تذکرہ نویسی پر ایک مقدمہ

تنقید و تحقیق عبدالرزاق عبدالغفار سلفی

کچھ اور ہی نظر آتا ہے کاروبار جہاں

نگاہ شوق اگر ہو شریک بینائی

(اقبال)

تاریخ و تراجم ایک بہت اہم اور مہتم بالشان فن ہے، کاروان رفتہ کے نقوش کا سراغ لگانے، تاریخ و تراجم پڑھنے، اس کا مطالعہ کرنے اور سابقہ لوگوں کے احوال کی معرفت رکھنے میں بہت سارے فائدے ہیں۔ ان میں سب سے اہم چیز یہ ہے کہ ان کے ساتھ زندگی میں جو واقعات اور حادثات پیش آئے ان سے نصیحتیں اور عبرتیں ملتی ہیں، ہمیں اپنی زندگیوں میں ان عبرتوں اور نصیحتوں کو برتنا بھی چاہیے۔ چنانچہ جب ہم ان کی غلطیوں، خطاؤں اور لغزشوں سے دوری بنائے رکھیں گے اور ان کے اچھے اعمال کو اپنائیں گے، تو ہماری زندگیاں سنور جائیں گی۔ یہی وجہ ہے کہ مؤرخین اور محدثین نے ان تاریخ و تراجم کو مرتب کرنے میں بڑی عرق ریزی سے کام لیا ہے اور شروع سے ہی اس کا ایک سلسلہ چلا آرہا ہے۔ تاریخ گواہ ہے کہ تاریخ وتراجم پر سب سے پہلے مسلمانوں نے ہی کام کرنا شروع کیا اور قرآن ہی ایک ایسی کتاب ہے، جس نے سابقہ قوموں کی تاریخ کو بیان کرکے تاریخ و تراجم کی بنیاد رکھی ہے، قرآن کریم نے بہت ساری سابقہ قوموں کی تاریخ اور ان کے واقعات کو اجمالا بیان کیا ہے، جن کو مسلمانوں نے پڑھا اور ان سے سبق لے کر اپنی تاریخ کو مرتب کرنا شروع کیا، اس کے بعد اوروں نے بھی اپنے پیش رؤوں کی تاریخوں اور ان کے تراجم کو مرتب کرنا سیکھا اور شروع کیا۔ بہت سارے بے نام و گمنام لوگوں کو اس فن نے حیات جاوید بخش دی ہے، انسانی تاریخ کے ابتدائی ایام اور دور جاہلیت میں قلم کی طاقت کا انکار نہیں کیا جاسکتا ہے، مگر اس کے دھندلے نقوش اور عکس ہی سامنے نظر آتے ہیں، ورنہ زیادہ تر تواریخ و تراجم زبانی یاد اور حافظہ میں محفوظ کر لی جاتی تھیں، زبانی ہی سنائی بھی جاتی تھیں، یہی وجہ ہے کہ اوروں کی تاریخ پردۂ خفا و ذھول میں ہے اور مسلمانوں کی بعثت نبوی سے لے کر آج تک کی تاریخ کے شب و روز سورج کی کرنوں کی طرح واضح اور صاف ہے، جس دور میں جو واقعہ پیش آیا اور جو شخصیت اچھے یا برے حالات سے گزری، اس کے نقوش اوراق عالم پر ثبت ہو گئے اور آج وہ واقعات و حادثات ہمارے سامنے رہنمائی کا سامان فراہم کرتے ہیں۔ اسی سلسلۂ ذہبیہ کی ایک کڑی ہمارے ہندوستانی اہل حق علماء کی کوششوں کا نتیجہ ہے کہ ہمارے سامنے ہمارے اسلاف کی سوانح عمریاں موجود ہیں۔ یہ سلسلہ تا قیامت چلتا رہے گا، لوگ آتے رہیں گے اور اپنے اپنے انداز میں اپنے اسلاف کی تاریخیں مرتب کرتے رہیں گے اور ہر آنے والی نئی نسل اس سے مستفید ہوتی رہے گی، ان شاء الله ۔

چنانچہ جب ہمارے بزرگ مولانا عبد الرؤف خان ندوی حفظہ اللہ و تولاہ نے مجھے فون کیا اور کہنے لگے کہ ’’کاروان سلف“ کی بارہویں جلد پر مقدمہ لکھ دیجیے تو میں نے فورا عرض کیا کہ تیسری جلد پر میں مقدمہ لکھ چکا ہوں، کہنے لگے ہاں ہاں مجھے معلوم ہے مگر میری دلی خواہش ہے کہ اس آخری جلد پر بھی آپ ہی مقدمہ لکھیں تو مجھے خوشی ہوگی، یوں تو میں اپنے بزرگوں کی باتوں کو جلد ٹالتا نہیں ہوں، اس کے باوجود میں نے بڑی آنا کانی کی، بات ٹالنے اور دامن بچانے کی ہر ممکن کوشش کی، مگر میری ایک نہ چلی، مولانا نے کہا کہ صاف صاف بتائیے اور مجھے مایوس نہ کیجیے، پھر میں نے ہامی بھر لی اور گزارش کی کہ تمام جلدوں پر لکھے گئے مقدمات میرے پاس پی ڈی ایف میں روانہ فرما دیں، میں اپنے پیش رو بزرگوں کے مقدمات پڑھنا چاہتا ہوں، پھر کچھ لکھنے کی کوشش کروں گا۔ إن شاء الله

تمام مقدمات میرے پاس آگئے، میں نے ان کا مطالعہ کیا اور ہر ایک پر گہری نظر ڈالی، دو مقدمات پر نظر آکر ٹھہر گئی اور وہ دونوں مقدمات ہمارے نہایت درجہ معزز و مکرم مشائخ و دکاترہ کے ہیں، ان مقدمات کو کئی بار پڑھا، پھر گہری سوچ میں اتر گیا، سوچتا رہا کہ ان پر استدراک کروں یا نہ کروں، لفظ استدراک جب سامنے آیا تو ہمارے نہایت محترم بزرگ کی یاد ستانے لگی، ہمارے شیخ محترم علم کا سمندر ہیں، دینی مسائل میں بڑا درک رکھتے ہیں، احادیث نبوی ازبر ہیں اور صحیح و ضعیف کا فرق بھی رکھتے ہیں، غرض کہ مطالعہ وسیع ہے اور حاضر جواب بھی ہیں، اردو، عربی اور فارسی کے اشعار نوک زبان پر ہوتے ہیں اور بر محل پڑھتے بھی ہیں، نیز اپنے خیالات اور فکر میں ٹھوس ثبوت رکھتے ہیں، پھر جس بات کو حق سمجھتے ہیں اس کے اظہار میں کوئی جھجھک محسوس نہیں کرتے ہیں، بےخوف و بے لاگ تبصرہ کرتے ہیں اور اپنی بات منوانے پر اصرار بھی کرتے ہیں، جس کی بنا پر کبھی کبھی بعض احباب کے درمیان اختلاف رائے کا اظہار بھی ہونے لگتا ہے اور کبھی کبھار بات تلخی تک بھی پہنچ جاتی ہے، مگر شیخ اپنے موقف سے ٹس مس نہیں ہوتے ہیں، اسی بنیاد پر بعض احباب اسے شیخ کے تصلب و تفرد سے تعبیر کرتے ہیں۔ ان چند گزارشات کو پیش کرنے کا مقصد یہ ہے کہ شیخ اپنے اس مقدمہ میں بھی ایسی چند باتیں لکھ گئے ہیں، جن پر استدراک کرنا ضروری خیال کرتا ہوں، تاکہ قاری کے ذہن میں کوئی الجھن ہو تو دور ہو جائے، شیخ نے اپنے مقدمے میں چار باتیں بڑی شد و مد سے لکھی ہیں، ایک لفظ ’’ مثالب “ ہے، دوسرے ’’ کاروان سلف “ تیسرے ’’ انتساب “ اور چوتھا لفظ ’’ ناچیز “ ہے ۔ (ج۱۰ ص۱۵/۱۹/۲۰/۲۱)

یہ چاروں معروف الفاظ ہیں، ان میں سے تین کا استعمال ہر پڑھا لکھا شخص کرتا ہے اور ان کے استعمال میں کوئی قباحت محسوس نہیں کرتا ہے، مگر ہمارے شیخ صاحب کو ان الفاظ کے محل استعمال پر بڑا اعتراض ہے، اس پوری بحث کو اگر میں طول دینا چاہوں تو گفتگو لمبی ہو جائے گی اور یہ اس کا مقام نہیں، اس لیے میں اختصار کے ساتھ بات کو سمیٹنے کی کوشش کروں گا، ان شاءاللہ ۔

سر دست میں سب سے پہلے لفظ ’’ناچیز“ پر بات کروں گا، باذن اللہ

ہمارے محترم شیخ صاحب کہتے ہیں کہ کوئی بھی شخص بطور خاکساری اپنے آپ کو ’’ناچیز“ نہیں لکھ سکتا ہے کیوں کہ وہ بہر حال کوئی چیز تو ہے۔ شیخ محترم کے الفاظ ملاحظہ فرمائیں وہ لکھتے ہیں :

’’مولانا ندوی صاحب اپنی کتاب کی ۹/۱۳ پر ارشاد فرما ہیں ’’قارئین کرام وہمدردان عظام سے بصد احترام گزارش ہے کہ وہ بوقت مطالعہ مجھ ’’ناچیز‘‘ کو اپنی دعاؤں میں یاد رکھیں‘‘

مولانا ندوی حفظہ اللہ کی اس استدعا پر ہمارے شیخ محترم یوں تبصرہ نواز ہیں :

’’ میں تو کہتا ہوں کہ ’’ ناچیز “ تو شئی غیر موجود ہوئی، پس جب شئی غیر موجود ہوئی تو اس کے لیے دعا کیوں کر کی جا سکتی ہے قارئین کرام کو معلوم ہونا چاہئے کہ بہت سے علمائے مفسرین نے قرآن کریم میں ’’مجاز “ کے پائے جانے کا انکار کیا ہے، کیوں کہ مجازی بات کرنے والے کی تکذیب عین ممکن ہے۔ مثلا کوئی اگر کہے کہ ’’رأیت اليوم أسدا فوق المنبر“ تو سننے والا فورا یہ کہ کر تکذیب کر سکتا ہے کہ تم جھوٹ بولتے ہو کیوں کہ وہ شیر نہیں بلکہ ایک انسان تھا، پس اس طرح سے قرآن کریم کی تکذیب ممکن ہوئی جو کفر صریح ہے اسی طرح ’’ ناچیز “ وغیرہ جیسے مبالغہ آمیز الفاظ کا حال بھی ہے جن کے سنتے ہی جھوٹ ہونے کا احساس ہوتا ہے “ الی آخرہ۔ (ج۱۰ ص۲۰/۲۱ )

شیخ محترم حفظہ اللہ و متعنا الله بطول حیاتہ کی اس تشریح و تصریح پر کئی طرح سے کلام کیا جا سکتا ہے مگر میں مختصرا عرض کروں گا کہ شیخ محترم کی یہ توجیہ کسی بھی طرح درست نہیں ہے، ایک تو یہ کہنا ’’ کہ بہت سے علمائے مفسرین نے قرآن کریم میں مجاز کے پائے جانے کا انکار کیا ہے “ اس عبارت سے ہی معلوم ہوتا ہے کہ ’’مجاز“ کے تعلق سے علماء کے درمیان اختلاف ہے کچھ قائل ہیں کچھ منکر، مگر جمہور علماء پائے جانے کے قائل ہیں۔( دیکھیے: البرهان فى علوم القرآن، ص ۴۷۴ )

مجاز کا لغت میں معنی ہے کہ اصلی کے بجائے اعتباری وجود، جو حقیقت کے برعکس ہو، جوحقیقت نہ ہو، وہ کلمہ جو اپنے غیر حقیقی معنی میں مستعمل ہو، مثال کے طور پر ’’تیغ ابرو نے ہم کو قتل کیا “ یہاں پر ہمیں مجاز، مجاز مرسل، تشبیہ اور استعارہ کی بحثوں میں الجھنے کی ضرورت نہیں ہے، صرف یہ عرض کرنا ہے کہ ہر زبان کی اپنی خاصیت ہے اور اس میں مروج ایک طرز گفتگو ہے، ضروری نہیں کہ اگر ایک زبان میں ’’ مجاز‘‘ نہیں ہے تو دوسری زبان میں بھی نہ پایا جائے، ہماری زبان میں کہتے ہیں کہ میرا بیٹا ’’چاند‘‘ ہے، فلاں شخص ’’شیر ہے “۔

اسی طرح شیخ محترم اپنی مترجم کتاب ’’ مکمل نماز نبوی “ کے ص ۵۷ پر کسی عالم دین کے بارے میں یوں لب کشا ہیں :

’’ ایک صاحب اور ہیں جنھیں مدت تک سلفیت کا شیر اور داخل و خارج کا مرد میدان سمجھا جاتا تھا۔“ ( مکمل نماز نبوی ص ۵۷، فرید بک ڈپو طبع دوم۲۰۰۱ء)

شیخ محترم یہاں خود بھی مجاز کی زبان میں گفتگو فرما رہے ہیں، ’’ میں الزام اس کو دیتا تھا قصور اپنا نکل آیا “ فتدبر !

میر تقی میر کا ایک بہت پیارا شعر ہے:

نازکی اس کے لب کی کیا کہیے

پنکھڑی اک گلاب کی سی ہے

اس طرح کی تشبیہات اصل میں مجازی معنی ہی رکھتی ہیں اور عام بول چال میں ان کا استعمال ہوتا ہے، میں کہہ سکتا ہوں کہ شیخ کا جو علمی مقام ہے، ان کے سامنے میں کچھ بھی نہیں ہوں، تو شیخ محترم فورا جواب دیں گے، نہیں نہیں تمہارا ایک وجود ہے اور تم کچھ تو بہر حال ہو، جب کہ ’’کچھ بھی نہیں ہوں “ کا مطلب یہ ہے کہ میں شیخ حفظہ اللہ کے اعتبار سے قلیل العلم ہوں اور یہ سچ بھی ہے، اسی طرح امام شافعی رحمہ اللہ کا ایک شعر ہے:

احب الصالحين و لست منهم

لعل الله يرزقنى صلاحا

یہاں پر امام شافعی رحمہ الله اپنی فروتنی اور کسر نفسی کا اظہار فرما رہے ہیں کہ میں صالحین اور نیک لوگوں میں سے نہیں ہوں، مگر صالحین اور نیک کاروں کو پسند ضرور کرتاہوں، ممکن ہے کہ اللہ تعالیٰ مجھے صالحیت اور نیکی سے ہم کنار کر دے، سبحان اللہ رحمہ اللہ و غفر لہ

در اصل شیخ صاحب ’’ ناچیز “ لفظ کا اردو ترجمہ کرتے ہیں اور وہ درست بھی ہے، لیکن اصحاب لغت اس کا دوسرا معنی بھی بیان کرتے ہیں مثلاً ادنیٰ، کم تر اور خاکساری کے معنی میں لیتے ہیں اور یہی بات زیادہ قرین قیاس اور صحیح بھی ہے، جب کوئی شخص اپنے آپ کو ’’ ناچیز “ کہتا یا لکھتا ہے تو قطعا کسی کا ذہن اس طرف نہیں جاتا ہے کہ وہ جھوٹ بول رہا ہے، بلکہ ذہن فورا اس طرف مڑ جاتا ہے کہ وہ شخص بطور کسر نفسی اور خاکساری کی بنا پر کہہ رہا ہے اور یہی سچ ہے، بعض الفاظ سماعی طور پر استعمال کیے جاتے ہیں اور ان کا وہی اعتبار ہو گا جو اہل زبان بولتے اور لکھتے ہیں، اگر اصحاب لغت اور دہلی و لکھنؤ کے اہل زبان کسی لفظ کا کوئی معنی بتاتے ہیں، تو ہمیں ان کا ساتھ دینا ہی پڑے گا، ایسا نہیں ہو سکتا ہے کہ اب ہم اس لفظ کا لفظی ترجمہ کرنے بیٹھ جائیں اور اس پر اصرار کرنے لگیں، مجاز کا استعمال ہر زبان میں ہے اور اس سے زبان میں حسن و نکھار پیدا ہوتا ہے، عربی زبان کی مثال لے لیجیے، اللہ کے رسول ﷺ نے ایک بار حضرت علی رضی اللہ عنہ کو مسجد نبوی میں فرش پر لیٹا ہوا پایا ’’ ابو تراب “ سے پکار لیا، تو وہ آپ کا لقب پڑ گیا اور آپ کے نام کا جزو لا ینفک بن گیا، اب آپ کہیں گے کہ یہ کہنا غلط ہے اس لیے کہ وہ مٹی کے باپ تو ہیں نہیں وہ تو حسن اور حسین رضی اللہ عنہما کے باپ ہیں، اسی طرح سیف اللہ، اسد اللہ، ذو النورین، ذو الیدین، ذو الوجہین، ابو لہب، ابو الحکم اور ابو جہل وغیرہ القاب سے استدلال کیا جا سکتا ہے۔ حدیث شریف میں مجاز کے تعلق سے تو بہت ہی حسین تعبیر آئی ہے ’’حضرت انس رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ ایک مرتبہ نبی کریم ﷺ سفر پر تھے اور حدی خوان امہات المؤمنین کی سواریوں کو ہانک رہا تھا، اس نے جانوروں کو تیزی کے ساتھ ہانکنا شروع کر دیا، اس پر نبی ﷺ نے ہنستے ہوئے فرمایا انجشہ ! ان آبگینوں کو آہستہ آہستہ لے کر چلو “ ( مسند احمد۱۲۷۶۱- بخاری ۶۲۰۹، مسلم۲۳۲۳ )

’’ ارفق بالقوارير “ کے الفاظ ہیں، اللہ کے رسول ﷺ ’’ جوامع الکلم “ سے نوازے گئے تھے، مجاز میں اتنی حسین و جمیل تعبیر اور کہاں پاؤ گے ؟ ایک اردو شاعر نے غالبا اسی ’’ قواریر “ کا ترجمہ اپنی زبان میں یوں کیا ہے :

خیال خاطر احباب چاہیے ہر دم

انیس ٹھیس نہ لگ جائے آبگینوں کو

( میر انیس )

اسی طرح عربی زبان میں دسیوں الفاظ مل جائیں گے، جو مجازی معنی رکھتے ہوں گے، میرے کہنے کا مقصود یہ ہے کہ ہرزبان اپنی ایک افتاد طبع رکھتی ہے اور اس کو اہل زبان استعمال کرتے ہیں، ’’کاروان سلف“کی گیارہویں جلد پر ایک بے حد معروف صاحب علم و قلم کا مقدمہ ہے، جو ایک معتبر اور بڑے عالم دین ہیں، جن کا مطالعہ بھی نا پیدا کنار ہے، انھوں نے بھی پانچ مقامات پر اپنی ذات کے تعلق سے لفظ ناچیز کا استعمال کیا ہے، اسی طرح ہماری جماعت کے معروف صاحب قلم، مشہور خطیب اور تقریباً تین درجن کتابوں کے مؤلف و مصنف اور مترجم جناب مولانا داؤد راز دہلوی رحمہ اللہ اپنی نہایت مشہور کتاب ’’ چمن اسلام حصہ پنجم “ کا انتساب معصوم بچوں اور بچیوں کے نام کرتے ہوئے یوں رقم طراز ہیں:

’’ان معصوم بچوں اور بچیوں کے نام جو سلسلہ چمن اسلام پڑھ کر دینی تعلیم سے آراستہ ہو رہے ہیں، جو آگے چل کر ملت کے محافظ اور کعبہ کے پاسبان بننے والے ہیں، میں اپنی اس ناچیز کتاب کو منسوب کرتا ہوں اور دعا گو ہوں کہ باری تعالیٰ ہماری آنے والی نسلوں کو ہر قسم کے شیطانی وسوسوں سے محفوظ رکھ کر سچا مسلمان بنائے آمین

ناچیز

محمد داؤد راز عفی عنہ

(سال طباعت۲۰۱۲ ء دہلی)

یہاں پر مولانا داؤد راز رحمہ اللہ اپنی کتاب ’’ چمن اسلام “ کو اور پھر اپنی ذات کو بھی لفظ ناچیز سے تعبیر کرتے ہیں یہ ہمارے بزرگوں اور اسلاف کی کسر نفسی ہے، تو کیا وہ غلط ہے ؟ نہیں، اگر اہل زبان استعمال کرتے ہیں، تو ہم بھی کریں گے اس میں کوئی مضائقہ نہیں ہے اور لغت بھی ہمارے ساتھ ساتھ ہے، یہاں نگاہ شوق کا اعتبار ہوگا کہ ہماری نظر کہاں تک جاتی ہے:

وہ کرے بات تو ہر لفظ سے خوشبو آئے

ایسی بولی وہی بولے جسے اردو آئے

یہ میری ذاتی رائے ہے، مجھے اپنی کسی بات پر اصرار نہیں، اگر کوئی صاحب لفظ ’’ ناچیز “ سے بچنا چاہتے ہیں تو افضل و اولیٰ ہے، اس لیے کہ بعض اہل علم اس کو صوفیوں کی اصطلاح بتاتے ہیں، لیکن میں دلائل کی روشنی میں بہر حال جواز کا قائل ہوں ۔

اب آئیے لفظ ’’کاروان سلف“ پر مختصرا گفتگو کر لیتے ہیں، ہمارے یہی محترم شیخ حفظہ اللہ ہیں جو ارشاد فرماتے ہیں کہ جب کتاب کا نام ’’کاروان سلف “ ہے تو پھر اس میں موجودین اصحاب علم و فضل کا تذکرہ کرنا مناسب نہیں ہے اس لیے کہ لفظ ’’ سلف “ گزرے ہوئے لوگوں پر بولاجاتا ہے، کیوں کہ ’’سلف‘‘ لغوی اعتبار سے لفظ ’’سالف “ کی جمع ہے اور خود لفظ سلف کی جمع ’’اسلاف “ آتی ہے، چنانچہ اگر موجودین کا ذکر کرنا ہے، تو ’’سلفی کارواں“ نام رکھنا پڑے گا، لفظ سلفی “احياء و اموات ’’دونوں کو شامل ہے “ ( ج۱۰ص۱۹)

ہمارےشیخ محترم نے بالکل درست ارشاد فرمایا ہے، لیکن میرا ماننا یہ ہے کہ اگر موجودین کا تعلق سلف صالحین سے ہے اور وہ ان کی طرف نسبت رکھتے ہیں تو ’’کاروان سلف “ میں ان کا ذکر کر نا زیادہ سے زیادہ افضل اور راجح کے خلاف تو کہا جا سکتا ہے، مگر کوئی عیب کی بات نہیں ہے، اس لیے کہ وہ بھی اسی کارواں کا ایک حصہ ہیں اور انہی کے نقش قدم پر رواں ہیں، قرآن کریم نے اس کے لیے بڑی ہی بلیغ اور معنی خیز تعبیر استعمال کی ہے۔

ارشاد ربانی ہے :

’’من ألمؤمنین رجال صدقوا ما عاهدو الله عليه فمنهم من قضى نحبه ومنهم من ينتظر وما بدلوا تبديلا“ (الأحزاب ٢٣)

یہاں پر قرآن کریم نے گزرے ہوئے لوگوں ( فوت شدہ ) اور موجودہ حضرات کا ذکر ایک ہی پیرائے میں کیا ہے اور کہا ہے کہ دونوں ایک ہی کارواں کا حصہ ہیں، ایک گروہ اپنا عہد پورا کر چکا ہے، جب کہ دوسرا منتظر ہے گویا کہ دونوں ایک ہی کارواں میں شامل ہیں، ایک اپنا سفر طے کر چکا ہے اور دوسرا حالت سفر میں ہے۔هذا ما عندى والصواب عند الله.

اب آئیے لفظ ’’مثالب“ پر بات کرتے ہیں، شیخ کا فرمانا ہے کہ لوگ عموما جب شخصیات پر گفتگو کرتے ہیں یا ان کی حیات و خدمات پر کچھ لکھتے ہیں، تو صرف محاسن اور مناقب کا ہی ذکر کرتے ہیں، مثالب سے چپی سادھ لیتے ہیں، لیکن شیخ محترم نے یہ وضاحت نہیں فرمائی ہے کہ ’’مثالب “ سے ان کی کیا مراد ہے ؟ کن اسباب کی بنا پر ’’مثالب “ پر گفتگو جائز ہوگی اور کن ظروف میں ناجائز، یہ غیبت کے مسئلہ پر غور و فکر کرنے کے بعد معلوم ہوگا ایک ایسا شخص ہے، جو کسی آدمی کی سوانح لکھ رہا ہے اور اس کے سامنے اس شخص کے صرف مناقب اور محاسن ہی ہیں تو وہ مثالب کو کہاں سے تلاش کر لائے گا، مثالب کا تعلق ماضی اور حال سے ہوتا ہے، لیکن لکھنے والا جس کی سیرت لکھ رہا ہے، وہ ان کے ماضی کے مثالب سے نا واقف ہے اور حال میں ان کا ہم عصر نہیں تھا، پھر مثالب کے تعلق سے کسی کا بیان یا کوئی کتاب بھی موجود نہیں ہے، تو اب لکھنے والے کو مثالب سے واقفیت کیسے پیدا ہو اور مثالب سے دین میں کوئی خلل یا عوام کی گمراہی کا سبب نہ بن رہے ہوں، تو پھر ان مثالب کے ذکر کا فائدہ کیا ہے ؟ جب کہ ایک طرف حکم نبوی علیہ السلام ہے ’’من ستر مسلما ستره الله فى الدنيا و الآخرة“ ( مسلم۲۶۹۹، ترمذی۱۴۲۵)

ہاں اگر ان مثالب سے دین میں کوئی خلل پڑ رہا ہے یا وہ مثالب عوام کی گمراہی کا سبب بن رہے ہیں، تو بے شک ان کا ذکر کرنا واجب ہو جاتا ہے، علامہ الطاف حسین حالی نے اپنی مسدس میں گروہ محدثین کی طرف اشارہ کرتے ہوئے اسی بات کو کتنی عمدگی سے ادا کیا ہے:

کیا فاش راوی میں جو عیب پایا مناقب کو چھانا مثالب کو تایا

مشائخ میں جو قبح نکلا جتایا ائمہ میں جو داغ دیکھا بتایا

طلسم ورع ہر مقدس کا توڑا

نہ ملا کو چھوڑا نہ صوفی کو چھوڑا

میں نے بر صغیر کے بہت سارے اسلاف کی سوانح حیات کا مطالعہ کیا ہے، مگر ایک آدھ باتوں کو چھوڑ کر کہیں بھی مثالب کا ذکر نہیں ملتا ہے، اور وہ بھی فقط الزامات ہیں، مثال کے طور پر میاں سید نذیر حسین دھلوی، نواب صدیق حسن خاں قنوجی ثم بھوپالی اور مولانا محمد حسین بٹالوی وغیرہ کی زندگیوں کا جب ہم مطالعہ کرتے ہیں، تو صرف ایک ہی بات پاتے ہیں کہ اغیار ان پر انگریز دوستی کا بے بنیاد الزام لگاتے ہیں، جس کی تردید ہمارے علماء کرتے رہے ہیں اور کرتے رہیں گے، ان شاء الله۔

اب شیخ حفظہ اللہ سے ایک سوال ہے کہ کیا انھوں نے اپنی مترجم کتاب ’’مکمل نماز نبوی “ میں صاحب کتاب رحمہ اللہ کے مثالب کا ذکر کیا ہے، اگر نہیں تو کیوں؟

جب کہ دوسری جانب اسی کتاب کے مقدمہ میں بعض کبار علماء اہلحدیث کے زیادہ تر ’’مثالب “ ہی بیان کیے گئے ہیں اور وہ بہت حد تک درست بھی ہیں، پھر بھی کیا ہمارے حضرت مدظلہ یہاں پر افراط و تفریط کی مثال نہیں قائم کر رہے ہیں؟

کوئی بتلاؤ کہ ہم بتلائیں کیا؟

آئیے اب لفظ ’’انتساب “ کے تعلق سے بھی گفتگو کر لیتے ہیں، ہمارے شیخ مکرم ارشاد فرماتے ہیں کہ کتابوں کا ’’انتساب“ کسی کی طرف کرنا جائز نہیں ہے، اس کا اسلام سے کوئی تعلق نہیں ہے اور یہ غیر مسلموں کی مشابہت ہے، جس سے ہمیں اسلام نے سختی سے دور رہنے کا حکم دیا ہے“ ( ج۱۰ ص۲۰ )

شیخ محترم طال عمرہ کی اس بات سے بھی اتفاق کرنا ذرا مشکل ہے، تشبہ بالقوم، تعبدی امور اور عقود و معاملات کی تفصیل میں جانے سے بہتر ہے کہ سائل کے اس سوال کا جواب دیا جائے کہ اگر ایک کتاب کا ’’انتساب “ ایک زندہ یا مردہ شخص کی طرف کرنا جائز نہیں، تو پھر یہ بتایا جائے کہ پورے کے پورے ادارے کا انتساب کسی ایک شخص کی طرف کرنا کس زمرے میں داخل ہو گا ؟ اور اس ’’انتساب “ پر کیا حکم لگایا جائے گا ؟، مثال کے طور پر جامعة الملك سعود، جامعة الملك فيصل،جامعة الإمام محمد بن سعود الإسلامية، جامعة الملك عبد العزيز، جامعة ابن تيميه، جامعة الإمام البخارى، مركز الإمام ابن باز، مركز الإمام الالبانى و عثیمین وغیرہ وغیرہ

اب ایک سوال اور سامنے آتا ہے کہ اگر ان جامعات اور مراکز کا انتساب و نسبت جائز نہیں ہے، تو پھر ان جگہوں پر دینی خدمات انجام دینا کس طرح جائز ہوگا؟ یہی نہیں بلکہ ان جامعات کے فارغین جب اپنی نسبت ان کی طرف کرکے اپنے آپ کو سلفی، مکی، مدنی، تیمی، بخاری، سنابلی، ندوی، فیضی، اثری اور عمری وغیرہ لکھتے ہیں اور اگر ہم ’’سلف“ کی طرف نسبت کرکے اپنے آپ کو ’’سلفی “ کہتے ہیں تو پھر یہ نسبت اور انتساب بھی دائرۂ شک میں داخل ہو گا، اس لیے شریعت کی روشنی میں ایک متفقہ فیصلہ کیا جائے کہ کون سی نسبت جائز ہے اور کون سی ناجائز ؟ اس لیے میرے خیال میں استاذ گرامی مولانا ابو العاص وحیدی حفظہ اللہ کی یہ بات زیادہ قرین قیاس ہے کہ اس ’’انتساب “ کا تعلق بس اتنا ہے کہ “اس کا مقصد ان شخصیات کے علمی و دینی خدمات کا اعتراف ہے اور اس میں کوئی شرعی قباحت نہیں ہے۔“ ( ج۱۱ ص ۵۱/۵۲ )

استاذ گرامی کی پہلی بات سے بھی اتفاق کرنا مشکل ہے، جس میں وہ کہتے ہیں کہ ’’اگر زندوں کے نام انتساب ہو تو اس کا مقصد انھیں ترغیب و تشویق دینا ہوتا ہے“ یہ بات اس وقت درست ہوگی جب کوئی بڑا آدمی کسی چھوٹے شخص کی طرف انتساب کرے گا، جیسا کہ مولانا داؤد راز دھلوی رحمہ اللہ نے اپنی کتاب ’’چمن اسلام“ کا انتساب معصوم بچوں اور بچیوں کے نام کیا ہے، جب کہ اس کے بر عکس عموما دیکھنے میں ایسا آیا ہے کہ چھوٹا شخص ہی بڑے آدمی کی طرف انتساب کرتا ہے، تو پھر چھوٹا شخص بڑے آدمی کو کیا تشویق و ترغیب دے گا ؟ اس لیے دوسری بات ہی زیادہ صحیح ہے کہ انتساب سے اعتراف خدمات ہی مقصود ہے اور یہی اصل ہے۔

دوسری بات یہ ہے کہ ہم زمانۂ قدیم سے یہ دیکھتے چلے آرہے ہیں کہ لوگ اپنی ذات کو کسی قبیلہ، گاؤں، شہر یا ملک کی طرف منسوب کرتے رہے ہیں اور ہم اس میں کوئی عیب نہیں تلاش کر پا رہے ہیں، مثال کے طور پر حبشی، رومی، فارسی، عسقلانی، نیساپوری ترمذی وغیرہ وغیرہ اگر یہ ساری نسبتیں جائز ہیں اور ان کا رواج رہا ہے، تو اگر کوئی اپنی کسی خدمت کا انتساب اپنی کسی پسندیدہ شخصیت یا من پسند اور محبوب ادارے کی طرف کرتا ہے، تو اس میں عیب کیوں تلاش کیا جائے اور شریعت کے ترازو میں رکھ کر کیوں تولا جائے؟ ’’ان فى ذالك لذكرى لمن كان له قلب أو ألقى السمع و هو شهيد“ ( ق۳۷)

میں امام بخاری رحمہ اللہ کی ایک حدیث کی روشنی میں تمام مذکورہ بالا اداروں کے انتساب جو مذکورہ بالا شخصیات کی طرف ہیں جائز سمجھتا ہوں، اسی طرح شخصیات یا اداروں کی طرف کتابوں کے انتساب کو بھی جائز سمجھتا ہوں اور اس کے لیے میرے پاس صحیح بخاری کی مندرجہ ذیل روایت موجود ہے جس میں وہ بیان کرتے ہیں کہ:

’’عبد اللہ بن عمر رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول ﷺ نے ان گھوڑوں کی جنھیں (جہاد کے لیے) تیار کیا گیا تھا مقام حفیاء سے دوڑ کرائی، اس دوڑ کی حدثنیۃ الوداع تھی اور جو گھوڑے ابھی تیار نہیں ہوئے تھے، ان کی دوڑ ثنية الوداع سے مسجد بنی زریق تک کرائی، عبد اللہ بن عمر رضی اللہ عنہ نے بھی اس گھوڑ دوڑ میں شرکت کی تھی۔“ ( صحیح بخاری۲۸۶۸،۲۸۶۹،۲۸۷۰، ۷۳۳۶ )

اس حدیث میں میرا محل استدلال ’’مسجد بنی زریق “ ہے، یعنی کسی مسجد، مدرسہ، ادارہ یا کتاب کا انتساب کسی خاندان، شخص یا ادارہ کی طرف کرنا جائز ہے۔ اب اس حدیث کی روشنی میں، میں اس میں کوئی قباحت محسوس نہیں کر رہا ہوں کہ کسی کتاب کا انتساب کسی شخصیت یا ادارہ کی طرف کیا جائے، جیسا کہ میں نے سطور بالا میں ذکر کیا ہے کہ مولانا داؤد راز دہلوی رحمہ اللہ نے بھی اپنی کتاب چمن اسلام حصہ پنجم کا انتساب معصوم بچوں اور بچیوں کے نام کیا ہے، پھر یہ کہنا کہ اسلاف میں اس کا رواج نہیں تھا اور یہ غیر مسلموں کی مشابہت ہے، بے معنی اور کمزور دلیل ہے، والله اعلم بالصواب۔

ہم اپنے شیخ محترم حفظہ اللہ کے بڑے مداح اور معتقد ہیں، نیز ان کے علم و فضل اور دانش کے معترف بھی، اور میرے دل میں ان کے لیے بڑی ہی قدر و منزلت ہے، وہ سنت نبوی کے والہ وشیدا ہیں، میں ان کی دینی خدمات سے بے حد متاثر بھی ہوں، زکات و صدقات کے وصول و تقسیم میں وہ قابل تحسین ہی نہیں بلکہ قابل اتباع و پیروی ہیں، ان کی زندگی کا یہ ایک ایسا حسین کار نامہ ہے، جس کو میں نے کہیں نہیں دیکھا، و لا ازکی علی الله احدا، یہی وجہ ہے کہ جب ایک بار سوشل میڈیا پر ان کے خلاف رکیک اور ذاتی حملے شروع کیے گئے، تو اس مورچہ پر مجھے ہی آنا پڑا اور احباب کو محبت بھرا پیغام دینا پڑا، تب جا کر معاملہ تھما اور احباب معذرت کے ساتھ خاموش ہو گئے والاجر علی الله ۔

ان مذکورہ خوبیوں کے باوجود جب مقدمہ میں ان کی طرف سے لکھی ہوئی چند باتیں دل میں کھٹکنے لگیں، تو خیال آیا کہ احترام بر قرار رکھتے ہوئے علمی اور فکری اختلاف کرنا اور اس کا جواب دینا کوئی معیوب بات نہیں ہے، اس لیے کہ اختلاف رائے ہمارے اسلاف میں استاذ و شاگرد کے درمیان بھی پایا جاتا رہا ہے، علم و معرفت، تنقید و تنقیح اور تحقیق و تہذیب میں بڑا گہرا رشتہ ہے، جس سے علمی ترقی ہوتی ہے، اذہان کو فروغ ملتا ہے اور صلاحیتیں پروان چڑھتی ہیں۔ تنقید عیب نہیں ایک ہنر ہے، تنقید خدمت گزار ہے، ’’وہ ہر فن کی اسی طرح خدمت کرتی ہے جس طرح ڈاکٹر جسم کی اور مالی چمن کی کرتا ہے۔ ‘‘(تاریخ ادب اردو ص ۴۴۹)

کاروان سلف کی جلد۱۱؍پر ایک بے حد ذی علم، کثیر التصانیف اور وسیع المطالعہ حفظہ اللہ کا نہایت وقیع اور طویل مقدمہ ہے، مقدمہ پرمغز اور وسیع معلومات پر پھیلا ہوا ہے، جو صاحب مقدمہ حفظہ اللہ کی وسعت فکر و نظر پر دلالت کرتا ہے، صاحب مقدمہ مد ظلہ نے اپنی لمبی داستان حیات اور تاریخ و تراجم پر زندگی بھر کا حاصل مطالعہ تقریبا ۳۲؍صفحات پر انڈیل دیا ہے، جو معلومات افزا و دلچسپ بھی ہے اور میزان نقد و نظر میں تولنے کے لائق بھی، صاحب مقدمہ طال عمرہ کے علم و مطالعہ کو کوئی چیلنج نہیں کر سکتا ہے، مگر چند ملاحظات ہیں جن پر ہر چند گفتگو ممکن ہے، مقدمہ نگار متعنا اللہ بطول حیاتہ نے تاریخ و تراجم پر کتابوں کی ایک طویل فہرست پیش کی ہے، جس میں تقریبا۲۱۵؍کتابوں کا تذکرہ ہے، جن میں دو کتابیں مکرر ذکر کی گئی ہیں، کتابوں اور مصنفین کی اتنی طویل فہرست پیش کرنے کے باوجود چند کتابوں کا ذکر آنے سے رہ گیا ہے، مجھے یقین ہے کہ ان کتابوں میں سے اکثر مقدمہ نگار مد ظلہ کی نظر سے ضرور گزر چکی ہوں گی، مگر جانے کیوں مقدمہ نگار مدظلہ نے ان کا ذکر نہیں کیا ہے، اس لیے خیال کیا گیا کہ ان کا ذکر کرنا بھی مناسب ہے، عین ممکن ہے کہ مستقبل قریب یا بعید میں کوئی صاحب علم اس فہرست میں اور بھی اضافہ کریں ’’و فوق کل ذی علم علیم‘‘ اور یوں یہ ایک کارواں کی شکل اختیار کر تا چلا جائے۔

میں اکیلا ہی چلا تھا جانب منزل مگر

لوگ ساتھ آتے گئے اور کارواں بنتا گیا

(مجروح)

کتابوں کی اس طویل فہرست میں نواب صدیق حسن خاں قنوجی ثم بھوپالی رحمہ الله پر اور ان کی تصنیف کردہ کل (۱۲) بارہ کتابوں کا تذکرہ ملتا ہے، خوشی کا مقام ہے کہ مقدمہ نگار مد ظلہ العالی نے نواب رحمہ اللہ کا ذکر خیر کرنا مناسب سمجھا ہے، ورنہ ان کے بارے میں ان کے خیالات بہت اچھے اور خوشگوار نہیں تھے، میں آگے چل کر اس پر مختصرا گفتگو ضرور کروں گا ان شاء الله۔

سر دست میں تاریخ و تراجم پر ان کتابوں، مقالات اور مجلات کی فہرست پیش کرنا مناسب سمجھتا ہوں، جن کو مقدمہ نگار رعاہ اللہ من کل سوء نے یا تو نظر انداز کر دیا ہے، یا ان تک ان کی رسائی نہیں ہو سکی ہے، ویسے مجھے جانے کیوں دوسری بات پر یقین کم ہو رہا ہے، ہاں یہ تو ہو سکتا ہے کہ چند غیر معروف کتابیں اور مصادر و مراجع ان کی نظر سے اوجھل رہ گئے ہوں، مگر معروف کتابوں کا ذکر نہ کرنا ایک سوال ضرور پیدا کرتا ہے، بہرحال آئیے چند کتابوں اور ان کے مصنفین کے نام کے ساتھ ساتھ کچھ مجلات و مقالات کو بھی ذکر کرتا چلوں۔

(۱)ذکر الادیب ذاکر ندوی علمی منزل بسکوہر بازار بستی، سنہ طباعت درج نہیں ہے۔

جناب ذکاءالله بن ذاکر صاحب نے بتایا ہے کہ۱۹۸۰ ء سے قبل کی ہے۔

(۲)قول فیصل ابو الکلام آزاد فروری۱۹۸۷ ء

(۳)مولانا آزاد اور مدارس اسلامیہ قمر آستاں خدا بخش لائبریری پٹنہ

(۴)مولانا آزاد اور رفاقت قرآنی آزاد صدی سمینار۱۹۸۸/۸۹ ء خدا بخش لائبریری پٹنہ

(۵)مولانا ابوالکلام آزاد مذہبی فکر و عمل کے آئینہ میں، شیخ محمد الاعظمی مکتبہ الفہیم فروری ۲۰۱۰ ء

(۶)مولانا ابوالکلام آزاد فکر و نظر کی چند جہتیں، ضیاءالحسن فاروقی مکتبہ جامعہ نئی دھلی دسمبر۱۹۹۴ ء

(۷)ابو الکلام بحیثیت مفسر و محدث ابوسلمان شاہجہان پوری ادارہ تصنیف و تحقیق کراچی فروری۱۹۸۴

(۸)مولانا ابوالکلام آزاد ہندوستان میں ابن تیمیہ ( ایک سیاسی مطالعہ )، شورش کاشمیری ، مرتب، ابو سلمان شاہجہانپوری فرید بک ڈپو، دہلی۲۰۱۱ء

(۹)ابوالکلام و عبد الماجد ( ادبی معرکہ ) ابو سلمان شاہجہانپوری ادارہ تصنیف و تحقیق کراچی۱۹۸۷ ء

(۱۰)معاصرین و متعلقات ابوالکلام آزاد عبد القوی دسنوی نئی آواز، جامعہ نگر نئی دھلی دسمبر۱۹۹۶ ء

(۱۱)اردو کا ادیب اعظم عبد الماجد دریا آبادی ادارہ تصنیف و تحقیق کراچی فروری۱۹۸۶ء

(۱۲)معترضین ابوالکلام آزاد عبد اللطیف اعظمی علمی ادارہ ذاکر نگر نئی دھلی مارچ۱۹۹۰ء

(۱۳)تحریک ختم نبوت شورش کاشمیری مطبوعات چٹان لاہور مئی۱۹۹۴ ء

(۱۴)علوم الحدیث مطالعہ وتعارف مرتب، رفیق احمد رئیس سلفی مقامی جمعیت اہل حدیث علی گڑھ نومبر۱۹۹۹ء

(۱۵)مقالات شیخ محمد عزیز شمس مرتب، حافظ شاہد رفیق دار العلم ممبئی نومبر۲۰۲۰ ء

(۱۶)امام محمد بن عبد الوہاب کی دعوت اور علمائے اہل حدیث کی مساعی ابو لمکرم عبد الجلیل جامعہ سلفیہ بنارس اکتوبر۲۰۰۱ ء

(۱۷)مفکر ملت علامہ عبد الجلیل رحمانی حیات و خدمات، مرتب ڈاکٹر جمیل احمد علیگ دار العلوم ششہنیاں سدھارتھ نگر۲۰۱۱ء

(۱۸)نقوش انجم سہیل انجم ایجو کیشنل پبلشنگ ہاؤس دھلی۲۰۲۱ء

(۱۹)نقش بر آب سہیل انجم ایجوکیشنل پبلشنگ ہاؤس دھلی۲۰۱۶ ء

(۲۰)نقش بر سنگ سہیل انجم ایجو کیشنل پبلشنگ ہاؤس دھلی۲۰۲۱ء

(۲۱)اردو صحافت اور علماء سہیل انجم مکتبہ الفہیم مؤناتھ بھنجن اکتوبر۲۰۲۱ ء

(۲۲)دہلی کے ممتاز صحافی سہیل انجم اردو اکیڈمی دھلی۲۰۱۵ء

نوٹ : اس کتاب میں دو بڑے اہل حدیث صحافیوں کا ذکر خیر ہے

(۲۳)مقالات ابن احمد نقوی سہیل انجم دانشکدہ پبلی کیشنز مؤ ناتھ بھنجن۲۰۲۲ ء

نوٹ : اس کتاب میں سات عظیم اہل حدیث شخصیات پر مضامین ہیں۔

(۲۴)اہل حدیث کا تعارف ابو حماد عبد الغفار سلفی جمعیت شبان اہلحدیث شنکر نگر

(۲۵)سلفیت، تعارف و حقیقت ابو حماد عبد الغفار مدنی

(۲۶)شیخ صفی الرحمن مبارکپوری یادوں کے سفر میں، ترتیب رضوان اللہ ریاضی، مرکز الامام البخاری لاہور جون۲۰۰۷ء

(۲۷)ماہنامہ محدث دہلی علمی و اکادمی فہرست، راشد حسن مبارکپوری، مکتبہ دار السلام مؤ ناتھ بھنجن۲۰۲۳ء

نوٹ : ماہنامہ محدث بنارس کی خصوصی اشاعتیں۔

(۲۸)حضرت میاں صاحب سید نذیر حسین اکتوبر۱۹۸۵ ء

(۲۹)تحریک اہل حدیث منزل بہ منزل نومبر۱۹۸۷ ء

(۳۰)اشاعت خاص حرمت حرمین شریفین فروری۱۹۸۸ء

(۳۱)بابری مسجد کی شہادت جنوری، فروری۱۹۹۳ء

(۳۲)معیاری صحافت کانفرس مئی، جون۱۹۹۳ء

(۳۳)جامعہ سلفیہ اور دار الدعوہ الہ آباد مشترکہ سمینار جنوری تا مارچ۱۹۹۴ء

(۳۴)امام ابن باز رحمہ اللہ پر خصوصی اشاعت جولائی، اگست۱۹۹۹ء

(۳۵)مدارس اہل حدیث ہند کے نصاب و نظام تعلیم جون۲۰۰۱ ء

(۳۶)نواب صدیق حسن خاں رحمہ اللہ پر دو روزہ سیمینار مئی، جون۲۰۰۶ ء

(۳۷)۲۸ / ویں آل انڈیا اہل حدیث کانفرنس پاکوڑ اپریل تا جون۲۰۰۴ء

(۳۸)ماہنامہ محدث شیخ الحدیث نمبر جنوری، فروری۱۹۹۷ ء

(۳۹)وہابی تحریک حقائق اور غلط فہمیاں جنوری تا مارچ۲۰۱۰ء

(۴۰)عالمی کانفرنس، سنت نبوی اور امن عالم نمبر اپریل تا ستمبر۲۰۱۳ء

(۴۱)إفتاء نمبر جون تا اکتوبر۲۰۱۵ء

(۴۲)دو روزہ اجتماع أبناءقدیم۲۸/۲۹ نومبر۲۰۱۸ ء جولائی تا دسمبر۲۰۱۹ ء

(۴۳)سیرت الامام البخاری شیخ عبد السلام مبارکپوری ( عربی ایڈیشن )ادارۃ البحوث الاسلامیۃ والدعوۃ والافتاء، جامعہ سلفیہ بنارس۱۹۸۷ ء

(۴۴)علامہ محمد فاخر زائر الہ آبادی راشد حسن مبارکپوری، دار اللؤلؤۃ بیروت۲۰۲۲ ء

(۴۵)مناظرۂ مسعود و سعید فی باب الاتباع والتقلید راشد حسن مبارکپوری، مکتبہ الفضل نئی دھلی۲۰۱۷ ء

(۴۶)ابتدائی صفحات تاریخ مرکزی دارالعلوم ( جامعہ سلفیہ بنارس ) شیخ محفوظ الرحمن فیضی، مکتبہ الفہیم مؤناتھ بھنجن اکتوبر۲۰۱۳ ء

(۴۷)جامعہ سلفیہ مرکزی دار العلوم بنارس کی داغ بیل کی تاریخ ، شیخ محفوظ الرحمن فیضی، مکتبہ نعیمیہ مؤ ناتھ بھنجن جنوری۲۰۱۷ء

(۴۸)مرکزی دارالعلوم بنارس نوگڑھ کانفرس کی ہی دین ہے، عبد الرزاق عبد الغفار سلفی، سلفی بک سروسیز جامع مسجد دھلی اپریل۲۰۱۶ ء

(۴۹)تاریخ مرکزی دار العلوم (بنارس ) مطیع اللہ سلفی، دار العلوم ششہنیاں سدھارتھ نگر۲۰۱۷ء

(۵۰)تیرا نقش قدم دیکھتے ہیں سوانح حیات علامہ احسان الٰہی ظہیر، ابو بکر قدوسی، مکتبہ قدوسیہ لاہور جنوری۲۰۱۶ ء

(۵۱)الشيخ احسان الٰہی ظهير منهجه د/ على بن موسى الزهرانى و جهوده فى تقرير العقيدة و الرد على الفرق المخالفة، دار المسلم رياض۲۰۰۴ ء

(۵۲)علامہ احسان الہی ظہیر ایک عہد ایک تاریخ، عبد الرزاق عبد الغفار سلفی، طبع اول۱۹۹۹ ء نئی دھلی، دوم نومبر۲۰۲۱ءلاہور، سوم مرشد پبلیکیشن نئی دھلی اکتوبر۲۰۲۳ نئی دھلی

(۵۳)چنداہم صدارتی خطبات مرتب، احسن جمیل مدنی، محمد مصطفی ندوی، اسلامک اکیڈمی لکھنؤ

(۵۴)منتخبات عارف سراجی، ادارہ دعوت دین کونڈا گرانٹ بستی۱۹۸۴ ء

(۵۵)جامعہ سلفیہ مرکزی دار العلوم تحریروں کے آئینہ میں ( قلمی ) خورشید احمد عبد الجلیل، مقالہ برائے سند عالمیت۱۹۹۴/۱۹۹۵ ء

(۵۶)الجامعۃ السلفیہ ببنارس و دور أساتذتها فى ترويج اللغة العربية و الدراسات الاسلاميه، ڈاکٹر ذاکر حسین، جواہر لال نہرو یونیورسٹی دھلی۲۰۰۷ء ( قلمی )

(۵۷)مساهمة مدارس بنارس و أساتذتها البارزين فى نشر الدراسات العربية فى ولاية اترا براديش، ڈاکٹر عبد النور، جواہر لال نہرو یونیورسٹی دھلی۲۰۰۸ء ( قلمی )

(۵۸)ماہنامہ ترجمان دہلی شاہ سعود نمبر مرتب، مجاز اعظمی دسمبر۱۹۵۵ء

(۵۹)خطبۂ استقبالیہ اجلاس عام نوگڑھ کانفرنس۱۹۶۱ء عبد الرؤوف رحمانی، دفتر مجلس استقبالیہ نوگڑھ۱۶ تا۱۹ نومبر۱۹۶۱ء

(۶۰)پندرہ روزہ ترجمان دہلی اجلاس عام نوگڑھ کانفرنس نمبر۱۹۶۱ء

(۶۱)آل انڈیا اہل حدیث کانفرنس نوگڑھ ابو علی اثری، ( قلمی )

(۶۲)پندرہ روزہ ترجمان تاسیس نمبر یکم جنوری۱۹۶۴ ء

(۶۳)پندرہ روزہ ترجمان افتتاح نمبر۱۵ دسمبر۱۹۶۶ء

(۶۴)مسلم پرسنل لا نمبر یکم و۱۵ جون۱۹۷۲ ء

(۶۵)جریدہ ترجمان یاد گار مجلہ پاکوڑ کانفرنس۲۰۰۴ ء دھلی

(۶۶)رشحات قلم ( خود نوشت سوانح ) عزیز الرحمن سلفی، ایجو کیشنل پبلشنگ ھاؤس دھلی اگست۲۰۲۲ء

(۶۷)سرگزشت جامعہ ( دو جلدیں ) عبد الرؤوف رحمانی، سراج العلوم جھنڈا نگر نیپال مارچ۲۰۱۳ء

(۶۸)تاریخ مرکزی دار العلوم مرتب، آزاد رحمانی ( قلمی )

(۶۹)خطبۂ استقبالیہ بہ تقریب اجلاس عام مدرسہ محمدیہ نصرۃالاسلام شنکر نگر۱۶-۱۷ مئی۱۹۷۶ء ابو البیان عبد المنان عارف اثری شنکر نگری، ( قلمی )

(۷۰)تذکرہ علمائے شنکر نگر و بھیکم پور محمد جنید محمد ابراہیم، مقالہ برائے سند عالمیت۱۹۹۸ ء ( قلمی )

(۷۱)سلفیت کا تعارف ڈاکٹر رضاءاللہ مبارکپوری، مکتبہ الفہیم مؤ ناتھ بھنجن اکتوبر۲۰۰۲ ء

(۷۲)حدیث کی نشر و اشاعت میں علمائے اہلحدیث کی خدمات عبد الرشید عراقی مکتبہ قدوسیہ اردو بازار لاہور مئی۲۰۰۳ ء

(۷۳)تذکرہ محدث روپڑی عبد الرشید عراقی، محدث روپڑی اکیڈمی دالگراں لاہور ستمبر۲۰۰۰ء

(۷۴)عظمت و رفعت کے مینار عبد الرشید عراقی، نعمانی کتب خانہ اردو بازار لاہور جنوری۲۰۰۲ء

(۷۵)مولانا ابو الکلام آزاد بحیثیت صحافی و مفسر عبد الرشید عراقی، نعمانی کتب خانہ اردو بازار لاہور اگست۲۰۰۴ء

(۷۶)تذکرہ بزرگان علوی سوہدرہ عبد الرشید عراقی، مسلم پبلیکیشنز لاہور۲۰۰۲ ء

(۷۷)اہل حدیث کے چار مراکز عبد الرشید عراقی، الدار السلفیہ لنشر التراث الاسلامی کراچی۲۰۰۲ء

(۷۸)تذکرۃ النبلاء فی تراجم العلماء عبد الرشید عراقی، بیت الحکمت لاہور۲۰۰۴ ء

(۷۹)بر صغیر پاک و ہند میں علم حدیث عبد الرشید عراقی، محدث روپڑی اکیڈمی دل گراں لاہور۲۰۰۷ ء

(۸۰)تذکرۃ المحمدیین عبد الرشید عراقی، مکتبہ ثنائیہ بلاک نمبر۱۹ سرگودھا جنوری۲۰۱۲ ء

(۸۱)محمد یحییٰ گوندلوی حیات و خدمات عبد الرشید عراقی، جامعہ ختم النبیین سمٹبریاں۲۰۱۰ء

(۸۲)علامہ احسان الہی ظہیر عبد الرشید عراقی، جامعہ ابی بکر الاسلامیہ کراچی اگست۲۰۱۵ ء

(۸۳)امام ابن تیمیہ اور ان کے تلامذہ عبد الرشید عراقی، نعمانی کتب خانہ اردو بازار لاہور ستمبر۲۰۰۳ء

(۸۴)عمر بن عبد العزیز عبد الرشید عراقی، بیت الحکمت اردو بازار لاہور۲۰۰۹ ء

(۸۵)سیرت امام احمد بن حنبل عبد الرشید عراقی، طارق اکیڈمی فیصل آباد جولائی۲۰۰۶ ء

(۸۶)تاریخ نزول قرآن عبد الرشید عراقی، مکتبہ قاسم العلوم اردو بازار لاہور

(۸۷)احسان الٰہی ظہیر محمد بن ابراہیم الشیبانی

(۸۸)ارمغان پروفیسر حافظ احمد یار مرتبین، ڈاکٹر جمیلہ شوکت، ڈاکٹر محمد سعد صدیقی، شعبہ علوم اسلامیہ پنجاب لاہور دسمبر۲۰۱۵ ء

(۸۹)تذکرہ حافظ محمد گوندلوی شاہد فاروق ناگی، مکتبہ قدوسیہ لاہور۲۰۱۲ء

(۹۰)مولانا عطاءاللہ حنیف بھوجیانی محمد اسحاق بھٹی، محمد اسحاق بھٹی ریسرچ انسٹی ٹیوٹ لاہور۲۰۱۷ء

(۹۱)استاد پنجاب حافظ عبد المنان صاحب، عبد المجیدسوہدروی، مسلم پبلیکیشنز لاہور۲۰۰۲ء

(۹۲)علامہ احسان اور ان کے رفقاء کی درد ناک شہادت، سید محمد اسماعیل ایم اے، سید ابو بکر گوجرانوالہ۱۹۹۶ء

(۹۳)آفتاب بخارا صاحب زادہ برق التوحیدی، بیت التوحید، دار السلام اگست۲۰۱۶ء

(۹۴)تذکرہ علمائے اہلحدیث جلد سوم میاں محمد یوسف سجاد، جامعہ ابراہیمیہ سیالکوٹ نومبر۱۹۹۲ء

(۹۵)مولانا عبد الرحیم اشرف ڈاکٹر زاہد اشرف، مکتبہ المنبر فیصل آباد۲۰۱۷ء

(۹۶)حواشی ابو الکلام آزاد سید مسیح الحسن، اردو اکادمی دھلی۱۹۹۳ء

(۹۷)رفیق کارواں ( ڈاکٹر محفوظ الرحمن حیات و خدمات ) ممتاز احمد عبد اللطیف، مرکز الاصلاح التعلیمی الخیری اموا بہار۱۹۹۸ء

(۹۸)مولوی نذیر احمد دہلوی احوال و آثار ڈاکٹر افتخار احمد صدیقی، مجلس ترقی ادب لاہور نومبر۱۹۷۱ء

(۹۹)رسائل بہاولپوری حافظ محمد عبد اللہ بہاولپوری، مکتبہ اسلامیہ اردو بازار لاہور اگست۲۰۰۴ء

(۱۰۰)علمائے دیوبند کا ماضی حکیم محمود احمد ادارہ نشر التوحید و السنہ لاہور جولائی۲۰۰۳ ء

(۱۰۱)تحریک جہاد، جماعت اہلحدیث اور علمائے احناف، حافظ صلاح الدین یوسف، ندوۃ المحدثین گوجرانوالہ۱۹۸۶ء

(۱۰۲)ہفت روزہ” اہلحدیث “ خدمات حدیث نمبر اکتوبر۱۹۷۷ء

(۱۰۳)ہفت روزہ اہلحدیث “ خدمات حدیث نمبر اکتوبر۱۹۹۷ ء

(۱۰۴)مرزائیت نئے زاویوں سے محمد حنیف ندوی، طارق اکیڈمی فیصل آباد جنوری۲۰۰۳ء

(۱۰۵)تحریک آزادی کے نمائندہ مسلم مجاہدین ڈاکٹر مختار احمد مکی، الریحان پبلیشنگ ہاؤس جمشید پورا۲۰۰۶ء

(۱۰۶)ہندوستان کی پہلی جنگ آزادی ۱۸۵۷ء میں مسلمانوں کا حصہ عطاء الرحمن قاسمی، شاہ ولی اللہ انسٹی ٹیوٹ دھلی جنوری۲۰۰۸ء

(۱۰۷)مقالات حدیث مولانا محمد اسماعیل سلفی، ام القری پبلی کیشنز گوجرانوالہ فروری۲۰۰۹ء

(۱۰۸)شاہ اسماعیل شہید حسین حسنی، اعتقاد پبلشنگ ہاؤس دہلی

(۱۰۹)احناف کی تاریخی غلطیاں محمد احسن اللہ ڈیانوی، امام شمس الحق ڈیانوی اکیڈمی جنوری۱۹۹۱ء

(۱۱۰)بر صغیر پاک و ہند کے چند تاریخی حقائق محمد احسن اللہ ڈیانوی، دار الفکر کراچی۲۰۰۸ء

نوٹ : دونوں کتابیں ایک ہی ہیں بس طبع دوم میں تبدیلئ نام کے ساتھ اچھا خاصا مواد کا اضافہ بھی کیا گیا ہے۔ پھر تیسری بار مرشد پبلیکیشن نئی دہلی سے اپریل۲۰۱۸ء میں بھی چھپی ہے۔

(۱۱۱)تاریخ مکہ مکرمہ نظر ثانی، صفی الرحمن مبارکپوری، مکتبہ دار السلام لاہور۱۴۲۳ھ

(۱۱۲)مجلۂ الفرقان ڈمریا گنج بیاد ڈاکٹر عبد الباری خان، سدھارتھ نگر ستمبر۲۰۲۰ء تا فروری۲۰۲۱ ء

(۹۱۳)خانوادۂ قاضی بدرالدولہ ج اول محمد یوسف کوکن عمری، دار التصنیف مدراس۱۹۶۳ء

(۱۱۴)امام ابن تیمیہ محمد یوسف کوکن عمری، نعمان پبلیکیشنز۲۰۱۴ ء

(۱۱۵)شاہ ولی اللہ اور ان کا خاندان محمود احمد برکاتی، مکتبہ جامعہ لمیٹڈ نئی دہلی۲۰۱۱ء

(۱۱۶)تاریخ اہل حدیث علامہ احمد بن محمد دہلوی، علامہ ابن باز اسلامک اسٹڈیز چمپارن بہار۲۰۰۵ء

)۱۱۷(شیخ الاسلام محمد بن عبد الوہاب مختصر اور طریقۂ تالیف و تحریر ، راشد حسن مبارکپوری، اسلامک پبلیکشنز جموں کشمیر مئی۲۰۱۶ء

)۱۱۸(تذکرہ علماء سلف، عبد الحفیظ ندوی ( بستی، سدھارتھ نگر، گونڈہ، بلرام پور ) ، مرکز الدعوۃ الاسلامیہ ڈمریا گنج اپریل۲۰۱۱ء

)۱۱۹(سیرت امام مسلم، شیخ الحدیث کرم الدین سلفی، مکتبہ ابن کرم لاہور جولائی۲۰۱۸ء

)۱۲۰(دوام حدیث، حافظ محمد گوندلوی، ام القری پبلی کیشنز گوجرنوالہ اگست۲۰۱۳ ء

)۱۲۱(سمندر میں چھلانگ، شیخ محمد عطاءالرحمن مدنی، دانش کدہ پبلیکشنز مؤ ناتھ بھنجن۲۰۲۲ء

)۱۲۲(ماہنامہ نور توحید جھنڈا نگر ضمیمہ شیخ الحدیث علامہ عبید اللہ رحمانی مبارکپوری۱۹۹۴ء

)۱۲۳(ماہنامہ نور توحید جھنڈا نگر بیاد شیخ الاسلام علامہ عبد العزیز ابن باز، جون تا اگست۱۹۹۹ء

)۱۲۴(ماہنامہ نور توحید جھنڈا نگر بیاد علامہ صفی الرحمن مبارکپوری، جنوری تا مارچ۲۰۰۷ء

)۱۲۵(ماہنامہ نور توحید جھنڈا نگر بیاد ڈاکٹر مقتدی حسن ازھری، نومبر، دسمبر۲۰۰۹ء

)۱۲۶(ماہنامہ نور توحید جھنڈا نگر بیاد شیخ عبد المتین عبد الرحمن سلفی مارچ، اپریل۲۰۱۰ء

)۱۲۷(ماہنامہ نور توحید جھنڈا نگر بیاد مولانا عبد المجید مدنی، دسمبر۲۰۱۳ء

)۱۲۸(ماہنامہ نور توحید جھنڈا نگر بیاد مولانا عبد الوھاب ریاضی جنوری تا مارچ۲۰۱۵ ء

)۱۲۹(ماہنامہ نور توحید جھنڈا نگر بیاد مولانا عبد الوھاب خلجی اکتوبر۲۰۱۸ء تا جنوری۲۰۱۹ ء

)۱۳۰(ماہنامہ نور توحید جھنڈا نگر علماء کرام نمبر اگست تا دسمبر۲۰۲۰ء

)۱۳۱(ماہنامہ نور توحید جھنڈا نگر ضمیمہ بیاد مولانا نعیم الدین مدنی، جولائی تا ستمبر۲۰۲۱ ء

)۱۳۲(ماہنامہ السراج جھنڈا نگر شیخ ابن باز نمبر جون و اگست۱۹۹۹ء

)۱۳۳(ماہنامہ السراج جھنڈا نگر شاہ فہد نمبر ستمبر و اکتوبر۲۰۰۵ ء

)۱۳۴(ماہنامہ السراج جھنڈا نگر ڈاکٹر مقتدی حسن ازہری نمبر اپریل تا جولائی۲۰۱۰ء

(۱۳۵)ماہنامہ السراج جھنڈا نگر شیخ الحدیث مولانا عبد الحنان فیضی نمبر اپریل تا اگست۲۰۲۰

(۱۳۶)افکار عالیہ مئو کا مجاز نمبر جنوری تا مارچ۲۰۱۲ ء

(۱۳۷)مجلہ الفرقان تعلیمی کنونشن نمبر ڈمریا گنج جولائی تا ستمبر۲۰۰۳ء

(۱۳۸)جریدہ ترجمان دہلی، تعلیم و مدارس پر سیمینار، آل انڈیا اہل حدیث کنونشن ستمبر۲۰۰۶ ء

(۱۳۹)جریدہ ترجمان دہلی، اسلام کا پیغام عالم انسانیت کے نام، آل انڈیا اہل حدیث کانفرنس جنوری۲۰۱۲ء

(۱۴۰)جریدہ ترجمان دہلی، عدالت صحابہ نمبر دسمبر۲۰۱۵ ء

(۱۴۱)جریدہ ترجمان دہلی، ائمۂ مساجد نمبر مارچ۲۰۱۶ ء

(۱۴۲)جریدہ ترجمان دہلی، داعش و دہشت گردی کی بیخ کنی، مارچ۲۰۱۷ ء

مذکورہ بالا کتب و مجلات اور مقالات کے علاوہ یقیناً اور بھی کتابیں موجود ہوں گی، مگر میری رسائی ان تک نہیں ہو سکی ہے، اسی طرح تاریخ و تراجم پر دوسرے مصنفین کی کتابیں بھی موجود ہیں، جن میں ہماری تاریخ اور ہمارے اسلاف کے متعلق بہت ساری باتیں درج ہیں، مگر میں ان مصادر کا ذکر نہیں کروں گا ، اس لیے کہ ان کتابوں میں بہت ساری رطب و یابس باتیں مذکور ہیں مثلاً شیخ محمد اکرام کی ’’موج کوثر “ اور سید عبدالماجد غوری کی ’’المحدثون من جماعة أهل الحديث فى الهند و جهودهم فى الحديث النبوى “ جیسی کتابیں بازار میں پائی جاتی ہیں، جن کی بہت ساری باتوں سے اتفاق ہے مگر اس کے ساتھ ہی بہت ساری باتیں غیر معقول اور نا قابل قبول ہیں اس لیے ایسے مصادر کا ذکر نہ کرنا ہی بہتر ہے۔

یہ داستان بھی بہت عجیب و غریب ہے کہ تحریک شہیدین کا جب تک بول بالا رہا، اس وقت تک مسلمانان ہند کے درمیان اختلافات بہت حد تک بہت ہی کم تھے، اس لیے کہ تمام مسلمانوں کا منبع و مرجع ایک ہی تھا، وہ سارے ہی لوگ شاہ ولی اللہ سے اپنی نسبت رکھتے تھے اور آج بھی رکھتے ہیں، لیکن جب۱۸۳۱ ء میں یہ تحریک بالا کوٹ میں سازش کا شکار ہو کر کمزور پڑ گئی اور امامین کا دور ختم ہو گیا تو امامین کے اخلاف کے درمیان دھیرے دھیرے اختلاف رونما ہونے لگا، مولانا محمد اسماعیل دہلوی رحمہ اللہ کی زندگی میں کتاب ’’تقوية الايمان‘‘ کو لے کر اختلاف کم رہا، لیکن ان کے دنیا سے جاتے ہی آہستہ آہستہ اس کے خلاف آواز بلند ہونا شروع ہوگئی اور۱۸۵۷ء کی تحریک آزادی کے بعد یہ اختلاف سیاسی رخ بھی اختیار کر گیا، جب۱۸۵۷ء کی تحریک آزادی کو ظلم و ستم اور قتل و غارت گری کے ذریعہ دبا دیا گیا، تو اب یہ اختلاف ایک دوسری شکل بھی اختیار کرتا چلا گیا، جنھوں نے۱۸۵۷ ء کا خونی دور دیکھا تھا اور جنھوں نے اس دور کی تاریخ بچشم سر پڑھا ہے، وہ آج بھی گواہی دیں گے کہ اس سے بدترین دور تاریخ ہند میں نہیں گزرا ہے، خاص کر توحید پرستوں کی تاریخ خون سے لالہ زار ہے، چاروں طرف خونی کھیل کھیلا جا رہا تھا، سر تن سے جدا ہو رہے تھے، جو اہل توحید و اہل حدیث تھے، وہ ان حالات کے پیش نظر ’’کشن بہاری نور“ کی زبان میں کہتے تھے۔

زندگی سے بڑی سزا ہی نہیں

اور کیا جرم ہے پتا ہی نہیں

(نور)

اس پر آشوب اور پر تشدد دور یعنی۱۸۵۷ء سے قبل و بعد کا نقشہ مولانا الطاف حسین حالی رحمہ اللہ نے اپنے قلم کو خون دل میں ڈبو کر یوں کھینچا ہے:

’’حکومت کا غصہ خاص کر مسلمانوں کے حال پر بدستور چلا جاتا تھا، ہندوستانی خیر خواہی سرکار کی آڑ میں مسلمانوں سے دل کھول کھول کر بدلے لے رہے تھے اور اگلے پچھلے بغض نکال رہے تھے، مسلمانوں کو مجرم قرار دینے کے لیے کوئی ثبوت در کار نہ تھی، ان کا مسلمان ہونا ہی ان کے مجرم ٹھہرانے کے لیے کافی تھا، زمانہ نہایت نازک تھا خیالات ظاہر کرنے کی آزادی مطلق نہ تھی، مارشل لا کا دور دورہ تھا اور حاکموں کی زبان ہی قانون تھی۔“ (حیات جاوید ج اول ص۱۰۲/۱۰۳، ارسلان بکس، زاہد بشیر پرنٹرز مئی۲۰۰۰ء)

اس سے بھی بڑھ کر اس دور کا تصور کیجیے جب ’’وہابی “ اور ’’باغی “ دونوں مترادف اور ہم معنی لفظ تصور کیے جاتے تھے، کسی شخص پر وہابیت کا الزام لگا دینا ہی اس کی تباہی و بربادی کے لیے کافی ہوتا تھا، اور اب اپنے اور اغیار بھی اس کھیل میں شریک ہو چکے تھے اور پیش پیش تھے، ایسے حالات تھے، جب نواب صدیق حسن خاں بھوپالی رحمہ اللہ نے ’’ترجمان وہابیہ “ کتاب لکھی اور مولانا محمد حسین بٹالوی رحمہ اللہ نے انگریزی دربار میں سپاس نامہ پیش کیا، ان دونوں چیزوں کو بنیاد بنا کر آل دیوبند اور فرزندان بریلویت ہمارے ان دونوں اسلاف کو انگریزوں کا دوست اور پٹھو کہنے لگے، پھر ایسا شور مچایا اور اس قدر غلط پروپیگنڈہ کیا کہ غیر تو غیر اپنے ہم مشرب و ہم مسلک کے سلیم الطبع اذہان بھی اس مسموم اور زہر آلود ہوا سے متاثر ہوئے بغیر نہ رہ سکے، اور اپنے اسلاف کے بارے میں شکوک وشبہات کے شکار ہو گئے، کچھ ذی علم آج بھی ایسے ہیں، جن کا ذہن ابھی تک صاف نہیں ہوا ہے اور گاہے بگاہے اپنے خیالات کا اظہار کرتے رہتے ہیں، جن کی تردید میں جماعت کے اصحاب علم ’’تقلید کے برگ و بار “ اور ’’سلفیت کا تعارف “ جیسی کتابیں لکھتے رہے ہیں اور مستقبل میں بھی تردید کرتے اور کتابیں و مضامین لکھتے رہیں گے ان شاء اللہ۔

افسوس کا مقام ہے کہ اسی طرح کا ایک واقعہ دبئی میں ’’جمعیت دار البر “ کی لائبریری میں غالباً مئی۲۰۰۸ ء میں پیش آیا، راقم آثم چند اصحاب علم احباب کے ساتھ لائبریری میں بیٹھا تھا، مختلف موضوعات پر گفتگو ہورہی تھی، اسی دوران کسی بات پر ’’نواب صدیق حسن خاں رحمہ اللہ “ کا ذکر خیر چھڑ گیا، تو مقدمہ نگار مد ظلہ بھڑک اٹھے اور کہنے لگے کہ ان کی کیا بات کرتے ہو وہ تو ’’انگریزوں “ کے دوست تھے، اتنا سننا تھا کہ میرا پارہ چڑھ گیا، میں نے مجلس سے واک آؤٹ کرتے ہوئے کہا کہ میں بہت جلد اس بات کی تردید میں ضرور ایک مضمون لکھوں گا ان شاء الله۔

اتفاق کی بات ہے۱۲/۱۳ جولائی۲۰۰۸ء کو لکھنؤ میں ’’نواب صدیق حسن خاں رحمہ اللہ کی حیات و خدمات “ پر ایک سیمینار کا انعقاد ہونے والا تھا، زہے نصیب راقم الحروف کو بھی دعوت نامہ ملا تو میرے سمند شوق کو ایک اور تازیانہ لگا اور سیمینار میں شرکت کا پختہ ارادہ کر لیا، پھر مضمون لکھنے کے لیے کتابوں کا مطالعہ شروع کر دیا، محنت کرکے چند ہفتوں میں اس عنوان ’’نواب صدیق حسن خاں اور انگریز دوستی ایک بہتان عظیم کی تردید “ کے تحت مضمون تیار کر لیا اور سیمینار میں الحمد للہ شریک ہوا، احباب نے مضمون کو پسند بھی کیا، اس کے بعد مضمون جریدہ ترجمان دہلی۱۶-۳۱ دسمبر۲۰۰۸ء کے شمارہ میں شائع بھی ہوا، دکھ کی بات یہ ہے کہ غیر تو غیر جب اپنے ہی اس زخم کو کریدنے لگیں تو دل کے پھپھولے جل اٹھتے ہیں اور یہ کہنے پر مجبور ہونا پڑتا ہے کہ

اب تک تو خبر نہ تھی اجڑے ہوئے گھر کی

تم آئے ہو تو گھر بے سرو ساماں نظر آیا

نواب صدیق حسن خاں رحمہ اللہ پر انگریز دوستی کا الزام لگانا اور تہمت تراشی کرنا یہ بات اتنی ہی غلط ہے، جتنا کہ دن میں سورج کا نہ نکلنا، نواب صاحب پر انگریزوں کی طرف سے جو سب سے بڑا الزام لگایا گیا تھا، وہ یہی تو تھا کہ وہ ’’جہاد کی ترغیب دیتے ہیں اور وہابیت کی تبلیغ کرتے ہیں “ مگر آج غیروں کو تو چھوڑ دیجیے ہمارے ہم مشرب و ہم مسلک لوگ کیا کہتے ہیں ذرا دل کی گہرائی سے اس کا جائزہ لیں۔

سوچو تو سہی ایک ایسا شخص جس کی آنکھیں اس شخص کی گود میں کھلیں، جو شاہ عبد العزیز اور شاہ عبد القادر رحمہما اللہ کا گرویدہ اور سید احمد بریلوی و شاہ اسماعیل دہلوی رحمہما اللہ کا والہ و شیدا تھا، وہ شخص جو ہوش سنبھالتے ہی اپنے گھر میں جہاد کا چرچا اور مجاہدین کے سرفروشانہ سچے قصے سنتا رہا ہو، جوانی اس عالم میں آئی ہو کہ پوری قوم کا بچہ بچہ انگریز کی دشمنی سے سرشار تھا، جس نے۱۸۵۷ء کا پر تشدد اور پر آشوب زمانہ دیکھا ہو، جس میں ستائیس ہزار مسلمانوں کا قتل عام ہوا تھا، جس نے مسلمانوں کے خلاف شورش اور بد امنی کے ایام دیکھے ہوں، جس نے مسلمانوں کی لاشوں کو خاک و خون میں تڑپتے ہوئے دیکھا ہو، جس نے دلی کا خونی گیٹ اور شہزادوں کا قتل ہوتے ہوئے دیکھا ہو، جس نے مسلمانوں کو بے گھر اور بے یار و مدد گار ہوتے ہوئے دیکھا ہو، جس نے پانچ پانچ مقدمات انبالہ (۱۸۶۴ء)، پٹنہ (۱۸۶۵ء)، مالدہ (۱۸۷۰)، راج محل (۱۸۷۰ء) اور پٹنہ (۱۸۷۱ء) کا دلدوز منظر دیکھا ہو، جس نے اپنی ماؤں، بہنوں اور بیٹیوں کے تقدس کو پامال ہوتے ہوئے دیکھا ہو، ایک شہر سے دوسرے شہر تک جانا دوبھر تھا، املاک تہس نہس ہو رہے تھے، کوئی جائے امن و پناہ نہ تھی، بے شمار گھروں میں بچوں، بوڑھوں اور عورتوں کو فاقوں سے گزرنا پڑ رہا تھا، کیا ان حالات میں ان کی غیرت ایمانی ایک لمحہ کے لیے بھی اس بات کی اجازت دے سکتی تھی کہ وہ انگریز سے دوستی کا ہاتھ بڑھاتے اور اس دشمن دین و جان کا حلیف بنتے؟؟

یہ حالات تھے جو میں نے بیان کیا ہے، جب ’’ترجمان وہابیہ “ کتاب لکھی گئی تھی، جو جملہ مسلمانوں اور خاص کر اہل توحید و اہل حدیث مسلمانوں کے لیے ایک ڈھال ثابت ہوئی، ورنہ شاید انگریز سر زمین ہند کو اہل حدیثوں کے وجود سے ہی پاک کر دیتے، تب شاید بعض کم فہم لوگوں کے ذہنوں میں یہ سوال اٹھتا کہ ’’ترجمان وہابیہ “ کتاب کی تالیف درست تھی یا نہیں؟؟

جب کہ تاریخ کا ہر طالب علم اور قاری جانتا ہے کہ ’’پولیس کی رپورٹوں میں وہابیوں کے تین اہم مراکز تھے، پٹنہ، بھوپال اور رنگون اور رنگون کا بطور خاص تعلق بھوپال سے ہی تھا، نواب صاحب کا مرکز صادق پور اور اس کے کارپردازوں سے تعلق تھا، ہر آن رقیبوں کا کھٹکا لگا رہنے کے با وجود ’’دانا پور “ میں خفیہ طور پر ملاقات کا بھی ثبوت ہے۔ “ ( میاں سید محمد نذیر حسین محدث دہلوی مجددانہ کارنامے اور قائدانہ کردار ص۱۳۴)

کیا کوئی بتا سکتا ہے کہ کیوں نواب صاحب سے ان کے اعزازات چھین لیے گئے تھے ؟ اور کیوں ان کو ان کے اختیارات سے بے دخل کر دیا گیا تھا ؟ پھر سب سے بڑھ کر کیوں ان کی رفیقۂ حیات کو ان سے آٹھ ماہ تک جدا اور دور رکھا گیا تھا ؟ کیا یہ سب دوستانہ اور حلیفانہ سلوک تھا؟ ’’ہم وفادار نہیں، تو بھی تو دلدار نہیں “

کتاب ’’ترجمان وہابیہ “ کی تالیف کا مقصد نواب صاحب کے الفاظ میں یہ تھا:

’’یہ رسالہ اس غرض سے لکھا گیا ہے کہ سرکار عالیہ برٹش کو یہ بات معلوم ہوجائے کہ مسلمانان ریاستہائے ہند و رعایائے ہند میں کوئی بدخواہ اس دولت عظمیٰ کا نہیں ہے اور جن مسلمانان ریاست وغیرہ پر دشمن ان کے تہمت وہابیت کی لگاتے ہیں وہ ہرگز وہابی نہیں۔ “ (ترجمان وہابیہ ص ۶)

یہ ہے وہ حقیقت اور وہ سپاس نامہ جس پر اپنے اور غیر نواب صاحب اور بٹالوی رحمہما اللہ کو مطعون کرتے رہے ہیں، لیکن ایک انصاف پسند اور غیر جانب دار مورخ مولانا مسعود عالم ندوی ہمارے ان اسلاف کے بارے میں اپنا فیصلہ سناتے ہوئے یوں رقم طراز ہیں:

’’اس سلسلے میں تمہید کے طور پر ایک بات اور عرض کر دی جائے، تو شاید نامناسب نہ ہوگا، ہنٹر کی کتاب۱۸۷۱ءمیں شائع ہوئی تھی اور سرسید مرحوم (ف۱۸۹۲ء) نے بر وقت اس کا جواب دیا تھا (۱۸۷۲ء)، اور ان کی کوششیں مشکور بھی ہوئیں، نیز نواب صدیق حسن خاں ( ف۱۳۰۷ھ) نے اپنے مختلف رسالوں اور مولوی محمد حسین صاحب بٹالوی (ف۱۳۲۰ھ) نے اپنے رسالہ اشاعت السنہ اور بعض تصنیفات کے ذریعہ الزام ’’جہاد و بغاوت “ کی خوب تردیدیں کیں — لیکن اب حالات بدل چکے ہیں، ہمیں مذہبی دیوانہ FANATIC اور غدار یا باغی DIS LOYAL کے القاب پر شرمندہ نہیں ہونا چاہئے، یہ تو اپنی اپنی پسند ہے اور اپنی اپنی اصطلاح۔“ ( ہندوستان کی پہلی اسلامی تحریک ص ۸۷)

اسی طرح اپنی دوسری کتاب ’’مولانا عبید اللہ سندھی اور ان کے افکار و خیالات پر ایک نظر “ کے ص۱۳۰ کے حاشیہ میں نواب صاحب کے تعلق سے یوں رقم طراز ہیں :

’’نواب صاحب کا حال کچھ فرقہ ملامتیہ کا سا ہے، اہل نجد کی بھی کوئی برائی نہیں ہے، جو انھوں نے اپنی کتابوں میں نہ کی ہو ( اتحاف النبلاء ص : ۴۱۳ —۴۱۶، التاج المکلل، مو ائد العوائد وغیرہ )، اور یہ صرف وہابیت سے برآت کے لیے، ورنہ وہ دل سے نجد کی دعوت توحید کے معترف اور ثنا خواں ہیں، (اتحاف، ص : ۸۴)

کچھ یہی حال ان کا صادق پور کے ساتھ ہے، ایک مرتبہ کلکتہ سے واپسی میں ملنے کی خواہش ہوئی تو ’’دانا پور “ میں غلس کے وقت علمائے صادق پور کو آنے کی تاکید کی کہ کراما کاتبین کو خبر نہ ہو، ملاقات ہوئی باتیں ہوئیں مگر اس حال میں کہ ہر آن رقیبوں کا کھٹکا لگا ہوا تھا۔ (بہ روایت عبد الغفار صادق پوری )

مقدمہ نگار مد ظلہ جناب مولانا مسعود عالم ندوی رحمہ اللہ کی صرف انہی دو کتابوں کی عبارتوں کو پڑھ لیتے تو شاید نواب صاحب کے بارے میں ان کے جو ناخوشگوار خیالات ہیں بدل جاتے، جب کہ وہ اپنے مقدمہ میں ان دونوں کتابوں کو ذکر بھی کرتے ہیں، ممکن ہے کہ ان کے خیالات میں اب تبدیلی آگئی ہو، مگر مجھے اس کا علم نہیں ہے، شاید میری ان تشریحات کے بعد اب ان کو کچھ تشفی ہوگی کہ نواب صاحب علیہ الرحمہ انگریزوں کے دوست اور حلیف نہیں تھے، بلکہ تحریک آزادی کے ایک خاموش کارکن اور مجاہد تھے، اور یہ سب ان کی بلند نگاہی، ان کے فکری اعتدال و توازن اور اعلیٰ دماغ و تدبر کا نتیجہ تھا کہ سانپ بھی مر گیا اور لاٹھی بھی نہ ٹوٹی، ذرا بتاؤ تو سہی کیا کوئی پھر ایسا صاحب جنوں پیدا ہوگا؟

متى تخلو تميم من كريم

و مسلمة ابن عمرو من تميم

جس طرح نواب صاحب کے بارے میں کچھ لوگوں کے غلط خیالات ہیں، اسی طرح علامہ احسان الٰہی ظہیر کے بارے میں بھی کچھ لوگ الٹی سیدھی باتیں کرتے رہتے ہیں، جب کہ یہ حضرات علم کے اس اونچے مقام پر ہیں کہ ان کو یہ باتیں زیب نہیں دیتی ہیں، ایک ثقہ اور معتبر راوی کے بیان کے مطابق دہلی میں اہل علم کی مجلس جمی تھی، جس میں بڑے بڑے اصحاب جبہ و دستار شریک تھے، خوب باتیں ہو رہی تھیں، درمیان میں علامہ احسان الٰہی ظہیر کا ذکر خیر آگیا، تو ایک صاحب کہنے لگے کہ چھوڑو اس ’’دڑھ منڈے “ کی کیا باتیں کرتے ہو؟ تمہی کہو کہ یہ انداز گفتگو کیا ہے ؟علامہ احسان الٰہی ظہیر کے بارے میں تمہارے خیالات یہ ہیں اور مفتی اعظم سعودی عرب علامہ ابن باز رحمہ اللہ کے الفاظ یہ تھے ’’قد جاء من باكستان قوة الإسلام و حركته“ قدر گوہر شاہ داند یا بداند جوہری، کیا ہم میں کوئی گناہگار نہیں، کیا ہمارا دامن ہر عیب سے پاک ہے، ’’ولو يؤاخذ الله الناس بما كسبوا ما ترك على ظهرها من دابة و لكن يوخرهم إلى اجل مسمى فإذا جاء اجلهم فان الله كان بعباده بصيرا.“ (فاطر ۴۵)

اتنی نہ بڑھا پاکی داماں کی حکایت ’’هو اعلم بكم إذ أنشأكم من الأرض و إذ انتم أجنة فى بطون أمهاتكم فلا تزكوا انفسكم هو اعلم بمن اتقى“ ( النجم آیت۳۲ )

جی تو چاہتا ہے کہ ایسے موقع پر دل کھول کر رو لوں اور آنسوؤں کی جھڑی لگا دوں، مگر کیا کروں مقدمہ کے صفحات کا دامن تنگ ہے اور اب میں ایسی چیزوں پر بہت زیادہ تبصرہ کرنا بھی مناسب نہیں سمجھتا ہوں، بس اتنا ضرور کہوں گا۔

ہم لوگ تو مے نوش ہیں، بد نام ہیں ساغر

پاکیزہ ہیں جو لوگ وہ کیا کیا نہیں کرتے

( ساغر صدیقی )

علامہ نواب صدیق حسن خاں قنوجی ثم بھوپالی، مولانا محمد حسین بٹالوی اور علامہ احسان الٰہی ظہیر رحمہم اللہ کی دین اور قوم و ملت کے سلسلے میں جو خدمات ہیں، ان کو کبھی فراموش نہیں کیا جا سکتا ہے، اول الذکر دو شخصیتیں سر زمین ہند و پاک میں بفضل اللہ و عونہ تمام مسلمانوں اور خاص کر اہل حدیثوں کی بقا کی ضمانتیں تھیں۔ جہاں تک علامہ احسان الٰہی ظہیر رحمہ اللہ کا سوال ہے، تو انھوں نے چار دانگ عالم میں سلفیت اور اہل حدیثیت کا پرچار کیا اور ڈنکا بجایا ہے، آہ! اب انھیں ڈھونڈ چراغ رخ زیبا لے کر۔

ہمارے ان اسلاف کی خدمات کو پرکھنے، سمجھنے اور دیکھنے کے لیے فکر صحیح و قلب سلیم کی بھی ضرورت ہے اور نظر عمیق و نگاہ شوق کی بھی۔

نگاہ شوق میسر نہیں اگر تجھ کو

ترا وجود ہے قلب و نظر کی رسوائی

( اقبال )

ہمارے یہ دونوں مقدمہ نگار بزرگان دین حفظہما اللہ و رعاہ ما من کل سوء نہایت قابل احترام ہیں، ہم جیسے کم علم لوگ ان کے علم اور ان کی کتابوں سے مستفید ہو رہے ہیں، میں ان حضرات کے سامنے علم و مطالعہ میں بہت ہی کمتر ہوں، بلکہ کچھ بھی نہیں ہوں ’’کچھ اس میں تمسخر نہیں، واللہ نہیں ہے “ الحمد للہ میری یہ بات تصنع و بناوٹ سے بالکل پاک ہے، ہم سب پر ہمارے بزرگوں کا ادب واحترام واجب ہے، ہاں ادب و احترام کے دائرے میں رہتے ہوئے علمی اختلاف جائز ہے، اگر ہمارے کسی بزرگ کو کوئی بات ناگوار لگی ہو، تو میں اس کے لیے پیشگی معذرت خواہ ہوں، مگر اسلاف کا دفاع کرنا واجب اور ایک علمی امانت ہے، چاہے حملہ آور ہم مشرب و ہم مسلک ہو یا کوئی غیر، اور راقم نے اسی علمی امانت کی ادائیگی کا بوجھ اپنے سر لے کر یہ تحریر رقم کی ہے، والله من وراء القصد وھو عليم بذات الصدور۔

عین ممکن ہے کہ بعض احباب یہ سوال اٹھائیں کہ پندرہ سولہ سال کے بعد اس واقعہ کو ذکر کرنے کا کیا مقصد ہے، تو یاد رکھنا چاہیے کہ بعض باتیں اور بعض واقعات اتنا گہرا زخم دے جاتے ہیں کہ وہ زخم کبھی بھرتا ہی نہیں ہے اور جب کبھی یاد کیجیے تو دل تڑپ اٹھتا ہے، اسلاف کے تعلق سے میری کیفیت اسی طرح ہے۔

تازہ خواہی داشتن گر داغ ہائے سینہ را

گاہے گاہے باز خواں ایں قصۂ پارینہ

و صل الله على النبى الكريم و آخر دعوانا ان الحمد لله رب العالمين.

بندۂ عاجز

عبد الرزاق بن عبد الغفار

دبئی – متحدہ عرب امارات

۲۴ ربیع الاول۱۴۴۶ھ

۲۸ ستمبر۲۰۲۴ ء

آپ کے تبصرے

3000