علامہ الأمیر شکیب ارسلان

صہیب حسن مبارکپوری عربی زبان و ادب

علامہ الأمیر شکیب ارسلان

(1869–1946ء)
ممتاز ادیب وشاعر ، مؤرخ اور سیاسی مبصر


علامہ شکیب ارسلان بروز دو شنبہ یکم رمضان المبارک 1286ھ مطابق 25 دسمبر 1869م کو لبنان کے علاقہ ــ ’’الشویفات‘‘ میں پیدا ہوئے ۔ آپ کا خاندان علم وادب اور مجد وشرافت میں شہرت رکھتا تھا۔
آپ نے پہلے قرآن مجید کا حفظ کیا پھر شویفات میں امریکیوں کے مدرسہ میں داخل ہوکر وہاں جغرافیہ، حساب اور کچھ انگریزی کی ابتدائی تعلیم حاصل کی 1296ھ مطابق 1879م میں بیروت کے  ’’مدرسہ الحکمۃ ‘‘ میں داخل ہوئے اور وہاں سات سال تک مختلف اساتذہ علم وفن سے عربی، فرانسیسی اور ترکی کی تعلیم حاصل کی ۱۸۸۷ء میں جب کی ان کی عمر اٹھارہ سال تھی بیروت کے ــ ’’مدرسہ سلطانیہ‘‘ کا رخ کیا اور وہاں ایک سال رہ کر فقہ اور ترکی زبان کی تحصیل کی اسی زمانے میں شیخ محمد عبدہ کی بیروت آمد پر ان کے دروس منعقد کئے جاتے۔ شکیب ان دروس میں شریک ہوتے اور ان کی خاص مجلسوں میں بھی ان کے ساتھ ہوتے، شیخ کے مخلصانہ برتاؤ اور مصلحانہ کردار سے وہ اس قدر متأثر ہوئے کہ انہی جیسا مصلح بننے کی تمنا کرنے لگے، چنانچہ آگے چل کر ان کی تحریروں اور جدوجہد میں شیخ کی شخصیت کا پر تو اور عکس نظر آتا ہے، کم عمری اور تجربات کی ناپختگی ان کے شعری ذوق اور انشاء پردازی کی راہ میں حائل نہ ہوسکی، بیک وقت دونوں میدانوں میں انہوں نے اپنا اشہب قلم دوڑانا شروع کیا یہاں تک کہ وہ شاعر وادیب ہی نہیں بلکہ ایک مؤرخ اور سیاستداں کی حیثیت سے جانے پہچانے گئے۔
۱۸۹۰ء میں بعمر اکیس سال وہ مصر آئے اور پورے دو مہینے شیخ محمد عبدہ کی خدمت میں رہ کر ان سے مستفید ہوئے، اس درمیان سعد زغلول جیسی عظیم ادبی وسیاسی شخصیات سے ان کا تعارف ہوا ۔ یہاں سے وہ پیرس روانہ ہوئے اور وہاں سے آستانہ آکر شیخ جمال الدین افغانی سے ملاقات کی، شکیب نے اپنے مطالعہ و مشاہدہ کی روشنی میں استعمار اور عیسائی مشنریوں سے اسلام اور مسلمانوں کے لئے جو خطرات محسوس کئے تھے انہیں شیخ کے سامنے اس انداز سے پیش کیاکہ وہ متأثر ہوئے بغیر نہ رہ سکے اور بے ساختہ ان کی زبان سے یہ کلمات نکلے: ـ

’’ أنا  أھنئ أرض الإسلام التي أنبتتك‘‘

یعنی ’’ میں اس سر زمین اسلام کو مبارکباد پیش کرتا ہوں جس نے تمہارے جیسے (غیور نوجوانوں) کو وجود بخشا‘‘۔
وہ آستانہ کی پارلیمنٹ میں علاقہ “حوران” سے ممبر منتخب کئے گئے۔ پھر ’’جمعیۃ الھلال العثمانی‘‘ کے انسپکٹر نامزد کئے گئے، جس کے بینر تلے انہوں نے ۱۹۱۲ء میں مغربی طرابلس کی جنگ میں اپنے بھائیوں کی مدد کے لئے وہاں کا سفر کیا۔
شکیب ارسلان اپنی تحریروں سے خلافت عثمانیہ کی تائید کررہے تھے  اور اس امر میں وہ ان عربوں کے ساتھ تھے جو جرائد و مجلات میں اسلام کی نصرت و تائید اور خلافت کی بقاء اور اس کے استحکام کی دعوت میں مقالات و مضامین لکھ رہے تھے اور اہل یورپ کی دسیسہ کاریوں کے خلاف قلمی جہاد میں مصروف تھے۔
وہ بلاشبہ مشرق کے ان اعاظم رجال میں سے تھے جن پر ملت اسلامیہ بجا طور پر فخر کر سکتی ہے، وہ زبان وبیان اور تاریخ وسیاست ہر میدان میں عربوں کے امام، ان کے حجت اور  امیر تھے، انہوں نے لیبیا ، حجاز، یمن ، مغرب اقصی، یورپ اور امریکہ کا سفر کیا۔ طویل عرصہ تک سوئٹزرلینڈ میں قیام پذیر رہے.
شکیب ارسلان نے بہت بڑی تعداد میں مقالات لکھے، ادب وتاریخ اور تہذیب و ثقافت سے متعلق بہت ساری مشہور کتابوں کو عربی میں منتقل کیا۔ وہ عربوں کی نصرت وحمایت میں مخلصانہ جذبات رکھتے تھے۔مشرق سے لیکر مغرب تک پورے عالم میں ان کا چرچا تھا۔

شاعری:
شکیب ارسلان اعلٰی پائے کے نثرنگار ہونے کے ساتھ ساتھ فطرتاََ شاعر واقع ہوئے تھے، ابھی وہ چودہ سال کے بھی نہ ہوئے تھے کہ اپنے نسب اور قوم پر فخر کرتے ہوئے ایسا شعر کہا جو لوگوں کے لئے حیرت واستعجاب بلکہ شبہ کا باعث بنا ہوا تھا.

وإني من القوم الذین ھم ھم
إذا غاب منھم کوکب لاح کوکب

(میں ایسی قوم سے ہوں جو اپنی مثال آپ ہیں، اس قوم کا جب کوئی ستارہ ڈوبتا ہے تو اس کی جگہ دوسرا ستارہ نمودار ہوجاتا ہے۔)
لوگوں کا شبہ اس وقت یقین میں بدل گیا جب سترہ سال سے کم عمری میں ان کا دیوان ’’الباکورۃ‘‘ منظرعام پر آیا۔
96 صفحات کے اس شعری مجموعہ میں شیخ محمد عبدہ اور ان کے استاد شیخ جمال الدین افغانی کی شان میں قصیدے کہے گئے ہیں، کچھ اشعار دار السلام آستانہ کی گزشتہ شان وشوکت سے متعلق ہیں۔ علم و معرفت کے میدان میں عربوں کی خدمات کا بھی ذکر آیا ہے۔ اخیر میں عربوں کو جدوجہد، عزم وحوصلہ، بلندیٔ وفضیلت کے حصول اور ترکوں کی حمایت پر ابھارتے ہوئے سلطان عبدالحمید کے مدحیہ قصیدہ پر مجموعہ کا اختتام کیا ہے۔
شکیب ارسلان نے اپنے زمانے میں وفات پانے والے چوٹی کے شعراء وادباء کے مرثیے بھی لکھے ہیں جو معنی خیز، عمدہ، انوکھے اور پسندیدہ ہیں۔
۱۹۳۰ء میں مسجد قرطبہ کی زیارت کے موقعہ پر ایک طویل قصیدہ لکھا، جس میں اس کے درودیوار، نقش ونگار، منبر ومحراب، ستون و قنادیل، وہاں کی اذان و اقامت، دروس ومواعظ اور قرأت سبعہ کے حلقات وغیرہ کی ایسی منظر کشی کی ہے کہ ماضی کی یاد تازہ ہوجاتی ہے، اور اس زمانے کا سارا منظر آنکھوں کے سامنے گھومنے لگتاہے، اسی کے ساتھ انہوں نے اس نعمت عظمٰی کے چھن جانے پر آہ و بکا کی ہے اور آنسو بہائے ہیں، قصیدے کے آخری دو اشعار بڑے معنی خیز  ہیں۔

وأشعر أني  فی  بلادی  کأنما
تخاطبنی الأرواح من کل مقبر
وإني أری بالعین مالم أکن أری
حقیقته فی وصف طرس و مزبر

یعنی: ایسا لگتا ہے کہ میں اپنے ہی ملک اور سر زمین میں ہوں۔ ہر قبر کی روح مجھ سے مخاطب ہوکر یہی کہہ رہی ہے (کہ تم اپنی زمین ہو)۔ میں اس وقت اپنی آنکھوں ان حقائق کا مشاہدہ کر رہا ہوں جن کا ادراک کتابوں کے مطالعہ سے نہ ہوا تھا۔
علامہ اقبال (رحمہ اللہ) کی نظم ’’مسجد قرطبہ‘‘ اور شکیب ارسلان کا یہ قصیدہ حقیقت بیانی، واردات قلبی کے اظہار اور اثر انگیزی میں کسی حد تک ایک دوسرے سے مشابہت رکھتے ہیں۔
شکیب نے ۱۹۱۳ء میں آستانہ میں ایک قصیدہ تحریر کیا، جس میں انہوں نے مغرب کی عیاریوں اور اس کے شرور وفتن سے ہوشیار کرتے ہوئے مشرق کی خدمات اوراس کے آثار و نقوش پر فخر کیا ہے، اس قصیدے کی آواز دور دور تک گونجی کیونکہ اس میں صرف اہل یورپ پر نہیں بلکہ ان تمام افراد واقوام پر نزلہ اتارا گیا ہے جو عثمانیوں کے خلاف چالیں چل رہے تھے اس قصیدے کے چند اشعار ملاحظہ ہوں۔

فیاوطنی لا تترك العزم لحظة
بعصرأحیطت بالزحام مناھله
وکن یقظا  لاتستنم  لمکیدۃ
ولالکام یشبه الحق   باطله
وکید علی الأتراك قیل مصوب
ولکن لصید الأمتین حبائله
فلیست لغیر الاتحاد  وسیلة
لمن عاف أن تغشی علیہ منازلة
لیس لنا غیر الھلال مظلة
ینال لدیھا العز من ھو  آمله
سیعلم قومی أننی لا أغشھم
و مھما استطال اللیل فالصبح واصله

تبصرہ نگاروں کے بقول شکیب ارسلان کی شاعری عموما قصیدے، مرثیے، مدح اور مبارکبادی کے پیغامات کے ارد گرد گھومتی ہے، ان کے اشعار میں حب وطن، فخر وحماسہ اور وجدانی کیفیات نمایاں ہیں۔اسلوب میں شوکت اور روانی ہے ۔ حضری اور بدوی دونوں خصوصیات کا امتزاج پایا جاتا ہے۔

نثری سرمایہ :

شکیب ارسلان نے (40) سال کی مدت میں جتنے مقالات تحریر کئے ان کے اپنے اندازے کے مطابق وہ کم ازکم دس ہزار صفحات کو پہونچتے ہیں،
علامہ محمدکرد علی کے بقول شکیب نے ۱۹۳۲ء کے اپنے قلمی انتاجات کو جمع کیا تو اس میں صرف ذاتی خطوط (۱۱۵۳) کی تعداد میں تھے، علاوہ ازیں (۱۰۸) مقالات، ایک قصیدہ اور تقریبا ایک ہزار صفحات موجودہ عالم اسلام کے متعلق تھے۔
شکیب ارسلان نے عنفوان شباب سے ہی ادبی رسائل اور کتابوں اور ترجمہ کی طرف توجہ مرکوز رکھی چنانچہ انہوں نے عبداللہ بن مقفع کی کتاب (۱) ’’الدرۃ الیتیمۃ‘‘ کی تحقیق کی جو ۱۸۹۷ء میں جامعہ امریکہ (بیروت) سے (۷۰) صفحات میں شائع ہوئی، پھر ۱۸۱۸ء میں (۲) ’’المختار من رسائل أبی اسحاق الصابی‘‘ (المتوفی: 994م) کا پہلا جزء عبدا لبنان (286) صفحات میں شائع کیا، اسی طرح شاٹو بریانی (chateaubriand) (المتوفی:1828م) کی کتاب کا ترجمہ بنام (۳) ’’آخر بنی سراج‘‘ مکتبہ الأھرام اسکندریہ سے ۱۸۹۷ء میں شائع کیا، اس ترجمہ کے اخیر میں ’’سقوط اندلس‘‘ کے متعلق خلاصہ درج کرتے ہوئے اسی موضوع پر عربی کی ایک قدیم کتاب بعنوان’’ أخبار العصر فی انقضاء دولۃ بنی نصر‘‘ کو شامل اشاعت کیا، اسی کتاب کے مؤلف نے زوال اندلس کا آنکھوں دیکھا حال لکھا ہے، اور بڑی باریک باریک چیزیں تاریخ کے حوالے کی ہیں، مخطوطہ کے اخیر میں یہ عبارت درج ہے ’’نجز یوم الثلثاء 24 من جمادی الثانیۃ من عام 947ھ ‘‘، یہ کتاب (آخر بنی سراج ) مع ملحقات دوبارہ مطبعہ المنار مصر سے ۱۹۲۵ء میں شائع کی، اسی (۱۹۲۵ء) میں (4) ’’محاسن المساعی فی مناقب الامام أبی عمر و الأوزاعی‘‘ (المتوفی۱۵۷ھ) (1066) صفحات پر مشتمل مؤلف کے نام کے بغیر شائع کی، علامہ راغب الطباخ نے بذریعہ مکتوب انہیں اطلاع دی کی کتاب کے مؤلف أحمد بن محمد الموصلی الدمشقي (المتوفی۸۷۰ ھ) ہیں، ان کی اس رہنمائی پر شکیب نے بذریعہ مکتوب بہت زیادہ شکریہ ادا کیا، اور آئندہ طبعات میں نام کے ساتھ طبع کرنے کا وعدہ کیا، لیکن طبع ثانی کا وقت آنے پہلے انہی کا وقت پورا ہوگیا اور اس ارادہ کی تکمیل نہ ہوسکی، ۱۹۲۵ء ہی میں اپنے بھائی امیر نسیب ارسلان کا دیوان بنام (5) ’’الروض الشقیق فی الجزل الرقیق‘‘ اپنے انتہائی وقیع مقدمہ کے ساتھ شائع کیا جس میں ان کے حالات زندگی اور شعری حسن کو نمایاں کیا ہے.
شکیب نے جب مغربی ادبیات اور اس کے تاریخی و ثقافتی أثاثوں کو عربی میں منتقل کرنا چاہا تو سب سے پہلے ان کی نگاہ فرانسیسی زبان اور اس کے عمدہ آثار کی طرف گئی، کیونکہ بچپن سے اس زبان سے لگاؤ کی وجہ سے وہ اس کے بھی ویسے ہی ماہر تھے جیسے عربی کے، لہذا اس زبان سے ترجمہ کا عمل ان کے لئے کوئی مشکل امر نہ تھا، دونوں زبانوں میں یکساں مہارت حاصل ہونے میں شکیب کی شخصیت ان کے اکثر معاصرین میں ممتاز نظر آتی ہے.
ایک امریکی رائٹر لستودارد (Lothrop Stoddard) کی کتاب ’’حاضرالعالم الاسلامی‘‘ (The new world of Islam ) جیسے عجاج نو یھض نے فرانسیسی سے عربی میں منتقل کیا تھا، شکیب نے اس پر انتہائی عمدہ تعلیق (6) چڑھا کر 4؍جلدوں میں جن کے صفحات کی تعداد (۱۵۸۸) ہے، ۱۹۱۵ء میں مصر سے شائع کیا، اس کتاب سے پتہ چلتا ہے کہ شکیب دنیا کے بڑے بڑے مستشرقین کی متعدد کتابوں پر گہری نظر رکھتے تھے، انہوں نے مستشرقین کے اقوال کی تردید خود انہیں کے مستشرق بھائیوں کے اقوال کے ذریعہ انہیں کی زباں میں کی ہے، وہ اقوال جمع کر کے ان پر تعلیق چڑھاتے ہیں، متن پڑھ کر ان کا تجزیہ کرتے اور اس کی شروحات نقل کرکے ان کا مناقشہ کرتے ہیں، عربی نصوص اپنے علماء سے اور انگریزی نصوص علمائے یورپ سے نقل کرتے ہیں۔ یورپی نص کو اس کی بلاغت کے ساتھ عربی فصاحت کے معیار پر لاتے ہیں اور اس طرح عربیت کے انتہائی خوبصورت اور حسین جامہ میں اسے ملبوس و مزین کرتے ہیں۔
(7)  ’’أناتول فرانس فی مباذلہ‘‘ اس کتاب میں شکیب نے أناتول فرانس (المتوفی13؍اکتوبر 1924ء) کے متعلق اخبار کے تراشے اور نیکھولاس سیگور (Necholas seygour) کی کتاب ’’محادثات مع أناتول فرانس‘‘ کا خلاصہ نیز جان جوک بروسون کی تحریریں جمع کرکے مطبعہ مصریہ مصر سے (۳۱۰) صفحات میں ۱۹۲۵ء میں شائع کی۔ کمال کی بات یہ ہے کہ فرانسیسی، انگریزی اور المانی زبانوں سے جمع کئے ہوئے سارے مواد کو شکیب نے ایسی فصیح عربی میں منتقل کیا ہے کہ دوسرے ترجموں میں اس کی مثال نہیں ملتی.
(8) ’’خاتمۃ تاریخ العرب فی الأندلس ‘‘ (۳۰۰) صفحات پر مشتمل یہ کتاب شاتو بریان کے فرانسیسی ناول پر ذیل ہے، عربوں کو اندلس سے بے دخل کرنے کے لئے فرنگیوں نے اپنے بادشاہوں اور امراء و حکام کی مدد سے اس پر چو طرفہ حملہ کرکے وہاں قتل و غارت گری کا جو بازار گرم کیا تھا یہ کتاب اسی داستان خونچکا کو بیان کرتی ہے۔
(9)  ’’تاریخ غزوات العرب فی فرنسا، وسویسرا، وإیطالیا و جزائر البحر المتوسط‘‘ (۳۰۸) صفحات پر مشتمل اس کتاب کو مطبعہ عیسی البابی وأولادہ مصر سے ۱۹۳۳ء میں شائع کیا، یہ کتاب دراصل ان کی عظیم کتاب ’’الحلل السندسیۃ فی الأخبار الأندلسیۃ‘‘ کے لئے مقدمہ و مدخل ہے.
(10)  ’’غارۃ العرب علی سویسرۃ فی أواسط القرن العاشر‘‘ کتاب کا مؤلف المانی رائٹر فرڈینانڈ کیلر (Ferdinand keller) ہے. شکیب نے اس کی تلخیص مجلہ ’’المنار‘‘ مصر میں شائع کی.
(11)   ’’الحلل السندسیۃ فی الأخبار والأثار الأندلسیۃ‘‘ یہ وہ کتاب ہے جو اندلس کی تاریخ پر ایک وقیع دستاویز ہے، (۱۳۷۹) صفحات پر مشتمل اس عظیم کتاب کے تین اجزاء از  1936ء تا  1939ء المطبعۃ الرحمانیۃ مصر سے شائع ہوئے، خطے کے مطابق کتاب کی تکمیل آٹھ جلد میں ہونی تھی۔ بقیہ پانچ حصے اللہ معلوم مخطوطے کی شکل میں موجود ہیں یا وہ مؤلف کی تخطیط تھی، جس کی تکمیل کی آرزو منوں مٹی کے نیچے انہیں کے ساتھ دفن ہوگئی۔ اس کتاب میں مؤلف نے اندلس کے جغرافیائی حالات کا جائزہ لیتے ہوئے وہاں کے علماء فقہاء اور امراء حکام کے تراجم بیان کیے ہیں۔ اسلامی اندلس کی یہ پہلی عربی تاریخ ہے جو دسیوں کتابوں کو سامنے رکھ کر مرتب کی گئی ہے۔ اب تک اس موضوع پر اتنی جامع کتاب عربی زبان میں تالیف نہیں کی گئی تھی۔
(12)  ’’الارتسامات اللطاف فی خاطر الحاج الی أقدس مطاف‘‘ (۲۸۴) صفحات پر مشتمل یہ کتاب شکیب کا سفرنامہ حج ہے۔ جسے ان کے دوست سید محمد رشید رضا نے اپنے عمدہ مقدمہ کے ساتھ مطبعہ المنار سے ۱۹۳۵ء میں شائع کیا۔ اس کتاب کے شروع میں مؤلف نے استعمار کی دخل اندازیوں اور غیر اسلامی رسم ورواج سے پاک ’’بلدأمین‘‘ کے خالص اسلامی و عربی ماحول کے مشاہدہ اور ملک عبدالعزیز رحمہ اللہ سے ملاقات پر اللہ کا شکر ادا کیا ہے، بعد ازاں مکہ مکرمہ اور مواقف حج کے متعلق بیانات لائے ہیں اور اخیر میں مسلمانان عالم کو یہ پیغام دیا ہے کہ رسولﷺ کی پاکیزہ تعلیمات اور ان مقامات مقدسہ سے اتحاد واخوت کا جو عظیم درس ملتا ہے اس کی عملی تصویر بن کر استعماری قوتوں کا قلع قمع کریں اور اپنی ذات سے ذلت و رسوائی کو دفع کریں اوراسی طرح تہذیب وثقافت اور انسانی اعلی قدروں کو پوری دنیا میں عام کرنے کی کوشش کریں۔
(13)  ’’تعلیقات علی ابن خلدون‘‘ یہ کتاب ۱۹۳۶ء میں مصر سے طبع ہوئی، تعداد صفحات (405) ہے۔
(14) ’’النھضۃ العربیۃ فی العصر الحدیث‘‘ (47) صفحات پر مشتمل ایک لیکچر ہے جو دمشق کے اخبار ’’الجزیرۃ‘‘ کے خرچ پر ۱۹۳۷ء میں شائع ہوا۔
(۱۵)  ’’لماذا تأخر المسلمون ولماذا تقدم غیرھم‘‘ ( مسلمانوں کے زوال اور غیروں کے عروج کے اسباب) (166) صفحات پر مشتمل یہ کتاب ۱۹۳۹ء میں مصر سے شائع ہوئی.

(غالبا ’’اسباب زوال امت ‘‘(اردو ترجمہ) اسی کتاب کا ترجمہ ہے جو مطبوع ہے)

(16)  ’’شوقی أو صداقۃ أربعین سنۃ‘‘ (347) صفحات پر مشتمل یہ کتاب مطبعہ عیسی البابی الحلبی مصر سے 1936ء میں شائع ہوئی۔ اس کتاب میں مؤلف نے امیر الشعراء شوقی کی شعری و ادبی خدمات کو سراہتے ہوئے ان لوگوں کی تردید کی ہے جو ان پر عدم تجدد کا الزام لگاتے ہیں۔
(17)   ’’السید رشید رضا أو اخاء أربعین سنۃ‘‘  اس کتاب میں مؤلف نے ابتداء میں رشید رضا کی خود نوشت سوانح درج کی ہے پھر ان کی وفات سے پہلے اور وفات کے بعد ان کے متعلق جو کچھ کہا یا لکھا تھا اسے اور ان کی شاعری کو یکجا کیا ہے۔ یہ سارا مواد تقریبا (۳۰۰) صفحات کو پہونچتا ہے۔ بعد ازاں ان مکتوبات کو جمع کیا ہے جو  رشید رضا نے مؤلف کے نام ۱۹۲۲ء سے لے کر ۱۹۳۵ء تک ۱۳؍سال کے عرصے میں ارسال کیے تھے جو (۵۰۰) صفحات کو محیط ہیں۔اس طرح اس کتاب کی ضخامت (۸۱۱) صفحات پر ختم ہوتی ہے ۔ مطبعہ ابن زیدون دمشق سے ۱۹۳۷ء میں شائع ہوئی۔
(18) طٰــہٰ حسین کی کتاب ’’فی الأدب الجاھلی‘‘ کا کئی لوگوں نے نقد لکھا ہے۔ ایک نقد محمد احمد الغمراوی کا ’’النقد التحلیلی‘‘ کے نام سے ہے جس کا مقدمہ شکیب نے(56) صفحات میں لکھا ہے ۔

حرف آخر :
ہم نے دیکھا کہ علامہ شکیب ارسلان کی پوری زندگی ادب و سیاست کی خدمات اور استعمار سے مقابلہ آرائی کی راہ میں انتھک کوششوں سے بھری پڑی ہے۔ ان کی مؤلفات تاریخی و ادبی اور شعری محاسن سے لبریز ہیں جو عربوں کی مجد و شرافت، ان کی فتوحات اور ان کے انمنٹ نقوش کی تصویر کشی کرتی ہیں۔ نیز ان کے انتاجات کی کثرت، وسعت اطلاع اور جمال تعبیر کا انکار نہیں کیا جاسکتا۔ ان سب کے باوصف وہ بااخلاق، متواضع اور خاکسار انسان تھے۔ وہ ایسے بڑے تھے جو اپنے خوردوں سے استفادہ کرنے میں عار محسوس نہیں کرتے تھے۔ چنانچہ علامہ ڈاکٹر تقی الدین ہلالی (رحمہ اللہ) جو ان سے عمر میں کافی چھوٹے تھے ان کے ساتھ ان کا کچھ اسی طرح کا معاملہ تھا۔ استاد محترم ڈاکٹر رضاء اللہ مبارکپوری (رحمہ اللہ) نے اپنے استاد ہلالی صاحب کی زبانی بتلایا کہ علامہ شکیب ارسلان کہا کرتے کہ جب ہماری کوئی عبارت پھنستی یا کوئی اشکال پیش آتا تو ہم ایک مغربی نوجوان کی طرف رجوع کرتے جس کا نام تقی الدین ہلالی ہوا کرتا تھا ‘‘  علامہ شکیب کا انتقال ان کے اپنے گھر ہی پر سوموار کی شب 9؍دسمبر 1946ء کو ہوا۔ اگلے دن شویفات میں ان کے آبائی قبرستان میں تدفین عمل میں آئی۔ رحمہ اللہ رحمۃ واسعۃ


تفصیل کے لیے ملاحظہ ہو ’’أعلام النثر و الشعر فی العصر العربی الحدیث لمحمد یوسف کوکن، و تاریخ العربیۃ و آدابھا لمحمد فاروقی و محمد اسماعیل المجدد، و تاریخ ادب عربی از احمد حسن زیات (اردو ترجمہ مع اضافہ).

2
آپ کے تبصرے

3000
1 Comment threads
1 Thread replies
0 Followers
 
Most reacted comment
Hottest comment thread
2 Comment authors
newest oldest most voted
Nehal Sagheer

شروع میں ہی ان کی تاریخ پیدائش میں ہجری کو عیسوی اور عیسوی کو ہجری لکھا ہے اسے درست کردیں