اللہ رب العالمین نے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو لوگوں کے مابین معلم بنا کر بھیجا، آپ نے تئیس سال کی ایک لمبی مدت تک لوگوں کو دینِ اسلام کی تعلیم دی اور انھیں بار بار یہ احساس دلایا کہ ان کے پاس اللہ کی عطا کردہ نعمتوں میں سے سب سے عظیم نعمت یہی دین وشریعت کی نعمت ہے جو ان کی دنیوی و اخروی کامیابی کا ضامن ہے۔ اگر کسی کے پاس یہ نعمت ہے تو ان کے پاس اللہ کی سب سے عظیم نعمت موجود ہے اور کوئی اس نعمت سے محروم ہے تو دنیا کا سب سے بڑا بدنصیب اور محروم شخص ہے، گرچہ اس کے پاس دنیا کی بادشاہت ہی کیوں نہ ہو۔
اللہ رب العالمین نے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو جو دین دے کر مبعوث فرمایا تھا اس کے نزدیک بس وہی دین قابل قبول ہے، کوئی دوسرا دین نہیں، اللہ تعالی کا ارشاد ہے:
إِنَّ الدِّينَ عِنْدَ اللَّهِ الْإِسْلَامُ
(بے شک اللہ کے نزدیک دین صرف اسلام ہے) (سورہ آل عمران، 19)
نیز اس کا ارشاد ہے:
وَمَنْ يَبْتَغِ غَيْرَ الْإِسْلَامِ دِينًا فَلَنْ يُقْبَلَ مِنْهُ وَهُوَ فِي الْآخِرَةِ مِنَ الْخَاسِرِينَ
(جو اسلام کے علاوہ کوئی دوسرا دین تلاشے وہ دین اس سے ہرگز قبول نہیں کیا جائے گا اور وہ آخرت میں خسارہ اٹھانے والوں میں سے ہوگا) (سورہ آل عمران، 85)
ہر شخص کو قبر کے اندر اسی دین کے متعلق سوال کیا جائے گا کہ (ما دینک؟) “تمھارا دین کیا تھا؟”
اگر اس نے اپنی عملی زندگی میں اسی دین کو فالو کیا تھا جو دین نبی صلی اللہ علیہ وسلم اپنے صحابہ کو دے کر گئے تھے تب تو یہ اس کی نجات کا ضامن ہے، لیکن اگر اس نے کسی ایسے دین کو فالو کیا ہو جو نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے اس دین سے میل نہیں کھاتا اور مَیچ نہیں کرتا جو دین نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے صحابہ کو سکھایا تھا تو اس کی مقدر میں ہلاکت وناکامی ہے۔
نبی صلی اللہ علیہ وسلم جب صحابہ کرام کو اس دنیا میں چھوڑ کر رخصت ہوئے اس وقت امت میں کوئی فتنہ رونما نہیں ہوا تھا، کوئی تفرقہ بازی نہیں تھی، سب کے سب ایک دین، ایک شریعت اور ایک عقیدہ ومنہج پر قائم تھے۔ اسی کی طرف اشارہ کرتے ہوئے آپ نے کہا تھا: «قد تركتكم على البيضاء، ليلها كنهارها، لا يزيغ عنها بعدي إلا هالك»
(میں نے تمھیں ایک ایسے واضح شاہراہ پر چھوڑا ہے جس کی راتیں بھی دن کے اجالے کی طرح روشن ہیں، میرے بعد اس راستے سے ہلاک ہونے والا ہی رو گردانی کرے گا) (سنن ابن ماجہ، حدیث نمبر 43، مسند احمد، حدیث نمبر17142، علامہ البانی رحمہ اللہ نے سلسلہ الأحاديث الصحیحہ میں اس حدیث کو صحیح قرار دیا ہے، دیکھیں: حدیث نمبر 937)
امام ابو منصور عبد القاہر البغدادی رحمہ اللہ (متوفی 429ھ) ”الفرق بين الفرق“ (ص: 12) میں فرماتے ہیں:
“كَانَ الْمُسلمُونَ عِنْد وَفَاة رَسُول الله صلى الله عَلَيْهِ وَسلم على منهاج وَاحِد فِي أصول الدّين وفروعه غير من أظهر وفَاقا وأضمر نفَاقًا”.
(رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی وفات کے وقت تمام مسلمان دین کے اصول وفروع میں ایک منہج پر قائم تھے، سوائے ان کے جنھوں نے اتفاق کا اظہار تو کیا تھا لیکن اپنے دلوں میں نفاق چھپا کر رکھا تھا)
اس وقت کے مسلمان جس راہ پر گامزن تھے اللہ رب العالمین نے اس راہ کو ”سبیل المؤمنین“ سے تعبیر کیا ہے۔ یہی ”راہ سلف“ ہے جس کی اتباع کو نجات کا ضامن اور اس سے انحراف کو ہلاکت کا باعث قرار دیا ہے، اللہ رب العالمین کا ارشاد ہے:
وَمَنْ يُشَاقِقِ الرَّسُولَ مِنْ بَعْدِ مَا تَبَيَّنَ لَهُ الْهُدَى وَيَتَّبِعْ غَيْرَ سَبِيلِ الْمُؤْمِنِينَ نُوَلِّهِ مَا تَوَلَّى وَنُصْلِهِ جَهَنَّمَ وَسَاءَتْ مَصِيرًا
(جو ہدایت واضح ہو جانے کے بعد رسول کی مخالفت کرے اور مؤمنین کے راستے کے علاوہ کسی دوسرے راستے کی اتباع کرے تو ہم اسے اس کے حوالے کر دیں گے اور اسے جہنم رسید کریں گے، اور یہ بہت ہی برا ٹھکانہ ہے) (سورہ النساء: 115)
اس آیت پر غور کریں! یہاں اللہ رب العالمین نے ہدایت واضح ہو جانے کے بعد صرف رسول کی مخالفت کو ہی دخول جہنم کا باعث نہیں قرار دیا، بلکہ اس کے ساتھ سبیل المؤمنین (یعنی راہِ سلف) سے روگردانی اور ان کی راہ کے علاوہ کسی دوسرے کی راہ کی اتباع کو دخول جہنم کا باعث قرار دیا ہے۔
قارئین کرام! غور فرمائیں! اگر راہ سلف کوئی ضروری شئی نہ ہوتی تو ”وَمَنْ يُشَاقِقِ الرَّسُولَ“ کہنے کے بعد ”وَيَتَّبِعْ غَيْرَ سَبِيلِ الْمُؤْمِنِينَ“ کے اضافے کی کیا ضرورت تھی؟
ایک مسلمان کا اس بات پر ایمان ہے کہ اللہ رب العالمین کا ایک ایک کلمہ ہر طرح کے لغو اور حشو وزوائد سے پاک ہے۔ لہذا یہ آیت بالکل صریح ہے کہ اتباع رسول کے ساتھ ساتھ ”سبیل المؤمنین“ یعنی راہ سلف کی اتباع بھی ضروری ہے۔ اگر کوئی اس سے رو گردانی کرتا ہے تو اس کا ٹھکانہ جہنم ہے۔
اب سوال پیدا ہوتا ہے کہ یہاں ”مؤمنین“ سے مراد کون لوگ ہیں جن کے راستے کی مخالفت پر جہنم کی وعید سنائی گئی ہے۔
تو معلوم ہونا چاہیے کہ خود اللہ اور اس کے رسول کے کلام میں اس کی وضاحت وتفسیر موجود ہے۔
اگر ہم کتاب وسنت کا بغور مطالعہ کریں تو پائیں گے کہ اللہ رب العالمین نے صحابہ کرام کے ایمان اور تقوی کی گواہی خود دی ہے اور ان کے لیے مغفرت اور اجر عظیم کا وعدہ کیا ہے۔ اس کا ارشاد ہے:
إِنَّ الَّذِينَ يَغُضُّونَ أَصْوَاتَهُمْ عِنْدَ رَسُولِ اللَّهِ أُولَئِكَ الَّذِينَ امْتَحَنَ اللَّهُ قُلُوبَهُمْ لِلتَّقْوَى لَهُمْ مَغْفِرَةٌ وَأَجْرٌ عَظِيمٌ
(جو لوگ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے نزدیک اپنی آوازیں پست رکھتے ہیں ان کے دلوں کو اللہ تعالی نے تقوی وپرہیز گاری کے لیے پرکھ لیا ہے، ان کے لیے مغفرت اور عظیم اجر ہے) (سورة الحجرات: 3)
بلکہ احسان کے ساتھ ان کی اتباع کرنے والوں کے لیے بھی اپنی رضامندی اور جنت کا وعدہ کیا ہے، اللہ تعالی کا ارشاد ہے:
السَّابِقُونَ الْأَوَّلُونَ مِنَ الْمُهَاجِرِينَ وَالْأَنْصَارِ وَالَّذِينَ اتَّبَعُوهُمْ بِإِحْسَانٍ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُمْ وَرَضُوا عَنْهُ وَأَعَدَّ لَهُمْ جَنَّاتٍ تَجْرِي تَحْتَهَا الْأَنْهَارُ خَالِدِينَ فِيهَا أَبَدًا ذَلِكَ الْفَوْزُ الْعَظِيمُ
(جو پہلے پہل اسلام قبول کرنے والے ہیں مہاجرین وانصار میں سے، نیز جو احسان کے ساتھ ان کی اتباع کرنے والے ہیں اللہ ان سے راضی ہوگیا اور وہ اللہ سے راضی ہوگئے، اور اللہ تعالی نے ان کے لیے ایسی جنتیں تیار کر رکھی ہیں جن کے نیچے نہریں جاری ہیں، ان میں یہ ہمیشہ رہیں گے اور یہ عظیم کامیابی ہے) (سورة التوبة: 100)
یہاں اللہ تعالی نے مہاجرین وانصار یعنی صحابہ کرام کے لیے مطلقا رضامندی وجنت کا اعلان کیا ہے، ان کے لیے ”احسان کے ساتھ اتباع“ کی شرط نہیں لگائی ہے۔ جس سے پتہ چلتا ہے کہ جن ”مؤمنین“ کی راہ سے روگردانی پر اس نے جہنم کی وعید سنائی ہے اس سے مراد سب سے پہلے صحابہ کرام کی جماعت ہے۔ پھر جنھوں نے احسان کے ساتھ ان کی اتباع کی۔ اور علما نے اس سے تابعین اور تبعِ تابعین کی جماعت کو مراد لیا ہے، کیونکہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان کے دور کو سب سے بہترین دور کہا ہے، آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد ہے:
«خَيْرُ النَّاسِ قَرْنِي، ثُمَّ الَّذِينَ يَلُونَهُمْ، ثُمَّ الَّذِينَ يَلُونَهُمْ»
(سب سے بہترین لوگ میرے زمانے کے لوگ ہیں، پھر جو ان کے بعد آئے، پھر جو ان کے بعد آئے) (صحیح بخاری، 2652، وصحیح مسلم 2533)
علامہ سفارینی رحمہ اللہ لوامع الانوار البہیہ (1/20) میں فرماتے ہیں:
“الْمُرَادُ بِمَذْهَبِ السَّلَفِ مَا كَانَ عَلَيْهِ الصَّحَابَةُ الْكِرَامُ – رِضْوَانُ اللَّهِ عَلَيْهِمْ – وَأَعْيَانُ التَّابِعِينَ لَهُمْ بِإِحْسَانٍ وَأَتْبَاعُهُمْ وَأَئِمَّةُ الدِّينِ مِمَّنْ شُهِدَ لَهُ بِالْإِمَامَةِ، وَعُرِفَ عِظَمُ شَأْنِهِ فِي الدِّينِ، وَتَلَقَّى النَّاسُ كَلَامَهُمْ خَلَفٌ عَنْ سَلَفٍ، دُونَ مَنْ رُمِيَ بِبِدْعَةٍ، أَوْ شُهِرَ بِلَقَبٍ غَيْرِ مَرْضِيٍّ مِثْلِ الْخَوَارِجِ وَالرَّوَافِضِ وَالْقَدَرِيَّةِ وَالْمُرْجِئَةِ وَالْجَبْرِيَّةِ وَالْجَهْمِيَّةِ وَالْمُعْتَزِلَةِ وَالْكَرَّامِيَّةِ، وَنَحْوِ هَؤُلَاءِ”.
(مذہب سلف سے مراد یہ ہے کہ جس پر صحابہ کرام قائم تھے، نیز تابعین، اتباع تابعین اور ائمہ دین کے سر کردہ حضرات بھی جس پر قائم تھے، ایسے حضرات جن کی امامت کی گواہی دی گئی ہے، دین کے اندر جن کی عظمت شان معروف ہے، زمانہ در زمانہ لوگوں نے جن کے کلام کو قبول کیا ہے، نہ کہ وہ حضرات جن پر بدعت کی تہمت لگی ہے، یا ناپسندیدہ القاب سے نوازے گئے ہیں، جیسے کہ خوارج، روافض، قدریہ، مرجئہ، جبریہ، جہمیہ، معتزلہ، کرامیہ اور ان جیسی دوسری گمراہ جماعتیں ہیں)
پس مذکورہ آیتوں کی روشنی میں بلاشبہ صحابہ کرام کی جماعت ”سبیل المؤمنین“ میں داخل ہے اور بعد میں آنے والوں کے لیے احسان کے ساتھ ان کی اتباع کرنا شرط ہے۔
ایک دوسری آیت میں اللہ تعالی نے صحابہ کرام کے ایمان کو بعد والوں کے لیے ضابطہ اور معیار قرار دیا ہے، کہ اگر دوسروں کا ایمان انھی کے ایمان کی طرح ہو تو وہ ہدایت یافتہ ہیں، ورنہ وہ گمراہ اور راہ راست سے بھٹکے ہوئے ہیں۔ اللہ تعالی کا ارشاد ہے:
فَإِنْ آمَنُوا بِمِثْلِ مَا آمَنْتُمْ بِهِ فَقَدِ اهْتَدَوْا وَإِنْ تَوَلَّوْا فَإِنَّمَا هُمْ فِي شِقَاقٍ
(اگر وہ لوگ اسی طرح ایمان لائیں جس طرح تم ایمان لائے ہو تو وہ ہدایت پائیں گے) (سورة البقرة: 137)
نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے بھی اسی کی تاکید کی اور فرمایا کہ میری امت تہتر فرقوں میں بٹ جائے گی، جن میں سب کے سب جہنمی ہیں سوائے ایک فرقے کے، جب پوچھا گیا کہ وہ نجات پانے والی جماعت کون سی ہے تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: «مَنْ كَانَ عَلَى مَا أَنَا عَلَيْهِ الْيَوْمَ وَأَصْحَابِي».
(آج میں اور میرے صحابہ جس پر قائم ہیں جو بھی اس پر قائم ہوگا وہ نجات یافتہ ہوگا) المعجم الأوسط (8/ 22)
قارئین کرام! یہاں غور کریں! رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم جوامع الکلم کی صفت سے متصف ہیں، آپ کا ایک ایک لفظ نہایت قیمتی اور اہمیت کا حامل ہے، آپ کوئی بے معنی ومقصد اور لغو بات نہیں کرتے، اگر صحابہ کرام کی راہ پر چلنا ضروری نہ ہوتا تو ”واصحابی“ کے اضافے کی کوئی ضرورت نہیں تھی۔ لیکن جس طرح اللہ تعالی نے رسول کا تذکرہ کرنے کے بعد ”سبیل المؤمنین“ کا تذکرہ کیا، اسی طرح رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے بھی ”مَنْ كَانَ عَلَى مَا أَنَا عَلَيْهِ الْيَوْمَ“ کے بعد ”وَأَصْحَابِي“ کا اضافہ فرمایا جس سے یہ بات دو دو چار کی طرح واضح ہے کہ جس سبیل المؤمنین سے روگردانی کو اللہ تعالی نے ہلاکت اور دخول جہنم کا باعث قرار دیا ہے وہ صحابہ کرام کی راہ ہے، کیونکہ یہ صحابہ کرام جس دین پر قائم تھے اس کی انھیں کسی دوسرے نے نہیں، بلکہ خود رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ٹریننگ دی تھی اور انھیں بار بار یہ تاکید کی تھی کہ انھیں اس دین کی حفاظت بھی کرنی ہے اور آنے والی نسل تک صاف وشفاف شکل میں اسے پہنچانا بھی ہے۔ چنانچہ آپ اپنے ہر خطبہ جمعہ میں انھیں بدعت سے تحذیر کرتے تھے، نیز پیشن گوئی بھی کی تھی کہ عنقریب کچھ فتنہ پرور آئیں گے اور اس دین کو بگاڑنے اور اس کے صاف وشفاف چہرے کو مسخ کرنے کی کوشش کریں گے۔ آپ نے انھیں تنبیہ کرتے ہوئے ارشاد فرمایا تھا:
فإنَّه من يَعِشْ منكم بَعْدي فسَيَرى اختلافًا كثيرًا
(جو میرے بعد زندہ رہے گا وہ بہت زیادہ اختلافات دیکھے گا)
اور انھیں ان فتنوں سے مقابلے کا طریقہ بھی سکھایا تھا، چنانچہ کہا تھا:
فعليكُم بسنَّتي وسُنَّةِ الخُلفاءِ، المَهديِّينَ الرَّاشدينَ، تَمَسَّكوا بها وعَضُّوا عليها بالنَّواجذِ، وإيَّاكم ومُحْدَثاتِ الأمورِ، فإن كُلَّ مُحدَثَةٍ بدْعَةٌ، وكل بدعَةٍ ضَلالةٌ”۔
(ایسے موقع پر تم میری سنت اور ہدایت یافتہ خلفائے راشدین کی سنت کو مضبوطی سے اپنی ڈاڑھ کی دانتوں سے پکڑے رہنا اور نئی چیزوں کی ایجاد سے دور رہنا، کیونکہ ہر نئی چیز بدعت ہے اور ہر بدعت گمراہی ہے)
(سنن ابی داود، حدیث نمبر4607، وسنن ابن ماجہ 43، 44، وغیرہ، علامہ البانی رحمہ اللہ نے ارواء الغلیل 2455 میں اسے صحیح قرار دیا ہے)
صحابہ کرام نے یہ ڈیوٹی پوری امانت داری اور مستعدی کے ساتھ نبھائی۔ چنانچہ جب عثمان غنی رضی اللہ عنہ کے شہید کیے جانے کے بعد خوارج وروافض اور کذاب ومتہم روات کے فتنوں کا ظہور ہوا تو انھوں نے عملی تطبیق کے ذریعہ امت کو سمجھایا کہ کیسے راہ سلف ہی نجات کا ضامن ہے۔ چنانچہ جب عباس رضی اللہ عنہ خوارج سے مناظرہ کرنے کے لیے ان کے پاس گئے تو انھیں کہا:
“أَتَيْتُكُمْ مِنْ عِنْدِ أَصْحَابِ النَّبِيِّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ الْمُهَاجِرِينَ، وَالْأَنْصَارِ، وَمِنْ عِنْدِ ابْنِ عَمِّ النَّبِيِّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَصِهْرِهِ، وَعَلَيْهِمْ نُزِّلَ الْقُرْآنُ، فَهُمْ أَعْلَمُ بِتَأْوِيلِهِ مِنْكُمْ، وَلَيْسَ فِيكُمْ مِنْهُمْ أَحَدٌ”.
(میں تمھارے یہاں صحابہ کرام مہاجرین وانصار کے پاس سے آیا ہوں، نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے چچا زاد بھائی اور ان کے داماد کے پاس سے آیا ہوں جن کے سامنے قرآن نازل ہوا، لہذا وہ اس کی تفسیر تم سے زیادہ جانتے ہیں اور تم میں سے کوئی بھی ان میں سے -یعنی صحابہ کرام میں سے- نہیں ہے)
(المستدرک للحاکم، حدیث نمبر 2656، والسنن الکبری للبیہقی 16740)
آپ حبر الامت ابن عباس رضی اللہ عنہ کے الفاظ پر غور کریں کہ کیسے انھوں نے خوارج کے سامنے ان کی گمراہی کو واضح کیا اور ان کی گمراہی کی سب سے اہم وجہ یہ بیان کی کہ تم میں سے کوئی اصحاب رسول میں سے نہیں اور تم ان کی راہ پر گامزن نہیں جو قرآن اور دین کو تم سے بہتر جاننے اور سمجھنے والے ہیں۔
یہی بات عبد اللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ نے بھی کوفہ کی مسجد میں ان لوگوں کے سامنے کہی تھی جو الگ الگ گروپ کی شکل میں تسبیح وتہلیل میں مشغول تھے:
“لَقَدْ فَضَلْتُمْ أَصْحَابَ مُحَمَّدٍ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ عِلْمًا, أَوْ لَقَدْ جِئْتُمْ بِبِدْعَةٍ ظُلْمًا”۔ (البدع لابن وضاح1/ 35)
(یا تو تم علم میں صحابہ کرام سے بھی آگے بڑھ گئے ہو یا پھر تم نے ظلم وزیادتی کرتے ہوئے یہ بدعت ایجاد کی ہے) کیونکہ تمھارا یہ طریقہ اس دین سے میل نہیں کھاتا جو دین اللہ کے رسول نے ہم صحابہ کو سکھایا تھا۔ چنانچہ آپ رضی اللہ عنہ لوگوں کو نصیحت کرتے ہوئے فرماتے ہیں:
«مَنْ كَانَ مِنْكُمْ مُتَأَسِّيًا فَلْيَتَأَسَّ بِأَصْحَابِ مُحَمَّدٍ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ؛ فَإِنَّهُمْ كَانُوا أَبَرَّ هَذِهِ الْأُمَّةِ قُلُوبًا وَأَعْمَقَهَا عِلْمًا وَأَقَلَّهَا تَكَلُّفًا وَأَقْوَمَهَا هَدْيًا وَأَحْسَنَهَا حَالًا، قَوْمًا اخْتَارَهُمُ اللَّهُ تَعَالَى لِصُحْبَةِ نَبِيِّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَاعْرِفُوا لَهُمْ فَضْلَهُمْ وَاتَّبِعُوهُمْ فِي آثَارِهِمْ؛ فَإِنَّهُمْ كَانُوا عَلَى الْهُدَى الْمُسْتَقِيمِ» (جامع بيان العلم وفضله 2/ 947)
(تم میں سے جو کسی کی اقتدا کرنا چاہے اسے چاہیے کہ وہ صحابہ کرام کی اقتدا کرے، وہ اس امت کے سب سے زیادہ نیک دل، سب سے زیادہ گہرے علم والے، سب سے کم تکلف کرنے والے، سب سے زیادہ ہدایت کے سیدھے راستے پر چلنے والے اور سب سے بہترین احوال والے تھے، ایسے لوگ جنھیں اللہ تعالی نے اپنے نبی کی صحبت کے لیے چن لیا تھا، اس لیے ان کے مقام ومرتبے کو سمجھو اور ان کی اتباع کرو، کیونکہ وہ سب ہدایت کے سیدھے راستے پر گامزن تھے)
پس پتہ چلا کہ کتاب وسنت اور سلف صالحین کے نصوص کی روشنی میں راہ سلف سے مراد صحابہ کرام کی راہ ہے اور جو بھی ان کے بعد احسان کے ساتھ ان کی اتباع کرنے والا ہو ان کی راہ ہے اور اس میں تابعین، تبع تابعین اور تبع اتباع التابعین سب سے پہلے داخل ہوتے ہیں کیونکہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان کا تزکیہ کیا ہے اور ان کے دور کو خیر القرون کے لقب سے ملقب کیا ہے۔
آپ کے تبصرے