الفیۃ ابن مالک کی تالیف کسی معجزہ سے کم نہ تھی۔ ابن مالک(ت۶۷۲ھ) نے نحوی وصرفی مسائل کو ایک خاص ترتیب ومنہج کے ساتھ نظم کی شکل میں ایک لڑی میں پرو دیا ہے۔ یہ تمام نظمیں ان کی کتاب ’الکافیۃ الخلاصۃ‘ کا ملخص ہیں اور بحر الرجز پر مشتمل ہیں۔ اگرچہ ان سے پہلے الفیہ کی تالیف میں ابن معط کو سبقت حاصل ہے جس کا اعتراف ابن مالک نے خود کیا ہے تاہم الفیہ ابن مالک کو جو پذیرائی حاصل ہوئی وہ دوسری کتابوں کو کم ہی حاصل ہوئی۔ اللہ تعالی نے نحو کی اس کتاب کو ایسی عام قبولیت عطا کی کہ علماء نے نہ صرف اس کی شرح وتوضیح کو اپنے لیے شرف سمجھا بلکہ اس کی شرحوں پر حواشی لگانے اور اس کی شرحوں کے شواہد کو حل کرنے کو اپنے لیے غنیمت جانا۔
متون علمیہ میں اسے وہ اہمیت حاصل ہے جو دوسرے بہت سے متون کو حاصل نہ ہوسکی۔ یہی وجہ ہے کہ بہت سے مدارس اور دینی مراکز میں اسے حرفا حرفا یاد کروا جاتا ہے، الفیہ ابن مالک کو جس نے نوک زبان پر چڑھا لیا سمجھو سارے نحوی وصرفی قواعد اسے ازبر ہوگئے، پھر زندگی بھر اس کے کام آتے رہیں گے، بد قسمتی سے ہمارے ہند وپاک میں اس کی تمام تر اہمیت کے باوجود لائق اعتنا نہ سمجھا گیا۔ ابن مالک کو صرف اپنے ہم عصر اور بعد میں آنے والوں پر ہی فوقیت حاصل نہیں بلکہ اپنے سے پہلے بہت سے متقدمین پر بھی برتری حاصل ہے۔
ابن مالک وہی نحوی ہیں جنھوں نے عربی ونحوی شواہد کو ایک نیا اور منظم رخ عطا کیا ہے، پہلے قرآن کریم سے استدلال کرتے اگر اس میں نہیں ملتا تو حدیث سے پھر عربی اشعار سے۔ عربی قواعد میں حدیث نبوی سے استشہاد کے حوالہ سے نحویوں کی آراء مختلف ہیں، مگر ابن مالک نے احادیث سے کثرت سے استدلال کیا ہے جس پر ابو حیان نے ان کی سخت تنقید کی ہے۔ (الاقتراح از السیوطی:۵۲-۵۴)
ایسے ایسے اشعار سے استدلال کرتے ہیں جو دوسرے نحویوں کے یہاں معروف نہیں۔ یہی وجہ ہے کہ ان پر نحوی شواہد گھڑنے کا الزام بھی لگ چکا ہے جس پر ایک دو ماجستیر کا رسالہ بھی منظر عام پر آگیا ہے۔
اب تک الفیہ کی بہت سی شرحیں وجود میں آچکی ہیں جیسے:شرح ابن الناظم، شرح المرادی، شرح ابن عقیل، شرح ابن ھشام، شرح محمد الأعمی، شرح العلامہ المکودی، شرح تقی الدین الشمنی، شرح شمس الدین الجزری، شرح ابی حیان الأندلسی، شرح الاسنوی، شرح زین الدین، شرح ابن الصائغ، شرح الأشمونی، شرح برہان الدین، شرح العینی، شرح محمد بن قاسم العزی، شرح الشاطبی، شرح الحازمی وغیرہ۔
ان شروحات میں تین شرحیں بہت اہم ہیں:
(۱)شرح ابن عقیل: یہ شرح اس ناحیہ سے اہم ہے کہ بہت آسان اور واضح اسلوب میں ہے۔ اس پر بھی بہت سے علماء نے حواشی چڑھایا ہے جن میں اہم سیوطی اور احمد السجاعی کے حاشیے ہیں۔
(۲)اوضح المسالک الی ألفیۃ بن مالک: یہ الفیہ کی شرح تو ہے مگر ابن عقیل(ت۷۶۹ھ) کی طرح نظموں کی فردا فردا شرح نہیں کی ہے بلکہ جس ترتیب سے نحوی مسائل الفیہ میں ہیں اسی ترتیب سے مسائل کو ابن ہشام(ت۷۶۱ھ) نے بیان کردیا ہے، اس میں جگہ جگہ ابن مالک پر نقد بھی ہے اور استدراک بھی۔ اوضح المسالک پر بھی کچھ شرحیں لکھی گئی ہیں جن میں التصریح از خالد الأزہری اورضیاء السالک از محمد عبد العزیز النجار اہم ہیں۔
(۳)نور الدین الاشمونی(ت۹۰۰ھ) کی شرح ’منہج السالک الی ألفیۃ ابن مالک‘ جو شرح الاشمونی کے نام سے مشہور ہے: بہت سے لوگوں کو اس شرح کے مشکل ہو نے کی شکایت رہی ہے، یہ شکایت عربی زبان وقواعد سے دلچسپی نہ رکھنے والوں کے لیے کسی حد تک درست بھی ہے مگر اس کی اہمیت سے انکار بھی نہیں کیا جا سکتا۔
ذیل کے سطور میں اسی شرح کی اہمیت و افادیت پر مختصر خاکہ پیش کیا جا رہا ہے:
۱۔یہ شرح علمی مواد کو جمع کرنے، نحوی مذاہب اور ان کی تعلیلات کو بیان کرنے اور شواہد کی توضیح کے اعتبار سے سب سے اچھی ہے۔
۲۔یہ شرح بہت سی شرحوں کا جامع ہے، اس لیے کہ مؤلف نے ابن الناظم، مرادی، ابن عقیل، امام شاطبی، اوضح المسالک، الکافیہ الشافیہ کی شروحات، کتاب التسھیل کی شروحات اور مغنی اللبیب وغیرہ جیسی معتبر کتابوں سے استفادہ کیا ہے۔
۳۔اس کتاب کی ایک خوبی یہ ہے کہ اس کے مؤلف دوسرے علماء کے اقوال نسبت کے ساتھ نقل کرتے ہیں جیسے معرب ومبنی کے باب میں امام شاطبی سے اور معرفہ ونکرہ کے باب میں ابن ہشام سے نقل کرتے وقت ان کی طرف نسبت کی ہے۔(نشأۃ النحو از الشیخ علی طنطاوی:۲۲۷)
۴۔مؤلف کبھی کبھی لفظ تنبیہات کے تحت اہم معلومات ذکر کرنے کا اہتمام کرتے ہیں اور یہ تنبیہات پوری کتاب میں مختلف جگہوں پر پھیلے ہوئے ہیں۔
۵۔اس کا ایک امتیاز یہ بھی ہے کہ اس میں پرانے شعری و نثری شواہد کے ساتھ بہت سے نئے شواہد کا بھی اضافہ کیا گیا ہے جو دوسری نحو کی کتابوں میں ملنا مشکل ہے۔
۶۔یہ کتاب اپنی اہمیت کی بنا پر بہت سے علماء ومصنفین کی توجہ کا مرکز بنی چنانچہ کئی علماء نے اس پر حواشی لگانے کا کام کیا ہے ان حواشی میں اہم:
(۱)ابو عبد اللہ محمد بن علی بن سعید التونسی (ت۱۱۹۹ھ) کا حاشیہ، اس کا نام ’زھر الکواکب لبواہر المواکب‘ہے۔
(۲)دوسرا حاشیہ محمد بن علی صبان کا ہے اور اس کا نام ’ حاشیۃ الصبان علی شرح الأشمونی علی الفیہ ابن مالک‘ ہے۔ علمی دنیا میں یہ حاشیۃ الصبان کے نام سے معروف ہے۔
یہ کتاب پہلی مرتبہ سنہ۱۲۸۰ھ میں حاشیۃ الصبان کے ساتھ بولاق، مصر سے چھپی، پھر سنہ۱۲۹۳ھ اور۱۲۹۸ھ میں تونس میں ابن سعید التونسی کے حاشیہ ساتھ چھپی، نیز پہلی مرتبہ بغیر حاشیہ کے مشہور محقق محمد محیی الدین عبد الحمید کی تحقیق کے ساتھ۱۳۷۵ھ میں مصر سے چھپی۔
اگر کتاب کے منہج اور مشمولات کی بات کریں تو موٹے طور پر کہہ سکتے ہیں کہ مولف نے الفیہ کی تمام نظموں کو فردا فردا ذکر کیا ہے اور بہترین انداز میں ان کی شرح کی ہے۔ دوران شرح قرآن وحدیث اور عربی اشعار سے مختلف نحوی شواہد کا ذکر کیا ہے، نیز بطور حجت علماء کے اقوال وآراء کو بھی بیان کرتے ہیں، اخیر میں تنبیہات کا ذکر کرتے ہیں۔ کبھی کبھی نظم کی مشکل عبارات کی نحوی توجیہ اور اعراب کے ذریعہ حل بھی بتاتے ہیں۔ بطور مثال:
نظم نمبر۳۰۳:
الظرف وقت أو مكان ضمنا
’في‘ باطراد كهنا امكث أزمنا
کے تحت لکھتے ہیں:
“الظرف” لغة الوعاء، واصطلاحا “وقت أو مكان”، أي: اسم وقت أو اسم مكان “ضمنا” معنى “في” دون لفظها “باطراد كهنا امكث أزمنا” فـ”هنا”: اسم مكان، و”أزمنا”: اسم زمان، وهما مضمنان معنى “في”؛ لأنهما مذكوران للواقع فيهما، وهو المكث.
والاحتراز بقيد “ضمنا في”، من نحو: {يَخَافُونَ يَوْمًا}، ونحو: {اللَّهُ أَعْلَمُ حَيْثُ يَجْعَلُ رِسَالَتَهُ}، فإنهما ليسا على معنى “في”، فانتصابهما على المفعول به، وناصب “حيث” يعلم محذوفا؛ لأن اسم التفضيل لا ينصب المفعول به إجماعا” (شرح الاشمونی:۱/۴۸۵)یعنی مؤلف نے ظرف (مفعول فیہ) کی لغوی واصطلاحی تعریف ذکر کرتے ہوئے کہا کہ ظرف کا لغوی معنی وعاء (برتن) ہے، اور اصطلاح میں اس اسم مکان یا اسم زمان کو کہتے ہیں جو “فی” کے معنی کو بغیر لفظ کے شامل ہو، جیسے: “ھنا امکث ازمنا” اس مثال میں “ھنا” اسم مکان اور ” ازمنا” اسم زمان ہے، اور دونوں میں لفظ “فی” نہیں ہے مگر اس کے معنی کو شامل ہے۔ یعنی: امکث فی ہذا المکان فی زمن کذا۔
پھر مؤلف نے کہا: مذکورہ تعریف میں ” ضمنا فی” کے قید سے ’يخافون يوما‘ اور ’الله يعلم حيث يجعل رسالته‘ جیسے شواہد نکل گئے، اس لیے کہ اس میں فی کا معنی نہیں پایا جاتا۔ پس یوما اور حیث مفعول بہ کی بنیاد پر منصوب ہے، ظرف کی بنیاد پر نہیں۔
اس کتاب میں قرآن وحدیث کے شواہد کے علاوہ ۱۲۶۲ عربی شعری شواہد ہیں جن کی موقع اور ضرورت کے تحت تفصیل وتوضیح بھی کی گئی ہے۔
اس کتاب میں ایک جامع اور مانع مختصر مقدمہ بھی ہے جس میں یہ اہم ادبی عبارت درج ہے:
فهذا شرح لطيف بديع على ألفية ابن مالك، مهذب المقاصد واضح المسالك، يمتزج بها امتزاج الروح بالجسد، ويحل منها محل الشجاعة من الأسد، تجد نشر التحقيق من أدراج عباراته يعبق، وبدر التدقيق من أبراج إشاراته يشرق، خلا من الإفراط الممل، وعلا عن التفريط المخل، وكان بين ذلك قوامًا، وقد لقبته بـ”منهج المسالك، إلى ألفية ابن مالك( یہ الفیہ ابن مالک کی ایک انوکھی اور لطیف شرح ہے، اس کے مقاصد مہذب اور مسالک واضح ہیں، شرح اور متن کا ایسا امتزاج ہے جیسا روح اور جسم کا امتزاج ہو، اس شرح کو متن سے وہی درجہ حاصل ہے جو شیر کو بہادری سے ہے، آپ اس کی مختلف النوع عبارتوں سے تحقیق کی ملی جلی خوشبو محسوس کریں گے، اس کی اشارات کے برجوں سے تدقیق کا چمکتا ہوا چاند نظر آئے گا۔ اس میں بور کرنے والا مبالغہ نہیں ہے اور نہ ہی خلل ڈالنے والی کمی، وہ تو دونوں عیبوں کے بیچوں بیچ کی راہ ہے)
مؤلف کی یہ عبارت جہاں ان کی شرح کی قدر و منزلت کو واضح کرتی ہے وہیں عربی زبان کے مختلف اسالیب پر ان کی مضبوط گرفت کو بھی عیاں کرتی ہے۔
آپ کے تبصرے