کچھ درد ہیں جو میرے نہیں ہیں لیکن پھر بھی مجھے رلاتے ہیں، کچھ آبلے ہیں جو اوروں کے پاؤں میں ہیں لیکن ان کی سوزش مجھے بے چین رکھتی ہے، کسی اور کی بے ردائی مجھے اپنے آنچل میں منہ چھپاکر شرمانے پر مجبور کرتی ہے، عفت وعصمت کے اٹھتے ہوئے جنازوں پر میں بے آواز بین کرتی ہوں لیکن کوئی میرا پرسان حال نہیں ہوسکتا۔
“ایک دو زخم نہیں سارا بدن ہے چھلنی” یہ روشن خیال کہتے ہیں کہ شمع روشن ہورہی ہے….میں کہتی ہوں وہ تو پگھل رہی ہے اور رفتہ رفتہ لمحہ لمحہ میرا دل، میرا گھر، میرا سماج سب کچھ اندھیرے میں ڈوبا جارہا ہے۔
وہ جو آنکھوں کا نور، کلیجے کی ٹھنڈک، باپ کاغرور اور بھائیوں کا مان تھی، جانے یہ بات کب اس کے دل میں سماگئی کہ وہ اس زمین پر، ہم پر، ہمارے سماج پر ایک بوجھ ہے اور ساری زندگی اپنی زندگی سے جڑے ہوئے لوگوں کا بھی بوجھ اسی کو ڈھونا ہے۔
انہی ساری الجھنوں سے تنگ آکر آہستہ آہستہ وہ ہم سب سے دور چلی گئی ہے اتنی دور کہ اس تک ہماری صدا بھی نہیں جاتی۔ اس نے اپنے پیدا کرنے والے کو بھی فراموش کردیا
” کوئی مجھے پھر سے میری شہزادی لاکر دے دے میرے آنگن کی وہ چڑیا جو اپنا راستہ بھول گئی ہے اسے کوئی میرے گھر کا در دکھادے -”
یہ آواز کسی ایک گھر کی صدا نہیں، ہندوستان کے ہر دوسرے مسلمان گھر سے اٹھتے نالے ہیں۔ بیٹیوں کے متعلق سرپرستوں کی اس تکلیف دہ حالت کا اندازہ لگانا بھی اب مشکل ہوگیا ہے جس کرب سے وہ اپنی زندگی میں دو چار ہوتے ہیں۔
آج کی ہر دوسری خبر یہی ہوتی ہے کہ فلاں بچی غیر مسلم کے ساتھ فرار ہوگئی، کورٹ میریج کرلیا یا بچی کو اغواء کرکے اس کی تبدیلئی مذھب کے ساتھ ساتھ زبردستی اس کی شادی کرادی گئی وغیرہ وغیرہ۔ بچّیاں تو درکنار خواتین تک کے واقعات سے میڈیا بھرا پڑا ہے۔
تو اب کیا کریں؟
ہر خبر کی طرح اس خبر کو بھی اسکرول ڈاون کریں اور آگے بڑھ جائیں یا اپنا محاسبہ کریں بحیثیت مسلمان جس سینے میں غیرت کی ہلکی سی بھی رمق ہوگی وہ ان واقعات پر استغفار پڑھتے ہوئے گزرنے کی بجائے استغفار کے ساتھ اللہ سے حالات کی سنگینی سے نکلنے کی دعا بھی کرے گا اور عملی طور پر اپنے حصے کا فرض بھی انجام دینے کی نیت کرے گا۔
ملّی اور مذہبی تنظیمیں، مساجد اور مدارس سبھی کے لیے وہ وقت آچکا ہے کہ وہ کھلے طور پر ان سازشوں کے پردے اتارنا شروع کریں جہاں کہیں سے بھی لوگوں تک اپنی بات پہنچانے اور سمجھانے کے مواقع دستیاب ہوں ہر اس جگہ اور موقع کا فائدہ اٹھاتے ہوئے پوری ذمہ داری کے ساتھ یہ کام کیا جانا چاہیے۔ کیونکہ بڑے پلیٹ فارم سے جو باتیں کی جاتی ہیں ان کا اثر بھی بڑا ہوتا ہے۔
عوام کو ایسی سازشوں سے واقف کرائیں، اس کریہہ اور سنگین مسئلہ کے اسباب و نتائج کے ساتھ اس کا علاج بھی بتلائیں اور اس کام میں کسی قسم کا تردّد نہ برتیں۔
گر ہماری ایک بچّی کا مذہب اور اس کی عزّت وحشیوں کے ہتھّے چڑھتی ہے تو یہ بات جان بوجھ کر جنگل کی آگ کی طرح پھیلائی جاتی ہے تاکہ مسلمان ننگ وعار کے جذبوں میں دن رات جھلستے رہیں، انتقامی کارروائی پر آمادہ ہوں اور مشتعل ہو کر قانون کو اپنے ہاتھوں میں لیں۔ سمجھنے والی بات ہے کہ اگر لوگ ہماری عزتوں سے کھیلنے کے درپے ہوجائیں تو اس کے محافظ کیا محض ہاتھ باندھ کر مودبانہ کھڑے رہیں گے اور اس بے حیائی اور ارتداد کے سیلاب کو روکنے کے لیے کھل کر بات بھی نہیں کریں گے۔
سیریلز کا دور بہت پرانا ہوا، اسمارٹ فون نے کیبل اور ڈش ٹی وی کا بزنس بھی ٹھپ کردیا ہے۔ اب بڑی بوڑھیوں کے سوا سیریلز کوئی نہیں دیکھتا، اب تو ویب سیریز کا دور ہے۔ بنا کسی سینسر کے جو کچھ بھی دکھانا ہو وہ ویب سیریز پر بغیر کسی رکاوٹ کے ممکن ہے، دو منٹ اور پانچ منٹ کی شارٹ فلموں اور ویڈیوز کے ذریعہ یہ بات لوگوں میں راسخ کی جارہی یے کہ انٹر کاسٹ میریجز انسانی نظام اور انسانی رشتوں کی ایک خوبصورت شکلیں ہیں لہذا اس میں کوئی حرج نہیں، محبت کا کوئی مذہب نہیں ہوتا، ہر انسان کے جسم میں بہنے والا لہو ایک جیسا ہوتا ہے، اس کے جذبات اس کے خوشی اور غم کے رنگ ایک جیسے ہوتے ہیں، ہونٹوں کی ہنسی اور آنکھوں سے بہنے والے آنسو تک ایک جیسے ہوتے ہیں۔ پھر دو محبت کرنے والوں کے درمیان یہ مذہب کی دیوار کیوں؟
یہ اٹریکٹیو فلمیں نوجوانوں میں مقبول بھی ہیں اورنتائج خیز ثابت بھی ہورہی ہیں تو اس صورتحال میں اس زہر کا کوئی تریاق ہمیں بھی دریافت کرنا چاہیے یا نہیں؟
جس سطح پرایسے مائنڈ ڈایورٹنگ ویڈیوز تیار کیے جاتے ہیں اتنے نہ سہی اس سے کمتر ہی سہی اصلاحی اور تعمیری ویڈیوز بنائے جانے چاہئیں۔ اپنی میڈیا اور تمام ذرائع ابلاغ کا موثر استعمال کرنا چاہیے۔ اسلامک چینلز اور میڈیا سے جڑے ہوئے باصلاحیت لوگ آگے آئیں اور ایسے ویڈیوز کے جوابی ویڈیوز تیار کریں جن میں ہر اس خسارے کی عکاسی کی جائے جسے دشمنان اسلام نے منفعت کی صورت میں پیش کیا ہے۔ بچیوں کے گھر سے قدم نکالنے کی وجہ سے جو قیامت گھر والو ں پر آتی ہے اس کی عکاسی کی جانی چاہیے کیونکہ جذبات کو جذبات سے ہی موڑا جاسکتا ہے۔
والدین اور سرپرست ہی نہیں آپ ہر اس مسلمان بچے بچی کی فکر کریں جو آپ کے قریب ہے، ورنہ والدین بیچاروں کو تو سب سے آخر میں پتہ چلتا ہے کہ ان کے ساتھ کیا قیامت گزر گئی، بقیہ پوری دنیا بچوں کے کارناموں سے محظوظ ہوتی رہتی ہے۔
رہی یہ سوچ کہ تماشہ دیکھو اور وقت آئے گا تو خود ہی پردہ کھلے گا ابھی سے والدین کو آگاہ کردیا تو مزہ خراب ہوجائے گا تو پھر سے سوچ لیجیے!!
ایک مسلمان اور اس کی عزت کی حفاظت دوسرے پر فرض ہے اس لیے ذاتی اغراض و مقاصد اور اپنے دل کے داغ پھوڑنے کی خاطر ملّت کی بدنامی کا ذریعہ نہ بنیں- جوں ہی کسی بچے کا فساد دیکھیں والدین، سرپرست کو خود جاکر آگاہ کریں ان کی ناراضگی اور ملامت کی پرواہ کیے بغیر، ان شاء اللہ قیامت کے دن اللہ آپ کو عزتوں سے مالا مال کرے گا۔
اور جب آج بچوں سے لے کر بوڑھوں تک ہر کسی کے ہاتھ میں ایک عدد اسمارٹ فون موجود ہے تو اس کے بارے میں بھی کچھ سنتے جائیے۔ میوزیکلی، ٹک ٹاک، لائک، میڈ لپس جیسے کئی اور دوسرے ایپلیکیشنز ہیں جنھوں نے فحاشی اور اباحیت کے لاکھوں دروازے Fun کے نام پر کھول رکھے ہیں
اور کئی مسلمان بچے بچیاں گھر کے بند دروازوں میں اپنی ویڈیوز بناتے ہیں اور انھیں وائرل کر گھر بیٹھے بیس سے پچیس ہزار ماہانہ کمارہے ہیں۔ ایزی منی کی وجہ سے عفت وعصمت کے آنچل کا ڈھلک جانا بھی بہت ایزی ہوچکا ہے۔
کالج ہو یاکلاس روم، بیڈ روم ہو یا سڑک ہر جگہ یہ آزاد پنچھیوں کی طرح ویڈیو بنائے چلے جارہے ہیں اور انھیں پبلش کرنے پر پیسے بھی آرہے ہیں جتنے زیادہ ویورز اتنے زیادہ پیسے۔ جب ہر طرف ہریالی ہو تو ایسے میں قیدوبند کی زندگی بھلا کسے اچھی لگتی ہے۔ ایسے ویڈیوز وائرل کرنے اور کروانے والوں کا تناسب اسی فیصد ہے اور وہ بھی سارے کے سارے مسلمان کم عمر نوجوان ہیں۔
جوانی کا مرحلہ ہارمونل چینجز کا مرحلہ ہوتا ہے، ہارمونز کے سیلاب میں پھنسے ہوئے خارجی دنیا کی چکا چوند سے مرعوب، گھر میں عزّت واحترام اور محبت کو ترسے ہوئے بچوں کو نگرانی کے ساتھ کاونسلنگ کی اشد ضرورت ہے۔
ضرورت ہے کہ کوئی ان کو گائیڈ کرے ان کی غیر ضروری مصروفیات اور لہو ولعب کا متبادل فراھم کرائے۔ انھیں ان کی ذات کی معرفت دی جائے، بحیثیت مسلمان انھیں ان کی شخصیت کے وقار اور عظمت سے واقف کرایا جائے تاکہ مذہب انھیں قید نہ لگے بلکہ وہ اپنے مذہب سے محبت کرنے اور فخر کرنے والے بنیں۔ انھیں ایسی تعلیم و تربیت اور وہ پختہ سوچ دی جائے جس سے ان کا کانفیڈنس لیول بلڈ اپ ہو، ان کی شخصیت پر اعتماد بنے اور وہ بچے سماج میں ان کے رنگ میں رنگنے کی بجائے اپنا ایک منفرد مذہبی تشخص برقرار رکھ سکیں اور معاشرہ میں گروم کرسکیں۔
بچیوں کے متعلق یہ بات یاد رکھیں کہ ان کی بہترین تعلیم وتربیت پر یونہی جنت کی بشارت نہیں رکھی گئی۔ یہ فل ٹائم جاب ہے بیٹیاں ایک ہوں یا دس، انھیں محبت دیجیے، اعتماد دیجیے، بے جا سختی اور تشدد کے ذریعے انھیں ارتداد کی طرف مت دھکیلیے۔
بچیوں کی فطرت ہے توجہ، محبت، التفات حاصل کرنا۔ اگر یہ محرم رشتوں سے نہ ملے تو پھر جہاں بھی اسے عافیت اور محبت کا احساس ملے گا وہ اس بڑھے ہوئے ہاتھ کو تھام لے کی اور پھر ہم اسی طرح کف افسوس ملتے رہ جائیں گے۔
کوئی تحریر جلائے تو دهواں اٹهتا ہے
دل وہ بهیگا ہوا کاغذ ہے جو جلتا ہی نہیں
👍👍👌👌