دقہلیہ صوبہ میں واقع مرکز السنبلاوین کے ایک گاؤں “کفر غنام” میں 30 /اگست 1888ء کو محمد حسین ہیکل کی ایک خالص دیہاتی خاندان میں ولادت ہوئی-
پانچ سال کی عمر میں اس کے والد نے اسے گاؤں کے مکتب میں داخل کرایا، اس نے وہیں لکھنا پڑھنا سیکھنا اور ایک تہائی قرآن کریم حفظ کیا، جب وہ سات سال کا ہوا تو اس کے والد نے اسے قاہرہ بھیج دیا اور اس نے وہاں کے ’’مدرسہ جمالیہ‘‘ سے 1901ء میں پرائمری کی تعلیم مکمل کی۔ پھر وہ مدرسہ خدیویہ میں داخل ہوا اور ثانویہ کی تکمیل کے بعد وہیں سے 1905ء میں گریجویشن بھی کیا ۔ بعد ازاں اس نے مدرسۃ الحقوق یعنی لاء کالج میں داخلہ لیا اور 1909ء میں وہاں سے فارغ ہوا ۔
مزید تعلیم کے لیے اس نے فرانس کا سفر کیا اور 1912ء میں سوربون یونیورسٹی میں ’’دین مصر العام‘‘ کے عنوان سے مقالہ لکھ کر وہاں سے ڈاکٹریٹ کی ڈگری حاصل کی، یہی وہ پہلا مصری شخص ہے جسے قانون میں ڈاکٹریٹ کی ڈگری تفویض کی گئی، مصر واپس آکر اس نے منصورہ میں وکالت کا پیشہ اختیار کیا، 1917ء میں اپنے پیشے کی مشغولیت کے ساتھ ساتھ وہ مصر کی پرائیوٹ یونیورسٹی (قاہرہ یونیورسٹی) میں تدریسی خدمات انجام دینے لگا اور اپنے اس عمل کو وہ سرکاری ملازمت پر ترجیح دیتا تھا.
محمد حسین ہیکل کا ادبی ذوق لاء کالج میں تعلیم کے دوران پروان چڑھا، اسی زمانے میں اس نے قدیم عربی کتابوں کا مطالعہ کیا اور ’’الجریدۃ‘‘ کے ایڈیٹر لطفی السید سے راہ ورسم پیدا کی اور اس اخبار کے مقالہ نگاروں میں شامل ہوگیا۔ نوجوان قلمکاروں کی تربیت میں لطفی السید کا بڑا اہم کردار ہے۔ دیگر نوجوانوں کی طرح ہیکل بھی سیاست ومعاشرت اور اخلاق کے موضوعات میں ان سے مستفید ہوا.
مصریت پر ایمان اور سیاسی وادبی زندگی میں اس کے اظہار کے لیے جدوجہد، مغرب اور اس کے معرچشموں سے فکری زندگی کو مربوط کرنے کی لطفی السید کی دعوتوں کا اسے مکمل اور عمیق احساس ہوا اور ان کے اثرات ’’الجریدۃ‘‘ اخبار میں شائع ہونے والے اس کے مضامین میں بخوبی شائع ہوئے، وہ شیخ محمد عبدہ اور قاسم امین سے متأثر تھا، اس کا پہلا مقالہ عورت کی آزادی سے متعلق شائع ہوا جس میں وہ شیخ محمد عبدہ کے نظریات سے متأثر نظر آتا ہے.
1915ء میں جب ’’الجریدۃ‘‘ پر پابندی لگادی گئی تو اس نے ہفتہ وار ’’السفور‘‘ میں لکھنا شروع کیا اور 1917ء میں ’’جبریہ وقدریہ‘‘ کے متعلق ایک کتاب شائع کی۔ 1923ء میں جب “حزب الأحرار” نے اپنا اخبار ’’السیاسۃ ‘‘ جاری کیا تو اس کی ادارت سنبھالی ہیکل کے معاصر ڈاکٹر طہٰ حسین نے اخبار کی ادارت میں اس کا ساتھ دیا اور دونوں نے اپنی کوششوں سے حزب الأحرار کے اخبار کو بام عروج تک پہنچایا، ہیکل کی تحریروں میں سیاسی رجحان غالب تھا جب کہ طٰہٰ حسین کی تحریریں ادبی مزاج سے ہم آہنگ ہوتی تھیں.
اپریل 1926ء سے ’’السیاسۃ‘‘ ہفتہ وار شائع ہونا شروع ہوا، اس اخبار کی بدولت صحافیوں اور نئی نسل کے ادباء کی ایک ٹیم تیار ہوئی جیسے طٰہٰ، ابراہیم عبدالقادر المازنی، شیخ عبدالعزیز البشری، عبداللہ عنان، محمود عزمی اور توفیق دیاب وغیرہ.
پندرہ سال صحافتی زندگی گزارنے کے بعد ہیکل نے ملک کی وزارت میں قدم رکھا اور 31 /دسمبر 1937ء کو وزیر داخلہ کا منصب سنبھالا، بعد ازاں وہ وزیر تعلیم وتربیت بنایاگیا، اپنے وزیر داخلہ ہونے کے ایام میں اس نے تعلیمی جہتیں بناکر وزارۃ المعارف میں لامرکزیت کا قانون بنایا، اس کا خیال یہ تھا کہ جب صوبائی سطح کے ادارے اور مقامی جمعیتیں اپنے اپنے صوبوں اور علاقوں کے تعلیمی نظام کی دیکھ بھال پورے طور پر خود کریں گی تویہ چیز بڑے خیر کی باعث ہوگی، چنانچہ وزارۃ المعارف میں اس نظام کی تنقید عمل میں لائی گئی، ہیکل وزارت کے عہدے پر باقی رہا یہاں تک کہ 1945ء میں سینیٹ کا صدر بنایا گیا اور 1950ء تک اس منصب پر قائم رہا، بعد ازاں وہ اپنے گھر ہی پہ مطالعۂ کتب اور تصنیف وتالیف میں مشغول رہا تاآں کہ 8 ْ/دسمبر 1956ء کو صاف ستھری زندگی گزارنے کے بعد داعئ اجل کو لبیک کہہ گیا.
ہیکل کی تالیفات:
1۔ ’’زینب‘‘: یہ ہیکل کی وہ مشہور زمانہ کہانی ہے جسے اس نے پیرس کی سوربون یونیورسٹی میں پی، ایچ، ڈی کے زمانے میں لکھی، یہ کہانی عربی ادب میں اپنی نوعیت کی پہلی شاندار کوشش ہے، اس میں ہیکل نے دیہات اور کسانوں کے رہن سہن کی ایسی منظر کشی کی ہے کہ قبل ازیں کبھی کسی اور مصری ادیب سے ایسی کوشش ثابت نہیں، اس کے مقدمہ میں اس نے اظہار خیال کرتے ہوئے لکھا ہے :
’’ إنھا ثمرۃ الحنین للوطن، وما فیه، صورھا قلم ’’مقیم‘‘ في باریس ، مملوء مع حفیفة لمصر إعجابا بباریس، وبالأدب الفرنسی‘‘
یعنی ’’یہ کہانی جذبۂ شوق وطن کا ثمرہ ہے، اسے پیرس میں مقیم ایک ایسے پردیسی نے سجایا اور سنوارا ہے جس کا دل مصر کی یاد، پیرس اور فرانسیسی ادب کی پسندیدگی سے معمور ہے‘‘.
کہانی کا خلاصہ یہ ہے کہ گاؤں کے ایک رئیس زادے حامد کو اپنی چچازاد بہن عزیزہ سے محبت ہوجاتی ہے، لیکن گاؤں کے رسم ورواج میں جکڑے ہوئے اس نوجوان کو اظہار محبت کی ہمت نہیں ہوتی اور اچانک عزیزہ کی شادی طے ہوجاتی ہے، حامد سکون کی تلاش میں نکل پڑتا ہے جو اسے ایک خوبصورت لڑکی زینب کے پاس ملتا ہے، زینب ایک مزدور تھی اور حامد کے کھیتوں میں کام کرتی تھی، اسے بھی حامد کی محبت کا احساس ہوگیا تھا لیکن اس کا خیال تھا کہ دونوں کے خاندان میں سماجی فرق کی وجہ سے حامد سے اس کی شادی ناممکن ہے ۔ لہذا اس نے اپنی سطح کے ایک لڑکے کو اپنا دل دے دیا مگر گاؤں کے پرانے رسم ورواج کی وجہ سے وہ بھی اپنے گھر والوں سے اپنی محبت کا اظہار نہ کرسکی، لہذا ان کی خواہش کے مطابق اسے ایک ایسے لڑکے سے شادی کرنی پڑی جس سے وہ پیار نہیں کرتی تھی، زینب کا محبوب ابراہیم فوجی خدمات کے تحت سوڈان چلاجاتا ہے، حامد بھی نئی زندگی شروع کرنے کے لیے گاؤں چھوڑ کر قاہرہ کا رخ کرتا ہے، ادھر زینب کو بہت سارے نفسیاتی امراض لاحق ہوجاتے ہیں اور پھیپھڑے کی بیماری کا شکار ہوکر موت کو گلے لگا لیتی ہے.
یہ کہانی مصر کے دیہاتی رسم ورواج، لوگوں کی سادہ لوحی، زندگی کی خوبیوں، خامیوں، جن وشیاطین اور مختلف سلسلوں کے مشائخ کے بارے میں لوگوں کے اعتقادات کی سچی تصویر بناتی ہوئی نظر آتی ہے، ہیکل اکثر وبیشتر دیہاتی رسم ورواج اور غیر مناسب سماجی نظام خاص طور سے شادی بیاہ کے مسئلہ پر تنقیدی نظر ڈالتا ہے، اور اس مناسبت سے وہ قاسم امین کی آراء ونظریات پیش کرتے ہوئے اس کی دعوت آزادئ نسواں کا بھی ذکر کرتا ہے.
بلاشبہ اس کہانی کی تخلیق میں فرانسیسی کہانیوں کا اثر پایا جاتا ہے جس کی وضاحت زینب کے خدوخیال کی تصویر کشی سے ہوتی ہے کہ ہیکل نے زینب کو گاؤں کی سادگی سے زیادہ نرم ونازک بنا کر پیش کیا ہے، اس کو اس کے درد و الم سے آزاد کرانے کے لیے ٹی بی کے مرض کا انتخاب کیا ہے جیساکہ بعض فرانسیسی کہانیوں میں درد محبت کی ماری ہوئی معشوقاؤں کو ان کے درد والم سے آزاد کرنے کے لیے اسی مرض کا سہارا لیاجاتا ہے.
اس کہانی میں ہیکل نے جانبی کرداروں کی تصویر کشی نہیں کی ہے جس کا سبب شاید یہ ہوسکتا ہے ابھی وہ اپنے عنفوان شباب میں تھا اور زندگی کے بارے میں اسے زیادہ تجربات حاصل نہیں تھے لیکن مصری دیہاتوں کے فطری مناظر کی بھر پور عکاسی سے اس خلاء کو پر کیا ہے. سچ یہ ہے کہ ہیکل نے مصر کی دیہاتی زندگی کی کامیاب تصویر کشی کی ہے. کہانی میں وارد اکثر وبیشتر مقامات کا اس نے بڑا نادر نقشہ کھینچا ہے.
سماجی رسم ورواج کے تمسخرانہ اظہار اور مصری دیہات وقصبات کی باکمال منظر نگاری کے ساتھ ہیکل نے یہ کہانی ایسی شیریں زبان میں تحریر کی ہے جس میں نہ تو سجع بندی ہے نہ صنائع بدائع کا استعمال، اس کہانی کو ہیکل نے مصری آہنگ عطاکرنے کی کوشش کی ہے اور بعض مقامات پر خاص طور سے مکالمات میں دیہاتی کلمات کا استعمال کرکے ایک طرح سے اپنے استاد لطفی السید کی دعوت قبول کی ہے کہ ہماری ایک ایسی ادبی زبان ہونی چاہیے جس میں فصیح عربی عوامی بولی سے قریب ہو، لیکن ہیکل نے اس نظریے میں وسعت پسندی سے کام نہیں لیا اور زینب کے بعد کی تحریروں میں فصیح اسلوب کا التزام کیا.
درحقیقت ہیکل کاشمار ان ادیبوں میں ہوتا ہے جنہوں نے عربی زبان کو جدید افکار و نظریات اور معانی ومطالب کی ادائیگی کے قابل بنایا اور بیسویں صدی کی ابتدا ہی سے ایک ایسے مصری اور قومی ادب کی تشکیل میں ہاتھ بٹایا جو ہمارے سماج، ہماری ذات، ہمارے ماضی وحال اور جذبات ومحسوسات کے سر چشمے سے وجود پذیر ہوا، ہیکل کی کہانی ’’زینب‘‘ اس جدید مصری ادب کی خشت اول کہے جانے کی مستحق ہے.
2 ۔ ’’دین مصر العام‘‘: یہ فرانسیسی زبان میں ڈاکٹریٹ کا رسالہ ہے جسے اس نے 1912ء میں تالیف کیا ۔
3 ۔ جان جوک روسو: (Roussedu) (1778-1712ء)
یہ شخص جنیوا (Genevd) میں پیدا ہوا، فرانس میں سماجی انقلاب کے مشہور داعیوں میں سے تھا ۔ العقد الاجتماعی (The Contract Social ) نام سے اس کی بڑی عظیم تالیف ہے ۔ 1789ء کے فرانسیسی انقلاب کی نشونما میں اس کی تالیفات کا بڑا اہم اثر رہا ۔ ہیکل نے روسو کی آراء وتعلیمات کے بارے میں کتاب کا پہلا جزء 1921ء میں اور دوسرا جزء 1923ء میں شائع کیا.
4۔ ’’فی اوقات الفراغ‘‘: (صفحات: 394) ہیکل نے اپنے ادبی وتنقیدی مضامین میں سے چند فصلوں کو یکجا کرکے ’’فی اوقات الفراغ‘‘ کے نام سے 1925ء میں شائع کیا.
یہ کتاب تین مجموعوں پر مشتمل ہے۔ پہلا مجموعہ تنقید کے بارے میں ہے اور وقیع مباحث پر مشتمل ہے، اس مجموعہ میں ہیکل نے اناتول فرانس (A.France) اور لوٹی (Loti) کی شاندار سوانح حیات رقم کی ہے ۔ قاسم امین اور ان کی دعوت آزادئ نسواں اور دین وطن سے دلی محبت وتعظیم کے بارے میں طویل گفتگو کی ہے اور اس بات کا بھی ذکر کیاہے کہ مسلمانوں کے دینی انحطاط کا مرثیہ پڑھنے والے فرانسیسی ادیب ڈیوق ڈاکو (Due) نے قیام فرانس کے دوران کس طرح جواب دیا تھا.
کتاب کے دوسرے مجموعہ میں ہیکل نے توت عنبج آمون کے مقبرے کے انکشاف کی مناسبت سے مصری مسائل کی تصویر کشی کی ہے ۔ تیسرے مجموعے میں تاریخ اور ادب کے بارے میں اپنے محسوسات درج کیے ہیں۔ اس میں اس نے ایسے قومی ادب کی تشکیل کی دعوت دی ہے جو ہمارے سماج اور ہماری زندگی کا ترجمان ہو، جس سے ہماری ذاتی زندگی کی وضاحت ہو، جس میں ایسی خصوصیات پائی جائیں جو ہمارے قدما اور پڑوسیوں سے ہمیں ممتاز کریں، جو معاصر عربی ادب یا کسی اور ادب کی نقالی نہ ہو، جس سے ہماری ادبی شناخت اور وجود قائم ہوسکے.
5۔ ’’عشرۃ أیام فی السودان”: (سوڈان میں دس دن) یہ کتاب 1927ء میں شائع ہوئی، اس میں صحافتی واقعات سے زیادہ ادبی موضوعات ہیں.
6۔ ’’تراجم مصریۃ وغربیۃ‘‘: یہ ہیکل کے مقالات کا مجموعہ ہے، جسے اس نے 1929ء میں شائع کیا، اس مجموعہ میں سب سے پہلی سوانح کلیوپٹرا(حاشیہ: ۱) (Cleopatra) کی ہے، اس کے بعد مصطفی کامل، عبد الخالق ثروت(حاشیہ: ۲) پطرس غالی جیسے مصر کے دیگر سیاسی مصلحین کے حالات زندگی بیان کیے گئے ہیں، مغربی ادباء میں بٹیوون (Beethoven) ٹین (Taine) شکسپیر اور شیلے کی سوانح بھی شامل کتاب ہیں، اس کتاب کے ذریعہ وطن اور اس کی چیدہ شخصیات نیز مغرب کے شعراء وأدبا اور نقاد سے ہیکل کی محبت کی وضاحت ہوتی ہے.
۷. ”السیاستة المصریة والانقلاب الدستوری‘‘: (مصری سیاست اور قانونی انقلاب) ۱۹۲۰ء میں جب اسماعیل صدقی نے’’السیاستہ‘‘ اخبار پر پابندی لگادی تو ہیکل نے فرصت کے ایام سے فائدہ اٹھاتے ہوئے مازنی اور محمد عبداللہ عنان کے ساتھ اس کتاب کی اشاعت کی۔ اس کتاب کے مضامین سے یہ نہیں معلوم ہوتا کہ کس نے کون سا مضمون تحریر کیا ہے لیکن ہیکل کے قانونی اسلوب اور مغربی طرز سے اس کے مخصوص حصے کی معرفت ممکن ہے.
۸۔ ’’ولدی‘‘: اسی سیاسی عرصے یعنی صدقی کے دور میں ہیکل نے اپنی یہ کتاب تحریر کی۔ یہ کتاب ہیکل کے بیٹے مدحت کی یادگار ہے جس کا ۱۹۲۵ء میں انتقال ہوگیا تھا، اس میں ہیکل نے 1926ء سے 1928ء کے درمیان اپنی شریک حیات کے ساتھ کئے گئے سفر یورپ کی منظر کشی کے ساتھ سوئٹزرلینڈ کی گرمیوں کی بھی شاندار منظر کشی کی ہے، جدید پیرس اور اپنے طالب علمی کے زمانے یعنی قدیم پیرس کے درمیان بڑا پرلطف اور دلچسپ موازنہ کیا ہے۔ استنبول اور مصطفی کمال کے دور حکومت میں در آنے والی آزاد زندگی کا بھی ذکر شامل کتاب ہے
۹۔ ’’ثورۃ الادب”: (ادب کا انقلاب) یہ کتاب ۱۹۳۳ء میں شائع ہوئی۔ اس میں ہیکل نے عرابی کی شورش کے وقت سے برپا ہونے والے ادبی ارتقا کے بارے میں گفتگو کی ہے۔ اور الطغاۃ و حریۃ القلم (سرکش حکمراں اور قلم کی آزادی) کے عنوان سے اپنی بات کی ابتداء کرکے اس اعلانیہ جنگ کی مخالفت کا واضح اشارہ کیا ہے، جسے صدقی نے صحافیوں اور سیاست دونوں کے خلاف چھیڑ رکھی ہے، اس کے بعد نثر ونظم کے مختلف مراحل کا تذکرہ کرتے ہوئے نثر کے ارتقا اور شعر کو لاحق ہونے والے جمود و تعطل پر تفصیل سے روشنی ڈالی ہے اور متعدد مقامات پر ابھرتے ہوئے مصری ادیبوں کو مغربی ادبیات سے روشناس کرانے کی ضرورت پر تاکید کی ہے، اس کے علاوہ انشا پردازی خاص طور سے فن قصہ نگاری اور ڈرامہ نگاری کی کمیوں پر سیر حاصل بحث کی ہے۔ مصری اور قومی ادب کے قیام کی ضرورت پر آواز بلند کرتے ہوئے اس نے چند ایسے نمونے پیش کئے ہیں جو فرعونی اساطیر سے مستفاد ہیں.
۱۰۔ ”حیاۃ محمد” (ﷺ): (صفحات :۵۲۷) ہیکل کی یہ کتاب ۳۱ ؍فصلوں اور دو لطیف مباحث کے خاتمہ پر مشتمل ہے۔ پہلے مبحث کا عنوان ’’الحضارۃ الاسلامیۃ کما صورھا القرآن‘‘ (اسلامی تہذیب قرآن کریم کے آیئنے میں) اور دوسرے کا ’’المستشرقون و الحضارۃ الاسلامیۃ‘‘ (اسلامی تہذیب وتمدن اور مستشرقین) ہے۔ کتاب کی تالیف کی ابتداء ۱۹۳۲ء میں ہوئی اور تکمیل و طباعت ۱۹۳۵ء میں ۔ چوتھی بار یہ کتاب ۱۹۴۷ء میں طبع ہوئی۔ اس وقت ہمارے سامنے ’’المکتبۃ المصریۃ، صیدا – بیروت‘‘ کی طباعت ہے جس میں سن طباعت ۱۴۳۸ھ = ۲۰۱۷ء درج ہے۔
اس کتاب میں مؤلف نے مستشرقین کے ان شکوک و شبہات کا ازالہ کیا ہے جنہیں وہ نبی ﷺ کی حیات طیبہ اور عرب، یہود ونصاریٰ، اوس وخزرج اور منافقین کے درمیان اسلام کی نشرواشاعت کے لئے آپ کی انتھک کوششوں اور ان کے آپسی جھگڑوں اور اختلاف کے متعلق اچھالتے رہتے ہیں،
کتاب کا تعارف اور اس پر بے لاگ تبصرہ علامہ محمد مصطفی المراغی (سابق شیخ الأزہر) کے قلم سے ہے۔ موصوف کے ایک اقتباس سے ہیکل کی علمی شخصیت اور اس کے اس عظیم علمی کام پر روشنی پڑتی ہے، لکھتے ہیں :
’’ ڈاکٹر ہیکل قارئین عربی زبان کے لئے معروف ہیں۔ عربی زبان میں اپنی علمی کاموں کی وجہ سے ان کی شخصیت محتاج تعارف نہیں۔ انہوں نے قانون کو پڑھا اور منطق وفلسفہ پر دسترس حاصل کی۔ ان کے مخصوص حالات اور طبیعت عملی نے ان کے اندر قدیم وجدید، ہر دو ثقافتوں سے جڑنے اور مربوط ہونے کا داعیہ پیدا کیا اور انہوں نے ان دونوں سے حظ وافر حاصل کیا۔ عقائد ونظریات اور سیاسی وسماجی اصولوں کی مدافعت میں انہوں نے مناظرے کئے، سنجیدہ انداز میں گفتگو کی اور مخالفین کے سامنے سوالات و اشکالات رکھ کر ان سے وضاحت طلب کی۔ نتیجۃ ان کے عقل میں پختگی آئی، ان کا علم کامل ہوا، وسعت اطلاع سے وہ بہرہ ور ہوئے اور ان کے افق علمی میں امتداد و پھیلاؤ آیا ۔ اب وہ اپنی بات قوت بیانی اور واضح دلائل کے ساتھ اپنے اس خاص اسلوب میں کہہ سکتے تھے جس کی نسبت ان کی طرف مخفی نہیں۔ اسی ثقافت اور علمی قوت کے ساتھ انہوں نے اس کتاب کے تانے بانے تیار کیے ……. کتاب کے کچھ قیمتی مباحث سیرت سے متعلق نہیں ہیں لیکن اغراض و مقاصد کے تفصیلی بیان کے لئے ان سے استغناء برتنا مناسب بھی نہ تھا‘‘ (حياة محمد لمحمد حسين هيكل ص:19،14)۔
مؤلف نے یہ کتاب ان حضرات کے نام معنون کی ہے جو حق کو اس کے حق ہونے کی وجہ سے چاہتے ہیں۔
۱۱۔ “فی منزل الوحی”: ہیکل نے ۱۹۳۷ء زیارت حرمین کی سعادت حاصل کرنے کے بعد یہ کتاب تالیف کی۔ کتاب چھ ابواب اور خاتمہ پر مشتمل ہے۔ ابواب یہ ہیں:
(۱) فرض الحج
(۲) البلد الحرام
(۳) الطائف و آثارھا
(۴) بین الحرمین
(۵) مدینۃ الرسول
(۶) أویۃ الرضا اور خاتمہ میں مادی اور روحانی دونوں زندگیوں کے درمیان موازنہ کیا گیا ہے، یہ کتاب کئی بار طبع ہوئی، چوتھی طباعت مکتبۃ النھضۃ المصریۃ سے ۱۹۶۷ء میں ہوئی۔ صفحات کی تعداد (۶۷۴) ہے۔
۱۲۔ “الصدیق ابوبکر”: یہ کتاب ۱۹۴۲ء میں شائع ہوئی۔
۱۳۔ “الفاروق عمر”: دو جزء کی اس کتاب کا پہلا جزء ۱۹۴۴ء میں اور دوسرا جزء ۱۹۴۵ء میں شائع ہوا.
ہیکل نے ان افاضل امت پر جدید انداز میں روشنی ڈالی ہے.
۱۴۔ ’’مذکرات فی السیاسۃ المصریۃ‘‘: (مصری سیاست کی ڈائری) دو جلدوں پر مشتمل اس کتاب میں مؤلف نے موجودہ (بیسویں) صدی کے بیشمار حقائق اور سیاسی معاملات سے پردہ اٹھتا ہے، یہ کتاب مطبوع ہے۔
۱۵۔ ’’ھکذا خلقت‘‘: (میں اسی طرح وجود میں آیا) یہ کہانی کی کتاب ہے جس کی سن تالیف ۱۹۵۵ء ہے۔ مؤلف نے اس کتاب میں ایک ایسی معاصر مصری عورت کی طویل کہانی بیان کی ہے جسے غیرت کی بیماری ہوگئی تھی۔ وہ اسی بیماری کے ساتھ تحریک آزادیٔ نسواں کے جدید دائرے میں داخل ہوئی اور دو بار اسے اپنی خانگی زندگی پر مسلط کرکے بچے کے گھروندے کی مانند چور کردیا۔ ہیکل نے اس عورت کی کہانی کچھ اس طرح بیان کی ہے :
’’وہ اپنی زندگی کی کہانی ایسے آسان اور سیدھے سادے لہجے میں بیان کرتی ہے کہ آپ کو محسوس ہوگا کہ یہ عام عورت کی کہانی ہے لیکن تھوڑی ہی دیر بعد حیرت و استعجاب سے آپ پوچھ بیٹھیں گے کہ آخر یہ کس عورت کی کہانی ہے؟ یہ کون ہے؟ یہ تو بالکل نئے طرز کی عورت ہے جو زندگی سے پیار کرتی ہے مگر خود کو اس کے حوالے نہیں کرتی۔ اپنی منشاء کے مطانق اپنی زندگی کی تخلیق کرنا چاہتی ہے۔ مگر جب کوئی امر درپیش ہوتا ہے تو وہ اس کے تابع نہیں ہوتی بلکہ عزت نفس اور خودداری کے ساتھ اس کا مقابلہ کرنے کی کوشش کرتی ہے‘‘.
۱۶۔ ’’فصول عن فلسفۃ غاندی‘‘: (فلسفۂ گاندھی – ایک تعارف) یہ کتاب غیر مطبوع ہے۔
۱۷۔ ’’قصص سعودیۃ قصیرۃ‘‘: (سعودی چھوٹی چھوٹی کہانیاں): یہ کتاب ۱۹۶۷ء میں طبع ہوئی.
ہیکل کے سب سے چھوٹے بیٹے استاذ احمد ہیکل نے تلاش وجستجو کے بعد مزید اپنے والد کے کچھ علمی آثار کو اکٹھا کیا اور انہیں شائع کیا وہ یہ ہیں :
۱۸۔ “عثمان بن عفان”: یہ کتاب ۱۹۶۸ء میں طبع ہوئی.
۱۹۔ “الشرق الجدید”
۲۰۔ ’’الامبراطوریۃ الاسلامیۃ والاماکن المقدسۃ‘‘: (اسلام کا نظام حکومت اور مقامات مقدسہ): یہ ۱۹۶۴ء میں طبع ہوئی۔
۲۱۔ ’’الایمان و العلم والفلسفۃ‘‘
۲۲۔ ’’یومیات باریس‘‘: (پیرس کے روز نامچے)
۲۳۔ “مذکرات سیاسیة”: (سیاسی ڈائری)
۲۴۔ ’’أساطیر الاولین‘‘: یہ کتاب کہانیوں کا مجموعہ ہے جو غیر مطبوع ہے.
حاشیہ:
۱ ) کلیو پڑا: ملکہ مصر جس کا ذکر مصر کی تیس سال قبل مسیح (۳۰ ق م) کی تاریخ سے وابستہ ہے۔ نہایت حسین و جمیل تھی۔ قیصر وانتونیوس کو اپنے دام حسن میں پھنسا لیا تھا۔ خود کو سانپ سے کٹوا کر موت کو گلے لگایا، شعراء نے اسے اپنی شاعری میں جگہ دی ہے۔ احمد شوقی بھی انہیں میں سے ہیں جنہوں نے اپنے اشعار میں اس پر اپنے دکھ درد کا اظہار کیا ہے-
۲) عبد الخالق ثروت: مصر کے معروف سیاست داں تھے جو وزیر قانون اور وزیر داخلہ رہنے کے بعد ۱۹۲۲ء سے ۱۹۲۴ء تک وزیر اعظم رہے۔ انہیں کے زمانے میں مصر بریطانیہ کے تسلط سے آزاد ہوا اور اسے مستقل مملکت کا درجہ حاصل ہوا-
مراجع:
(۱) ’’تراث الإنسانية‘‘ الجزء الخامس مقالۃ حسین فوزی النجار (ص ۳۴۳/ ۳۸۷) بحوالہ أعلام النثر والشعر فی العصر العربی الحدیث (۳؍۵۹- ۶۷) لمحمد یوسف کوکن.
نیز ملاحظہ ہو: تاریخ العربیۃ و آدابھا لمحمد الفاروقی و اسماعیل المجددی (ص ۱۶۶،۱۶۷) و جدید عربی ادب از ڈاکٹر شوقی ضيف (اردو ترجمہ از ڈاکٹر شمس کمال انجم (ص ۳۱۷- ۳۲۵).
آپ کے تبصرے