maulana-abdussalam-madani

آنکھوں میں پھرا کرتی ہے “استاد محترم“ کی صورت

رفیع احمد مدنی

موت کا ایک دن مقرر ہے، ہر شخص جانتا ہے۔ کتنے ہی دوست احباب اور اعزہ، ہماری آنکھوں کے سامنے زندگی کی بازی ہار جاتے ہیں، یہ احباب جاتے ہوئے یہ احساس زندہ کرجاتے ہیں کہ آج ہم کل تمھاری باری ہے۔
شیخنا عبد السلام بن جمن رحمانی رحمه الله بھی، آج اس دنیا سے چلے گئے۔ دنیا بھر میں پھیلے ہوئے آپ کے شاگرد جو کل تک آپ کے لئے شفاء اور درازئ عمر کی دعا کرتے تھے، اب اخلاص والحاح کے ساتھ آپ کی مغفرت کی دعاء کررہے ہیں:

اللہم! استاذنا وحبیبنا فی ذمتک وحبل جوارک، وأنت فی غنی عن تعذیبه، اللهم! تقبل حسناته وتجاوز عن سيئاته. اللهم ارفع درجته في المهديين”.

پہلے یہ وضاحت کردوں کہ مولانا ہمیشہ محترم اور مکرم تھے۔ پر جس زمانے کا میں ذکر کرنے جارہا ہوں۔ محترم نہ ان کا تکیہ کلام تھا اور نہ لقب، جیسا کہ بعد میں ہوا۔ یہ الگ بات ہے اس لقب سے پہلے بھی ان کا احترام اسی طرح تھا۔
مولانا ان خوش نصیب لوگوں میں ہیں جن کو اللہ تعالی بہت سارے امتیازات سے نوازتا ہے۔
سنہ 1966 مین جب بنارس مین مرکزی دارالعلوم کے نام سے مستقبل کے جامعہ سلفیہ کا قیام ہوا۔ تو ہمارے مولانا اس دارالعلوم کے اولین طلباء میں تھے۔ اسی سال جامعة اسلامیة مین کلیة الدعوة كا قيام بھی ہوا، اور آپ اس کے بھی اولین طلباء مین شامل ہیں۔
چار سال جامعة إسلامية مين گزارنے کے سنہ 1970 مین واپس آئے، تو جامعہ سلفیہ میں ہی تدریس کے لئے چن لئے گئے۔ اس سال تین حضرات واپس آئے تھے، جن میں آپ کے علاوہ شیخ عبد الرحمان لیثی حفظہ اللہ اور مرحوم شیخ عبد الحمید عبد الجبار صاحب شامل تھے۔ جامعہ میں ایک ساتھ ہی ان تینوں کا تعین ہوا۔
اس طرح طلاب جامعہ میں، جن مدنی حضرات کو تدریس کا موقعہ ملا، اس میں بھی آپ پہلے زمرہ میں ہیں۔ پھر اس پہلے گروہ میں سے بھی اکیلے شخص ہیں، جس نے چالیس سال تک اس ادارہ کی خدمت کی۔
آپ کی پیدائش سدھارتھ نگر (سابقہ بستی) ضلع کے ایک گاؤں ٹکریا میں ہوئی تھی۔ ٹکریا سے ماضی قریب مین ماشاء اللہ بڑ ے بڑے علماء نکلے ہیں۔ مولانا عبدالقدوس، مولانا شکراللہ، مولانا احمد شکراللہ، تو مرحوم ہوچکے ہیں۔ مولانا عزیزالرحمان، مولانا عبدالواحد مدنی حفظہ اللہ، مولانا جمیل شکراللہ حفظہ اللہ وغیرہ، اور کئی ایک اب بھی حیات ہیں۔ مولانا شکراللہ صاحب کا قائم کیا ہوا مدرسہ مفتاح العلوم بھی ٹکریا کے لئے باعث فخر تھا۔
میری معلومات کی حد تک مولانا عبدالسلام صاحب اس گاؤں کے پہلے شخص تھے جو جامعہ اسلامیہ میں تعلیم کے لئے گئے اور جامعہ سلفیہ میں تدریس کے لئے جن کی تعیین ہوئي۔
مرحوم مولانا عبدالحمید صاحب جامعہ رحمانیہ میں مدرس رہ چکے تھے۔ اور بنارس میں لوگوں سے اچھے تعلقات تھے۔ اس لئے ان کا معاملہ ذرا مختلف تھا۔ آتے ہی صوت الجامعة كي غير رسمي ادارت، تدريس، عوامی تقريريں، سب کچھ هنگامی انداز مین شروع کیا۔ محترم شیخ عبدالسلام اور شیخ عبدالرحمان لیثی حفظہ اللہ کا معاملہ اس کے بر عکس تھا۔ تفصیل میں جانے سے پہلے یہ بتادوں کہ یہ حسن اتفاق ہی تھا کہ اسی سال ہماری جماعت بھی جامعہ رحمانیہ سے جامعہ سلفیہ میں آئي تھی۔ اس وقت جامعہ رحمانیہ ایک مستقل ادارہ تھا۔ درسگاہ اور اقامہ کے لئے دو الگ الگ عمارتیں مدنپورہ میں تھیں۔
بہر حال جامعہ سلفیہ (مرکزی دارالعلوم) میں اس سال دسمبر سن 1970 کے تیسرے ہفتہ مین تدریس کا آغاز ہوتا ہے۔ شیخ عبدالسلام صاحب کے ذمہ ہماری جماعت کی کتابوں میں مشکاة المصابیح کی تدریس تھی۔
مولانا کا قیام پرانی عمارت کے پہلی منزل پر، مشرق میں سیڑھیوں سے ملے ہوئے کمرہ میں تھا۔ شیخ عبدالرحمان کا قیام بھی اسی کمرہ میں۔ شاید یہ دونوں پہلے استاذ تھے، جن کو ایک کمرہ میں رکھا گیا تھا۔ ورنہ ہر استاد کا اپنا کمرہ تھا، حتی کہ رحمانی صاحب بھی۔ بہرحال ہم نے مولانا کو شکایت کرتے نہیں سنا، اسی طرح کبھی تنخواہ یا مالی معاملات میں گفتگو بھی نہیں کی۔ مگر جب مولانا لیثی صاحب مد ظلہ جامعہ چھوڑ کر طب کی تعلیم کیلئے علی گڈہ تشریف لے گئے، تو یہ بات عام طور سے کہی جاتی تھی کہ تنخواہ کا جو پیکیج پیش کیا گیا تھا، اس سے بے اطمينانی ہی کا نتیجہ ہے کہ شیخ نے مزید تعلیم حاصل کرنے کا فیصلہ کیا۔ کہا جاتا تھا کہ یہ تنخواہ دیکھ کر آپ کے چچا نے آپ کو یہاں سے نکل کر طب کی تعلیم کی طرف مائل کیا تھا۔ مولانا لیثی تو خیر ماشاء اللہ رئیس گھرانے کے چشم و چراغ تھے۔ 150 روپئے ماہانہ تنخواہ پر، کسی کیلئے بھی مدینہ سے واپس آکر تعیین قبول کرنا بڑے دل گردے کا کام تھا۔ یہ تنخواہ تو اس وظیفے سے بھی کافی کم تھی جو دوران طالب علمی ملتا تھا۔
بہر حال خوشی ھوئي کہ اب حالات بدل کئے، الحمد للہ استاد محترم شیخ لیثی صاحب نے بھی دوبارہ تدریس کا رخ کیا، اور میرا خیال ہے، آج بھی طلبہ ان سے مستفید ہورہے ہین۔
ذکر تو محترم مولانا عبدالسلام صاحب کا ہورہا تھا، آپ نے جو کچھ ملا، اس پر قناعت کیا، اور سوچ سمجھ کر اپنے لئے تدریس کا جو راستہ اختیار کیا تھا، اس پر قائم رہے۔ الحمد للہ بعد میں تنخواہ میں بھی خاطرخواہ اضافہ ہوا اور فارغ البالی حاصل ہوگئ۔ “ویرزقہ من حیث لا یحتسب”۔
تعجب ہے کہ اس حال میں بھی مولانا بعض طلبہ کی چھوٹی موٹی مالی امداد کرتے تھے۔ یہ میرا ذاتی مشاہدہ ہے۔
یاد آتا ہے اسی وقت اس خواہش کا اظہار کیا تھا کہ مدینہ سے ساتھ لائي ہوئي چند کتابوں کے دو نسخے آگئے تھے، اگر کوئ چاہے تو ایک نسخہ بیچ دیں۔ سبل السلام کے بارے میں اچھی طرح یاد ہے، کیونکہ میں خود اس کو لینا چاہتا تھا، اس کے لئے ٹکریا گیا۔ مگر کتاب سامان کے درمیان دبی ہوئي تھی، اس وقت نہ مل سکی۔ پھر شاید مہنگی ہونے کی وجہ سے میں نہیں لے سکا۔ یہ غالبا تنخواہ کی کمی کو پورا کرنے کا باعزت ذریعہ تھا۔
بعد مین مرعاة اور دوسری کتابوں کی پروف ریڈنگ سے بھی کچھ اضافی آمدنی ہونے لگی تھی۔ مولانا اپنا حق پورا لینے کے قائل تھے۔ اس لئے آفس والوں کو شکایت تھی کہ “فلر” کا بھی آفس سے مطالبہ کرتے ہیں۔ لیکن آپ کو مطلع کئے بغیر یہ بات سرگوشیوں کے انداز میں اس طرح کہی جاتی تھی کہ مبارکپور تک ضرور پہونچ جائے۔
مولانا کی طبیعت انتہائي سلجھی ہوئی تھی، نہ علم کا ادعاء تھا، نہ مدینہ سے تعلیم حاصل کرنے کا غرور۔ اپنے دروس پوری دلجمعی، اور محنت سے تیار کرتے تھے۔ مشکاة المصابیح ہندوستاني طباعت ميں دو جلدوں میں چھپتی پے۔ دوسری جلد کتاب النکاح سے شروع ہوتی ہے۔ مولانا کے ذمہ اسی کی تدریس تھی۔ پڑھنے والی عالمیت سنة اولی میں ہماری جماعت تھی۔ مولانا محترم اس کے لئے باقاعدہ مطالعہ کرتے، نوٹ تیار کرتے، ان کو سامنے رکھ درس کر تشریح کرتے۔ یہ طریقہ تدریس بھی مولانا کا اپنا ایجاد کردہ تھا۔ جامعہ کے دوسرے اساتذہ کا اپنا اپنا طریقہ تھا۔ ان کے درس میں تڑک بھڑک کے بجائے سنجیدگی اور متانت ہوتی تھی۔ طالب علم کو پوری اجازت ہوتی، کہ درس سے متعلق جو بھی سوال کرنا چاہے کرے۔
امتحانات کے نمبرات میں یہ جدت پیدا کی، کہ کہیں آدھا نمبر مل رہا ہے، تو کہیں ڈیڑھ، اور ڈھائي، مجموعہ بسا اوقات ساڑھے اور سوا پر ختم ہوتا تھا۔ یہ صرف مولانا کی ایجاد تھی۔ کہیں اور نہیں دیکھا۔
ہمارے ساتھیوں میں مشائخ: صلاح الدین، عزیر، رضاء اللہ، بدرالزماں، عبدالقیوم، شہاب اللہ، عبدالقدوس، عبداللہ سعود وغیرہ تھے۔ یہ سب اب بڑے بڑے مشائخ ہیں، اس وقت جامعہ کے ممتاز طللبا میں تھے، اس جماعت کو پڑھانا ایک اچھا خاصہ مسئلہ تھا۔
یاد آتا ہے کہ ان سب کی یا کم از کم اکثر کی عادت تھی کہ اسباق کے نوٹس لیا کریں۔
میں نے بھی مولانا کے مشکاة والے نوٹس کو محفوظ کرلیا تھا۔ میرے والد رحمہ اللہ کی مہربانی سے دو کاپیاں اب بھی محفوظ رہ گئی ہیں۔ میرے یہ نوٹس باب الامر بالمعروف کی فصل ثالث کی حدیث عن عمر بن الخطاب (مرفوعا): إنه تصيب امتي في اخر الخ تك هيں۔ یہ التعلیق الملیح کے صفحہ 406 تک ہوتے ہیں۔ مولانا اپنے نوٹس میں برابر نظر ثانی اور اضافہ کرتے رہے ہوں گے۔ لیکن پہلے سال کے نوٹس بھی بھرپور تھے، اس میں کوئي اضافہ اور ردوبدل نہ بھی کرتے، تو بھی خاصہ کی چیز تھی۔ میں نے پہلی اور آخری حدیث پر اپنے نوٹس کا التعلیق الملیح سے مقابلہ کیا، تو پہلی حدیث کے نوٹس میں وہ سب کچھ ہے جو میرے نوٹس میں ہے، تاہم خاطرخواہ اضافہ بھی ہے۔ البتہ آخری حدیث میں لفظ بلفظ وہی کچھ ہے جو میرے نوٹس میں ہے۔ اس سے اندازہ کیا جا سکتا ہے کہ مولانا اپنا درس کتنی محنت سے تیار کرتے تھے۔
مولانا نے اپنے مشکاة كی تعلیقات کو التعلیقات الملیح کے نام سن 2008 میں شائع کردیا تھا۔ شکایت ہے کہ طلبا سے اس کتاب کے 100 روپئے ليتے تھے۔ حالانکہ میں نے اس کتاب کو جمعیت کے مکتبہ سے 50% رعایت کے بعد 200 روپئے میں خریدا۔
ہم نے اسی سال آپ سے قصب السکر بھی پڑھی تھی، اس کے نوٹس تو میرے پاس نہیں۔ تاھم یاد آتا ہے کہ اس پر بھی بھرپور بحث ہوتی تھی۔ ہم لوگوں کو کتاب مین درج “عزیز” کی تعریف پر اعتراض تھا، مولانا نے اس اعتراض کی معقولیت کو نہ صرف محسوس کیا، بلکہ ہمت افزائي کے انداز میں تعریف بھی کی، کہ اس دقت نظری سے تم لوگوں نے اس مسئلہ کو اجاگر کیا ہے۔ غور و خوض کرکے ایک جامع مانع تعریف لکھوائي۔ مولانا نے ایک مرتبہ ذکر کیا تھا کہ انھوں نے جب نزہة النظر پر کام کیا اور اس کے متداول حاشیہ میں حذف واضافہ کیا توحاشیہ میں یہی تعریف ذکر کردی ہے۔ مولانا اس کتاب کی تدریس میں بھی اپنے افادات نوٹ کرتے تھے۔ اسی کی مدد سے نزہة النظر کا ایڈیشن تیار کیا تھا۔ یہی وجہ تھی کہ جب جامعہ سلفیہ سے یہ ایڈیشن چھپا اور محقق/ محشی کی حیثیت سے آپ کانام نہیں درج کیا گیا، تو مجھ سمیت بہت سارے لوگوں کو تکلیف ہوئي۔ تکلیف تو مولانا کو بھی ہوئي مگر صبر اس مرد مومن کا شیوہ تھا۔ پتہ نہیں بعد کے کسی ایڈیشن میں آپ کے نام کا ذکر ہے یا نہیں۔ مولانا نے التعلیق الملیح میں اس کو اپنی تالیفات کے ضمن میں ذکر کردیا ہے۔
محنت، تحقیق اور دقت نظری مولانا کی خصوصیت تھی۔ مرعاة المفاتيح بنارس سے چھپ رہی تھی۔ جب تک مولانا عبدالسلام رحمانی بنارس میں تھے، اس وقت تک وہی پروف ریڈنگ کرتے تھے، ان کو تحفة الاشراف ميں کام کرنے کی وجہ سے تجربہ بھی تھا۔ شیخ الحدیث کو ان پر اعتماد تھا۔ ان کے بنارس سے دہلی چلے جانے کے بعد، یہ ذمہ داری محترم مولانا مدنی کے ذمہ کی گئي، جس کو آپ نے بحسن خوبی نبھایا۔ بہرحال مولانا کو پروف ریڈنگ کا تجربہ نہیں تھا، اس کے علاوہ بروایت مولانا عبدالرحمان مبارکپوری آپ نے تمام نقول کو اصل سے مقابلہ بھی اپنے ذمہ لے لیا۔ لیکن ناتجربہ کاری کے نتیجہ میں غلطی تو ہونی ہی تھی۔ اس نئي صورت حال میں شیخ الحدیث رحمة الله عليه تصحيح كے معیار سے خاصے غیر مطمئن ہوگئے۔ مولانا عبدالسلام رحمانی کے نام ایک خط مین جو 23/9/72 کو لکھا گیا، اپنی سخت بے اطمینانی کا اظہار کیا ہے۔ (مکاتیب بنام رحمانی ص113)۔
اس کے بعد یہ انتظام کیا گیا کہ پروف پڑھنے کے بعد فائنل اپرول کے لئے مبارکپور بھیج دیا جائے۔
اس انتظام سے حالات کنٹرول میں آگئے۔ اور مولانا کے کام ميں بھی بہتری آتی رہی۔ لگتا ہے، وقت کے ساتھ ساتھ شیخ الحدیث رحمہ اللہ مولانا کے کام پر اعتبار کرنے لگے تھے۔ انھیں کی رائے کے مطابق چھٹی جلد کا حجم رکھا تھا۔ ( مکتوب نمبر 89 بتاریخ 19/4/75 مکاتیب بنام رحمانی ص 142)۔
مولانا نے اپنی صلاحیت کو اپنی محنت اور لگن سے اجاگر کیا تھا۔ عام طور سے لوگوں کو مولانا کی اردو مضمون نویسی کی صلاحیت کا اندازہ نہیں تھا۔ لیکن جب سن 1972 میں مرحوم عبدالحمید صاحب رحمانی نے، جمعیت کی نظامت سنبھالی، اور ترجمان کے معیار کو بلند کرنا چاہا، تو مولانا محترم کو بھی مجبور کیا کہ ترجمان کے لئے لکھیں۔ یاد آتا ہے کہ آپ نے سب سے پہلا مضمون حج پر لکھا۔ مضمون مفصل تھا اور بڑی تحقیق اور جستجو سے لکھا گیا تھا، اور کافی پسند کیا گیا۔ بعد میں محدث بنارس کیلئے تو آپ نے مسلسل لکھا۔
مولانا اس وقت کیا، برسوں سے سلجھے ہوئے اچھے خطیب کی حیثیت سے معروف تھے، پورے ہندوستان سے جلسوں کو خطاب کرنے کیلئے آپ کا بلاوا آتا تھا۔ یہ حیثیت بھی اللہ کے فضل وکرم سے آپ نے اپنی محنت سے پیدا کی، مجھے اچھی طرح یاد ہے کہ ابتدائي دنوں میں آپ کو جلسوں میں بلایا جانے لگا تو آپ نے فیصلہ کیا، اور ہم کو بھی بتایا کہ اپنی تقریروں میں اسرائیلی روایات یا بے سروپا قصے کہانیوں سے کام نہ لیں گے، اس کی جگہ صحیحین اور حدیث کی دوسری کتابوں میں جو حقیقی اور سچے واقعات بیان ہوئے ہیں، صرف ان کو استعمال کریں گے۔ آپ اس روش پر گامزن ہوئے اور دیکھتے دیکھتے دنیائے خطابت میں اس مرتبہ پر پہونچ گئے۔ آپ نے دوسرے علماء خطباء کی رہنمائي کے لئے وہ مواد بھی دو جلدوں میں جمع کردیا۔ مجھے نہیں معلوم کہ وہ کتاب کی شکل میں چھپ سکا یا نہیں۔ مولانا نے عربی میں اس کا نام “النصوص من الکتاب والسنة والسیرہ للوعظ والارشاد” لکھا ہے۔
مولانا کو میں نے اواخر سن 1970 سے سن 1978 کے اواخر تک بہت قریب سے دیکھا۔ عالمیت سے لیکر فضیلت سے فراغت تک، تو کسی نہ کسی شکل میں استاد کی حیثیت سے، آپ کی سرپرستی حاصل رہی۔ اس کے بعد مدینہ جانے سے پہلے ایک سال اور جامعہ سلفیہ میں گزارا، تو اس وقت بھی آپ کی شفقتیں برقرار رہیں۔ مجھےبھی فخر ہے کہ مولانا نے التعلیق الملیح میں اپنے شاگردوں کے ضمن میں میرا بھی ذکر کیا ہے۔
اساتذہ کے اکرام و احترام کے ساتھ حق کی پاسداری کوئي آپ سے سیکھے۔ مولانا نذیر احمد املوی (1965) کا ذکر بڑے احترام سے کرتے تھے۔ ان کی خاکساری کا ذکر کرتے ہوئے ایک بار کہا کہ مولانا اتنے بڑے عالم ہونے کے باوجود جب مرکزی دارالعلوم کا ذکر ہوتا تو کہتے کہ ہم جیسے لوگ اس میں تدریس کے لائق نہیں۔ (او ماشابہ ذلک)۔
مولانا اقبال رحمانی رحمة الله عليه (م 1982) آپ کے ابتدائي دنوں کے اساتذہ میں تھے۔ ان کا ذکر انتہائي محبت اور احترام سے کرتے، ان کو اپنا خاص محسن مانتے، اورحد درجہ احترام کرتے تھے۔ یہ محبت اور احترام دونوں طرف سے تھا، مولانا محترم بھی ان سے بے پناہ محبت کرتے تھے۔ بنارس جب بھی آتے، مہمان خانہ کے بجائے آپ کے کمرے میں ٹھہرتے۔ ایک وقت کا منظر تو نظر کے سامنے گھوم رھا ہے۔ 1974 کی بات ہے، مولانا بنارس تشریف لائے۔ استاد محترم نے اپنے پاس ٹھہرایا۔ یہ میرا عالمیت کا آخری سال تھا، مین بعض لوگون کے ورغلانے سے فیصلہ کرچکا تھا، کہ تعلیم مکمل نہیں کرنی ہے۔ فضیلت کرنے کا کیا فائدہ جب مسجد کی ہی چٹائي توڑنی ہے۔ والد صاحب بہت پریشان تھے۔ مگر مجھے مجبور نہیں کرنا چاہتے تھے۔ انھوں نے خاموشی سے مولانا اقبال رحمانی رحمہ اللہ سے گزارش کی کہ اس کو سمجھاؤ۔ اللہ غریق رحمت کرے مولانا تشریف لائے، پتہ نہیں کہ صرف اسی لئے آئے، یا یہ ایک ضمنی مشن تھا۔ بہرحال رات کو میری طلبی ہوئي، مولانا نے اپنے تئیں سمجھانے کی کوشش کی، مولانا عبدالسلام نے بھی تائید کی۔میری بدنصیبی کی میں نے اس وقت مثبت جواب نہیں دیا۔ بہرحال مولانا کی دعاء تھی کہ میں تباہی سے بچ گیا، ایک سال دیوبند میں دھکے کھانے کے بعد، 1975 مین شعوری طور پر فیصلہ کرکے پھر مادر علمی میں واپس آگیا۔ یہ تو میری کہانی تھی پتہ نہیں یہاں کہاں سے ٹپک پڑی۔
مولانا عبدالسلام کے ماموں اور سسر مرحوم مولانا خلیل رحمانی صاحب تھے۔ ان کا گھر بھی ٹکریا ہی میں تھا۔ رحمانی صاحب نہ صرف آپ کے ماموں بلکہ اصل مربی بھی تھے، زندگی کے مختلف مراحل میں آپ کے نگراں اور مدد گار رہے۔ ان کا حد درجہ احترام کرتے، ماموں صاحب یا ماموں جان کے ساتھ ہی ان کا تذکرہ کرتے، اپنے اکثر معاملات میں ان سے مشورہ کرتے تھے۔ یہ تو احترام اور باہمی تعلقات کی بات تھی، لیکن مسلک اور جماعت کے معاملات میں کسی مداہنت کا شائبہ بھی نہیں تھا۔ مولانا رحمانی جماعت اسلامی کے بڑے مخلص اور مشہور کارکن تھے۔ فروعات میں مسلک اھل حدیث پر عامل تھے۔ اس لئے اہل حدیث بھی تقریر کے اپنے جلسوں میں بلاتے تھے۔ خود ہمارے گاوں میں آچکے تھے۔ دعوت میرے والد نے دی تھی۔ بڑھنی/ جھنڈانگر میں مولانا عبدالرحمان کے بچون کی تربیت کے لئے بھی کچھ عرصہ قیام کیا، بوںڈھیار میں شروع میں پڑھایا تھا، آخر عمر میں پھر آگئے تھے۔ اس کے باوجود جماعت اہل حدیث سے ان کا عدم اتفاق ہر خاص وعام کو معلوم تھا، مولانا کا رویہ عدم اتفاق سے بڑھ کر عناد اور مخالفت تک پہونچا ہوا تھا۔
مولانا عبدالسلام صاحب اپنے ماموں کے احسان واحترام، اور سسرالی نسبت کے باوجود ان کے افکار سے احترام کے ساتھ اختلاف کرتے تھے۔ اور الحمد للہ کبھی بھی مودودی صاحب کے لٹریچر کے چکر میں نہیں پڑے۔ مجھے یاد ہے ایک بار کہا کہ میں نے ماموں سے کہا کہ جماعت اسلامی کا جو کام آپ کررہے ہیں کیا وہ جائز ہے۔ رحمانی صاحب کا جواب بہرحال اثبات میں تھا۔ مولانا عبدالسلام صاحب نے کہا کہ آپ مودودی صاحب کی کتابیں پھیلاتے ہیں، ان میں انکار حدیث کے خیالات، صحابہ کرام کے خلاف مواد بھی ہوتا ہے، جو قطعا درست نہیں ہے، لیکن آپ ان کو پھیلا رہے ہیں یہ کیسے جائز ہوا؟ رحمانی صاحب اس گرفت کا کوئ جواب نہ دے سکے۔
عجیب بات ہے کہ لمبے عرصہ سے مولانا سے میری ملاقات نہیں ہوئي۔ فیجی مولانا سے ملے بغیر جولائ سن 1983 میں چلا گیا۔ پھر غالبا دسمبر 1987 میں بنارس آنا ہوا۔ وہی آخری ملاقات تھی۔ اتنا عرصہ گزرنے کے باوجود مولانا کی یادیں ذہن سے چپکی ہوئ ہیں۔ جس وقت ہم لوگ مدینہ میں تھے۔ مولانا حج کے لئے تشریف لائے۔ مل کر بڑی خوشی ہوئ۔ مولانا بھی اپنے شاگردوں سے مل کر محظوظ ہوئے۔ خوشی خوشی اس جگہ کی نشاندہی کی جہاں قیام مدینہ کے زمانہ میں اپنی اہلیہ کے ساتھ رہتے تھے۔ اس وقت تو وہ جگہ مظلات میں شامل تھی۔ اب مظلات والے ایریا کو بھی مسجد میں شامل کردیا گیا ہے۔ اس طرح وہ جگہ بھی مسجد کا حصہ ہوگئی ہے۔
میں شہر میں ہی رہتا تھا۔ ایک دن مولانا کی دعوت کرنی چاہی، آپ نے معذرت کردی، جب میں نے اصرار کیا تو کہا کہ ابھی 40 نمازیں پہلی تکبیر میں شامل ہوکر باجماعت ادا کرنا چاہتا ہوں۔ کہین آنے جانے سے اس میں خلل پڑسکتا ہے۔
ہمیں تعجب ہوا، میں نے کہا مولانا آپ بھی برصغیر کے حاجیوں کی طرح اس کے قائل ہیں۔ “براءة من النفاق” کیلئے مدینہ کی تخصیص تو کسی صحیح حدیث میں نہیں؟
مسکرا کر پوری سنجیدگی سے جواب دیا: صحیح کہتے ہو۔ البتہ یہ کیوں نہیں سوچتے کہ اگر کسی جگہ کے لئے بھی یہ ثواب ہے تو مدینہ اس سے مستثنی نہیں، بلکہ حدیث تو یہیں سے نکلی ہے تو اس مسجد مین 40 نمازوں کا فائدہ تو طے شدہ ہے۔
یہ تھی مولانا کی فقاہت اور یہ تھا آپ کا انداز تفکیر۔
قران وسنت کے نصوص پر کتنا جازم اعتقاد تھا ایک بار میں گھر جارہا تھا، وہاں سے مولانا کا گاؤں ٹکریا چار پانج کلومیٹر کے فاصلہ پر ہے تھا۔ آپ اپنے گھر کچھ پیسہ بھیجنا چاہ رہے تھے۔ میں ڈر رہا تھا۔ مجھے روپئے دئے اور کہا جیب میں رکھ کر آیة الكرسي پڑھ لینا ان شاء اللہ روپئے محفوظ رہیں گے۔
مولانا انتہائی متدین تھے۔ ہر بات قران وسنت کی کسوٹی پر پرکھتے تھے۔ لیکن نہ دنیا سے بیزار تھے نہ عبوسا قمطریرا۔ مجھے یاد آتا ہے کبھی کبھار والی بال بھی کھیلتے تھے۔ اور اچھا کھیلتے تھے۔ اساتذہ میں مرحوم ازہری صاحب کے بعد مولانا ہی اچھا والی بال کھیلتے تھے۔ مولانا مجلسی سے زیادہ عملی آدمی تھے، لیکن آدم بیزار بھی نہیں تھے۔ ایک بار اپنے گاؤں کا قصہ سنایا کہ ایک مولوی صاحب کی والدہ ایک دن زار و قطار رونے لگیں۔ مولوی صاحب گھرپر تھے، پریشان ہوگئے۔ والدہ سے رونے کی وجہ پوچھی، تو بتایا تیری وجہ سے رو رہی ہوں، کیسا مرد ہے شادی کو اتنے دن ہوگئے اور تو نے اب تک اپنی بیوی کوکسی دن بھی نہیں مارا۔
مجبورا مولوی صاحب کو اپنی بیوی کو مارنا پڑا۔ بعد مین بیوی کے ساتھ بیٹھ کر خود بھی روئے۔ ہم نے مولوی صاحب کا نام جاننا چاھا تو نہین بتایا کہ تعیین سے غیبت ہوجائے گی۔

آپ کے تبصرے

3000