات یہ ہے کہ آپ کی یہ دونوں بیویاں بیوہ تھیں اور دونوں کا نواب صاحب کے ساتھ نکاح، نکاح ثانی تھا۔
علامہ نواب صدیق حسن خان بھوپالی؍رحمہ اللہ ۱۵؍اکتوبر ۱۸۷۲ء کو نواب والاجاہ اور امیرالملک بنائے گئے۔ پھر کیا تھا، پورے برصغیر کے اندر جماعت اہل حدیث ایک نئے دور میں داخل ہوگئی۔ یادگار مجلہ ’’اہلحدیث‘‘ کے بقول: ’’پورے ہندوستان میں دہلی کے بعد بھوپال ہی ایک ایسا مقام تھا، جس میں ’’بغداد الہند‘‘ بننے کی صلاحیت موجود تھی۔ جس وقت نواب صاحب بھوپال تشریف لائے، اس وقت بھوپال کی حالت، دینی، علمی اورسیاسی اعتبار سے اس کھیت کی سی تھی ، جس کو کسی محنتی کسان نے بیج بونے کے لیے تیار کررکھا ہو۔ اب صرف اتنی ضرورت باقی رہ گئی تھی کہ کوئی ہنر منددہقاں تخم ریزی کرکے وقت مقررہ پر فصل کاٹے۔ چنانچہ بھوپال کو ہنرمنددہقاں نواب والاجاہ کی شکل میں مل گیا۔ شاہ جہاں بیگم سے عقد ہوتے ہی کام میں تیزی آگئی، نواب صاحب کی پُرکشش شخصیت نے ہندوستان اور بیرون ہند کے قابل قدر علماء اور اہل کمال کو کھینچ لیا اوردیکھتے ہی دیکھتے شہر بھوپال مدینۃ العلم بن گیا۔ اس زمانہ میں ارباب علم ودانش اوراہل فضل وکمال علماء کی اتنی بڑی تعداد شہربھوپال کے علاوہ اور کسی دوسرے شہر میں نہیں تھی۔‘‘ [یاد گار مجلہ اہل حدیث:۸۷]
علامہ نواب صدیق حسن خان بھوپالی رحمہ اللہ نے بھوپال میں قدم رنجہ فرمانے کے بعد جو جلیل القدر دینی وعلمی ، تحقیقی وتصنیفی اوردعوتی وتجدیدی کارنامے انجام دیے، ان میں تصنیف وتالیف کے کام کو بحسن وخوبی انجام دینے کے لیے ہر فن کے ماہر ساٹھ علماء کی ٹیم بنانا، محدث عصر شیخ حسین بن محسن یمانی کو بھوپال میں قیام کی دعوت دے کر احیائے کتاب وسنت کو زبردست فروغ دینا، وہ کتب احادیث جو بیش بہا ہونے کے باوجود نایاب ہوچکی تھیں، انھیں منگواکر زیور طباعت سے آراستہ کرنا، فتح الباری جیسی بخاری کی شرح کے قلمی نسخہ کو بھاری قیمت پر خرید کر چھپوانا اور دنیا کے اطراف واکناف میں پھیلانے کااہتمام کرنا، کتب احادیث کی طباعت اور مفت تقسیم کے لیے مختلف پریسوں کا نظم کرنا، کتب احادیث کا دوسری مروجہ زبانوں میں ترجمہ کرانا اور اس کام کے لیے مترجمین کا تقرر کرنا، کتب احادیث کے حفظ اور اشاعت وترویج کے لیے بڑے بڑے انعامات کااعلان کرنا، متعدد رسائل وجرائد سرکاری وغیرسرکاری سطح پراجراء کااہتمام کرنا، دعوت وتبلیغ، امامت وخطابت اوردرس وتدریس کے لیے علماء ومشائخ کے لیے وظائف جاری کرنا، برصغیر کے مختلف خطوں میں مدارس قائم کراکر ان کی کفالت ونگرانی فرمانا، اور مسکینوں وبیواؤں ، یتیموں اور بے سہارا لوگوں اور دینی ورفاہی اور سماجی کاموں میں بے دریغ دولت خرچ کرنا وغیرہ خصوصیت کے ساتھ قابل ذکر ہیں۔
موجودہ زمانے کا ایک المیہ یہ ہے کہ بڑی سے بڑی شخصیت کے انتقال پر بھی اہل قلم ان پر کچھ لکھنے کی زحمت نہیں کرتے،مگر علامہ نواب صدیق حسن خان بھوپالی ؍رحمہ اللہ جس قدر عظیم انسان تھے، اسی طرح عظمائے اسلام نے بھی ان کی عظمت ومقام کا لحاظ کیا، اور ان پر اور ان کی خدمات وجہود پر مقالات وکتابیں لکھیں۔
علامہ نواب صدیق حسن خان بھوپالی ؍رحمہ اللہ کی سیرت وسوانح اور ان کے کارناموں سے متعلق معلومات جن کتابوں کے اندر موجود ہیں، ان میں سے بعض قدیم اور بعض جدید کتابیں ہیں، قدیم کتابوں کی دوقسمیں ہیں: پہلی قسم کا تعلق ان کتب مراجع ومصادر سے ہے، جن کی تالیف علامہ نواب ؍رحمہ اللہ نے خود کی ہے، اور ان کتابوں کے اخیر میں خودنوشت سیرت وسوانح ذکر کرنے کا اہتمام فرمایا ہے، اس نوع کی کتابوں میں قابل ذکر ہیں: ابجد العلوم:۳؍۲۷۱-۲۸۳، التاج المکلل: ۵۴۶-۵۵۶، اتحاف النبلاء:۲۶۳، الحطۃ فی ذکر الصحاح الستہ:۴۷۱-۴۸۵، اور ابقاء المنن وغیرہ، ان کتابوں میں انھوں نے اپنی سیرت وسوانح کو بالتفصیل ذکر کیا ہے، جس میں پیدائش ونشوونما، علماء ومشائخ سے اخذ واستفادہ، علمی، عملی اور دعوتی اسفار، جمع وتالیف اور تحقیق وتصنیف وغیرہ سے متعلق معلومات قلمبند کیا ہے۔
دوسری قسم کی کتب مراجع ومصادر میں، وہ کتابیں ہیں، جنھیں مؤلفین کبار اور مصنفین عظام نے علماء وشخصیات ِ اسلام کی سیرت وسوانح کے موضوع پر لکھی ہیں، چنانچہ جن قدیم کتابوں میں علامہ نواب صدیق حسن خان بھوپالی؍ رحمہ اللہ کی سیرت وسوانح مذکور ہے، ان میں طبقات الاصولین، مراغی: ۳؍۱۶۰،مشاہیر علماء نجد، بسام:۴۵۱-۴۵۷، حلیۃ البشر:۲؍۷۴۶، انموذج الاعمال الخیریۃ: ۳۸۸، الاعلام ،زرکلی: ۶؍۱۶۷، نزہۃ الخواطر، لکھنوی: ۸؍۱۸۷، جلاء العینین، آلوسی:۳۰، معجم المؤلفین، عمررضا کحالہ: ۱۰؍۹۰، ہدیۃ العارفین، بغدادی: ۲؍۳۸۸،معجم المطبوعات: ۱۲۰۱، فہرس الفہارس، کتانی: ۲؍۱۰۵۵، ایضاح المکنون، بغدادی:۱؍۱۰، تاریخ آداب اللغۃ العربیۃ: ۲؍۹۶، المنجد:۴۱۱، عثرات المنجد، قطان: ۳۱۷، التعلیقات الظراف علی الاتحاف ، بھوجیانی:۳۴، حرکۃ التألیف:۲۷۴، اکتفاء القنوع:۴۹۷، تاریخ الأدب العربی، بروکلمان: ۲؍۸۹۵، الثقافۃ الإسلامیۃ فی الہند:۱۴۱، کشف الظنون، حاجی خلیفہ: ۳، مآثر صدیقی، وغیرہ ہیں۔
مذکورہ کتابوں کے بعد بہت سے علماء اوراصحاب قلم نے علامہ نواب صدیق حسن خان بھوپالی؍رحمہ اللہ پر کتابیں اور مقالات لکھے۔ بہت سے محققین اور باحثین نے آپ کی حیات وکارنامے پر ایم ۔اے اور پی۔ایچ۔ڈی کے رسالے تحریر کیے۔ شیخ علی بن احمد نے امام محمدبن سعود اسلامک یونیورسٹی ریاض سے ماجستر (ایم۔ اے) کی ڈگری حاصل کرنے کے لیے۱۴۱۹ھ میں ’’دعوۃ الامیر العالم صدیق حسن خان واحتسابہ‘‘ کے عنوان پر رسالہ لکھا، جو ۵۹۴صفحات پر مشتمل ہے، اور شائع ہوکر منظر عام پر آچکا ہے۔ اسی طرح ڈاکٹر اختر جمال محمدلقمان سلفی بنارسی نے ام القریٰ یونیورسٹی سے ’’السید صدیق حسن القنوجی: آراء ہ الاعتقادیۃ وموقفہ من عقیدۃ السلف‘‘ کے عنوان پر پی۔ایچ۔ڈی کامقالہ لکھا، یہ کتاب بھی شائع ہوکر منظرعام پر آچکی ہے، جو ۶۶۰صفحات پر مشتمل ہے۔
شیخ الاسلام محمد بن عبدالوہاب ؍رحمہ اللہ پر مولانا مسعود عالم ندوی؍رحمہ اللہ کی ایک شاندار کتاب ’’شیخ محمدبن عبدالوہاب: ایک مظلوم وبدنام مصلح ‘‘ ہے ، جو بے حدمشہور ومتداول ہے، اس کتاب کا عربی ترجمہ ڈاکٹر عبدالعلیم عبدالعظیم بستوی نے کیا ہے، جو جامعہ امام ابن تیمیہ ، بہار سے شائع ہوچکی ہے۔ کتاب کے مؤلف ندوی؍رحمہ اللہ نے بعض جگہ نواب صاحب کے متعلق نازیبا باتیں تحریر کردی ہیں، جن کا علمی نوٹس بستوی؍صاحب نے اپنے عربی ترجمہ کے حاشیہ میں لیا ہے۔ اس کا تعارف کراتے ہوئے ہمارے مربی وشیخ ڈاکٹر مقتدی حسن ازہری ؍رحمہ اللہ نے لکھا ہے کہ ’’ ڈاکٹر عبدالعلیم عبدالعزیز بستوی نے مولانا مسعود عالم ندوی کی کتاب کا عربی ترجمہ کیا تو مختلف مقامات پر حواشی تحریر کیے جن کا مقصد نواب صدیق حسن علیہ الرحمہ کے سلسلے میں موجود غلط فہمیوں کا ازالہ تھا، یہ حواشی اپنی افادیت کے لحاظ سے نواب صاحب پر کسی تصنیف کا درجہ رکھتے ہیں‘‘۔ [محدث بنارس، مئی-جون ۲۰۰۶ء]
ایک دوسرے باحث ڈاکٹر محمد حاتم خان بنارسی نے بھی علامہ نواب صدیق حسن خان ؍رحمہ اللہ پر بنارس ہندو یونیورسٹی سے پی۔ایچ ۔ڈی کی ہے، ان کے رسالے کا عنوان تھا’’حیاۃ النواب صدیق حسن ومآثرہ‘‘ ، یہ کتاب اب تک شائع نہیں ہوسکی ہے۔
جماعت اہل حدیث کے ایک صاحب قلم ِعالم شیخ عبدالمعید عبدالجلیل سلفی نے نواب صاحب پر ایک کتاب ’’السید النواب صدیق حسن خان البخاری بین المعارضۃ والتأئید‘‘ نامی لکھی ہے، جو جامعہ سلفیہ، بنارس سے شائع ہوکر داد وتحسین حاصل کرچکی ہے۔ اس کتاب میں نواب صاحب پر ان کے بعض معاصرین کی طرف سے کیے گئے اعتراضات اور طعن وتشنیع کا دفاع کیا ہے، ایک دوسری کتاب معروف مصنف ومحقق شیخ ابوالقاسم عبدالعظیم مدنی نے ’’النواب صدیق حسن خان:دعوتہ واعمالہ‘‘ کے نام سے لکھی ہے، جو انہی کے ادارہ ’’ہماریسرچ سنٹر‘‘ مئو، سے شائع ہوچکی ہے، یہ کتاب ۶۴ صفحات پر مشتمل ہے۔
ان کتابوں کے علاوہ آپ کی سیرت وسوانح جن جدید کتابوں اور مجلات میں موجود ہے، ان میں مجلہ الحج(۱۱؍۶۳۶)، مجلۃ الجامعۃالإسلامیۃ(۱۲؍۴۷)، نیل المرام من تفسیر آیات الأحکام (۱؍۳۷-۴۷)، فتح العلام شرح بلوغ المرام (۱؍۶-۹)، دلیل الطالب علی ارجح المطالب، علمائے اہل حدیث،ہندوپاک کی خدمات ِ حدیث(۸۸-۹۶)، اہل حدیث خدام قرآن (۱۹۷-۲۰۷)، دعوۃ الامام محمدبن عبدالوہاب فی شبہ القارۃ الہندیۃ (۳۶-۴۹)، جہود مخلصۃ فی خدمۃ السنۃ المطہرۃ (۹۸-۱۰۲)، جہود أہل الحدیث فی خدمۃ القرآن(۲۱-۲۵)، کتاب الغنۃ ببشارۃ أہل السنۃ (۱؍۸-۲۳)، یہ کتاب مخطوط ہے، اور جامعہ امام ابن تیمیہ کی سینٹرل لائبریری میں موجود ہے۔
علامہ نواب صدیق حسن بھوپالی رحمہ اللہ پر اب تک میرے علم کی حد تک دو علمی سیمینار منعقد ہوئے ہیں، ایک جامعہ سلفیہ بنارس میں ۲۹-۳۰؍اپریل ۲۰۰۶ء کی تاریخوں میں، جس کا عنوان تھا: ’’نواب صدیق حسن حسینی بخاری:حیات وخدمات‘‘۔ اس سیمینار میں پیش کیے گئے عربی واردو مقالات کی تعداد اکتیس(۳۱) تھی۔ دوسرا علمی سیمینار ۱۲-۱۳؍جولائی ۲۰۰۸ء کی تاریخوں میں ’’نواب صدیق حسن بھوپالی اسلامک ریسرچ سنٹر‘‘ لکھنؤ کے زیراہتمام لکھنؤ میں منعقد ہوا تھا، جس میں چالیس (۴۰) سے زائد علمی مقالات پیش کیے گئے تھے۔
آپ کے نام پردینی وعلمی اور دعوتی وتصنیفی مراکز بھی قائم کیے گئے ہیں۔ ماضی میں بھوپال میں آپ کے نام پر ایک شاندار ادارہ قائم تھا، جو ’’مدرسۃ الریاسۃ‘‘ سے معروف تھا، اس ادارہ کو ماضی میں دینی علوم بالخصوص حدیث وعلوم حدیث کی نشرواشاعت کے باب میں سب سے بڑا مرکز ہونے کا شرف حاصل تھا۔ اس ادارہ کے بعد اوپر مذکور ’’نواب صدیق حسن بھوپالی اسلامک ریسرچ سنٹر‘‘ میرے استاذ مولانا احسن جمیل مدنی؍حفظہ اللہ نے لکھنؤ میں قائم کیا ہے۔ ایک تیسرا ادارہ معہد نواب صدیق حسن خان بھوپالی برائے تحفیظ قرآن ‘‘ (دموا) میں قائم ہے، جس کی تفصیل معلوم نہیں ہوسکی۔
آپ کی حیات وخدمات پر بعض علمی وتحریری انعامی مسابقے بھی منعقد ہوئے، جس میں سے ایک علمی مسابقہ ’’ہما ریسرچ سنٹر‘‘ مئو کے زیراہتمام ۱۹۸۷ء میں منعقد ہوا، جس کا اعلان بیس (۲۰) سے زائد جرائد ومجلات میں دیا گیا تھا، اور گیارہ سے زائد دینی وعصری جامعات ویونیورسٹیوں میں بھیجا گیا تھا۔
اللہ تعالیٰ نواب صاحب کی مغفرت فرمائے اور ان کی علمی کاوشوں سے استفادہ کرنے اور ان کے علمی ورثے کی خدمت کرنے کی توفیق بخشے۔ آمین!



آپ کے تبصرے