وہ اپنی خو نہ بدلیں گے

رفیع احمد مدنی

مولانا رفیق صاحب سلفی کا ایک اور مضمون چند دن پہلے آیا اور ایک بار پھر احباب کی توجہ کا مرکز بن گیا۔ چند احباب اس کو “چشم کشا”، “گراں قدر علمی تجزیہ” “بے لاگ علمی تبصرہ” اور نہ جانے کیا کیا قرار دیتے ہیں۔ جب کہ عام طور سے دوسرے احباب اس کو لاحاصل یا کم ازکم ایک قابل اعتراض کوشش سمجھتے ہیں۔ بعض احباب تو اس کو مولانا کے دل کی بھڑاس قرار دیتے ہیں۔
ایک بات تو میری بھی سمجھ میں نہیں آتی کہ موضوع بٹالوی مرحوم کی وصیت ہے۔ مگر گفتگو نہ وصیت کے عام موضوع پر ہے، اور نہ ہی اس خاص وصیت کو موضوع سخن بنایا گیا۔ بات مولانا کی ذات پر بھی نہیں ہورہی ہے۔ اس لیے بجا طور طور پر لگتا ہے ہدف کچھ اور ہے، سرسری انداز میں اس کا ذکر بس ہلکی سے مناسبت پیدا کرنے کے لیے ہے۔
بیت القصید یہ دعوی نظر آتا ہے کہ موصوف نے جماعت کے مزاج کو بدل دیا اور فقہی فروعات میں الجھا دیا۔ لیکن پھر اس کے ساتھ ہی یہ تردید بھی کہ نہیں، ایسا کچھ نہیں ہوا۔ مولانا تو جہاد پر فاضلانہ علمی بحث کر رہے تھے اور اتحاد بین المسلمین کے علم بردار تھے۔
جب یہ پس منظر ہے، تو یہ بات سمجھ میں نہیں آتی کہ اس مناسبت سے جماعت کی تقصیر پر ماتم یا خودساختہ اہل حدیثوں پر گرجنے برسنے کا کیا تک ہے۔ عجیب بات ہے ایک طرف یہ کہا جا رہا ہے کہ مولانا مسعود عالم نے مولانا بٹالوی پر الغاء جہاد اور جماعت کو فروعات میں الجھانے کا غلط الزام لگایا؛ تو دوسری طرف کہا جاتا ہے کہ مولانا ندوی ایک جہاں دیدہ عالم ہیں اس لیے جماعت اہل حدیث کے سلسلہ میں ان کا تبصرہ بہت وزن رکھتا ہے۔ ایں چہ بوالعجبی است۔
مجموعی طور سے پورے مضمون کی تان اسی پر ٹوٹتی ہے کہ جماعت اہل حدیث فروعی مسائل میں کھو گئی۔ اور اس کی اس روش نے پوری امت کے اتحاد کو پارہ پارہ کردیا۔ اس کی “بے بضاعتی” اور اس کے “بے مقصد ٹولہ” ہونے پر استدلال کے لیے جماعت اسلامی کی اسی مشہور شخصیت کے اقوال پیش کیے جارہے ہیں۔ اور ان کو مستند بنانے کے لیے علماء اہل حدیث کے غیر متعلق اقوال کا سہارا لیا جاتا ہے۔
بہت سارے لوگ مولانا سلفی کو صاحب فکر عالم سمجھتے ہیں، کچھ لوگ ان کے وسعت مطالعہ اور سیال قلم کی داد دیتے ہیں۔ یہ بھی حقیقت ہے آپ جماعت اہل حدیث پر مسلسل لکھ رہے ہیں۔ تدریس، تنظیم، مستقبل کی پلاننگ، جماعت جمعیت کی موجودہ حالت وغیرہ تمام ہی میدان ان کی جولان گاہ ہیں۔ ایک وقت ایسا بھی آیا کہ جمعیت کے ایک سابق ناظم نے مولانا کے خیالات کو پورے طور سے اختیار کرلیا تھا، اور کھلم کھلا انہی خیالات کو اپنے نام سے پیش کرنا شروع کردیا تھا۔ لیکن تعجب یہ ہے کہ حالات پھر بھی مایوس کن رہے۔
کچھ لوگوں کو یہ قلق تو ہوگا ہی کہ اس ساری تگ و دو کے باوجود جماعت اس گوہر آبدار کی قدر کیوں نہیں کرتی۔
جہاں تک جماعت کی بات ہے تو اس کی ہجو میں مولانا بھی وہی کہہ رہے ہیں جو کچھ مرحوم مسعود صاحب نے کہا ہے۔ سنا ہے مولانا سلفی کا خود اس حلقہ سے تعلق رہا ہے، اس لیے مرحوم مولانا مسعود عالم سے فکری ہم آہنگی کوئی بعید نہیں۔
بد قسمتی یہ ہے کہ صرف مسعود صاحب کی بات نہیں، فقہ اہل الحدیث پر عامل جماعت اسلامی سے منسلک تمام علماء اور منسوبین کا یہی موقف رہتا ہے۔ مرحوم مولانا خلیل صاحب ٹکریا والے اہل حدیث اداروں میں گھس گھس کر یہی کام کرتے تھے۔ ان کا خیال تھا کہ جماعت اہل حدیث ایک ناکام یا بے معنی گروہ ہے۔ خود مجھ سے بات کرتے ہوئے کہا کہ تحریک شہیدین میں اہل حدیثوں کا کردار بس اتنا تھا جتنا کسی عمارت کے بنانے میں ایک مزدور کا ہوتا ہے۔
بات آگے بڑھانے سے پہلے اس کا ذکر ضروری ہے کہ لگتا ہے مولانا رفیق صاحب سلفی کو سلفیت سے عشق ہے۔ لیکن شاید یہ وہ عام سلفیت نہیں، جس میں عمل اور عقیدہ کو کتاب وسنت کے تابع کردیا جاتا ہے۔ اور کتاب وسنت کی تعبیر سلف صالح کے فہم کے مطابق ہوتی ہے۔ اور اس سلفیت میں تقدیر، ایمان بالملائکہ، حشر و نشر، جزا سزا، جنت جہنم جیسے عقیدہ کے مسائل کے ساتھ اسماء و صفات باری تعالی اور اس کی توحید الوہیت کو خاص اہمیت حاصل ہے۔ عقیدہ کے ساتھ ساتھ مسلمان کا ہر عمل کتاب و سنت کے مطابق ہونا چاہیے۔ وہ عمل کسی کو چھوٹا لگے یا بڑا۔ اس طرح یہ سلفیت ایمان اور عمل کے مجموعہ کا نام ہے۔ بات کتنی معمولی ہے کہ کسی کو دائیں کے بجائے بائیں ہاتھ سے کھانے کی عادت ہے۔ لیکن رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے منع کیا، ایک شخص نے اصرار کیا کہ میں تو دائیں ہاتھ کا استعمال نہیں کرسکتا۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے کہا ٹھیک ہے تم کر ہی نہیں سکتے۔ اور پھر کہنے والے کا ہاتھ شل ہوگیا۔
البتہ ایک ادعائی سلفیت اور بھی ہے، جس میں عقیدہ کے مسائل (یا بعض مسائل) کو “لات و منات” گردانا جاتا ہے، اعمال میں بھی وسعت ہوتی ہے، کچھ پر عمل ضروری نہیں کہ وہ یا تو غیر اہم ہیں یا وہ مجموعی طور سے اسلامی مقاصد کے لیے مضر یا ان کے منافی ہیں۔
جماعت اسلامی کے حلقوں میں یہ بات بڑی مشہور ہے کہ “اسلام میں داڑھی ہے مگر داڑھی میں اسلام نہیں”۔ عام مسلمانوں کے درمیان تو اس معاملہ میں اور بھی وسعت کا رواج ہے۔ ” اصل پردہ تو آنکھوں کا ہے”، “نظر میں کیا رکھا ہے دل پاک ہونا چاہیے”، ” آپ کو اسبال ازار کی فکر ہے جناب فکر کو بلند کریں”۔ وغیرہ وغیرہ۔
یہ ادعائی سلفیت ایک خاص نوعیت کی سلفیت ہے۔ میں نہیں کہتا کہ مولانا اسی طرح کی سلفیت کے دلدادہ ہیں۔ لیکن یہ بات تو ظاہر ہے کہ ان کو سلفیت کا صرف وہی مفہوم قابل قبول ہے جو ان کی اپنی تعبیر پر پورا اترتا ہو۔
مہربانی ہوگی اگر اس کی واضح نشاندہی کردی جائے کہ جماعت اہل حدیث کو فروعات کے دلدل میں کس نے الجھایا۔ مولانا اسماعیل شہید رحمہ اللہ اور پھر میاں صاحب رحمہ اللہ کے خلاف یہی الزام لگایا گیا۔ بعد کے دور میں مولانا محمد جوناگڑھی اور ان کے اخبار محمدی اور ان سے پہلے مولانا سعید صاحب بنارسی کو شدت سے مطعون کیا گیا۔ مولانا امرتسری اور ان کے اخبار کے بارے میں بھی یہی بات بآواز بلند کہی جاتی رہی ہے۔
جماعت اہل حدیث کو اصول و فروع کا درس دینے والے بھول جاتے ہیں کہ اسلام عقیدہ و عمل کے مجموعہ کا نام ہے۔ جماعت کے علماء جب شرکیہ اعمال اور عقائد پر بات کرتے ہیں تو کہا جاتا ہے کہ یہ لایعنی کام ہے، یہ رویہ نہ صرف اتحاد بین المسلمین کے راستہ میں رکاوٹ ہے بلکہ اس سے مسلمانوں کی صفوں میں انتشار پیدا ہوتا ہے۔ پھر یہی علماء جب اتباع سنت کے جذبہ کے تحت نماز کی حرکات سے لے کر کسی بھی سنت پر عمل کرنا چاہتے ہیں، تو انھیں آج بھی بزور روکا جاتا ہے، اور جب یہ لوگ اپنے موقف کی توضیح یا دفاع کرتے ہیں تو ان کو لڑاکا اور دین اسلام کی روح سے ناآشنا قرار دیا جاتا ہے۔
مولانا کے اپنے الفاظ میں”خاص مناظرانہ ماحول میں ہمارے جن علماء کی تربیت ہوئی ہے، وہ بین المسالک اتحاد واتفاق کے لیے کبھی تیار نہیں ہوں گے۔ ان کو تو یہی سمجھایا اور بتایا گیا ہے کہ بریلویت اور دیوبندیت ہی اسلام کے سب سے بڑے دشمن ہیں، پہلے ان کو درست کیا جائے، اس کے بعد کوئی اگلا قدم اٹھایا جائے گا۔ یاد رکھیے کہ اس قسم کی احمقانہ باتیں نہ دین کا حصہ ہیں اور نہ ان سے اسلام کا کوئی بھلا ہونے والا ہے”۔
ہوسکتا ہے مولانا کی بات میں نہ سمجھ سکا ہوں۔ میری سمجھ میں تو یہی آرہا ہے کہ ساری برائی کی جڑ وہ اہل حدیث علماء ہیں جن کی تربیت ہی مناظرانہ ہے۔ مجھے یاد ہے اس سے پہلے بھی مولانا نے جب اس سے ملتے جلتے خیالات کا اظہار کیا تھا، میں نے عرض کیا تھا کہ مولانا آپ جن بریلوی اور دیوبندی حضرات سے اتحاد کے داعی ہیں، اس میں رکاوٹ اہل حدیث نہیں۔ ( مطلب تھا کہ بسم اللہ آپ کیجیے، پنج وقتہ نماز کے لیے کسی بریلوی مسجد کا انتخاب کیجیے)۔
شاید آپ کو ہماری اس بات سے اتفاق نہیں کہ وہ حضرات خود ہی اس کے روادار نہیں۔ اب عمل اور تجربہ کرکے دیکھ لیں شاید یقین آجائے۔
مجھے پورا یقین ہے کوئی ایسی مثال پیش نہیں کی جاسکتی ہے جہاں کسی بریلوی یا دیوبندی کو اہل حدیث مسجد میں آنے سے روکا گیا ہو۔ اس کے برعکس ایسی مثالیں تو عام ہیں جہاں اہل حدیثوں کو زدوکوب کرکے روکا جاتا ہے۔
بات ختم کرنے سے پہلے اس کا ذکر ضروری ہے کہ مولانا سلفی کو دکھ ہے، اور ہونا چاہیے کہ جماعت اہل حدیث کا یہ حال ہوگیا ہے: “جتھے بندی کی ریس میں جماعت اہل حدیث نے اپنے بنیادی اصولوں کو پامال کرڈالا ہے، اب اہل حدیث بنے رہنے کے لیے پانچ وقت کی نماز پڑھنا بھی ضروری نہیں بلکہ ضروری صرف یہ ہے کہ جب کبھی نماز پڑھی جائے تو آمین بالجہر، رفع یدین اور قراءت خلف الامام کا اہتمام کرلیا جائے۔ اہل حدیث معاشرے کی عملی تصویر یہی ہے، اس پر اگر کوئی چراغ پا ہوتا ہے تو اسے اہل حدیث آبادی میں نمازیوں کی تعداد کا سروے کرکے اپنی حزبیت اور عصبیت کا قبلہ درست کرلینا چاہیے۔ اسلام کے دوسرے احکام و قوانین جن پر ہم اس ملک میں بآسانی عمل کرسکتے ہیں، ان کی صورت حال بیان کرنے کی ضرورت نہیں، اگر بصیرت و بصارت سلامت ہے تو اس کا ادراک اور مشاہدہ کیا جاسکتا ہے”۔
اگر واقعی یہی صورت حال ہے تو افسوس ناک ہے۔ ہوسکتا ہے مولانا کا مشاہدہ صحیح ہو؛ لیکن اب تک میری ملاقات کسی بھی ایسے اہل حدیث عالم سے نہیں ہوئی جس کے نزدیک اہل حدیثیت کا یہی معیار ہو۔ اس کے برخلاف میں ذاتی طور سے ایسے بہت سارے علماء کو جانتا ہوں، جن کا خیال ہے کہ نماز نہ پڑھنے والا شخص اہل حدیث کیا مسلمان ہی نہیں رہ جاتا۔
جہاں تک نماز، روزہ اور اسلامی شعائر میں سستی کا معاملہ ہے تو یہ یقینا افسوسناک ہے۔ مگر کسی طرح بھی یہ مصیبت کسی ایک مسلک کے ساتھ خاص نہیں۔ بدقسمتی سے اس میں ساری امت مبتلا ہے۔ اور معاملہ سستی سے بڑھ کر ارتداد تک پہنچ چکا ہے۔ اس غیر صحت مند رجحان کا مداوا ڈھونڈھنا وقت کی اہم ضرورت ہے پر یہ ضروری کام، شاید جماعت اہل حدیث پر تبرا سے ممکن نہیں۔

آپ کے تبصرے

3000