وہ عطر دان سا لہجہ مرے بزرگوں کا

کاشف شکیل سفریات

ایک گاؤں ہے جس میں ایک شہر ہے ، جی ہاں آپ تعجب نہ کریں گاؤں میں بھی شہر آباد ہوسکتا ہے، ابھی چند روز قبل کرنجوت بازار (سنت کبیر نگر) جانا ہوا تو مدینۃ العلوم کی زیارت کا شرف حاصل ہوا۔ علوم کا یہ شہر حضرۃ العلام مولانا ڈاکٹر حامد الانصاری کا بسایا ہوا اور انہی کا آباد کردہ ہے۔کہتے ہیں کہ آفاقی شخصیتوں کے کام بھی آفاقی ہوتے ہیں،شاہان علم کا ہر کام شاہکار ہوتا ہے، سو مولانا انجم صاحب جیسے مرد درویش، خداگاہ و خدامست کا یہ معمورہ کیسے نہ آفاقی اور شاہکار ہوتا۔
مولانا انجم مدرسوں کی اہمیت و افادیت سے بخوبی واقف تھے، مشہور مثل “المدرسۃ فی البلدۃ کالکعبۃ فی مکۃ” ان کے پیش نظر تھی، وہ جانتے تھے کہ مدارس ہی اسلام کے وہ قلعے ہیں جو اہل اسلام کو مشکل وقتوں میں تحفظ فراہم کرتے ہیں۔سو آپ نے بھی مدرسے کے قیام کا سوچا یعنی اپنے گاؤں میں ایک قبلہ علم کی تعمیر کا منصوبہ بنایا، آپ نے سنہ 1956 میں “المدرسۃ السلفیۃ مدینۃ العلوم” کی تاسیس فرمائی، مدرسہ تا حیات آپ کی زیر سرپرستی راہ ترقی پر گامزن رہا، اس دوران آپ نے اس کے ذرے کو آفتاب بنایا، عروس علم کو سجایا، شہر فن کو سنوارا، خون جگر سے اس کشت دین کو سینچا اور سیراب کیا، خلوص و وفا کی اینٹ سے اس کی تعمیر کی، آج الحمد للہ ان کا لگایا ہوا یہ پودا شجر سایہ دار کی صورت رہ نوردان علم کو سایہ فراہم کرتا ہے، بلا شبہ یہ مولانا انجم کے لیے صدقہ جاریہ ہے۔
مولانا انجم کی شخصیت بجا طور پر یہ کہنے کی سزاوار تھی کہ ع قلندری مری کچھ کم سکندری سے نہیں
اور بقول اقبال آپ کا حال
“یا وسعت افلاک میں تکبیر مسلسل 
یا خاک کی آغوش میں تسبیح و مناجات”
والا تھا۔آپ کی دعوتی و تبلیغی مساعی سے بے شمار افراد حق سے وابستہ ہوئے، سینکڑوں گم گشتگان منزلہ راہ یاب ہوئے، ترسیل و ابلاغ کے تمام ذرائع تحریر و تقریر اور نظم و نثر کو بروئے کار لاتے ہوئے آپ نے دین حق کی اشاعت فرمائی۔خیر آپ کی مساعی کا کیا بیاں کہ”سفینہ چاہیے اس بحر بیکراں کے لیے”
آمدم بر سر موضوع!ایک ہمارے محسن ہیں، مولانا مشتاق صاحب سلفی کرنجوت بازار کے، آپ سے پہلی ملاقات گزشتہ برس کاپڑیا نگر ممبئی میں ہوئی تھی، خلوص کے پیکر ہیں، مجھ کم نصیب سے اس قدر محبت سے ملے اور اتنی حوصلہ افزائی کی کہ میں اسے بھول نہیں سکتا۔ پہلے تو ندامت ہوئی کہ آپ مجھ سے واقف ہیں مگر میں آپ سے بالکل نا آشنا، مگر جب انھوں نے اپنا تعارف کرایا تو ایسا لگا کہ برسوں سے جانتا ہوں، سچ ہے:”الأرواح جنود مجندة فما تعارف منها ائتلف، وما تناكر منها اختلف”
 بعدہ مختلف مواقع پر آپ سے شرف لقا حاصل ہوتا رہا۔ میں سالانہ چھٹی میں گھر پہنچا تو پتہ چلا کہ آپ بھی گھر آئے ہوئے ہیں، میرا گھر آپ کے گھر سے دو کلومیٹر کے فاصلے پر ہے۔ تقریب بہر ملاقات چاہیے تھی جو میسر آ گئی، ایک شام آپ کی دعوت پر کرنجوت جانا ہوا۔ وہاں پہنچ کر پتہ چلا کہ شیخ مشتاق سلفی صاحب کے کہنے پر مولانا محمد علی فیضی ناظم مدرسہ مدینۃ العلوم کرنجوت، مولانا عبداللہ فیضی صدر مدرس مدرسہ کعب بن مالک بلوا مصر، شاعر خوش الحان مولانا علی حسن اثری مدرس مدرسہ مدینۃ العلوم وغیرھم حفظہم اللہ اجمعین بھی موجود ہیں ۔ ملاقات کا وقت بڑا دیدنی تھا، مجھ پر شفقتوں کی برکھا برس رہی تھی، محبتوں کے پھول نچھاور ہو رہے تھے، بزرگوں کی قدر افزائی اور تشجیع کے لیے میں ان کا بے حد ممنون ہوں۔ بزرگوں کی دعائیں تھیں کہ ختم ہی نہیں ہو رہی تھیں، مولانا محمد علی فیضی صاحب نے ضیافت کا خاصا اہتمام کیا، بلاشبہ یہی وہ لوگ ہیں جن کی زندگی میں ہم ان کی ناقدری کرتے ہیں اور پس مرگ ہمارا تعزیتی عنوان یوں ہوگا:
“مقدور ہو تو خاک سے پوچھوں کہ اے لئیم
تو نے وہ گنجہائے گراں‌مایہ کیا کیے”،
“پیدا کہاں ہیں ایسے پراگندہ طبع لوگ”،
“وہ صورتیں الہی کس دیس بستیاں ہیں”
یا
“ایک چراغ اور بجھا” وغیرہ وغیرہ
آخر ہم مردہ پرستی سے کب تائب ہونگے، زندوں کی قدر کون کرے گا؟؟ 
عمر بھر سنگ زنی کرتے رہے اہل وطن
یہ الگ بات ہے دفنائیں گے اعزاز کے ساتھ
یعنی معاشرتی اقدار افسوسناک حد تک زوال پذیر ہو رہے ہیں۔ان بزرگوں سے مل کر ایسا لگا کہ اسلاف سے ملاقات ہوگئی، ان کے لہجوں سے اٹھنے والی خلوص کی بھینی بھینی خوشبو مجھے معطر کر رہی تھی، روحانیت مادیت پر غالب آ رہی تھی، بہترین علمی گفتگو ہوئی، کافی کچھ سیکھنے کو ملا۔ مدرسے کی لائبریری میں بھی ایک طویل نشست ہوئی ۔
وقت غم کا ہو یا خوشی کا، خوشگوار ہو یا کربناک، گزر جاتا ہے۔ میں نے تو بزرگوں کو سننے کے لیے مانو اپنی دھڑکن روک لی تھی مگر گھڑی کے جسم پر سکینڈ کا دل مسلسل دھڑک رہا تھا، اور یوں یہ باسعادت وقت گزر گیا۔مغرب کا وقت ہوا، میں نے وداع لی، سب سے سلام کیا اور شکریہ ادا کیا۔مدینۃ العلوم کی لائبریری وغیرہ دکھانے کے لیے ناظم محترم مولانا محمد علی فیضی صاحب کا اور اس خوبصورت ملاقات کا انتظام کرنے کے لیے مولانا مشتاق سلفی صاحب مدرس مدرسہ نور الإسلام و امام مسجد اہل حديث جيلانی واری کا خصوصی شکریہ۔

آپ کے تبصرے

3000