چند دنوں پہلے تعزیتی مضمون اور تعزیتی جلسوں کی مناسبت سے دو سوال سامنے آئے اور اس دن شیخ عبد المنان سلفی رحمہ اللہ کی وفات کی مناسبت سے ابناء جامعہ سلفیہ کا زوم پر ایک ورچول اجلاس ہونے والا تھا۔ اسی پس منظر میں ان سوالوں کی اہمیت اور بڑھ گئی تھی۔ تاہم دینی نقطۂ نظر سے اس کے جواز اور عدم جواز کا فتوی ہم جیسے ہیچمداں طالب علموں کا منصب نہیں ہے۔ اس سلسلے میں راسخین فی العلم مفتیان کرام سے ہی رہنمائی مل سکتی ہے۔ ذیل کی سطریں صرف مسئلے کو واضح کرنے کے لیے ہیں۔
غم ایک فطری ردعمل
اس سلسلے میں چند پہلو قابل غور ہیں۔
کسی عزیز کی بیماری، تکلیف اور موت پر دکھ فطری بات ہے۔ اس سے کوئی بھی مستثنیٰ نہیں۔ خود نبی کریمﷺ کے سلسلے میں مروی ہے کہ ایسے کئی موقعوں پر آپﷺ کی آنکھیں خود بخود نم ہوگئیں۔ مشہور صحابی سعد بن عبادہ رضی اللہ عنہ سخت بیمار تھے۔ آپ ان کی عیادت کے لیے تشریف لے گئے۔ بیماری کی شدت دیکھ کر آپ کی آنکھیں نم ہوگئیں۔ آپ روئے تو ساتھی صحابہ بھی رونے لگے۔ پھر ٹھہر کر فرمایا: آنسو اور غم میں کوئی حرج نہیں۔ عذاب اس زبان کی وجہ سے ہوتا ہے۔ اس واقعہ کو عبدالله بن عمر رضي الله عنہما نے ان الفاظ میں نقل کیا ہے :
اشتكى سعد بن عبادة شكوى له، فأتاه النبي صلى الله عليه وسلم يعوده مع عبدالرحمن بن عوف، وسعد بن أبي وقاص، وعبدالله بن مسعود رضي الله عنهم، فلما دخل عليه فوجده في غاشية أهله، فقال: قد قضى؟ قالوا: لا، يا رسول الله، فبكى النبي صلى الله عليه وسلم، فلما رأى القوم بكاء النبي صلى الله عليه وسلم، بكَوا، فقال: ألا تسمعون؟ إن الله لا يعذب بدمع العين، ولا بحزن القلب، ولكن يعذب بهذا – وأشار إلى لسانه – أو يرحم. وإن الميت ليعذب ببكاء أهله عليه(اللفظ للبخاري:1304، و نحوہ مسلم:2134)
آپﷺ اپنے شیر خوار بچے ابراہیم کو آخری وقت میں دیکھنے تشریف لے گئے۔ اس کی کیفیت أنس بن مالك رضي الله عنہ نے بیان کی ہے :
دخلنا مع رسول الله على أبي سيف القين،۔۔۔ ثم دخلنا عليه بعد ذلك -وإبراهيم يجود بنفسه- فجعلت عينا رسول الله تذرفان۔ فقال له عبدالرحمن بن عوف رضي الله عنه : وأنت يا رسول الله؟ فقال: “يا ابن عوف، إنها رحمة”، ثم أتبعها بأخرى، فقال: “إن العين تدمع، والقلب يحزن، ولا نقول إلا ما يرضى ربنا، وإنا بفراقك يا إبراهيم لمحزونون”.(اللفظ للبخاري:1303، ومسلم:2315)
ہم آپﷺ کے ساتھ ابو سیف کے پاس گئے۔۔۔۔ پھر آپﷺ دوسری بار اپنے بیٹے ابراہیم کو دیکھنے گئے، تو ان پر نزع کی کیفیت طاری تھی۔ اس وقت آپﷺ کی آنکھوں سے آنسو جاری ہوگئے۔ عبد الرحمان بن عوف نے کہا: اے اللہ کے رسول (ﷺ) آپ! (رو رہے ہیں؟)۔ آپ نے فرمایا:یہ رحمت ہے۔ اور مزید فرمایا: آنکھ آنسووں سے تر اور دل غم گین ہے ، (پھربھی) وہی بات کہیں گے جس سے میرا رب راضی ہو۔ اے ابراہیم! تیری جدائی پر ہم غم گین ہیں۔
آپﷺ کے ایک نواسے سخت بیماری کا شکار ہوگئے۔ آپ کو بیماری کی شدت کا احساس تھا۔ دیکھنے تشریف نہیں لائے، غالبا بچے کو اس حال میں دیکھنےسے کترا رہے تھے۔ بیٹی نے قسم دے کر بلوایا۔ آپ متعدد صحابہ کے ساتھ تشریف لائے تو نزع کی حالت میں مبتلا پایا۔ آپ کی آنکھیں نم ہوگئیں۔ سعد بن عبادہ رضی اللہ عنہ نے تعجب سے کہا (اے اللہ کے رسول!) آپ رو رہے ہیں؟آ پ نے فرما یا (ہاں) اللہ، اپنے رحم کرنے والے بندوں پر رحم کرتا ہے۔
یہ پورا واقعہ تفصیل کے ساتھ اسامہ بن زيد رضی الله عنہما نے ان الفاظ میں ذکر کیا ہے:
ارسلت ابنة النبي صلى الله عليه وسلم إليه: إن ابنا لى قبض، فأتنا. فأرسل يقرئ السلام ويقول: “إن لله ما أخذ، وله ما أعطى، وكل عنده بأجل مسمى، فلتصبر ولتحتسب”۔ فأرسلت إليه، تقسم عليه ليأتينها. فقام ومعه سعد بن عبادة، ومعاذ بن جبل، وأبي بن كعب، وزيد بن ثابت ورجال. فرفع الى رسول الله صلى الله عليه وسلم الصبي، ونفسه تتقعقع. قال: حسبته أنه قال:كأنه شن. ففاضت عيناه ، فقال سعد: يا رسول الله ما هذا؟ فقال: ” هذه رحمة جعلها الله في قلوب عباده، وإنما يرحم الله من عباده الرحماء”.(اللفظ للبخاری:1284، و نحوہ مسلم:2132)
اس کے علاوہ آپ کی ایک بیٹی کا انتقال ہوا، تو آپ کے آنسو نکل گئے۔ ام ایمن نے آپ کو روتا دیکھا تو ان کی بھی چیخ نکل گئی۔ حاضرین نے ام ایمن کو ٹوکا، یہ کیا ہے تم رسولﷺ کی موجودگی میں رو رہی ہو؟ (انھوں نے اللہ کے رسولﷺ کے پاس جاکر فریاد کی، لوگ مجھے رونے سے روک رہے ہیں) کیا آپ نہیں رو رہے ہیں؟
آپ نے فرما یا: میں روتا نہیں ہوں۔ یہ تو رحمت (کے آنسو) ہیں۔ یہ واقعہ ابن عباس رضی الله عنہما نے ان الفاظ میں بیان کیا ہے:
أخذ النبي بنتًا له تقضي، فاحتضنها، فوضعها بين ثدييه، فماتت وهي بين ثدييه، فصاحت أم أيمن، فقيل: أتبكي عند رسول الله؟ قالت: ألستُ أراك تبكي يا رسول الله؟ قال: “لستُ أبكي، إنما هي رحمة، إن المؤمن بكل خير على كل حال، إن نفسه تخرج من بين جنبيه وهو يحمد الله عز وجل”۔(مسند أحمد:1/ 274-273، رقم 2475)
عثمان بن مظعون رضی اللہ عنہ کی وفات سن دو ہجری میں ہوئی تھی۔ ان کی وفات پر بھی آپ رودیے تھے۔
ام المؤمنين عائشہ رضی الله عنہا کہتی ہیں:
أنَّ النَّبيَّ صلى الله عليه وسلم قبَّلَ عثمان بن مظعونٍ وهو ميِّت وهو يبْكي أو قال: عيناه تذرفان۔ (سنن الترمذی:989)
اسی طرح جنگ موتہ میں زید بن حارثہ، جعفر بن ابی طالب اور عبد اللہ بن رواحہ شہید ہوئے۔ ان کی وفات کی خبر دیتے ہوئے بھی آپﷺ رو رہے تھے۔ انس بن مالك نقل کرتے ہیں:
خطب النبي فقال: “أخذ الراية زيد فأُصيب، ثم أخذها جعفر فأصيب، ثم أخذها عبدالله بن رواحة فأصيب، ثم أخذها خالد بن الوليد عن غير إمرة ففُتح له، وقال: ما يسرنا أنهم عندنا – قال أيوب أو قال: ما يسرهم أنهم عندنا – وعيناه تذرفان”.(صحيح البخاری:2798)
یہ تمام واقعات دلیل ہیں کہ حادثات پر بے قابو ہوکر رونا جائز ہے لیکن زبان پر قابو رکھنا ضروری ہے۔ یہ رونا دھونا نوحہ، بین اور ماتم نہ بننے پائے۔
حضرت عمر رضی اللہ عنہ اور ان کے لڑکے عبد اللہ رضی اللہ عنہ کا خیال تھا کہ میت پر رونا قطعاً منع ہے۔ رونے کی وجہ سے میت کو عذاب دیا جاتا ہے۔عائشہ رضی اللہ عنہا اور دوسرے صحابہ کا خیال تھا کہ ان کو غلط فہمی ہوئی ہے۔ رونے کی اجازت ہے لیکن نوحہ وماتم سے منع کیا گیا ہے۔ اور عذاب کی وعید بھی اسی پر ہے۔
اس بات پر سب کا اتفاق ہے کہ میت کی جدائی پر رشتہ داروں کے لیے ماتم، سینہ کوبی حرام ہے اور اس سے سختی سے منع کیا گیا ہے۔
غم کتنے دنوں تک
ہر شخص اپنے عزیز کی موت سے متاثر ہوتا ہے۔ غم کی شدید کیفیت میں انسان نڈھال ہو کر اپنے آپ کو بھول جاتا ہے۔ وہ نہ صرف زیب و زینت ترک کردیتا ہے بلکہ زندگی کی عام ضرورتوں کا پورا کرنا بھی اس کے بس میں نہیں ہوتا۔عورتوں کا مسئلہ اور بھی نازک ہوتا ہے۔ ان کے ذمے عام روز مرہ گھریلو ضروریات کے علاوہ بھی دوسروں کے حقوق ہوتے ہیں۔ لیکن زندگی کے اپنے تقاضے ہوتے ہیں۔ آدمی نہ چاہتے ہوئے بھی معمولات زندگی کی ادائیگی پر مجبور ہوتا ہے۔
غم کی ان گھڑیوں میں میاں بیوی ایک دوسرے کا سہارا بن سکتے ہیں۔ بیوی خاص توجہ کی محتاج ہوتی ہے۔ ان حالات میں بیوی کے لیے شوہر کی خواہشات کا پورا کرنا دشوار کام ہے۔
شریعت نے عورتوں کے حالات اور جذبات کی خاص رعایت کی ہے۔ شوہر کی موت پر عدت متعین کی ہے۔ اس میں اس کو نان ونفقہ ملنا چاہیے۔ اس کی مدت چار مہینے دس دن ہے۔(سورہ بقرہ:234)
عدت کا تعین جہاں مختلف مقاصد کے لیے ہے، وہیں یہ مقصد بھی ہوسکتا ہے کہ عورت شوہر کی جدائی کا صدمہ برداشت کرنے کے بعد، ایک لمبی مدت سکون کے ساتھ گزار لے۔
عام حالات میں بھی یہ بات مد نظر رکھی گئی ہے کہ اگر عورت کا کوئی عزیز داغ مفارقت دے جائے تو اس کو دوسری ذمہ داریوں سے سبک دوش کر دیا جائے۔ رسول کریمﷺنے اس کے لیے تین دن کی مدت مقرر کی ہے۔ یہ بات مختلف صحابیات سے مروی ہے۔ زینب بنت ابی سلمہ بتاتی ہیں کہ جب ام المومنین ام حبیبہ بنت ابی سفیان کے والد (ابو سفیان) کا انتقال ہوا، تو انھوں نےتین دن کے بعد قصدا خوشبو استعمال کی۔ پھر کہا: اگر اللہ کے رسولﷺ کا حکم نہ ہوتا کہ مسلمان عورت کے لیے جائز نہیں کہ تین دن سے زیادہ غم نہ منائے تو مجھے خوشبو کی ضرورت نہیں۔ بخاری میں یہ بات زینب بنت ابی سلمہ سے ان الفاظ میں ذکر کی گئی ہے:
قَالَتْ: “لَمَّا جَاءَ نَعْيُ أَبِي سُفْيَانَ مِنَ الشَّامِ دَعَتْ أُمُّ حَبِيبَةَ -رضي الله عنها- بِصُفْرَةٍ فِي الْيَوْمِ الثَّالِثِ فَمَسَحَتْ عَارِضَيْهَا وَذِرَاعَيْهَا وَقَالَتْ: إِنِّي كُنْتُ عَنْ هَذَا لَغَنِيَّةً لَوْلاَ أَنِّي سَمِعْتُ النَّبِيَّ -صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ- يَقُولُ: لاَ يَحِلُّ لاِمْرَأَةٍ تُؤْمِنُ بِاللَّهِ وَالْيَوْمِ الآخِرِ أَنْ تُحِدَّ عَلَى مَيِّتٍ فَوْقَ ثَلاَثٍ، إِلاَّ عَلَى زَوْجٍ فَإِنَّهَا تُحِدُّ عَلَيْهِ أَرْبَعَةَ أَشْهُرٍ وَعَشْرًا(البخاری:1280)
اسی طرح كا واقعہ دوسری صحابیات سے بھی مروی ہے،زينب کہتی ہیں:
دخَلْتُ على زينبَ بنتِ جحشٍ حينَ تُوفِّي أخوها عبدُ اللهِ بنُ جحشٍ فدَعت بطِيبٍ فمسَّت منه ثمَّ قالت: واللهِ ما لي بالطِّيبِ مِن حاجةٍ غيرَ أنِّي سمِعْتُ رسولَ اللهِ صلَّى اللهُ عليه وسلَّم يقولُ على المنبرِ لا يحِلُّ لامرأةٍ تؤمِنُ باللهِ واليومِ الآخِرِ أنْ تحِدَّ على ميِّتٍ فوقَ ثلاثِ ليالٍ إلَّا على زوجٍ أربعةَ أشهُرٍ وعشْرًا(صحیح ابن حبان واللفظ لہ:ترتیب ابن بلبان4290،صحیح البخاری:1282 مختصرا)
یہ حدیث عورتوں کے بارے میں ہے۔ لیکن ممکن ہے مرد بھی اس حکم میں داخل ہوں۔اور وہ بھی تین دن غم کی حالت میں گزارنا چاہیں تو کوئی مضائقہ نہیں۔لیکن کسی کی موت پر تین دن سے زیادہ کی مدت اس حال میں گزارنا کہ آدمی زندگی کے معمولات ادا کرنا چھوڑ دے ناجائز ہے ۔
تعزیت اور اس کی مدت
میت کی جدائی کا غم اس کے ماں باپ بھائی بہن اور دوسرے قریبی شدت سے محسوس کرتے ہیں۔اس وقت ضرورت ہوتی ہے کہ ان کی دل جوئی کی جائے۔ فوری طور سے کھانے پینے کا انتظام کیا جائے۔ اسی کے ساتھ تسلی دی جائے اور صبر کی تلقین کی جائے۔ یہ ساری باتیں مستحب ہیں۔
تعزيت یا عزاء کے الفاظ اردو میں ایک ہی معنی میں استعمال ہوتے ہیں۔ مولانا وحید الزماں صاحب نے لغات الحدیث میں عزاء کا معنی :”صبر کرنا” اور تعزیہ کا “تسلی دینا اور صبر کرانا” لکھا ہے۔
دونوں لفظوں کی اصل: عزی(ع ز ی) ہے۔ جس کا معنی ہے کسی بھی کھوئی ہوئی چیز پر صبر کرنا۔ الازہری لکھتے ہیں: العزاء الصبر نفسه عن كل ما فقدت (التهذيب:4/98)۔ اس طرح لغوی معنی میں عزاء صبر کرنے اور تعزیت صبر کی تلقین کو کہتے ہیں۔
امام نووی لکھتے ہیں:
“أن التعزية هي التصبير، وذكر ما يسلِّي صاحب الميت، ويخفف حزنه ويهوِّن مصيبته” تعزیت کہتے ہیں صبر دلانے اور ایسی باتوں کا ذکر جس سے تسلی ہوسکے اس کا غم کم اور مصیبت ہلکی ہوسکے۔
غالبا تین دن غم منانے والی حدیث کی بنا پر کہا گیا ہے کہ دفن کے بعد صرف تین دن تک ہی میت کے اقرباء سے تعزیت کرنی جائز ہے۔
امام نووی رحمہ الله تعالى شافعیہ کا موقف نقل کرتے ہیں:
قال أصحابنا: وتكره التعزية بعد الثلاثة، لأن المقصود منها تسكين قلب المصاب، والغالب سكونه بعد الثلاثة، فلا يجدد له الحزن. هذا هو الصحيح المعروف (المجموع:5/ 277)
لیکن تین دن کے بعد تعزیت کا مکروہ ہونا، تمام علماء کا موقف نہیں۔ اس سلسلے میں یہ بھی کہا گیا ہے کہ اس کے لیے کسی مدت کی تحدید نہیں ہے۔ موقعہ اور محل سے جب بھی مناسب ہو، تعزیت پیش کی جاسکتی ہے۔ غالبا یہی رائے راجح ہے۔تعزیت کے لیے دنوں کی تحدید میں اور بھی اقوال ملتے ہیں۔
تعزیتی جلسے
بہت سارے عرب ممالک میں رواج ہے کہ اہل میت متعین وقت پر ایک جگہ جمع ہوتےہیں۔ لوگ آکر تعزیت پیش کرتے ہیں۔ احناف کے یہاں اس طرح کے اجتماع کی جازت ہے۔(الرد المختار: 3/148)ليكن شرط یہ ہے کہ یہ اجتماع مسجد میں نہ ہو۔
اس کے برخلاف فقہاء شافعیہ کے نزدیک یہ صورت حال مکروہ ہے کہ اہل میت تعزیت قبول کرنے کے لیے ایک جگہ جمع ہوں۔ (المجموع:5/ 278)
امام شافعی نے لکھا ہے:
وأكره النياحة على الميت بعد موته، وأن تندبه النائحة على الانفراد، لكن يعزى بما أمر الله بما أمر الله عز وجل من الصبر والاسترجاع. وأكره المأتم وهي الجماعة وإن لم يكن لهم بكاء۔ قال: فإن ذلك يجدد الحزن ويكلف المؤنة، مع ما مضى فيه من الأثر(الام:1/248) اس طرح تعزیت کے نام پر اجتماع کو امام شافعی رحمہ اللہ نے ماتم قرار دیا ہے۔
حنبلی فقہ میں بھی تعزیت قبول کرنے کے لیے بیٹھنا مکروہ ہے۔ (المغنی:3/487)
تعزیت بالمشافہ ہو یا خط اور ٹیلیفون کے ذریعہ کی جائے۔ اس کا اظہار میت کے رشتے داروں سے کیا جانا چاہیے۔ امام نووی لکھتے ہیں:
يستحب أن يعزى جميع أقارب أهل الميت وأهله الكبار والصغار، والرجال والنساء، إلا أن تكون المرأة شابة، فلا يعزيها إلا محارمها. وقالوا: وتعزية الصلحاء والضعفاء عن احتمال المصيبة والصبيان آكد (المجموع: 5/277) تعزیت میت کے تمام اہل و عیال اور قریبی رشتہ داروں سے کی جائے گی۔ چھوٹے بڑے مرد عورت تمام اس کے مستحق ہیں۔
اصل تعزیت یہی ہے کہ اس غم کے وقت میں غم سے متاثر افراد کو تسلی دی جائے اور ہر ممکن حد تک صبر کی تلقین کی جائے۔
تعزیتی اجلاس
اخبارات میں پیغامات کے ذریعہ تعزیت کا رواج اس وقت ساری دینا میں عام ہے۔
بر صغیر میں ایک مدت سے اہم شخصیات کی وفات پر تعزیتی اجلاس منعقد کیے جاتے ہیں۔ اسی طرح مذہبی جماعتوں کی کانفرنسوں میں بھی تعزیت کی قراردادیں منظور کی جاتی ہیں۔ اخبارات میں تعزیت کی قراردادیں شائع کی جاتی ہیں۔ میرا خیال ہے یہ سب کچھ مغرب میں رائج تعزیتی جلسوں اور قرار دادوں کی نقل ہے۔ اسلامی تعزیت سے اس کا کوئی خاص تعلق نہیں کیونکہ تعزیت خاص طور سے اہل میت کی تسکین کے لیے مشروع ہے۔ اسی لیےبالمشافہ تعزیت کی خاص اہمیت ہے۔ اجلاسوں کی قراردادیں اور ان کی تشہیر کا مقصد اور نتیجہ بھی شاید معروف تعزیت سے مختلف ہوتا ہے۔
یہ ایک نئی رسم ہے اس لیے علماء اس کے بارے میں مختلف رائے رکھتے ہیں۔ کچھ علماء مبالغہ کا ارتکاب نہ کیاجائے تو اس کو جائز قرار دیتے ہیں پھر بھی فضول خرچی قرار دے کر اس سے بچنے کی رائے دیتے ہیں۔دوسرے علماء اس کو نوحہ قرار دے کر سختی سے بچنے کی تلقین کرتے ہیں۔
عثمان بن مظعون رضی اللہ عنہ کی وفات ہجرت کے دوسرے سال میں ہوئی تھی۔ ایک مدت کے بعد اللہ کے رسولﷺ نے ان کے متعلق اچھے تبصرے کیے۔ممکن ہے اس سے عمومی تعزیت کے جواز پر استدلال کیا جائے۔ أسود بن سريع کہتے ہیں:
“لما مات عثمان بن مظعون أشفق المسلمون عليه، فلما مات إبراهيم بن رسول الله صلى الله عليه وسلم قال: الحق بسلفنا الصالح عثمان بن مظعون”۔ (المعجم الکبیر للطبراني:838)
عبد الله بن عباس رضى الله عنہما كہتے ہیں:
لما ماتت زينب بنت رسول الله صلى الله عليه وسلم قال صلى الله عليه وسلم: “الْحَقِي بسَلَفِنا الصالحِ الخيرِ عثمان بن مظعون”۔ (مسند أحمد 1/238 رقم: 2127)
امام احمد کی روایت كی سند میں کلام ہے۔ اس کے ایک راوی علی بن زید اگرچہ بخاری اور مسلم کے راوی ہیں، تاہم ان کو ضعیف قرار دیا گیا ہے۔ ان دونوں روایات کے مطابق نبی کریمﷺ نے ان کی وفات کے بہت بعد دو بار ان کی تعریف فرمائی۔
بہر حال ان اجلاسوں کی نوعیت عبادت کی نہیں، اس لیے ان کو بدعت قرار دینا شاید ممکن نہ ہو۔
موت پر تین دن کے بعد رنج کا اظہار
رنج اور غم کی جس کیفیت کو تین دن سے محدود کی گیا ہے وہ خاص نوعیت کا معاملہ ہے۔ اس کے درمیان انسان اپنی زندگی کے معمولات ادا کرنا چھوڑ سکتا ہے۔ لیکن اس کا یہ مطلب نہیں کہ اس مدت کے بعد انسان کسی کی موت کے تئیں غم گین نہیں ہو سکتا۔
اللہ کے رسولﷺ کو شہداء بئر معونہ کے قتل پر شدید تکلیف ہوئی اور ایک مدت تک آپ اس درد کو محسوس کرتے رہے۔ اسی لیے ان کے قاتلوں پر ایک مہینے تک مسلسل لعنت بھیجتے رہے۔ انس بن مالك رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں:
أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَنَتَ شَهْرًا بَعْدَ الرُّكُوعِ فِي صَلَاةِ الْفَجْرِ يَدْعُو عَلَى بَنِي عُصَيَّةَ۔ (صحیح مسلم: 1546 ایضا نحوہ 1545)
اس سلسلےمیں صحیح مسلم کی ایک روایت خاص اہمیت رکھتی ہے کہ آپﷺ صحابہ کے ساتھ اپنی ماں کی قبر دیکھنے گئے تو خود بھی روئے اور اپنے ساتھیوں کوبھی رلایا۔ ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں:
زار النبي قبر أمه، فبكى وأبكى من حوله، فقال: “استأذنتُ ربي في أن أستغفر لها فلم يؤذن لي، واستأذنته في أن أزور قبرها فأذِن لي، فزوروا القبور؛ فإنها تذكر الموت”(مسلم: 2256)
اس لیے کسی دوست یا قریبی رشتہ دار کی یاد میں کبھی کبھار غم ناک ہونا قابل اعتراض بات نہیں۔
آپ کے تبصرے