اسلام کی سربلندی کے لیے کوئی بھی کام کیا جائے، باعث سعادت ہوتا ہے۔ مصر میں اخوان المسلمین نے حسن البناء کی قیادت میں کام شروع کیا۔ کئی عرب اور افریقی ممالک میں بھی اسی قسم کی ایک تنظیم قائم ہوگئی۔ كہا جاتاہے نجم الدین اربکان نے اسی طرح کا کام ترکی میں شروع کیا۔ اربکان نے آٹو موٹیو انجینیرنگ میں جرمنی سے پی ایچ ڈی کی تھی۔ عربی زبان بھی نہیں سیکھی تھی۔ البتہ سعید نورسی صاحب کی تحریک سے منسلک تھے۔ آج کل فتح اللہ گولان اسی تحریک کے لیڈر ہیں۔ برصغیر میں مولانا مودودی نے اخوان کے طرز پرکام شروع کیا۔ جماعت اسلامی کے نام سے ایک جماعت کی تشکیل ۱۹۴۱ء میں کی۔ اور اس وقت کی دنیا بھر میں پھیلی ہوئی اسلامی تحریکات کی ذہنی تشکیل میں قائدانہ رول ادا کیا۔
ان تحریکوں سے لاکھوں مسلمان متاثر ہوئے، طلبہ اور انگریزی خواں طبقہ پر اچھا اثر ہوا اور بیداری کی زبردست لہر پیدا ہوگئی۔
مسلم معاشرہ میں مقبولیت کی وجہ سے طبعی طور سے ان تحریکوں کے قائدین کے ذہن میں اپنی حکومت قائم کرنے کا جذبہ پیدا ہوا اور یہ جذبہ ولولہ بن کر آخر میں ہر چیز پر غالب آگیا۔ اکثر مسلم ممالک میں مغرب کی کوششوں سے جمہوریت کا پلیٹ فارم تیار ہوچکا تھا۔ پاکستان، سوڈان، مصر، تیونس، ترکی، وغیرہ میں اسی پلیٹ فارم کے ذریعہ حکومت تک پہنچنے کا راستہ اختیار کیا گیا۔ اس کا فوری نتیجہ یہ ہوا کہ اسلامی تحریک خالص سیاسی پارٹی میں بدل گئی۔ کہاں اسلامی اقدار پر مبنی اسلامی تحریک کی تشکیل کی جدوجہد، کہاں سیاسی پارٹی کے ووٹ کی ضروریات، ساری جدوجہد الیکشنوں میں جوش وخروش سے حصہ لینے میں صرف ہونے لگی۔ مقصد یہ ٹھہرا کہ ہر حال میں حکومت حاصل کی جائے۔ جہاں بھی ممکن ہو اپنی حکومت بنائی جائے، اگر یہ ممکن نہ ہو تو دوسری پارٹیوں سے اشتراک کیا جائے۔
اسلام ایک مکمل دین ہے، جو عقیدہ اور عمل پر مشتمل ہے۔ اسی عقیدہ اور عمل کے امتزاج سے وہ افراد کو تیار کرتا ہے اور انہی افراد کو ملاکر اسلامی معاشرہ کی تشکیل کرتا ہے۔ جب معاشرہ یا اس کی غالب اکثریت ایسے لوگوں پر مشتمل ہوتی ہے، تو اس میں خود بخود تنظیم پیدا ہوتی ہے اور اسلامی حکومت بن جاتی ہے۔ اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی زندگی میں اس کی بہترین مثال موجود ہے۔ مکی زندگی کے مسلسل 13 سال، توحید اورآخرت کے تصورات کو ذہنوں میں بٹھانے کے لیے صرف کیے۔
ہر قیمت پر حکومت قائم کرنا اگر آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا مقصد ہوتا تو اہل مکہ کی یہ پیشکش قبول کرلیتے کہ اگر آپ کا مقصد حکومت ہےتو ہم آپ کو بادشاہ بنانے کے لیے تیارہیں۔ کہا جاسکتا ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم اس پیش کش کو اگر تسلیم کر لیتےتو نہ صرف یہ کہ آپ کو اقتدار مل جاتا، بلکہ آپ اور آپ کے صحابہ نہ صرف قید وبند، سب وشتم، مارپیٹاور قتل کے عذاب سے بچ گئے ہوتے، بلکہ ان کو ہجرت اور جہاد کے پاپڑ بھی نہ بیلنے پڑتے۔ مزید بر آں اقتدار سے ایک طرف معیار زندگی بلند ہوجاتا تو دوسری طرف انتظار کرکے مناسب وقت میں تدریجی اقدامات کرتے رہتے الخ۔
لیکن آپ نے یہ پیشکش فورا ٹھکرادی۔ آپ کا اصل مقصود حکومت نہیں، ایسے افراد تیار کرنا تھا جو اللہ کے دین پر عامل ہوں۔ پھر ان کی مدد سے ایسا نظام قائم کرنا جس میں اللہ کے حکم کی برتری کو ہر حال میں مقدم رکھا جائے، یہ ایسی سوسائٹی ہو، جہاں اسلامی احکام میں نسخ واضافہ اور حک وترمیم کا تصور بھی نہیںہوگا۔
اب اس پس منظر میں اگر حال اور ماضی قریب میں برپا ہونے والی تحریکوں کا جائزہ لیں تو بڑی مایوسی ہوتی ہے۔ آپ سب کو معلوم ہےکہ اس اسلامی تحریک کے لیڈروں میں چند بہت مشہور تھے۔ ایک طرف نجم الدین اربکان صاحب ترکی میں اسلام کے روشن ستارے تھے، تو سوڈان کے حسن الترابی، تیونس کے شیخ راشد الغنوشی صاحبان کی شہرت اور مقبولیت بحیثیت اسلامی مفکرین عروج پر تھی۔ اب تو ایک زمانہ سے کویت کے ہفتہ وار مجلة المجتمع کی زیارت نہيں ہوتی، نہ سہ روزہ دعوت، یا ہندوپاک کے دوسرے تحریکی اخبارات نظر سے گزرتے ہیں۔ البتہ جس زمانے میں یہ سب مطالعہ کا حصہ تھا اس عہد میں دیکھا کہ ان دونوں کو بڑے والہانہ انداز سے عظیم اسلامی مفکرین کی حیثیت سے پیش کیا جاتا ہے۔ دونوں اپنے ملکوں میں اخوان کے مسلمہ لیڈر تھے۔ بعد میں دونوں ہی قرضاوی صاحب کے اتحاد العلماء المسلمین کے رکن بھی بن گئے۔ ترابی صاحب تو اس دنیا سے چلے گئے۔ البتہ غنوشی صاحب اب بھی اپنا قائدانہ کردار ادا کر رہے ہیں اور حرکة النهضة کے جو 2011 سےحكومت كا حصه ہے، مسلمہ لیڈر ہیں۔ عجیب اتفاق کی بات ہے کہ یہ دونوں کسی نہ کسی شکل میں ایوان اقتدار تک پہنچنے میں کامیاب بھی ہوگئے،حکومت میں رہ کر اور اس کے حصول کے سلسلہ میں ان حضرات کے تصرفات كو دیکھ کر حیرت ہوتی ہے کہ یہ کون سا اسلام پیش کررہے ہیں۔
ترابی صاحب مسلمانوں کو کہتے ہیں قرآن پر عمل کرو، لیلة القدر بذات خود كچھ نہیں اورنہ ایسی کسی رات کا وجود ہے جس میں تمھاری تمنائیں اور دعائیں قبول ہوتی ہوں۔وہ خمر کی حرمت کا انکار کرتے ہیں یا کم از کم پینے پر اسلامی حد کو اعتدا سے مشروط کرتے ہیں۔عورت کی امامت کے مناد اور مرد وعورت کو ایک صف میں ایک دوسرے کے ساتھ شانہ بشانہ کھڑا ہونے کی وکالت کرتے ہیں۔ حجاب کی مشروعیت کا کھلے عام انکار کرتے ہیں کہ قرآن نے تو صرف سینہ ڈھکنے کی بات کی ہے، مرد اور عورت کی شہادت کو برابر مانتے ہیں، خود اخوانی علماء بتاتے ہیں کہ سوڈان کے علماء نے ترابی صاحب کی تکفیر اس بنا پرکی تھی کہ وہ کہتے تھے کہ مسلمان کو خود کشی کا اختیار ہے۔ ان کے نزدیک اس میں بھی مضائقہ نہیں کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے مقابل میں کسی کافر کی بات کو مقدم رکھا جائے، اسی طرح یہ اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی بتائی ہوئی قرآن کی تفسیروں پر اعتراض کرتے تھے، اسلامی تراث کی تجدید کی اعلانیہ دعوت کے ساتھ ساتھ، ان کا یہ کہنا بھی تھا کہ کافروں کے ساتھ، سیکولر ڈیموکریٹک سسٹم میں شریک ہونا کوئی قابل اعتراض بات نہیں۔ اسلامی حدود کو غیر موثر کرنا بھی، ان کے اعتقاد کا حصہ تھا، مضحکہ خیزی کی حد ہے کہ ان کے نزدیک فٹ بال کھیلنا جہاد فی سبیل اللہ ہے، وھلم جرا۔
یہ سب جانتے ہوئے بھی قرضاوی صاحب ان کو بہت بڑا عالم اور اسلامی مفکر سمجھتے ہیں!!
راشد غنوشی صاحب کا معاملہ اور بھی خطرناک ہے۔ اخبارات میں ان کے اجتہادات اور تصرفات کی تفصیل برابر آتی رہتی ہے۔ نہ صرف حبیب بورقیبہ کے سن 1956 کے “قانون الاحوال الشخصیہ” کو ماننے کے لیے تیار ہیں بلکہ ان کو “اجتہاد اسلامی” قرار دیتے ہیں اور “الحقوق المکتسبة للمراة التونسية” سے تعبیر کرتے ہیں۔ اس وقت سے سن 1911 تک کی سابقہ حکومتوں اور پارلیمنٹ کے پاس کردہ تمام قوانین اور قرار دادوں کو کھلے عام اسلامی تسلیم کرتے ہیں، کہتے ہیں ہم ان قوانین کو فقہاء کی آراء کے مماثل سمجھ کر دین کا حصہ سمجھتے ہیں۔ اسی طرح، حرمت تعدد ازواج اور عورت کا حق طلاق وغیرہ میں مساوات اور اس کے اسقاط حمل کے حق کو انھوں نے نہ صرف تسلیم کیا بلکہ ان کو اسلام کا حصہ بنادیا۔ اسی طرح دوسرے احکامات کا بھی معاملہ ہے۔ ماضی کے فاسق فاجر ممبران پارلیمنٹ کی غیر اسلامی آراء کو اگر اجتہاد کے نام پر دین کا حصہ بنادیا گیا ہے تو اس کی کیا گیارنٹی ہے کہ موجودہ “فقہاء” یعنی ممبران پارلیمنٹ قوانین وراثت اور ہم جنسی، مسلم اور غیر مسلم کے مابین شادی کے مطالبہ کو نہ مان لیں گے۔ جس کا شدت سے مطالبہ رئیس جمہوریہ کی طرف سے ہے۔ یقین ہے کہ اگر پارلیمنٹ نے یہ قوانین پاس کردیے تو وہ اسلام کا حصہ بن جائیں گے۔ انا للہ انا الیہ راجعون
ان باتوں کو تحریکی حضرات نہ بھی بتائیں تب بھی دنیا جانتی ہے۔ غالبا اقتدار اعلی ہی ان کا عین مقصد ہے، اس کے لیے چاہےاسلامی تعلیمات کی قربانی ہی کیوں نہ دینی پڑے۔ ممکن ہے اسی لیے ان حضرات کے یہاں اردوگان سیکولر حاکم ہوکر بھی خلیفة المسلمين بن سکتے ہیں۔
ان تحریکوں میں عقیدہ کی کوئی اہمیت نہیں ہے۔ حتی کہ عقیدہ کے مسائل پر بات کرنے سے بھی گریز کیا جاتا ہے اور اسے اختلاف اور اتفاق بین المسلمین کے راستہ کی رکاوٹ سمجھا جاتا ہے۔ خاص طور سےسعودیہ اور پھر اہل حدیثوں سے ان کی دشمنی کا بڑا سبب یہ بھی ہے کہ یہ لوگ عقیدہ کے مسائل کیوں اٹھاتے ہیں۔ ان کے یہاں تصحیح عقائد کو برداشت بھی نہیں کیا جاسکتا، صحیح عقیدہ کے غیاب کے ساتھ ساتھ اسلامی احکام میں کتر بیونت کا آغاز انتہائی تباہ کن ہوگا۔ اسی لیے ان حضرات کے یہاں نہ صرف شیعہ سنی میں کوئی فرق نہیں بلکہ ان کی نظر میں خمینی بہت بڑے اسلامی مفکر ہیں۔ حزب التحریر کے عقلاء تو ان کو خلیفہ ماننے کے لیے بےچین تھے۔اگر وہ خود راضی ہوجاتے شاید جماعت اسلامی اور اخوان کو بھی اعتراض نہ ہوتا۔ ترکی میں اربکان صاحب کے بعد جس طرح شیعہ کا عروج ہوا ہے انتہائی چونکا دینے والا ہے۔ سن 1989 میں اسطنبول میں صرف ایک شیعہ مسجد تھی۔ سن 2010 میں یہ تعداد 30 تک پہنچ گئی۔ دوسرے علاقوں کا بھی یہی حال ہے جہاں یکا دکا شیعہ حسینیات یا مسجدیں تھیں اب ان کی بھرمار ہے۔پورے ترکی میں سن 2010 تک ان کی تعداد 250 ہوگئی تھی۔ اربکان صاحب اپنے وزارت عظمی کے ابتدائی زمانہ میں بطور خاص ایران تشریف لے گئے تھے۔ ایران ان کے 8 بڑے اسلامی ممالک کے مشترکہ بلاک کا بھی حصہ تھا۔ تشیع سے قربت اور اجتہاد سے اسلام میں حذف واضافہ سے ڈر ہے کہ کہیں یہ روش اسلام ہی کو اتنا مسخ نہ کردے جس سے اس کی شناخت ہی مٹ جائے۔
بہترین مضمون، شائستہ انداز۔
جزا اللہ المؤلف خير الجزاء