لفظ معجم اور قاموس موجودہ زمانہ میں ایسے معنی میں استعمال ہوتے ہیں جو قدیم زمانہ میں استعمال نہیں ہوتے تھے، گویا کہ ان دو لفظ کے دو معانی ہیں ایک قدیم اور ایک جدید۔ زیر نظر مضمون میں ان دونوں کلمہ کی لفظی واصطلاحی تعریف تاریخ کے حوالہ سے بیان کی گئی ہے۔
۱۔المعجم:
اس کے لفظی معنی ہیں ’الابہام والخفاء‘ یعنی پوشیدہ اور غیر واضح۔ اسی سے عربوں کا قول ہے ’رجل اعجم وامرأۃ عجماء‘ یہ اس وقت کہتے تھے جب وہ اپنی بات صحیح ڈھنگ سے پیش نہیں کرپاتے۔ اسی سے اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی حدیث بھی ہے: جرح العجماء جبار۔ یہاں عجماء سے مراد چوپایہ ہے، اس لیے کہ ان کی بات واضح نہیں ہوتی۔ (دیکھیں: تاج اللغہ وصحاح العربیہ:۵/۱۹۸۰-۱۹۸۱)
مذکورہ معنی قدیم علماء عرب کا ہے، چنانچہ جوہری فرماتے ہیں:
فکل من لا یقدر علی الکلام أصلا فھو اعجم ومستعجم( تاج اللغہ وصحاح العربیہ:۵/۱۹۸۰)
معجم کا اصطلاحی معنی:
معجم اس کتاب کا نام ہے جس میں کسی زبان کے الفاظ اور اس کے مفردات کو ایک خاص ترتیب کے ساتھ بیان کیا جاتا ہے، ان الفاظ کے معنی ومفہوم کی وضاحت کی جاتی ہے۔ نیز لفظ کا صحیح تلفظ کیا ہے، کہاں اور کس جگہ استعمال ہونا چاہیے اس تعلق سے بھی روشنی ڈالی جاتی ہے۔
یہ اصطلاحی معنی یعنی لفظ کی توضیح وتشریح اس کا پہلہ معنی (ابہام وخفاء) کے بالکل مخالف ہے، تو سوال یہ پیدا ہوتا ہے یہ توضیح وتشریح والا معنی کہاں سے اخذ کیا گیا؟
اس کا جواب یہ ہے کہ اس کا تعلق اہم صرفی قاعدہ باب کی خاصیت سے ہے، آپ نے باب افعال کی ایک خاصیت ’الإزالة والسلب‘ پڑھی ہوگی، جیسے کہتے ہیں: أشكيت الرجل یعنی میں نے اس کی شکایت دور کردی، وأقذیت عین فلان یعنی میں نے اس کی آنکھ کی تکلیف دور کردی۔
اسی طرح ’أعجمت الکتاب‘ کا معنی ہے میں نے اس کا ابہام اورپوشیدگی دور کردی، اسی معنی کی وضاحت کرتے ہوے ابن جنی کہتے ہیں:
أعجمت الكتاب إذا بينته وأوضحته فهو إذًا لسلب معنى الاستبهام لا إثباته یعنی یہ لفظ کتاب کی توضیح وتشریح کے لیے استعمال ہوتا ہے، پس اس میں ابہام کے معنی کی نفی ہے۔
اسی سے حروف الھجاء کو حروف المعجم بھی کہا جاتا ہے اس لیے کہ ان حروف کے اندر جو نقطے ہوتے ہیں وہ بغیر نقطہ والے حرف کو جدا کردیتے ہیں۔
مذکورہ بالا تفصیل سے یہ بات واضح ہوگئی کہ لفظ معجم باب افعال سے مفعول کا صیغہ ہے اور اس سے مراد لفظ کے اندر جو مشکل معنی ہے اس کی وضاحت کرنا، اس کے ابہام وپوشیدگی کو دور کرنا۔ پس یہی معنی اس کے اصطلاحی معنی میں لیا گیا ہے۔
اب رہا یہ سوال کہ یہ لفظ اپنے اصطلاحی معنی میں کب اور کس طرح استعمال ہوا ہے تو اس کا جواب یہ ہے کہ یہ بات کسی کو نہیں معلوم کہ پہلی مرتبہ کس نے اس لفظ کو اصطلاحی معنی میں استعمال کیا ہے۔ لیکن علماء لغت نے کہا ہے کہ سب سے پہلے اصحاب الحدیث نے اس لفظ کا استعمال کیا ہے۔
چنانچہ استاذ عبد الغفور عطار بیان کرتے ہیں کہ: ’’سب سے پہلے اس کلمہ کو محدثین نے استعمال کیا ہے اور تیسری صدی عیسوی میں سب سے پہلے امام ابو یعلی التمیمی ( ت۲۰۷ھ) کی کتاب معجم الصحابہ پر اس کا اطلاق کیا گیا ہے۔‘‘ اس کے بعد امام بغوی نے اپنی دو کتاب المعجم الصغیر والمعجم الکبیر کا نام بھی اسی سے رکھا ہے۔
عدنان خطیب فرماتے ہیں کہ سب سے پہلے امام بخاری نے اس لفظ کا استعمال کیا ہے چنانچہ امام بخاری رحمہ اللہ فرماتے ہیں:
تسمية من سمي أهل بدر في الجامع الذي وضعه ابو عبد الله على حروف المعجم (صحيح البخاری:۵/۸۷)
پھر اس لفظ کا اطلاق کتب اللغہ جسے ہم معاجم کہتے ہیں پر کیا گیا، اور یہی اس کا جدید معنی ہے۔
اس سلسلے میں سب سے پہلے دکتور حسین نصار نے ایک مستقل کتاب ’المعجم العربي نشأته وتطوره‘ لکھی جس میں انھوں نے اس طرح کی تمام کتابوں کو معجم ومعاجم سے تعبیر کیا ہے، اپنے علم کے مطابق ان سے پہلے کسی نے اس لفظ کا اطلاق کتب اللغۃ پر نہیں کیا، پھر دھیرے دھیرے اس کا اطلاق عام ہوگیا اور اس نام سے بہت سی کتابیں وجود میں آگئیں۔
۲۔القاموس:
جہاں تک لفظ قاموس کا مسئلہ ہے تو اس کا معنی عظیم سمندر کے ہیں امام جوہری کہتے ہیں:
وقاموس البحر: وسطه ومعظمه. وفي حديث المد والجزر قال: ملك موكّل بقاموس البحر (تاج اللغة وصحاح العربية:۳/۹۶۶)
اور لسان العرب میں آیا ہے:
القاموس: قعر البحر او وسطه او معظمه (۸/۶۶مادۃ ق س م)
سب سے پہلے اس لفظ کا اطلاق فیروزآبادی نے اپنی کتاب القاموس المحیط پر کیا ہے، چونکہ انھوں نے اس کتاب کو کثرت مواد کی وجہ سے بحر سے تشبیہ دی ہے اسی لیے اس کا نام القاموس المحیط رکھا۔
پھر بعد میں اس لفظ کو اس کثرت کے ساتھ استعمال کیا گیا ہے کہ وہ لفظ معجم کے معنی میں استعمال ہونے لگا۔ پھر کسی بھی زبان کے معجم پر اس کا اطلاق کیا جانے لگا۔ جیسے القاموس الوحید، القاموس الجدید، القاموس الاصطلاحی،قاموس المغنی، قاموس المورد، قاموس إلياس عصری، القاموس الطبی، وغيرہ۔
لفظ معجم اور قاموس کے درمیان بنیادی فرق یہ ہے کہ لفظ معجم صرف عربی معاجم کے لیے استعمال ہوتا ہے جبکہ لفظ قاموس کسی بھی زبان کے معجم کے لیے استعمال ہوتا ہے چاہے وہ عربی میں ہو یا فارسی میں یا انگریزی میں، چاہے معجم احادی ہو یا دو لسانی یا مزدوج، سب کے لیے لفظ قاموس کا استعمال ہوتا ہے۔
اس موضوع سے متعلق مزید جانکاری حاصل کرنے کے لیے درج ذیل کتابوں کی طرف رجوع کیا جا سکتا ہے:
(۱)المعجم العربی نشأتہ وتطورہ از ڈاکٹر حسین نصار
(۲)مقدمۃ عبد الغفور عطار علی صحاح الجوہری از عبد الغفور عطار
(۳)دراسات فی المعجمات العربیہ از ڈاکٹر ناجح عبد الحفیظ مبروک
(۴)تداخل الأصول اللغویہ وأثرہ بناء المعاجم از ڈاکٹر عبد الرزاق الصاعدی
وصلى الله على نبينا محمد وعلى آله وصحبه وسلم تسليما كثيرا
آپ کے تبصرے