مصطفی لطفی منفلوطی ۱٨٧٦- ١٩٢٤ء

صہیب حسن مبارکپوری عربی زبان و ادب

سید مصطفی لطفی بن محمد لطفی بن حسن لطفی صوبہ اسیوط کے شہر منفلوط میں ۱۲۹۳ھ (1876) میں ایک شریف گھرانے میں پیدا ہوئے جو دینی عظمت اور فقہی میراث کا مالک تھا۔ ان کے گھرانے میں تقریبا دوسوسال تک شرعی قضاء کا عہدہ اور صوفیاء کی گدی وراثت میں چلی آرہی تھی۔ ان کے والد عربی تھے جن کا نسب سیدنا حسین رضی اللہ عنہ تک پہنچتا ہے اور ماں ترکیہ تھیں ۔ گاؤں کے دیگر بچوں کی طرح وہ مکتب میں داخل ہوئے اور نو سال کی عمر میں قرآن مجید حفظ کیا۔ پھر گیارہ سال کی عمر میں جامعہ ازہر پہنچے۔ وہاں انھوں نے دس سال تک مختلف علوم وفنون کی تعلیم حاصل کی۔ وہاں پہنچ کر انھوں نے شیخ محمد عبدہ کو قرآن مجید کی تفسیر اور عبدالقاہر جرجانی کی ’’دلائل الاعجاز‘‘ اور ’’اسرارالبلاغہ‘‘ کا درس دیتے ہوئے دیکھا تو ان کے درس میں پابندی سے شریک ہونے لگے۔
منفلوطی دینی تعلیم میں تعمق پیدا کرنے کے بجائے ادب کی تعلیم حاصل کرنا چاہتے تھے ۔ اسی لیے وہ شیخ محمد عبدہ کے دروس میں شرکت کے ساتھ ساتھ قدماء کی کتابوں اور ان کے دواوین کا مطالعہ کرنے لگے۔ چنانچہ انھوں نے شامی شعراء: ابو تمام، بحتری، متنبی اور شریف رضی کے دواوین کو پڑھا۔ ساتھ ہی عبدالحمید ، ابن المقفع، جاحظ، بدیع الزماں ھمذانی، حریری، ابن خلدون اور ابن الأثیر جیسے ادباء کے علاوہ آمدی، باقلانی اور قاضی عیاض جیسے ان ناقدوں کو بھی پڑھا جنھوں نے کلام کے حسن پر گفتگو کی ہے۔ قرآن مجید کے اعجاز اور اس کے اسلوب کے حسن وجمال سے بحث کی ہے۔ الأغانی، العقد الفرید اور زھر الآداب جیسی کتابیں اکثر ان کے زیر مطالعہ رہیں۔ مختارات المنفلوطی میں انھوں نے مذکورہ بالا ادباء میں سے بیشتر کے علاوہ ابن الرومی اور ابوالعلاء المعری جیسے عظیم شعراء کے منتخب کلام کا بھی ذکر کیا ہے۔
منفلوطی بکثرت مطالعہ کرتے ، اشعار یاد کرتے، نادر کلام ضبط کرتے ، اشعار نظم کرتے اور مضامین لکھتے ۔ جب ازہریوں میں ان کی ایک پہچان بن گئی تو شیخ محمد عبدہ نے انھیں اپنا مقرب بنا لیا۔ انھیں ادب وزندگی کے بلند مقصد اور اس تک پہنچنے کے لیے بہترین راستے سے باخبر کیا۔ شیخ محمد عبدہ کے قرب سے منفلوطی نے سعد پاشا زغلول سے راہ ورسم پیدا کی اور ان دونوں عظیم شخصیتوں کے قرب نے انھیں رسالہ ’’المؤید‘‘ کے مالک کی نظر میں بلند مرتبہ بنادیا۔ یہی سب سے تین بڑی قوتیں ہیں جنھوں نے منفلوطی کی فطری صلاحیت اور ان کے والد کی تربیت کے بعد انھیں کامیاب ادیب بنانے میں نمایاں کردا ر ادا کیا۔ ازہر کی طالب علمی کے زمانے میں ان پر الزام لگایا گیا کہ انھوں نے ایک ہفتہ وار رسالہ میں خدیو عباس حلمی ثانی کی ہجو میں قصیدہ کہہ کر چھپوایا ہے۔ چنانچہ ان کو قید کی سزا دی گئی اور انھوں نے جیل میں اپنی سزا کی مدت پوری کی۔ پھر جب شیخ محمد عبدہ کا انتقال ہوگیا تو ان سے امید اور ان پر اعتماد کی وجہ سے منفلوطی کو بہت صدمہ ہوا اور وہ نا امید ہوکر اپنے وطن واپس آگئے اور وہیں سے دو سال تک ’’المؤید‘‘ میں لکھتے رہے پھر قاہرہ آگئے۔ چونکہ سعد زغلول انھیں بہت پسند کرتے تھے اس لیے وزارت تعلیم کا عہدہ سنبھالنے کے بعد انھوں نے منفلوطی کو اپنی وزارت میں عربی کا انشا پرداز مقرر کر لیا۔ اور جب وہ وزارت قانون میں منتقل ہوئے تو انھیں بھی اپنے ساتھ لے گئے۔ اور اسی قسم کاعہدہ وہاں دے دیا۔ مگر منفلوطی زیادہ دنوں تک وہاں قیام نہ کرسکے کیونکہ سعد زغلول کے وہاں سے چلے جانے کے بعد منفلوطی کو وہاں سے نکال دیا گیا۔ فروری ۱۹۲۳ء میں پارلیمنٹ کے قیام تک وہ اخبارات میں لکھتے رہے مگر پارلیمنٹ کے قیام کے بعد سعد زغلول نے انھیں مجلس الشیوخ میں منشیوں کا صدر بنادیا۔ مگر تقدیر نے انھیں مزید مہلت نہ دی اور ۱۹۲۴ء میں وہ داعیٔ اجل کو لبیک کہہ گئے۔ وفات کے وقت ان کی عمر پچاس کے لگ بھگ تھی۔
منفلوطی کی زندگی کے یہی روز وشب ہیں جن سے معلوم ہوتا ہے کہ ان کی زندگی آسان نہیں تھی ۔ انھیں حصول رزق کے لیے بڑی تکلیفیں برداشت کرنی پڑتی تھیں۔ جیل میں ڈالے جانے کے بعد انھیں وہاں کی صعوبتوں کا اندازہ ہوا۔ مصائب و مشکلات اور ان کی ناکام زندگی نے ان کے اندر غرباء ومساکین کے دردوالم کا شدید احساس پیدا کردیا تھا۔ یہ وہ دور تھا جب مصر انگریزی استعماریت کی چکی میں پس رہاتھا اور انگریز مصریوں کو تنگ کرنے کی کوشش کرتے ۔ جس کی وجہ سے وہ غیر معمولی یاس اور دکھ درد کا احساس کرتے۔ جب منفلوطی کے ذاتی دردوغم کے ساتھ ان کی قوم کے درد کا امتزاج ہوا تو وہ ان ادباء کے مثل ہوگئے جو اپنی تحریروں میں اپنی قوم کے لیے روتے اور کراہتے ہیں۔
اسلوب نگارش اور ادب :
مؤرخین ادب نے منفلوطی کے ادب پر ناقدانہ نگاہ ڈالنے کے بعد یہ فیصلہ کیا ہے کہ اس میں لفظی کمزوری اور معنوی تنگی پائی جاتی ہے۔ نیزان کے اندر کہانی نویسی کی صلاحیت کم اور کہانیوں میں سسپنس کا فقدان ہے البتہ ان کا صاف شفاف اسلوب ان کی وہ امتیازی خوبی ہے جو قاری کو متاثر کرتی ہے۔
اس سلسلے میں احمد حسن زیات رقمطراز ہیں :
’’منفلوطی فطرتا ادیب پیدا ہوئے تھے۔ ان کے ادب میں آمد آورد سے بہت زیادہ ہے۔ وہ پہلے افسانہ نویس ہیں اور انھوں نے اس فن کو اس حد تک عمدہ اور کامل بنایا جس کی توقع اس جیسے ماحول میں پیدا ہونے والے اور اس دور کے لکھنے والوں سے نہیں کی جاسکتی تھی۔ منفلوطی کے ادب کے پھیلنے کا راز یہ ہے کہ وہ اس زمانے میں رونما ہوا جب خالص ادب پر جمود واضمحلال طاری تھا اور اس عالم میں اچانک لوگوں کو ان کے یہ دلچسپ افسانے نظر آئے جو پاکیزگی اسلوب ، شیرینی بیان اور حسن الفاظ کے ساتھ نہایت عمدگی سے دردو غم کی مصوری اور نہایت دلکش اسلوب سے معاشرہ کے عیوب کی نشاندہی کررہے تھے۔ ان کے ادب میں دو ایسی خامیاں ہیں جن کی وجہ سے اسے دوام نصیب نہیں ہوسکے گا۔ ایک لفظی کمزوری دوم معنوی تنگی یعنی کوتاہی۔ لفظی کمزوری کی وجہ یہ ہے کہ منفلوطی کو اپنی زبان کا وسیع علم اور اس کے ادب پر گہری نظر حاصل نہ تھی۔ یہی وجہ ہے کہ آپ ان کے بیان اور تعبیر افکار میں غلطی ، زائد الفاظ کی بھر مار اور الفاظ کا بے محل استعمال پائیں گے۔ معنوی تنگی کی وجہ یہ ہے کہ انھوں نے نہ علوم شرقیہ کو بہ کمال حاصل کیا تھا اور نہ وہ مغربی علوم سے براہ راست واقفیت رکھتے تھے۔ یہی سبب ہے کہ آپ ان کی فکر میں سطحیت ، سادگی، محدودیت اور ادھورا پن پائیں گے۔ مختصر یہ کہ نثر میں منفلوطی کو وہی جگہ حاصل ہے جو بارودی کو شاعری میں حاصل تھی۔ دونوں نے اپنی اپنی جگہ احیاء وتجدید ادب کا فریضہ انجام دیا۔ اپنے لیے ایک معین واضح اسلوب اختیار کیا اور ادبی اسلوب کو ایک منجمد حالت سے دوسری بہتر حالت میں منتقل کردیا ‘‘۔
ڈاکٹر شوقی ضیف لکھتے ہیں : ’’ منفلوطی کا علمی افق محدود تھا۔ غیر ملکی زبانوں کا علم نہ ہونے کی وجہ سے وہ ترجمہ شدہ کتابوں کا مطالعہ کرتے اور اپنی فکری افق کو وسعت دینے کی کوشش کرتے۔ ان کے دل میں بڑی امنگ تھی لہذا انھوں نے بعض مغربی کہانیوں اور ڈراموں کا ترجمہ کرنا چاہا مگر فرانسیسی یا دیگر غیر ملکی زبانوں پر انھیں عبور نہ تھا لہذا انھوں نے اپنے چند دوستوں سے غیر ملکی ادبی شہ پاروں کے ترجمے کا مطالبہ کیا جنھیں بعد میں انھوں نے اپنے فصیح وبلیغ اسلوب میں عربی کا جامہ پہنایا۔
بظاہر ایسا محسوس ہوتا ہے کہ انھوں نے اپنے مقصد سے اپنے دوستوں کو آگاہ کردیا تھا اسی لیے انھوں نے رومانی رجحان کی حامل بعض تحریروں کا ترجمہ کیا کیونکہ یہ رجحان مسکینوں کی مدد اور مالداروں کی تنقید کے ساتھ جذباتیت سے معمور اسلوب کا اہتمام کرتا ہے۔ منفلوطی کا طریقہ یہ تھا کہ وہ ترجمہ شدہ نمونوں کو پوری آزادی کے ساتھ مصری رنگ وآہنگ میں اس طرح ڈھال دیتے جیسے نئے سرے سے ان کی تالیف کی گئی ہو۔
منفلوطی نے فرانسیسی کہانیوں اور افسانوں کو مصری اسلوب میں ڈھال کر انھیں خراب کردیا کیونکہ انھوں نے انھیں ان کی اصل سے ہٹا دیا۔ انھیں مضامین کا مجموعہ سمجھ لیا اور ان میں ایسی تبدیلیاں کیں جنھیں وہ آخر تک نہ نبھاسکے کیونکہ ان میں کہانی نویسی کی صلاحیت کی کمی تھی۔ اس امر کی وضاحت خود ان کی تخلیق کردہ کہانیوں سے بخوبی ہوتی ہے جن میں خیال، واقعات اور کرداروں کے تجربات کی کمی کے علاوہ سسپنس کا بھی فقدان ہے۔ لیکن ان کہانیوں میں جو چیز قاری کو متاثر کرتی ہے وہ ہے منفلوطی کا صاف وشفاف اسلوب ۔ اسی اسلوب سے انھیں امتیاز حاصل ہوتا ہے اور اسی اسلوب نے ان کے مضامین کو آج تک قبول عام کی سند عطا کی‘‘۔
منفلوطی سے لوگ یہ پوچھتے کہ وہ مضمون نویسی اور مقالہ نگاری کے لیے کیا طریقہ اپناتے ہیں ؟ اس سوال کا جواب انھوں نے ’’النظرات‘‘ کے مقدمہ میں بڑی خوبصورتی سے دیا ہے جس میں تصنیف وتالیف کا ذوق رکھنے والوں کے لیے بڑی مفید اور کار آمد باتیں ہیں ۔ لکھتے ہیں :

 يسألني كثير من الناس كشأنهم في سؤال الكتاب والشعراء، كيف أكتب رسائلي؟ كأنما يريدون أن يعرفوا الطريق التي أسلكها إليها فيسلكوا معي، وخير لهم ألَّا يفعلوا، فإني لا أحب لهم ولا لأحد من الشادين في الأدب أن يكونوا مقيدين في الكتابة بطريقتي أو طريقة أحد من الكتاب غيري، وليعلموا إن كانوا يعتقدون لي شيئا من الفضل في هذا الأمر أني ما استطعت أن أكتب لهم تلك الرسائل التي يعلمونها بهذا الأسلوب الذي يزعمون أنهم يعرفون لي الفضل فيها إلا لأني استطعت أن أتلفت من قيود التمثل والاحتذاء، وما نفعني في ذلك شيء ما نفعني ضعف ذاكرتي، والتواؤها علي وعجزها عن أن تمسك إلا قليلًا من المقروءات التي كانت تمر بي، فلقد كنت أقرأ من منثور القول ومنظومه ما شاء الله أن أقرأ، ثم لا ألبث أن أنساه فلا يبقى منه في ذاكرتي إلا جمال آثاره وروعة حسنه، ورنة الطرب به، وما أذكر أني نظرت في شيء من ذلك لأحشو به حافظتي، أو أستعين به على تهذيب بياني، أو تقويم لساني، أو تكثير مادة علمي باللغة والأدب، بل كل ما كان من أمري أنني كنت امرأ أحب الجمال وأفتتن به، كلما رأيته في صورة الإنسان.. [النظرات 1/3)

یعنی ’’ دیگر ادباء سے سوال کرنے کی طرح لوگ مجھ سے بھی یہ سوال کرتے ہیں کہ میں اپنے مقالات ومضامین کس طرح لکھتا ہوں ؟ گویا وہ میرے طریقہ تحریر کو جان کر میری راہ اختیار کرنا چاہتے ہیں۔ ان کے لیے بہتر ہوگا کہ وہ ایسا نہ کریں۔ کیونکہ میں ان کے لیے اور ادبی رجحان رکھنے والے کسی بھی شخص کے لیے یہ پسند نہیں کرتا کہ وہ میرے یا کسی اور ادیب کے طرز تحریر کا اپنے آپ کو پابند کریں- اور انھیں یہ معلوم ہونا چاہیے- اگر ان کے دل میں میرے طریقہ تحریر سے متعلق کوئی بات بیٹھی ہو _  کہ جس اسلوب میں میں اپنے رسائل ومقالات لکھتا ہوں جس میں انھیں میرا امتیاز نظر آتا ہے میں اس میں نقالی اور تقلید کی قیود سے آزاد ہوں – میرے ذہن و دماغ میں جو باتیں گردش کرتی ہیں اور چند مفردات جو خانہ حفظ میں محفوظ رہتے ہیں وہی میرے لیے سب سے زیادہ مفید ہوتے ہیں۔ اللہ تعالی جتنا چاہتا ہے میں منثور و منظوم کلام پڑھتا ہوں پھر جلد ہی وہ سب بھول جاتا ہوں صرف اس کلام کی خوبصورتی ، اس کا عمدہ حسن اور اس کی نغمگی و موسیقیت میرے ذہن میں رہ جاتی ہے۔ مجھے یاد نہیں کہ میں نے اس لیے مطالعہ کیا ہو کہ میں اس سے اپنے حافظے کو بھرلوں یا اپنی بات کو عمدہ بنانے یا اپنی زبان کی درستگی یا زبان و ادب میں اپنی معلومات کے اضافے پر اس سے مدد حاصل کروں۔ بلکہ میرا کل معاملہ یہ ہے کہ میں حسن وجمال سے محبت کرتا ہوں اور جب میں انسان کی صورت میں اسے دیکھتا ہوں تو اس پر فریفتہ ہوجاتا ہوں ‘‘۔
تصانیف و تراجم :
(۱) النظرات (مجموعہ مقالات ومضامین ۳؍اجزاء)
(۲) العبرات (طبع زاد اور ماخوذ افسانے) (۱)
(۳) مختارات المنفلوطی (یہ قدیم شعراء و ادباء کے اشعار ومضامین کا انتخاب ہے جس کا صرف ایک جزء طبع ہوا ہے)
(۴) فی سبیل التاج (دراصل انیسویں صدی کے ایک فرانسیسی ادیب فرانسوا کوبیہ کے ذریعہ شعری قالب میں ڈھالے گئے رنج والم کی تصویر پیش کرنے والا ایک ڈرامہ ہے)
(۵) الفضیلۃ (انیسویں صدی کے فرانسیسی ادیب برنارڈین ڈی سان بییر کی لکھی ہوئی کہانی ’’پول اور ورجینی ‘‘ ہے)
(٦) او سیرا نودی برجراک (شاعری) (فرانسیسی ادیب اڈمون روستان کی تالیف ہے)
(۷) تحت ظلال الزیزفون (زیزفون درختوں کے سائے تلے ) یا ’’ماجد ولین‘‘ (فرانسیسی ادیب الفونس کار کی تالیف ہے)
(۸) الانتقام (ایک فرانسیسی کہانی جو ’’النظرات ‘‘ کے تیسرے حصے میں شامل ہے)۔
مؤخر الذکر پانچوں کتابیں وہ ہیں جنھیں ان کے بعض دوستوں نے اولا ان کے لیے فرانسیسی سے ترجمہ کیا پھر انھوں نے پورے تصرف کے ساتھ اپنے مخصوص اسلوب میں انھیں ایسا ڈھالا کہ وہ ان کی طبع زاد تالیف معلوم ہوتی ہیں۔ منفلوطی کا یہ وہ کارنامہ ہے جس نے عربی ادب کے سرمایے میں نہ صرف یہ کہ گرانقدر اضافہ کیا بلکہ جدید افسانہ نگاری کو بڑی قوت بخشی اور قابل اقتدا نمونہ فراہم کیا۔
’’النظرات‘‘ پر ایک نظر
تین حصوں پر مشتمل اس کتاب میں منفلوطی کے وہ تمام مضامین جمع کردیے گئے ہیں جو بیسویں صدی کی ابتدا میں شیخ علی یوسف کی ادارت میں شائع ہونے والے اخبار ’’المؤید‘‘ میں شائع ہوتے رہے۔ ان میں کچھ تو دینی وسیاسی اور تنقیدی مضامین ہیں اور کچھ اجتماعیات اور وصف سے متعلق ہیں اور کچھ کہانیاں ہیں۔ شوقی ضیف کے بقول : ان مضامین کی دو بنیادی خصوصیات ہیں ۔ پہلی خصوصیت شکلی اور دوسری موضوعاتی ہے۔ شکلی اعتبار سے یہ مضامین صاف شفاف اسلوب میں لکھے گئے ہیں۔ ان میں عامیانہ بولی یا مقفع مسجع عبارتیں شاذونادر ہی کہیں دکھائی دیتی ہیں۔
موضوعاتی اعتبار سے منفلوطی سماجی زندگی کو اپنی فکر کا سر چشمہ بناتے ہیں اور اپنے استاد محمد عبدہ کی مانند ایک ایسے سماجی مصلح کی شکل میں ظاہر ہوتے ہیں جو اپنے گروپیش کے اصلاح پسندوں کے افکار ونظریات کو ایسی فصیح و بلیغ زبان اور ایسے شیریں اسلوب میں بیان کرتے ہیں جو سامع کے دل ودماغ کو اپنا اسیر بنا لیتا ہے ۔
’’النظرات‘‘ میں انھوں نے سماجی برائیوں اور مخرب اخلاق حرکتوں مثلا قماربازی، رقص وسرود ، شراب نوشی ، زنا کاری کے بارے میں گفتگو کی ہے ۔ وہ سوال کرتے ہیں کہ شرف وفضیلت کہاں ہے؟ انھیں اس بات کا بھی احساس ہے کہ ان کے معاشرے میں کچھ برائیاں مغربی معاشرے سے وارد ہوئی ہیں۔ اس لیے وہ مغربی معاشرے، مغربی تہذیب وتمدن پر اپنے غیظ وغضب کا نزلہ اتارتے ہیں۔ جب وہ اپنے سماج پر نظر ڈالتے ہیں تو بے شمار لوگ فقر وفاقے اور شقاوت ومحرومی کے شکار نظر آتے ہیں لہذا وہ آہ وزاری کرتے ہیں، عاجزوں اور کمزوروں کے ساتھ ہمدردری اور خیر خواہی کی دعوت دیتے ہیں، مسکینوں، فقیروں اور محتاجوں کی حالت زار اور ان کی ذلت و رسوائی کا رونا روتے ہیں، اچھے کاموں کی پرجوش دعوت دیتے ہوئے رحم کی فریاد کرتے ہیں ۔
قابل ذکر امر یہ ہے کہ منفلوطی نہ صرف موضوع کا اہتمام کرتے ہیں بلکہ منتخب الفاظ کے ذریعے اسے ادبی اسلوب میں ڈھال کر قاری کے وجدان پر چھا جانے کی کوشش کرتے ہیں۔ اس میں وہ ان قدماء سے متاثر نظر آتے ہیں جنھیں کلام میں موسیقیت اور نغمگی کے اہتمام نے سجع بندی کی حد تک پہنچا دیا، لیکن منفلوطی سجع بندی سے کام نہیں لیتے بلکہ وہ الفاظ کی غنائیت پر بھر پور توجہ دیتے ہیں جیسے وہ لوگوں کو یہ باور کرانا چاہتے ہوں کہ پہلے زمانے کی طرح آج بھی ان کی تحریریں کانوں سے سنی بھی جاتی ہیں اور پڑھی بھی ۔
منفلوطی اپنی تحریروں میں خطیبوں کی طرح معانی ومطالب کا اعادہ کرتے رہتے ہیں۔ ’’اے انسانو‘‘ جیسے خطاب کے صیغے استعمال کرتے ہیں ۔ ’’رحم کرو، رحم کرو ‘‘ جیسے کلمات کا اعادہ و تکرار کرتے ہیں۔ بعض معانی کو کئی کئی بار بیان کرتے ہیں۔ اس کا سبب شاید ان کی جذباتیت ہو یا یہ بھی ممکن ہے کہ وہ مصطفی کمال جیسے معاصر خطیبوں کے خطیبانہ اسلوب بیان سے متاثر ہوکر ایسا اسلوب استعمال کرتے ہوں ۔
اسلام اور مسلمانوں کے بارے میں وہ طویل گفتگو کرتے ہیں۔ ان کی پسماندگی اور خواہشات نفسانی میں غرق رہنے پر آنسو بہاتے ہیں۔ انھیں دین کے احکام کو پس پشت ڈالنے کا اتہام لگاتے ہیں۔ ان کی تحریروں کے مطالعے اور اس کے اسلوب کو دیکھ کر ایسا لگتا ہے جیسے وہ پند ونصیحت کرنے والے واعظ ہوں۔ وہ اپنی موعظت میں کبھی کبھی اس قدر مبالغے سے کام لیتے ہیں کہ راہ حقیقت سے بھٹک جاتے ہیں۔ اس کی ترجمانی ان کے اس نظریے سے ہوتی ہے جس میں وہ مغربی تہذیب کو نوجوانوں کی برائیوں اور غلط کاریوں کا مرجع اور سبب قرار دیتے ہیں اور اس تہذیب میں انسانیت کے لیے پائی جانے والی اچھائیوں کو وہ نظر انداز کر دیتے ہیں۔ جب کہ اس میں خیر وشر دونوں پہلو پائے جاتے ہیں۔ لہذا ہمارے لیے مناسب یہ ہے کہ ہم اس تہذیب میں پائے جانے والے خیر کے پہلو کو اخذ کریں اور شر سے انکار و اجتناب کا راستہ اپنائیں۔
یہ بات متحقق ہے کہ منفلوطی کی محدود ثقافت کی وجہ سے ان کی فکر میں تنوع نہیں تھا۔ کیونکہ جدید ادبیات سے واقفیت نہ ہونے کی وجہ سے ان کے ذہنی افق میں وسعت پیدا نہیں ہوئی۔
’’النظرات‘‘ میں ادبی تنقید کے بہت سے گوشے پائے جاتے ہیں مگر منفلوطی کے عملی افق کے وسیع نہ ہونے کی بنا پر ان میں گہرائی و گیرائی اور تجزیہ نگاری کا فقدان ہے۔ اس میں چند ادیبوں کے پرلطف مرثیے بھی شامل ہیں جن میں سب سے اچھا مرثیہ ان کے بیٹے کے بارے میں ہے۔ اس مرثیے میں وہ اپنے بیٹے کو ایسے وقت دوا پلانے کا نقشہ کھینچتے ہیں جب کہ موت اس کی زندگی کو بکھیرنے پر مصر ہوتی ہے اور وہ یوں گویا ہوتے ہیں:

 لقد كان خيرًا لي ولك يا بني أن أكل إلى الله أمرك في شفائك ومرضك، وحياتك وموتك، وألا يكون آخر عهدك بي يوم وداعك لهذه الدنيا تلك الآلام التي كنت أجشّمك إياها، فلقد أصبحتُ أعتقد أنني كنت عونا للقضاء عليك، وأن كأس المنية التي كان يحملها لك القدر في يده لم تكن أمر مذاقا في فمك من قارورة الدواء التي كنت أحملها لك في يدي. (النظرات:1/62)

’’اے میرے بیٹے تمھارے لیے اور میرے لیے یہی بہتر ہے کہ میں تمھاری موت وحیات اور مرض وشفا کے معاملے کو اللہ کے سپرد کردوں۔ میری تمنا ہے کہ اس دنیا کو تمھارے الوداع کہنے کا دن وہ گھڑی نہ ہو جب میں تمھیں درد والم عطا کررہا ہوں۔ میرا خیال ہے کہ میں تمھاری موت کا ذمہ دار ہوں۔ موت کا وہ جام جو تمھاری تقدیر اپنے ہاتھوں میں لیے کھڑی ہے۔ دوا کے اس گھونٹ سے زیادہ کڑوا نہیں جسے میں اپنے ہاتھوں میں لیے کھڑا ہوں ‘‘
(النظرات: ج ۱؍۷۶)۔(ط:دارالصحوۃ ۱۴۳۶= ۲۰۱۵م)
منفلوطی کا پورا مضمون اسی مؤثر اسلوب میں ہے جس پر انھیں مکمل عبور حاصل تھا۔ آپ کو ان کی تحریروں میں ہمیشہ ہی وہ فصیح وبلیغ الفاظ نظر آئیں گے جو دل پر اثر انداز ہونے والی شیریں موسیقیت اور نغمگی سے کانوں میں رس گھولتے ہیں۔ انسانی ذہن وفکر میں وہی لذت پیدا کرتے ہیں جس کا ہم ادبی تخلیقات سے مطالبہ کرتے ہیں‘‘۔

’’العبرات‘‘ پر ایک نظر :
اس مجموعے کی نو کہانیوں میں سے تین کہانیاں (الیتیم ، الحجاب اور الھاویۃ) منفلوطی کی ہیں۔ ایک کہانی ’’العقاب‘‘ کے عنوان سے ہے جو درحقیقت جبران خلیل جبران کے لکھے ہوئے ایک امریکی قصہ ’’صراخ القبور‘‘ سے ماخوذ ہے۔ پانچ کہانیاں ( الشھداء، الذکری، الجزاء، الضحیۃ، الانتقام) تعریب شدہ ہیں۔ اس کتاب کا باقر منطقی تبریزی نے’’ قطر ہ ہائے اشک ‘‘ کے عنوان سے فارسی میں ترجمہ کیا ہے۔
پروفیسر عبدالحلیم ندوی اس کتاب پر تبصرہ کرتے ہوئے لکھتے ہیں :
’’العبرات‘‘ کہانیوں کا مجموعہ ہے۔ اس مجموعے کے اکثر افسانے فرانسیسی زبان سے ترجمہ کرکے ان کو دیے گئے جنھیں انھوں نے اپنی رومانی انداز میں عربی میں منتقل کیا۔ زبان بہت سلیس اور شیریں لکھتے تھے اس لیے ان میں شاید اصل زبان سے بھی زیادہ اثر اندازی پیدا کردی جس کا نتیجہ یہ ہوتا ہے کہ اب بھی ان کی یہ کہانیاں پڑھ کر رنج وغم اور کرداروں کے المناک انجام سے آدمی کا دل بھر آتا ہے۔ اور وہ ان کرداروں کے ساتھ خود بھی رنج وغم کے اتھاہ سمندر میں غرق ہو جاتا ہے۔ منفلوطی کے اس انداز تحریر اور طریقہ تحریر پر بعض نقاد نے بڑا اعتراض کیا ہے کہ رومانی مکتب فکر کے فرانسیسی ادیبوں کی تحریروں سے متأثر ہوکر بعض جگہ ترجمہ میں خرابی کی وجہ سے منفلوطی نے غلط تأثر لے کر غلط انداز سے خود ہی افسانہ یا ایسی کہانی لکھ دی ہے جس سے نوجوانوں میں فرط غم یا تاثر کی زیادتی سے قنوطیت کے جذبات پیدا ہوتے ہیں جس سے وہ بزدل کم دلے اور کم ہمت ہوجاتے ہیں اور اس طرح ان میں کام کرنے، مشقت اٹھانے اور کارگاہ حیات میں اپنا رول بہت بہادری سے ادا کرنے کا جذبہ یا تو مرجاتا ہے یا سرے سے ختم ہوجاتا ہے جو کسی طرح بھی مناسب نہیں ہے کہ اس طرح تو ایک وقت ساری قوم یاس وناامیدی اور نامرادی کی لعنت میں گرفتار ہوجائے گی۔ مگر یہ بات پوری طرح صحیح نہیں ہے کہ ساری قوم میں ان کی کہانیاں پڑھنے سے روباہی یا بزدلی آجاتی ہے۔ اس کی اصل وجہ یہ ہے کہ منفلوطی کی اکثر کہانیوں پر اسلامی عقائد اور اسلامی وعربی تہذیب کی چھاپ ہے۔ جو مغربی ادباء ونقاد اور مغرب زدہ عرب اور ادباء کو ایک آنکھ نہیں بھاتی اس لیے فن کے نام پر روباہی اور بزدلی پھیلانے کی تہمت ان پر لگاتے ہیں حالانکہ ان میں یہ بات نہیں ہے۔ ان کی کہانیاں بعض جگہ کمزور ہونے کے باوجود بہت جاندار ہیں اور باوجود نقل کرنے کے زبان وبیان کا مثالی نمونہ ہیں۔ اور اگر فنی نقطہ نظر سے کمزوری دکھائی دیتی ہے تو وہ دراصل نقل یا ترجمہ کی گئی زبان کی کمزوری ہے‘‘۔
ان کی نثر کے دو نمونے :
مسلم معاشرہ کی خستہ حالی ،پسماندگی اور اس میں پائے جانے والے مختلف قسم کے بگاڑ اور فساد کو منفلوطی اپنی آنکھوں سے دیکھتے پھر اپنے مخصوص بلیغانہ اسلوب میں ان کی اصلاح کی کوشش کرتے۔اس سے ان کامقصد اپنے اسلوب کو لوگوں کی نگاہوں میں پسندیدہ بنانا نہیں تھا بلکہ وہ صرف یہ چاہتے تھے کہ لوگ اصلاح احوال کا راستہ اپنائیں اور اپنی بدبختی وشقاوت سے نجات حاصل کریں۔ چنانچہ بہتوں پر ان کی تحریر کا یہ اثر ہوا کہ انھوں نے اپنی زندگی کارخ صحیح سمت کی طرف موڑا اور خیرو صلاح کے راستے پر گامزن ہوئے۔ جب منفلوطی کی حیات مستعار کے چالیس سال مکمل ہوئے تو ’’الأربعون‘‘ کے عنوان سے انھوں نے اپنا آخری مقالہ تحریر کیا۔ اس مقالہ کے اسلوب سے ایسا لگتا ہے گویا وہ اپنی وفات کے قریب ہونے کی خبر دے رہے ہیں ۔ مقالہ کے اخیر میں لکھتے ہیں :

 “ما أنا بآسف علی الموت یوم یأتینی الموت فالموت غایۃ کل حی، ولکنی أری أمامی عالما مجھولا لا أعلم مایکون حظی منہ و أترک ورائی أطفالا صغارا لا أعلم کیف یعیشون من بعدی، وتولا ما أمامی و من ورائی ما بالیت أسقطت علی الموت أم سقط الموت علی، ولکن ما أرادہ اللہ، أما ما أمامی فاللہ یعلم أنی ما ألممت فی حیاتی بمعصیۃ إلا وترددت فیھا قبل الإلمام بھا ثم ندمت علیھا بعد وقوعھا، ولا شککت یوما من الأیام فی آیات اللہ و کتبہ ولا فی ملائکتہ ورسلہ ولا فی قضائہ وقدرہ ، ولا أذعنت لسلطان غیر سلطانہ ولا لعظمۃ غیر عظمتہ، وما أحسب أنہ یحاسبنی حسابا عسیرا علی ما فرطت فی جنبہ بعد ذلک ، وأما من ورائی فاللہ الذی یتولی السائمۃ فی مرتعھا والقطاۃ فی أفحوصھا والعصفور فی عشہ والفرخ فی وکرہ سیتولی ھؤلاء الأطفال والمساکین وسیبسط علیھم ظل رحمتہ واحسانہ” (النظرات: ج۳؍۲۰۷)

منفلوطی کے محسنین کی چار قسمیں ہیں اور ہر ایک کے احسان کرنے کے الگ الگ مقاصد پر روشنی ڈالی ہے۔چنانچہ وہ اس بات کو بڑ ے دلچسپ انداز میں لکھتے ہیں:

 لا أستطيع أن أتصور أن الإنسان إنسان حتى أراه محسنًا؛ لأني لا أعتمد فصلًا صحيحًا بين الإنسان والحيوان إلا الإحسان، وإني أرى الناس ثلاثة، رجل يحسن إلى غيره ليتخذ إحسانه إليه سبيلًا إلى الإحسان إلى نفسه، وهو المستبد الجبار الذي لا يفهم من الإحسان إلا أنه يستبعد الإنسان، ورجل يحسن إلى نفسه، ولا يحسن إلى غيره، وهو الشرة المتكالب الذي لو علم أن الدم السائل يستحيل إلى ذهب جامد لذبح في سبيله الناس جميعًا، ورجل لا يحسن إلى نفسه، ولا إلى غيره، وهو البخيل الأحمق الذي يجيع بطنه ليشبع صندوقه، أما الرابع الذي يحسن إلى غيره ويحسن إلى نفسه، فلا أعلم له مكانًا ولا أجد إليه سبيلا، وأحسب أنه هو ذلك الذي كان يفتش عنه الفيلسوف اليوناني ديوجين الكلبي حينما سئل ما يصنع بمصباحه، وكان يدور به بياض النهار، فقال: افتش عن إنسان۔(النظرات:1/78)

****
(۱) مزید تفصیل کے لیے ملاحظہ ہو: ’’تاریخ الأدب العربی لأحمد حسن زیات ص ۳۴۰۔ ۳۴۳ ،و جدید عربی ادب از ڈاکٹر شوقی ضیف (اردو ترجمہ از ڈاکٹر شمس کمال انجم) ص ۲۷۱۔۲۷۹ ، و عربی ادب کی تاریخ از عبدالحلیم ندوی ۴؍۶۱۔۶۲و تاریخ العربیۃ و آدابھا لمحمد الفاروقی و محمد اسماعیل المجددی ص ۱۵۵۔ ۱۵۷، و أعلام النثر و الشعر فی العصر العربی الحدیث لمحمد یوسف کوکن  ۱؍۲۲۱۔۲۳۵، واستفادہ از مقدمہ ’’النظرات ‘‘ بعنوان : (لمحۃ من حیاۃ المنفلوطی ) ج ۲؍۳۔۷ط: دارالصحوۃ.

آپ کے تبصرے

3000