برصغیر میں رائج مشترکہ خاندانی نظام:
میری معلومات کی حد تک اس نظام کی کوئی ایک متعین شکل نہیں۔ مختلف علاقوں یا گھرانوں میں اس کی متعدد شکلیں پائی جاتی ہیں۔ ہاں چند چیزیں سب میں مشترک ہوتی ہیں۔ اس نظام کی سب سے زیادہ جابرانہ شکل یہ ہوتی ہے کہ خاندان کے ہر شخص کو مجبور کیا جاتا ہے کہ ایک ساتھ رہے۔ مالک و مختار صرف ایک شخص ہوتا ہے۔ ساری آمدنی اس کو ملتی ہے۔ جائیداد بھی اس کے نام ہی ہوتی ہے۔ یہ حق باپ، بھائی یا چچا میں کسی ایک کو حاصل ہوتا ہے۔
اس مشترکہ نظام کی سب سے آسان شکل یہ ہے کہ زمینیں اور جائیدادیں تو مشترکہ ہوتی ہے مگر ہر شخص کو آزادی ہوتی ہے کہ اپنی فیملی لے کر الگ رہ سکتا ہے، اپنی آمدنی بھی رکھ سکتا ہے۔ یہ شکل خال خال ہی کہیں پائی جاتی ہے۔
مشترکہ خاندانی نظام کی شرعی بنیاد:
جہاں تک اس کی شرعی بنیاد کا تعلق ہے اس کے بارے میں کہا گیا کہ:
(ا) معاملات میں اصل جواز ہے۔ اس لیے یہ جائز ہے۔
(ب) انفرادی فیملی کا نظام منصوص نہیں۔ اس لیے مشترکہ نظام کے اختیار میں کوئی چیز مانع نہیں۔
(ج) رہائش اور بود وباش میں عرف اور چلن کا اعتبار ہے۔ اس کا شریعت سے کوئی تعلق نہیں۔
(د) ہندوستان میں مشترکہ خاندانی نظام نہ صرف مصلحت کا تقاضہ ہے بلکہ اس کے علاوہ کوئی چارہ ہی نہیں۔
ان دلائل کے حسن وقبح پر گفتگو کرنا میرا مقام نہیں۔وللناس فيما يعشقون مذاهب۔ ہاں ایک بات بے لاگ عرض ہے کہ بر صغیر میں رائج مشترکہ خاندانی نظام کئی طرح سے غیر اسلامی ہے۔
مشترکہ خاندانی نظام کیسے اسلام کی تعلیمات کے خلاف ہے:
(1) اسلام کا معروف اصول ہے۔ “لاتزر وازرة وزر أخرى”یہ اصول جس طرح گناہ و ثواب پر لاگو ہوتا ہے، اسی طرح اس کا اطلاق دنیاوی اعمال پر بھی ہوتا ہے۔
اسلام نے ہر مرد اور عورت کو حق ملکیت عطا کیا ہے۔ یہاں تک کہ میراث میں بھی عورتوں کا حصہ رکھا ہے۔ للرجال نصيب مما ترك الوالدان والاقربون کی طرح للنساء نصيب مما ترك الوالدان بھی ہے۔ مشترکہ خاندانی نظام اس اصول کی نفی ہے۔
(2) شادی بیاہ ہر شخص کی اپنی ذمہ داری ہے۔ جس طرح زن آشوئی کے معاملات صرف شوہر کی ذات سے متعلق ہیں۔ نان و نفقہ اور سکونت کا انتظام بھی اس کی ہی ذمہ داری ہے۔
مشترکہ نظام اس اصول سے ٹکراتا ہے۔
(3) رہائش بیوی کا بنیادی حق ہے۔ اس میں شاید کسی کو اختلاف نہ ہو۔
ابن عمر رضی اللہ عنہ کی حدیث ہے:“من استطاع منكم الباءة فليتزوج”۔ یہ حدیث بخاری (رقم5065) اور مسلم (رقم3385) میں ہے۔ اس كی تشریح کرتے ہوئے علماء اس بات کی طرف خاص طور سے اشارہ کرتے ہیں۔
قاضی عیاض رحمہ اللہ لکھتے ہیں: “الباءة …ويقال ايضا: الباه..وهو النكاح ويسمى به الجماع. واصله أن من تزوج تبوأ لنفسه وزوجه بيتا”. (مشارق الانوار 1/190)۔
“باء اور باہ بھی آیا ہے۔ اس کا اطلاق نکاح پر ہوتا ہے، عمل جماع کے لیے بھی مستعمل ہے۔ اس کی اصل یہ ہے کہ انسان جب شادی کرتا ہے تو اپنے اور بیوی کے لیے گھر بناتا ہے”۔
امام خطابی لکھتے ہیں: “الباءة كناية عن النكاح. واصل الباءة الموضع الذي يأوي اليه الانسان، ومنه انشق مباءة الغنم”. معالم السنن 3/153۔ “باءہ سے نکاح کی طرح اشارہ ہے۔ اصل باءہ اس جگہ کو کہتے ہیں جس میں انسان پناہ لیتا ہے۔ اسی سے بکری کا باڑہ “مباءة الغنم” بنا ہے”۔
حافظ ابن حجر لکھتے ہیں:
قال المأزري: “اشتق العقد على المرأة من أصل الباءة لان من شان من يتزوج المرأة أن يبوئها منزلا”. فتح 9/136۔
“مازری کہتے ہیں: عورت سے عقد باءہ سے نکلا ہے کیونکہ جو بھی شادی کرتا ہے، بیوی کے لیے گھر بناتا ہے”۔
ان سب اقوال میں بیوی کے لیے گھر کو شادی کی بنیادی ضرورت بتایا گیا ہے۔
امام نووی لکھتے ہیں:
“اختلف العلماء في المراد بالباءة هنا على قولين يرجعان إلى معنى واحد، أصحهما: أن المراد معناها اللغوي: وهو الجماع. فتقديره من استطاع منكم الجماع لقدرته على مؤنه – وهي مؤن النكاح – فليتزوج، ومن لم يستطع الجماع لعجزه عن مؤنه، فعليه بالصوم، ليدفع شهوته، ويقطع شر منيه، كما يقطعه الوجاء…
والقول الثاني: أن المراد هنا بالباءة مؤن النكاح، سميت باسم ما يلازمها، وتقديره: من استطاع منكم مؤن النكاح فليتزوج، ومن لم يستطعها فليصم ليدفع شهوته. شرح صحيح مسلم 9/ 177۔
ابن حجر کہتے ہیں:
ولا مانع من الحمل على المعنى الأعم بأن يراد بالباءة القدرة على الوطء، ومؤن التزويج”۔ (الفتح 9/237)۔
اس طرح شادی کے لیے نکاح کی ضرورتوں کا مہیا ہونا ضروری ہے۔ اور “مؤن النکاح” میں مہر اور گھر دونوں داخل ہیں۔
ہر شخص کو علم ہے لیلة الزفاف كو اسی مناسبت سے “لیلة البناء” بھی کہا جاتا ہے۔ شيخ آدم اثيوبي نے فیومی سے نقل کیا ہے:
“وبنى على أهله: دخل بها. واصله أن الرجل كان اذا تزوج بنى للعرس خباء جديدا وعمره بما يحتاج اليه او بني له تكريما. (ذخيرة العقبى 3/ 437)
اس کو عارضی حجلہ عروسی بھی کہہ سکتے ہیں۔ تاہم بیوی کے لیے رہنے کا گھر بھی مراد ہوسکتا ہے۔ یہ گھر/ ِیمہ عارضی ہو تب بھی بیوی کی مستقل اقامت کے لیے الگ گھر ہوتا ہے جس كو بیت الزوجیة کہا جاتا ہے۔ یہ گھر بیوی کا بنیادی حق ہے۔
بیت الزوجیہ
الموسوعة الكويتية میں ہے:
“وبيت الزّوجيّة: محلّ منفرد معيّن مختصّ بالزّوجة، لا يشاركها أحد في سكناه من أهل الزّوج المميّزين، وله غلق يخصّه ومرافق سواء كانت في البيت أو في الدّار، على ألا يشاركها فيها أحد إلاّ برضاها. وهذا في غير الفقراء الّذين يشتركون في بعض المرافق”.
بیت الزوجیہ بیوی کے لیے الگ خاص مکان ہونا چاہیے۔ جس میں شوہر کے خاندان سے دوسرا بالغ شخص شریک نہ ہو۔ اس کو الگ سے بند کرنے کی سہولت ہونی چاہیے۔ اس کے لیے ساری سہولیات (مرافق/ حمام مطبخ وغیرہ) ہونی چاہئیں۔ دوسرا کوئی اس کی مرضی کے بغیر ان میں شریک نہیں ہوسکتا۔ فقراء کو ان سہولیات میں رعایت ہوگی۔
مزید لکھتے ہیں:
“شروط بيت الزّوجيّة: (بیت زوجیت کی شرطیں)
3 – يرى الفقهاء أنّ بيت الزّوجيّة يراعى فيه ما يأتي:
أ – أن يكون خالياً عن أهل الزّوج، سوى طفله غير المميّز، لأنّ المرأة تتضرّر بمشاركة غيرها في بيت الزّوجيّة الخاصّ بها، ولا تأمن على متاعها، ويمنعها ذلك من معاشرة زوجها، وهذا بالنّسبة إلى بيت الزّوجيّة متّفق عليه بين الفقهاء.” اس کا ترجمہ نہیں کر رہا ہوں۔
اس مسئلے میں فقہاء کا اختلاف ہے کہ بیوی کے لیے مستقل عمارت چاہیے یا کسی عمارت کا ایک حصہ ہی کافی ہوگا۔ بعض فقہاء کا خیال ہے کہ الگ بلڈنگ نہ ہو تو عمارت کا ایسا حصہ کافی ہوگا جس میں اس کی پرایویسی محفوظ رہ سکتی ہے۔ بند کیا جاسکے کا مطلب الگ انٹرنس ہے۔ ورنہ تالا تو ہر کمرے میں ہوتا ہے۔
چند فقہاء کی رائیں:
ابن قدامہ لکھتے ہیں:
والأو لى أن يكون لكل واحد منهن مسكن يأتيها فيه، …وإن اتخذ لنفسه بيتا يستدعي اليه كل واحدة منهن في ليلتها ويومها كان له ذلك” المغني 10/ 245۔
“بہتر ہے کہ ہر بیوی کا اپنا گھر ہو جہاں شوہر ان کے پاس چلا جائے۔ لیکن اگر ان کو اپنے گھروں میں رہنے دے اور اپنا ایک مستقل گھر بنا لے اور ہر بیوی کو اس کی باری پر اپنے پاس بلا لے تو اس میں بھی کوئی حرج نہیں”۔
ایک بات قابل غور ہے کہ ابن قدامہ نے پہلی شکل کی ایک دلیل یہ بھی دی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے یہی طریقہ اختیار کیا تھا۔
صاحب ہدایہ لکھتے:
“وعلى الزوج أن يسكنها في دار منفردة ليس فيها احد من أهله إلا أن تختار ذلك…وإن كان له ولد من غيرها فليس له أن يسكنه معها دار” ۔الهداية مع الفتح 4/375۔
اور شوہر بيوي كو الگ گھر میں رکھے، جس میں اس کا کوئی رشتہ دار نہ ہو سوائے اس کے کہ بیوی خود ہی راضی ہوجائے۔
ابن ھمام لکھتے ہیں:
وفي شرح المختار: ولو كانت في الدار بيوت وأبت أن تسكن مع ضرتها او احد من أهله، إن أخلى لها بيتا وجعل له مرافق وغلقا على حدة ليس لها أن تطلب بيتا۔
كہ اگر عمارت کے اندر کئی گھر ہیں اور بیوی اپنی سوکن یا شوہر کے رشتہ داروں کے ساتھ نہ رہنا چاہے۔ ایسی صورت میں اس کو ایک خاص جگہ دے دی، جس کا اپنا تالا اور (مرافق) ضروت کی دوسری چیزیں (حمام مطبخ) بھی ہوں،ض تو ایسی صورت میں بالکل علیحدہ عمارت کا مطالبہ صحیح نہیں۔
ابن عابدین مرافق کے سلسلے میں حمام اور مطبخ کی تصریح کی۔ (رد المختار 5/320-321)۔
یہ کیفیت بتاتی ہے کہ اگر اس کی اپنی عمارت نہیں تو شقہ کی طرح کا گھر ہونا چاہیے۔
ایسی مزید عبارتیں نقل کی جاسکتی ہیں۔ فقہاء کے یہ اقوال رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے طریقے کے عین مطابق ہیں۔
رسول صلی اللہ علیہ وسلم کا عمل:
رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنی ہر بیوی کو گھر دے رکھا تھا۔ یہ گھر ایک چھوٹا سا کمرہ اور اٹیچڈ باتھ روم نہیں تھے۔ بلکہ اس وقت کے رائج عرف میں مکمل گھر تھے۔ جو مسجد کے ارد گرد پھیلے ہوئے تھے۔ یقینا ان کو حجرہ بھی کہا جاتا ہے۔ مگر ہر ایک کا باہر سے الگ دروازہ تھا ہر ایک کی حد الگ تھی۔ اکثر کی دیواریں بھی مشترکہ نہیں تھیں۔ عائشہ رضی اللہ عنہا کا گھر اتنا بڑا تھا کہ تینوں قبروں کے بعد بھی ان کا قیام وہیں تھا۔ یہ سب الگ الگ گھر تھے۔ واقدی کا یہ قول عام طور سے تسلیم کیا گیا ہے کہ:“كانت لحارثة بن النعمان منازل قرب المسجد وحوله، وكلما أحدث رسول الله صلى الله عليه وسلم أهلاً، نزل له حارثة عن منزله حتى صارت منازله كله”
کہ حارثہ بن نعمان کے بہت سے گھر مسجد کے بغل اور اس کے آس پاس تھے۔ جب جب رسول اللہ نے شادی کی انھوں نے ایک خالی کردیا۔ یہاں تک کہ ان کے سارے گھر رسول صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آگئے۔ (امتاع للمقريزي 10/92)
عام طور سے دوسرے صحابہ کا طرز عمل اس سے مختلف نہیں تھا۔ عموم روایات کا بھی یہی مفہوم ہے۔ مثلا
عقبہ بن عامر رضی اللہ عنہ کی روایت میں بھی مستقل مسکن کی بات کی گئی ہے۔ اس روایت کے الفاظ ہیں:
أن رسول الله صلى الله عليه وسلم قال: إياكم والدخول على النساء، فقال رجل من الانصار: يا رسول الله! أرايت الحمو؟ قال: الحمو الموت. (بخاري رقم الحدیث 5232)۔
“حمو” دیور اور دوسرے سسرالی رشتے داروں کو کہتے ہیں۔
امام خطاب لکھتے ہیں: الحمو واحد الأحماء وهم الأصهار من قبل الزوج (إعلام السنن 3/109)
كیا بر صغیر میں رائج مشترکہ خاندانی نظام میں اس حدیث کے مفہوم پر عمل ممکن ہے۔
اس سلسلے میں اللہ رب العزت کا فرمان خاص اہمیت رکھتا ہے۔ سورت الطلاق کی پہلی آیت میں ہے:
“لاتخرجو هن من بيوتهن ولا يخرجن” اس آیت کریمہ میں اسی بیت زوجیت کا تذکرہ ہے۔ واضح انداز میں بیت کی اضافت عورت کی طرف ہے۔ جس سے معلوم ہوتا ہے کہ بیت زوجیت کا عورت کے تصرف میں ہونا ضروری ہے۔ اسی طرح اس کا نان ونفقہ اس کے ہی تصرف میں ہونا چاہیے۔
دوسری احادیث سے بھی اس مفہوم کی تائید ہوتی ہے۔
عام طور سے ایک حدیث ذکر کی جاتی ہے جو ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے، اس کا بھی یہی مفہوم ہے۔ امام بخاری نے “باب لاتأذن المرأة في بيت زوجها لأحد إلا باذنه” میں اس کا ذکر کیا ہے۔ اس کے الفاظ ہیں:
“لاينبغي للمراة ان تصوم وزوجها شاهد إلا بإذنه، ولاتأذن في في بيته إلا بإذنه، وما أنفقت من نفقة من غير أمره فانه يؤدى اليه شطره” (البخاري رقم الحديث 5195)
اس میں گھر اور مال میں جس تصرف کا ذکر ہے مشترکہ خاندانی نظام میں اس کا تصور ممکن نہیں۔
آخری بات
جہاں تک والدین کی خدمت، چھوٹے بھائیوں کی مدد، چچا اور ان کی اولاد کی دیکھ ریکھ وغیرہ مسائل ہیں تو ایک خدا ترس شخص یہ سب کام الگ رہ کر بھی کرسکتا ہے۔ اور لوگ کرتے بھی ہیں۔ ناخداترس ساتھ رہ کر بھی کچھ نہیں کرتے۔
قلت وسائل کی دہائی بھی ایک خاص پس منظر میں ہے۔ بانٹ کے فورا بعد ہر ایک کے پاس وسائل آجاتے ہیں اور اپنا چولھا شروع ہوجاتا ہے۔ گھر بھی بٹ جاتا ہے۔
اسلام کی تعلیم ہے: “لا تتمنوا مافضل اللہ به بعضكم على بعض، للرجال نصيب مما اكتسبوا وللنساء نصيب مما اكتسبن”
ہر ایک جب اپنی کمائی کا مالک ہے تو ہر شخص اپنی کمائی اور قریبی رشتہ داروں کی مدد سے ایک چھونپڑی تو بنا ہی سکتا ہے۔ بمبئی کانپور جیسے شہروں میں تو لوگ پلاسٹک کے تنبو کے نیچے بھی زندگی گزار لیتے ہیں۔ ہندوستان میں تو گھر بنانے پر حکومتی امداد کی تشہیر بھی سنی ہے۔
یہ بھی ممکن نہ ہو تو کرایہ پر رہنا کیا برا ہے۔ یہ کام دیہاتوں میں ہوسکتا ہے۔ اس سے دیہات کی اکنومی بھی آگے بڑھ سکتی ہے۔
ما شاء اللہ
بہت مفید تحریر ہے اللہ ہمیں اسے اپنے معاشرے پر نافذ کرنے کی توفیق عطا فرمائے آمین
*عائشہ رضی اللہ عنہا کا گھر اتنا بڑا تھا کہ تینوں قبروں کے بعد بھی ان کا قیام وہیں تھا۔ یہ سب الگ الگ گھر تھے*
آپ کی اس تحریر میں ہے کہ
“عائشہ رضی اللہ عنہا تینوں قبروں کے بعد بھی ان کا قیام وہیں تھا”
اس کا کوئی تاریخی ثبوت پیش کریں گے
جزاکم اللہ خیرا وبارک فیکم
واٹساپ 9546058782
“السلام علیکم ورحمت اللہ وبرکاتہ جزاک اللہ خیرا۔ نیک جذبات کے لئے شکریہ۔ ام المونیں عائشہ رضی اللہ عنہ کے گھر کے بارے میں عرض ہے کہ اس میں تو کوئ اختلاف نہیں کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی وفات آپ کے گھر میں ہوئ تھی۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی تدفین کے بعد بھی ان کا قیام اسی گھر میں تھا۔ اس کا ذکر مختلف روایتوں میں بھی۔ مثلا صحيح مسلم كتب الحج (حدیث نمبر 3027) میں ہے مجاہد نے کہا: دخلت أنا وعروة بن الزبير المسجد فإذا ابن عمر جالس عند باب حجرة عائشة، وإذا… Read more »
السلام عليكم ورحمة الله وبركاته
شیخ رفیع احمد مدنی صاحب نے آپ کا جواب لکھا مگر کسی وجہ سے پوسٹ نہیں ہو پا رہا تھا، اس لیے شیخ کا پیغام میں نقل کر رہا ہوں۔
(عبد القدیر)
ماشاءاللہ آپ نے بہت ہی اہم موضوع پر بات کیے ہیں ضرورت اس بات کی ہے کہ ہم مشترکہ خاندانی نظام کو ختم کرنے کی کوشش کریں تاکہ اس کے جو نقصانات ہیں ہم اس سے بچ سکے اور مشترک خاندان میں سب سے بڑا ظلم پوتے پر ہوتا ہے اگر کسی کے والد کا انتقال ہوجاتا ہے اور اس کے دادا زندہ رہتے ہیں تو آپ سے گزارش ہے کہ اس موضوع پر بھی قلم بند کریں
جزاک اللہ خیرا واحسن الجزاء