مصطفی صادق الرافعی ۱۸۸۰ء۔ ۱۹۳۷ء

صہیب حسن مبارکپوری عربی زبان و ادب

مصطفی صادق الرافعی جنوری ۱۸۸۰ء میں دریائے نیل کے کنارے ضلع قلیوبیہ کے ایک گاؤں بتھیم میں اپنے ناناکے گھرمیں پیداہوئے۔ ان کاخاندان لبنانی الاصل تھاجس کاتعلق ’’طرابلس شام‘‘ سے تھا۔محمدطاھرالرافعی اس خاندان کے سب سے پہلے شخص ہیں جو ۱۲۴۳ھ مطابق ۱۸۲۷ء میں مصرآئے۔ رافعی کے والدشیخ عبدالرزاق اپنے دیگردس بھائیوں کی طرح مصرکی مختلف عدالتوں میں بحیثیت قاضی کام کرچکے تھے۔ اسی خاندان کے ایک فردشیخ عبدالقادر رافعی بھی شیخ محمد عبدہ کے بعدمصرکے مفتی مقررکیے گئے۔مگرکچھ ہی دنوں بعدوہ انتقال کرگئے۔ شیخ عبدالرزاق آخرمیں طنطاکی شرعی عدالت کے رئیس مقرر ہوئے اوراپنی عمرکابقیہ حصہ وہیں گذارا۔بنابریں طنطا رافعی اور ان کے بھائیوں کامسکن بنا۔ اس خاندان کے بیشتر لوگوں نے قضاء کے مختلف عہدوں پر کام کیا حتی کہ ایساسنہری دور بھی آیا کہ بیک وقت اس خاندان کے چالیس افراد مصر کی شرعی عدالتوں میں قضاء کے مختلف عہدوں پرمامور تھے۔ چنانچہ رافعی لقب علمی و ادبی مقام کے ہم معنی بن گیاتھا۔
رافعی لقب کی توجیہ بیان کرتے ہوئے مصطفی صادق یہ کہتے ہیں کہ ان کے آباء و اجداد میں سے ایک شیخ علم اور فقہی اجتہاد میں شہرت رکھتے تھے لوگوں نے امام شافعیؒ سے تشبیہ دیتے ہوئے ان کا نام رافعی رکھ دیاچنانچہ وہ محمود الرافعی کے نام سے جانے پہچانے گئے۔
مصطفی رافعی صادق رافعی علم و ادب کے ماحول میں پروان چڑھے۔ دس سال سے کم عمر میں قرآن مجید کے حافظ ہوگئے۔ دینی علوم کا درس اپنے والدمحترم سے لیا۔ جب بارہ سال کے ہوئے تو دمنھور کے ابتدائی مدرسہ میں داخل ہوئے جہاں ان کے والد بحیثیت جج کام کرتے تھے۔والد کا منصورہ ٹرانسفر ہوجانے کی وجہ سے رافعی نے سترہ سال کی عمر میں منصورہ کے ابتدائی مدرسہ سے ابتدائی تعلیم مکمل کی۔ جس سال انھوں نے ابتدائیہ کی سند حاصل کی اسی سال وہ ٹائیفائڈ میں مبتلا ہوگئے۔ مرض سے نجات تو مل گئی مگر وہ صورت و سماعت میں اپنا اثر چھوڑگیا۔ علاج معالجہ کارگر ثابت نہ ہوا۔ یہاں تک کہ تیس سال کی عمر کو پہنچتے پہنچتے وہ پورے طور پر اپنی قوت سماعت سے محروم ہوچکے تھے۔ ان سے کچھ کہنے کے لیے انھیں لکھ کردیا جاتاتھا۔
۱۹۰۴ء میں جبکہ ان کی عمر چوبیس سال تھی انھوں نے صحافی عبدالرحمن برقوقی کی بہن سے شادی کی۔ یہ رشتہ تینتیس سال تک قائم و دائم رہا۔ اس شریف خاتون نے رافعی کے لیے وہ پر سکون ماحول عطا کیا جس کی ایک ادیب کو ضرورت ہوتی ہے۔ چناچہ رافعی گھریلو مسائل اور الجھنوں سے منقطع ہو کر لکھنے پڑھنے میں مشغول رہتے۔ ان کے جلیس وہم نشیں کتابیں، قلم اور کا غذات ہوتے۔ قوت سماعت کافقدان ایسا صدمہ تھا جس کی وجہ سے وہ اپنی تعلیم جاری نہ رکھ سکے مگر اپنی ذہنی قوت کے بھروسے انھوں نے مختلف کتابوں کے ذاتی مطالعے سے خود کو آراستہ کیا۔ان کے مکتبہ میں دینی و فقہی اور ادبی کتابوں کا بیش بہا ذخیرہ تھا۔ وہ بلا کسی اکتاہٹ اور تھکان کے روزانہ آٹھ گھنٹہ ان کتابوں کے مطالعہ اور ان سے استفادہ میں صرف کرتے۔ خوش نصیبی سے رافعی کا یہ مشغلہ زندگی کے آخری لمحات تک جاری رہا۔ اس سعی پیہم اور جہدمسلسل کی بدولت وہ صف اول کے ادباء میں شمار ہوئے۔
اپریل ۱۸۹۹ء میں طلخاکی شرعی عدالت میں بحیثیت منشی رافعی کا تقرر ہوا۔ اس کے بعد ایقاء البارور اور طنطا کی شرعی عدالت میں منتقل ہوئے۔ پھر طنطا کی عدالت میں ٹرانسفر ہوا اور اخیر عمر تک اسی سے وابستہ رہے یہاں تک کہ ۱۰؍مئی ۱۹۳۷ء کو اس دارفانی سے کوچ کر گئے۔ اسی دن عصر کے وقت مقبرہ الرافعی طنطا میں اپنے والدین کے جوار میں مدفون ہوئے۔ رافعی نے اپنی ادبی زندگی کی ابتدا شاعری سے کی اور شاید انھیں یہ گمان بھی نہ رہا ہو کہ وہ شاعری چھوڑ کر نثر کی طرف آئیں گے۔ ۱۹۰۳ء جب انھوں نے اپنے دیوان کا پہلا حصہ شائع کیاتو بارودی نے اس پر تقریظ لکھی اور منفلوطی نے اس کی بڑی تعریف وتحسین کی۔ آئندہ سال ۱۹۰۴ء میں جب اسی دیوان کا دوسرا حصہ منظرعام پر آیا تو بارودی نے پھر اس پر تقریظ لکھی اور شیخ محمد عبدہ نے اس کا خیر مقدم کیا اور یہ امید ظاہر کی کہ رافعی اپنی شاعری کے ذریعے وہی خدمت انجام دیں گے جو حضرت حسان بن ثابت رضی اللہ عنہ نے رسول اللہ ﷺ کی خدمت میں انجام دی تھی۔ شیخ کے الفاظ یہ ہیں:’’أسأل اللہ ان یجعل للحق من لسانک سیفا یمحق الباطل، وأ ن یقیمک في الأواخر مقام حسّان في الأوائل‘‘(میری دعاہے کہ اللہ تعالیٰ آپ کی زبان کوحق کے لیے ایسی تلوار بنائے جو باطل کو مٹاکر رکھ دے۔ اور بعد والوں میں آپ کو وہ مقام عطا کرے جو پہلے کے لوگوں میں حضرت حسان کو حاصل تھا۔ اور بارودی رافعی کی تعریف میں یوں گویا ہوئے ؂

لمصطفی صادق في الشعر منزلۃ أحسی یعادیہ فیھا من یصافیہ
صاغ القریض باتقان فان تیلت صدورہ علمت فیھا قوافیہ
مھذب الطبع مامون الضمیراذا بلوتہ کان بادیہ کخافیہ
حازالکمال فلم یجنح لمنقبۃ فلست تنعتہ الاّ بما فیہ

۱۹۰۶ء میں جب ان کے دیوان کا تیسرا حصہ منظر عام پر آیا تو بارودی کی نیابت کرتے ہوئے حافظ ابراہیم نے اس پر تقریظ لکھی۔ اس حصے کا مقدمہ ’’نوع من نقل الشعر‘‘
کے عنوان سے ہے۔ مذکورہ تینوں حصوں کے علاوہ رافعی نے ۱۹۰۸ء میں ’’النظرات‘‘کے عنوان سے ایک دیوان شائع کیا جس کا مقدمہ ’’حقیقۃ الشعر‘‘کے عنوان سے تحریر کیا۔
سعیدالعریان کی صراحت کے مطابق رافعی کا غیر مطبوعہ شعری اثاثہ ان کی مطبوعہ شاعری سے کہیں زیادہ تھا جس کی تہذیب و تنقیح کے بعد اس کی اشاعت کا ارادہ رکھتے تھے لیکن موت نے اس اہم کام کی تکمیل کا انھیں موقعہ نہ دیا اور وہ کام یونہی پڑا رہ گیا۔
ڈاکٹر شوقی ضیف ان کی شاعری پر تبصرہ کرتے ہوئے لکھتے ہیں:’’ان کی شاعری میں بارودی کے نیوکلا سیکی اسلوب کی جھلک ملتی ہے۔ ان کے دیوان میں غزل، تہنیت نامہ اور مرثیہ جیسے اصناف سخن پائے جاتے ہیں۔ اسلامی و قومی جذبات اور مصر کے سماجی حالات پر بھی انھوں نے روشنی ڈالی ہے اور اپنی شاعری کے ذریعہ قوم کے فرزندوں کے دلوں میں خود اعتمادی پیداکرنے کی کوشش کی ہے۔ عربی معاشرے میں جینے والی صنف نازک کے مسائل کا بھی اہتمام کیا ہے۔ وہ انھیں مغربی عورتوں کی تقلید میں غلو سے احتراز و اعراض کی دعوت دیتے ہیں جنھیں کسی دین اور عقیدے سے کوئی مطلب نہیں۔ اس کے علاوہ رافعی نے فطرت اور جدید ایجادات کو بھی اپنے اشعار کا جامہ پہنایا ہے‘‘۔
۱۹۱۹ء میں شروع ہونے والی مبارک انقلابی تحریک کے بعد انھوں نے قومی ترانوں کا اہتمام کیا ’’أسلمی یامصر‘‘کے عنوان سے لکھا ہوا ان کا ترانہ آج بھی زبان زدخاص و عام ہے اور سندقبولیت حاصل کرچکا ہے۔
نثر میں ان کی اہم کتابیں:
(۱۔۳) بیسویں صدی کے دوسرے عشرے کی ابتدا میں رافعی نے نثر کی جانب رخ کیا۔ اتفاق سے اس وقت مصری یونیورسٹی نے ’’ادبیات اللغۃ العربیۃ‘‘کے عنوان سے ایک کتاب لکھنے پر انعام کا اعلان کر رکھا تھا۔ چناچہ رافعی عربی ادب کے مطالع میں منہمک ہوگئے اور ۱۹۱۱ء میں اپنی کتاب ’’تاریخ آداب العرب‘‘کا پہلا حصہ شائع کیا۔ اس کتاب سے رافعی کے عربی ادبیات سے قلبی لگاؤ، گہری دلچسپی اور شغف پر دلالت ہوتی ہے۔ ایک ہی سال کے بعد انھوں نے کتاب کادوسرا حصہ شائع کیا جو اعجازالقران اور بلاغت نبوی پر مشتمل تھا جسے بعد میں ’’اعجاز القران‘‘کے نام سے شائع کیاگیا۔ سعدزغلول نے اس پر تقریظ لکھتے ہوئے رافعی کے اسلوب کو قرآن حکیم کے اسلوب کے مشابہ قرار دیا۔ کیونکہ رافعی کانثری اسلوب قرآن مجید کے بلیغانہ اور عظیم الشان اسلوب سے متاثر نظرآتاہے۔اس سلسلے کا تیسرا حصہ رافعی کی وفات کے تین سال بعد ان کے شاگرد سعیدالعریان نے مقدمہ کے ساتھ شائع کیا۔ البتہ پہلے حصے کے مقدمے میں رافعی نے اس اہم کام کی تکمیل کے لیے جو خطہ و منہج پیش کیاتھااس پر یہ تیسرا حصہ پورا نہیں اترتا۔
(۴)’’حدیث القمر‘‘ (چاند کی گفتگو) رافعی نے ۱۹۱۲ء میں لبنان کا سفر کیا، وہاں ان کی ملاقات ایک شاعرہ (می زیادۃ)سے ہوئی۔ دونوں کے درمیان محبت کے موضوع پر طویل جذباتی گفتگو ہوئی جس کے نتیجے میں یہ ادبی کتاب سامنے آئی۔ اس کتاب میں عشق و محبت، حسن و جمال، شادی بیاہ اور فطرت کے موضوعات پر گفتگو بھی شامل ہے۔ مختلف اشعار سے اپنی بات کو مدلل کرتے ہوئے انھوں نے معانی و مطالب کے اظہار اور اسلوب میں بڑی فن کاری سے کام لیا ہے۔
(۵)’’المساکین‘‘ اس کتاب کا سن تالیف ۱۹۱۶ء ہے۔ مؤلف نے اس میں وکٹرہیوگو(hugo)کی ’’البؤساء‘‘ کی طرح مسکینوں اور محتاجوں کے دردوغم کی تصویر کشی کی ہے۔ تقدیر، فقر و محتاجی، حسن و جمال اور خیر و شر سے متعلق افکار و نظریات پیش کیے ہیں۔ کتاب کے منظرعام پر آنے کے بعد ادباء نے اس کی بڑی پذیرائی کی۔
(۶)’’رسائل الأحزان‘‘ (خطوط درد و غم) یہ کتاب ۱۹۲۴ء میں زیور طباعت سے آراستہ ہوئی۔ اس کتاب کے شروع میں مؤلف نے لکھا ہے کہ یہ کتاب ایک دوست کو لکھے گئے ایسے خطوط پر مشتمل ہے جن میں انھوں نے محبت کی داستان بیان کی ہے اور اپنے فصیح و بلیغ قلم سے عشق و محبت اور شادی بیاہ کے مسائل کا نقشہ کھینچا ہے۔
(۷)’’السّحاب الأحمر‘‘ (سرخ بادل )یہ کتاب بھی ۱۹۲۴ء میں شائع ہوئی۔ مؤلف نے اس کتاب میں غیظ و غضب، محبت کی حماقت اور عورتوں کی خباثت کے فلسفے پر بحث کی ہے۔
(۸)’’أوراق الورد‘‘ (گلاب کی پتیاں) رافعی نے ’’السحاب الأحمر‘‘ کی تالیف کے چھ سال بعد یہ کتاب لکھی۔ دونوں کتابوں کا موضوع ایک ہے۔ یہ کتاب عشق و محبت اور حسن و جمال کے مختلف مؤلف کے نظریات کی عکاسی کرتی ہے۔ قابل ذکر بات یہ ہے کہ مذکورہ بالاتمام کتابوں میں رافعی نے اپنے اسلوب اور معانی و خیالات کی مختلف فنکارانہ چابک دستی کامظاہرہ کیا ہے۔
(۹)’’تحت رایۃ القرآن‘‘ (قرآن کے پرچم تلے) یا ’’المعرکۃ بین القدیم والجدید‘‘ (قدیم و جدید کا معرکہ) ۱۹۲۳ء میں جب قدیم و جدید کے حامیوں میں بحث و مباحثے نے زور پکڑا تو رافعی نے عربی اور اسلامی قدروں کاپوری طاقت سے دفاع کیا۔ طہ حسین کی کتاب ’’فيالشعرالجاھلي‘‘ (عہد جاہلیت کی شاعری پر ایک نظر )کے منظرعام پر آنے کے بعد ۱۹۲۶ء میں اس کتاب کو لکھ کر انھوں نے اس کے افکار و نظریات کو اپنی تنقید کانشانہ بنایا(۱)۔
(۱۰)’’علی السّفود‘‘ (نظرات في دیوان العقاد) یہ کتاب ان مقالات کا مجموعہ ہے جن میں مؤلف نے عقاد جیسے جدت پسند شاعر پر نقد کیا ہے۔ رافعی زندگی پر جدت پسند شعراء وادباء اور مصنفین کے سامنے مضبوط دیوانے بنے رہے۔ ان کا یہ عقیدہ رہا کہ عربوں کو صرف اور صرف دین اور فصیح عربی زبان کی اساس پر ہی عروج حاصل ہو سکتا ہے۔
(۱۱)’’وحي القلم ‘‘ تین جلدوں پر مشتمل اس کتاب میں وہ مقالات جمع کیے گئے ہیں جو اسلام اور عربیت جیسے ’’الرسالۃ، الؤیل،البلاغ، المقطف اور السیاسۃ، وغیرہ میں شائع ہوئے تھے۔ دوجلدیں مؤلف کی زندگی میں شائع ہوگئی تھیں،تیسری جلدان کی وفات کے بعد شائع ہوئی۔ حال ہی میں ’’مکتبہ مصر‘‘ سے تینوں جلدیں ایک ضخیم جلدمیں شائع ہوئی ہیں۔
اس کتاب کے متعلق سعید العریان رقمطراز ہیں:
’’اس کتاب میں رافعی کے تمام ادبی خصائص و امتیازات ان کے واضح اسلوب کے ساتھ جلوہ گر اور نمایاں ہیں۔ کتاب کے ہر ہر موضوع سے ان کے جامع المنقول والمعقول ہونے کا وصف آشکاراہے۔ اس کتاب میں ان کا اخلاق، ان کا ادب و شباب، احساس و شعور، دین و مذہب۔ پختگی رائے۔وقار و سنجیدگی، طنز و مزاح اور غیظ و غضب سب کچھ موجود ہے۔ جو شخص حقیقی معنوں میں ان کے افکار و نظریات اور ان کی معاشرت و مصاحبت سے واقف ہونا چاہتا ہے اسے یہ کتاب پڑھنی چاہیے۔
’’وحي القلم‘‘ کے مضامین پر ایک نگاہ ڈالتے ہوئے ڈاکٹر شوقی ضیف لکھتے ہیں:’’رافعی نے خالص اسلامی اور عربی ماحول میں ایسی تربیت اور نشونما پائی تھی جس کی بازگشت ان کے دل کی گہرائیوں میں سنی جاسکتی تھی۔ جو مرور ایام کے ساتھ نموپذیر ہوکر ایسے فصیح و بلیغ نثری فن پاروں کی شکل میں ظاہر ہوئی، جن میں اخلاص و محبت، پاکیزگی و طہارت، قوم کے دکھ درد کا احساس، عربوں کے کارناموں، ان کے تاریخی کردار، اسلام کے بلندو بالا اور عظیم الشان مفاہیم، حسن و جمال اور اس کی رنگینیوں، فطرت کی اثر انگیزیوں اور اس میں اللہ تعالیٰ کی ودیعت کردہ ان تمام اشیا کی منظر نگاری کی ہے جوانسان کو فرحت و مسرت کے دلنواز لمحات عطاکرتی ہیں۔ ان تمام موضوعات میں رافعی نہایت ہی غور و فکر اور آہستہ روی کے ساتھ آگے بڑھتے ہیں۔ کیونکہ بیانیہ تحریر کوئی آسان شئے نہیں بلکہ ایسا مشکل عمل ہے کہ موضوع کی تہ تک پہنچنے اور استدلال و استنباط میں طویل و عمیق غور و فکر کی حاجت ہوتی ہے۔’’وحی القلم‘‘کے پہلے حصے میں رافعی نے بیانیہ تحریر کے بارے میں روشنی ڈالی ہے۔ اور اس امر کی طرف اشارہ کیا ہے کہ جذبات پر اثر انداز ہونے اور خیالات میں سمانے کے لیے بیانیہ مضامین کے معانی و مطلب میں باریک بینی کی ضرورت ہوتی ہے۔ ان کے خیال میں بیانیہ مضامین لکھنے والوں میں ایسی بصیرت ہونی چاہیے جو خارجی دنیا کے حقائق پر پڑے ہوئے حجاب کو ہٹادے تاکہ اس کے داخلی اسرار و رموز اور افکار و نظریات منکشف ہو کر ادیب کے سامنے آجائیں اور وہ ان میں ڈوب کر ان کے حسن و جمال کو قاری تک منتقل کرے۔
’’وحي القلم‘‘ میں رافعی کے تحریر کردہ کسی بھی مضمون کا آپ مطالعہ کریں تو ایک تو آپ کو یہ باور ہوجائے گا کہ وہ کسی بھی سیاسی، سماجی،تاریخی موضوع،فطرت کے مختلف مناظر، لوگوں کے مسائل، عربوں اور مسلمانوں سے متعلق کسی بھی خبر کو ایسے چشمے میں بدل دیتے ہیں جس سے مستقل ایسے معانی کا خروج ہوتارہتا ہے جن کے مفہوم اور رافعی کے ندرت آمیز اسلوب سے قاری مرعوب ہوجاتاہے۔
رافعی کو کسی غیر ملکی زبان پر عبور حاصل نہیں تھا سوائے اس کے کہ انھیں تھوڑی سی فرانسیسی آتی تھی۔ مگر انھوں نے اپنے اندورن میں ایسی شئی ڈھونڈلی تھی جس نے ان کی غیر ملکی زبانوں کی عدم واقفیت کے خلاکو نہ صرف پورا کیا بلکہ ان کی فکری ندرت کے ذریعے غیر ملکی زبانوں پر عبور رکھنے والے اور ان کے معانی سے بھرپور استفادہ کرنے والے بہت سارے لوگوں پر انھیں فوقیت عطا کر دی تھی۔ یہ سچ ہے کہ رافعی کی بعض تحریروں میں غموض وابہام پایا جاتا ہے لیکن معانی و موضوعات کے اندرون میں جھانکنے والے کسی بھی ادیب و مصنف کی تحریر میں ایسے غموض کا پایا جانا بالکل فطری امر ہے۔ ان کی تحریروں میں فکر کا جلال اور اسلوب کا جمال دونوں بیک وقت پائے جاتے ہیں کیونکہ وہ ایسے صاف ستھرے ذوق، نازک جذبات اور ایسی عقل کے مالک تھے جنھیں معانی کی تخلیق اور دور دراز استدلال تک رسائی حاصل کر لینے پر قدرت تھی۔
رافعی نے ’’وحي القلم‘‘ کے تمام مضامین میں اسلامی اور عربی قدروں کی ایسی ترجمانی کی ہے کہ ہم انھیں’’عربی و اسلامی ادب ‘‘کے لقب سے ملقب کر سکتے ہیں۔ ’’الاشراق الالھی و فلسفۃ الاسلام، انسانیۃالعلیا، اللّٰہ اکبر، وحي الھجرۃ‘‘کے عنوان سے لکھے گئے تمام مضامین میں ایسے معانی و مطالب کی جلوہ گری نظر آتی ہے جو انسان کو محوحیرت کر دیتے ہیں۔ جب فلسطینی مسئلے کا وقت آیا تو انھوں نے مسلمانوں سے وطن مقدس کے دفاع کی اپیل کی اور نہایت ہی شعلہ بار اسلوب میں یہودی بھیڑیوں اور استعماری طاقتوں کے خلاف جہاد کی دعوت دی’’أیّھاالمسلمون‘‘ کے عنوان سے لکھے گئے مضمون میں اسلوب کو ملاحظہ کیاجاسکتا ہے۔
رافعی ہمیشہ مصری نوجوانوں میں قومی حمیت بیدار کرنے کی کوشش کرتے ہیں تاکہ وہ شکاری شیر کی مانند انگریزوں پر پل پڑیں۔ انھیں ان کی استعماریت کامزا چکھا دیں۔ ان کے خیال میں ہر مصری کو ایسے شعلہ صفت آدمی کی مانند ہوناچاہیے جو انگریزوں کو اس طرح جلاکر خاکستر کردے جیسے ان کا کوئی وجود ہی نہ تھا۔ درحقیقت اب وہ صرف چند لمحات کے مہمان ہیں کیونکہ شعلے بھڑکنے لگے ہیں اور عنقریب وہ خوف کھاکر بھاگ کھڑے ہوں گے۔ ’’ألجنحۃ المدا فع المصریّۃ، الطّماظم السّیاسي، المعنی السیاسي في العیل‘‘ جیسے مضامین میں انہی افکار کی بازگشت سنائی دیتی ہے۔
بیشتر مضامین میں وہ عورتوں کے مسائل پر بھی گفتگو کرتے ہیں اور انھیں دینی رسم و رواج کے پابند ایک مسلمان کی طرح نصیحت کرتے ہیں۔ موسم گرما میں اسکندریہ کے ساحل سمندر پر عورتوں کی جدید طرزحیات انھیں متوجہ کرتی ہے تو وہ ’’لحوم البشر‘‘(انسان کاگوشت ) اور ’’احذري‘‘ (الحذرا کے بنت حوا) کے عنوان سے دومضامین لکھ کر اس زندگی کا نقشہ کھینچتے ہیں۔ رذالت پر طعن و تشنیع کرتے ہیں اور فضیلت کی دعوت دیتے ہیں۔عورتوں کو عریانیت سے گریز کرنے اور مردوں کے فریب و ہوس کا شکار نہ ہونے کی تلقین کرتے ہیں اور انھیں اپنی خاندانی زندگی کو درہم برہم کردینے والی بدنامیوں سے احتراز پر ابھارتے ہیں۔
اپنے مضامین میں وہ مسکینوں اور کھلے آسمانوں کے نیچے رہنے والے بے گھر لوگوں کو بھی جگہ دیتے ہیں اور ایسی آواز میں چیختے ہیں جیسے وہ خود اپنی لامکانی اور لاچارگی کی منظر کشی کررہے ہوں اور چہار جانب انسانیت کی آہیں اور آنسوؤں کے چشمے ان کے سامنے ابل رہے ہوں۔ أحلام في الشارع (فٹ پاتھ کاخواب) کے عنوان سے لکھے گئے ایک مضمون میں انھوں نے اس طرح کے خیالات کی سب سے عمدہ تصویر کشی کرتے ہوئے ایک بے گھر بچہ اور اس کی بہن کی تصویرکشی کرتے ہیں جنھیں انھوں نے ایک بینک کی چوکھٹ پر ٹھنڈے سنگ مرمر کے فرش پر آسمان اوڑھ کر سوتے ہوئے دیکھا تھا۔ اسی نازک احساس کے ساتھ وہ دیگر مضامین میں فطرت کے حسن و جمال کی منظر کشی کرتے ہیں۔ انھوں نے دیگر کئی مضامین میں اپنے شعری اصولوں کے بارے میں بھی گفتگوکی ہے۔ رافعی کی شخصیت ان کی تحریروں میں اپنی تمام روحانی، عقلی و فکری اور لغوی خصوصیات کے ساتھ آشکارا ہوچکی ہے۔ وہ اسلامی،عربی اور قومی قدروں پر ایمان رکھتے تھے۔ اپنے گردوپیش کی ہر شئے کا ادراک کرتے تھے خواہ اس کاتعلق فطرت سے ہو یاغیرت سے۔ انھیں زبان کی باریکیوں پر پوری گرفت حاصل تھی۔ لفظوں میں وہ جس طرح چاہتے تھے تصرف کرتے تھے۔ ان کے بہرے پن نے اس میں ان کاپورا ساتھ دیا کیونکہ بہرے پن کی وجہ سے انھوں نے خود کو اپنی داخلی دنیا کے لیے وقف کردیا تھا جس میں ڈوب کر انھوں نے دقیق معانی کی کھوج لگائی اور اس وقت تک ان میں غور فکر کرتے رہے جب تک کہ انھوں نے اپنے منطقی فلسفوں سے معمور نہ کردیا۔ ان کے اسلوب میں پائے جانے والے ابہام و غموض اور پیچیدگی کا سب سے اہم سبب بھی یہی ہے۔
بلاشبہ وہ بڑی احتیاط سے لکھتے تھے۔ ذہن میں وارد فکر اور خیال کو تحریر کا جامہ نہیں پہناتے تھے بلکہ الفاظ و معانی کا انتخاب کرتے تھے۔ گویا وہ صرف ایک ادیب ہوناپسند نہیں کرتے تھے بلکہ فکر کی گہرائی،عبارت واسلوب کی باریکی کے ذریعے ایک ممتازادیب بننا چاہتے تھے۔ انھوں نے اپنی تحریروں میں بڑی سخت مشقت و جانفشانی کی تاکہ وہ صحیح معنوں میں معانی اور کلام کے خلالق بن سکیں۔
رافعی کی غیر مطبوعہ تالیفات:
۱۔ ’’دیوان أغاني الشعب‘‘ (قومی ترانوں کادیوان) یہ دیوان قوم کے ہر ہر فرد کا ترجمان اور ہر ہر طبقے کی آواز ہے جس کے بعض ہی قصائد شائع ہوسکے۔
۲۔ ’’ملکۃ الانشاء‘‘ یہ کتاب انشائی نمونوں پر مشتمل ہے، مؤلف نے نوجوانوں کو عمدہ تعبیر کے اسلوب کی تعلیم کی غرض سے یہ کتاب لکھی تھی۔ اس کاکچھ حصہ ’’النظرات‘‘ (مؤلف کے دیوان) میں شائع ہواتھا وہی باقی ہے بقیہ ضائع ہوچکا ہے۔
۳۔ رافعی کے دیوان کا چوتھا حصہ جو ان قصائد پر مشتمل ہے جنھیں انھوں نے ۱۹۰۸ء کے درمیان کہے تھے۔
۴۔ الی العلا الی العلا۔
۵۔ الفلاحۃ المصریۃ۔
احمد حسن زیات کے بقول: ’’رافعی کا اسلوب عمدگی، سلاست اور ایجاز عمیق کی وجہ سے ممتاز ہے۔ علوم لسانیہ میں وہ محبت اور فنون ادبیہ میں ثقہ تھے۔ وہ زبان کے اسرار و رموز سے واقف، الفاظ کے موقع و محل میں بابصیرت، نقد کی جگہوں سے باخبراور کلام کی انواع و اقسام پر گرفت رکھنے والے تھے۔ (وحي الرسالۃ ۴۳۹؍۴۴۱)
رافعی کی حیات و خدمات پر محمد سعیدالعریان نے ’’رسائل الرافعي‘‘کے عنوان سے کتابیں لکھی ہیں (۱)
۔۔۔

حواشی:
طٰہٰ حسین کے افکار و نظریات کا خلاصہ:
(۱) مسلمانوں نے اسلام پر خوف کھاتے ہوئے یہود ونصاریٰ کے اشعار کو مٹایا اور اس کی روایت سے منع کیا۔ اسی سبب سے ان کی شاعری کا کوئی حصہ ہم تک نہیں پہنچ سکا۔
(۲) جاہلی شاعری کے نام پر آج جو کچھ ہمارے پاس ہے وہ اسلام کے بعد گڑھا ہوا ہے۔ اور اس جاہلی شاعری کے ذریعے قرآن پر استشہاد نہیں کیاجائے گا بلکہ شعر وشاعری کے لیے قرآن ہی کے ذریعہ حجت پکڑی جائے گی۔
(۳) جس دور جاہلی کی شاعری ضائع ہوئی اس کی حفاظت اس طرح ہوئی کہ قرآن کریم اس کی تفصیل بیان کرتا ہے۔
(۴) امرؤالقیس کی غزلیں اصلا عمربن ابی ربیعہ کی ہیں۔ (تحت رایۃ القرآن ص۹۴ط:المکتبۃ المصریۃ)
’’السفود‘‘ لوہے کی سیخ جس پر گوشت بھونا جاتا ہے۔
(۱)ملاحظہ ہو: أعلام النثر في النصر العربي الحدیث لمحمد یوسف کوکن ۳؍۱۲:۳۳ ،وجدید عربي ادب از ڈاکٹر شوق ضیف (اردو ترجمہ) از ڈاکٹر شمس کمال انجم ص۲۸۸۔۲۹۷،وتاریخ لعربیۃ و آدابھا لمحمد الفاروقي و محمد اسماعیل المجددي ص۱۵۹۔و استفادہ از ترجمۃ المؤلف بعنوان ’’مصطفی صادق الرافعي‘‘ از مرجع ’’المساکین‘‘ ص ۹:۱۷ ط:الصحوۃ ۱۴۳۵ھجري؍۲۰۱۵م بتحقیق و تصحیح محمد سعید العریان۔ واستفادہ از مقدمہ ’’تحت رایۃ القرآن‘‘ ط:المکتبۃ العصریۃ ۱۴۲۹ھجري؍۲۰۰۸م

مزید معلومات کے لیے درج ذیل مراجع ملاحظہ ہوں:
(۱) المنتخب من أدب الحرب ۱:۰۵۵
(۲) تراجم علماء طرابلس ۲۱۱،في آخر ترجمۃ عمہ عبدالحمید بن سعید الرافعی
(۳) معجم المطبوعات ۹۲۶
(۴) الأعلام :۷:۳۳۵
(۵) المقتطف ۷۳:۳۵۲
(۶) مجلۃ الرابطۃ العربیۃ، ۱۸ ربیع الأول سنۃ ۱۳ھجري

آپ کے تبصرے

3000