عباس محمود العقاد کے والد ابراھیم صراف تھے۔ عقاد کی پیدائش 28/جون بروز جمعہ 1889ء کو اسوان کے ایک متوسط مصری گھرانے میں ہوئی۔ ابتدائی نشونما کے ساتھ ہی وہ مکتب پھرابتدائی مدرسے میں داخل ہوا ۔ اور 1903ء میں وہاں سے فارغ ہوا۔ دوران تعلیم وہ اپنی ذہانت و فطانت اور ادبی صلاحیتوں کی وجہ سے اپنی اساتذہ کا مرکز توجہ بنا ہوا تھا۔ اس نے اپنے علمی سفر کو مختصر کرنا چاہا اور 16 سال کی عمر میں اپنے شہر سے نکل پڑا۔ اعلی تعلیم کے مراکز اور سرکاری اسکولوں میں اپنی تعلیم کی تکمیل نہیں کی بلکہ اپنی عقل و فہم اور اپنے زرخیز ذہن پر اعتماد کرتے ہوئے وہ علم و ادب کے حصول میں لگ گیا۔ بعض سرکاری ملازمتوں سے بھی جڑا مگر انہیں ترک کرکے قاہرہ آگیا اور صحافت میں مشغول ہوگیا۔
بیسویں صدی کے دوسرے عشرے کے ابتدائی دور میں وہ اپنے دوست ابراہیم عبدالقادرالمازنی کے ساتھ ابتدائی مدرسہ میں معلمی کرنے لگا۔ ساتھ ہی انگریزی سیکھنا شروع کیا اور اس میں عبور حاصل کیا۔ فلسفہ کا بڑی گہرائی سے مطالعہ کیا۔ بعد میں عبدالرحمن شکری بھی ان دونوں سے جاملا۔ اس طرح ایک ایسی نسل کی تشکیل ہوئی جو انگریزی اور مختلف مغربی ادبیات کی روشنی میں شعر و شاعری کا فہم رکھتی تھی۔ اس نسل کی نیز شاعری کے تجدیدی معرکوں کی قیادت کا سہرا عقاد کوجاتاہے۔ کیونکہ پہلی جنگ عظیم کے ساتھ اس کے مذکورہ دونوں ساتھیوں نے میدان کو خیرباد کہ دیا مگر وہ آخر وقت تک مرد میدان بنا رہا 1913 ء میں شائع ہونے والے ‘‘شکری’’ کے دوسرے اور 1914ء میں شائع ہونے والے مازنی کے پہلے دیوان پر عقاد نے مقدمہ لکھا جس سے اس جدید نسل کے ذریعے مصرکی شعری تاریخ میں ایک نئے دور کی تشکیل ہوئی مازنی اورعقاد نے جدید شعری نمونوں کے بارے میں قدم اٹھایا اور حافظ وشوقی کے نیو کلاسیکی اسلوب پر حملہ شروع کردیا مازنی نے 1914ء میں مجلہ عکاظ میں حافظ کی تنقید میں مضامین لکھے اور عقاد نے 1921ء میں ‘‘کتاب الدیوان’’ میں شوقی پر حملہ کرتے ہوئے تنقیدی مضامین تحریر کئے۔
عقاد نے 1916ء میں اپنا پہلا دیوان شائع کیا پھرمسلسل اس کے چار دیوان منظر عام پر آئے۔ 1938ء میں اس کےمقالات ومضامین کا ایک مجموعہ ‘‘دیوان العقاد’’ کے عنوان سے شائع ہوا۔ ابھی پہلی جنگ عظیم کا خاتمہ بھی نہیں ہوا تھا کہ مازنی اورعقاد تدریس چھوڑ کر صحافت کے کارواں میں شامل ہوگئے۔ عقاد کا تعارف سعدزغلول سے ہوا اور وہ ‘‘الوفد’’ پارٹی کا ترجمان اورمحرر بن گیا۔
عقاد ‘‘حزب الوفد’’ کے میگزین ‘‘البلاغ’’ میں لکھنے لگا آزادی اور عوام کے سیاسی حقوق سے متعلق مغربی مفکرین اور فلاسفہ کے افکار و نظریات سے استفادہ کرتے ہوئے ایک سیاسی مضمون لکھا جس سے دوسری پارٹیوں کےادباء مثلا ہیکل جیسے ‘‘الأحرار’’ پارٹی کےادیبوں کے درمیان ایک ایسا تحریری معرکہ گرم ہوگیا جس نےعربی کے کلاسیکی اور قدیم صنف سخن ‘‘ہجو’’ کی شکل اختیار کرلی مگر ہجوگوئی اب ذاتی ہجو نہ رہ کر پارٹیوں کی ہجو بن گئی۔
بیسویں صدی کے تیسرے عشرے میں عقاد، ہیکل، طہ حسین اور مازنی نے مغربی مفکرین کے تجزیے کے ساتھ مغرب کے تنقیدی و ادبی بحث و نظر قارئین سامنے پیش کرنا چاہا جس سے بعض روزناموں میں ادبی ضمیموں کا ظہور ہوا۔ ہیکل نے ہفت روزہ ‘‘السیاسة’’ اور عقاد کی الوفد پارٹی کے اخبار البلاغ نے ہفت روزہ ‘‘البلاغ’’ کا اجرا کیا جس سے ایک وسیع ادبی ارتقاء کا آغاز ہوا۔ ان مضمون نگاروں نے اچھے مضامین یکجا کر کے کتاب کی شکل میں شائع کرنا شروع کیا۔ عقاد نے کئی کتابیں ‘‘مراجعات في الفنون والآداب، مطالعات في الکتب والحیاة، الفصول’’ کے عنوان سے شائع کیں اور بہت سارے یورپی افکاروخیالات کو جن سےعربی زبان وادب ناآشناتھے اپنے خاص مزاج اور آہنگ میں ڈھال کرعربی میں منتقل کیا۔
صدقی پاشا کے دور حکومت (1931ء ۔ 1934ء ) مصر ایک استبدادی عہد میں داخل ہوا۔ دستور اور پارلیمانی نظام کو تحلیل کر دینے کی وجہ سے تمام پارٹیوں اور جماعتوں کے ادباء جن میں عقاد سرفہرست ہے برانگیختہ ہوگئے عقاد نے ‘‘الحکم المطلق في القرن العشرین’’ (بیسویں صدی کی مطلق العنان حکومت) کے نام سے ایک کتاب لکھی جو مشرقی قوموں میں جمہوریت کی ضرورت سےمتعلق بڑی عمدہ کتاب ہے۔ اس کتاب کے بعض مضامین میں سرکش و ظالم بادشاہ فواد کا ذکر کرنے کی وجہ سے عقاد پر مقدمہ قائم کیا گیا اور نو ماہ کے لیے اس کی سزا ہوگئی۔
جیل میں اس نے جیل ‘‘عالم السجون والقیود’’ (جیل کی دنیا) کے عنوان سے ایک کتاب لکھی اور جیل سے نکلنے کے بعد ‘‘المقتطف اور الہلال’’ میں شائع شدہ مضامین کے علاوہ اپنا دیوان ‘‘وحي الأربعین، شعراء مصر وبئاتهم في الجیل الماضي’’ (عہد ماضی میں مصری شعراء اور ان کا معاشرہ) اور ابن الرومی سے متعلق ایک دوسری کتاب نیز ایک کہانی ‘‘سارة’’ اور ایک دوسرا دیوان ‘‘هدیة الکروان’’ شائع کیے۔
جب نقراشی اور احمد ماہر ‘‘حزب الوفد’’ سے نکل گئے تو عقاد نے بھی ان کا ساتھ دیا اور ‘‘جریدة الأساس’’ کے بند ہونے تک اس میں لکھتا رہا۔ ‘‘مجلس الشیوخ’’ (سینٹ ) اور ‘‘مجمع اللغة العربیة’’ کا ممبر مقرر کیا گیا اور اس نے اپنی علمی سرگرمیاں جاری رکھتے ہوئے چند شعری مجموعے ‘‘عابرسبیل’’ (راستے کا عبور کرنے والا یعنی مسافر ) ‘‘أعاصیر مغرب’’ (مغربی آندھیاں ) اور ‘‘بعد الأعاصیر’’ (آندھیوں کے بعد) شائع کیے۔
1934ء کے اوائل میں عقادنے قومی ترانہ لکھا اس تر انہ کے منظر عام پر آنے کے بعد مصر کے بڑے بڑے ادبا نے اکٹھا ہوکر عقاد کے اعجاز وتکریم میں ایک جلسہ کا انعقاد کیا۔ اس موقع پر ڈاکٹرطہ حسین نے جلسہ کو خطاب کرتے ہوئے اپنے تاثرات کا اظہار ان الفاظ میں کیا: ‘‘اگر آپ لوگ مجھ سے یہ پوچھیں کہ جدید شاعری کے میدان میں میں کیوں عقادکی انفرادیت کا قائل ہوں؟ تو میرا سیدھاسادھا جواب یہ ہوگا کہ عقاد کے یہاں جو چیز میں پاتا ہوں دیگر شعراء کے یہاں نہیں پاتا۔ اگر آپ اجازت دیں تو میں یہ کہوں کی کہ ‘‘عقاد کے یہاں میں وہ چیز نہیں پاتا جو دیگر شعراء کے یہاں پاتا ہوں کیونکہ جب میں عقاد کے اشعار سنتا ہوں یا جب تنہائی میں ان میں غور و فکر کرتا ہوں تو ایسا لگتا ہے کہ میں اپنی شاعری سن رہا ہوں اور وہ میرے دل کی بات کر رہے ہیں۔’’ (حیاۃ قلم ص 15)
عقاد تذکرہ اور سیرت نگاری کی طرف مائل ہوا تو ‘‘محمد’’ صلی اللہ علیہ وسلم اور ‘‘المسیح’’ علیہ السلام کے علاوہ خلفائے رسول ابوبکر و عمر و عثمان و علی و اصحاب رسول خالد و بلال (رضی اللہ عنہم) و صحابیات عائشہ و فاطمہ (رضی اللہ عنہما) کے بارے میں بھی کتابیں لکھیں۔ دیگر میدانوں میں بھی اسکا اشہب قلم سر پٹ دوڑتا رہا۔ کبھی وہ مغربی و اسلامی فلاسفہ کے بارے میں قلم اٹھاتا تو کبھی عام موضوعات پر ‘‘عقائد المفکرین في القرن العشرین’’ (بیسویں صدی کے مفکرین کے عقائد و نظریات) جیسی کتابیں لکھتا۔ اس کی شاندار کتابوں میں ایک ‘‘الله’’ بھی ہے۔ دیگر کتابوں میں ‘‘ابلیس’’ اور ‘‘أبونواس’’ بھی قابل ذکر ہیں۔ اس کی تالیفات کی تعداد 60 تک پہنچتی ہیں اور ساری کتابیں فکری تازگی سےمعمور و ممتاز ہوتی ہیں۔
عقاد کی نثر پر ایک جامع تبصرہ
اس میں شک نہیں کی عقاد جدیدنثری کارواں کا ایک ایسا ادیب ہے جس کے ذریعہ ہماری نسل کو فصیح و بلیغ اسلوب میں معانی و مفاہیم کی ادائیگی پر عظیم الشان کامیابی حاصل ہوئی، اس کے اسلوب میں پختگی اور ایسی باریکی تھی جس سے قاری کو عقاد کے وجود کا احساس ہوتا ہے۔ کیونکہ اسے معلوم تھا کہ جملوں کی تخلیق کس طرح کی جائے، ان کے درمیان ہم آہنگی کس طرح پیدا کی جائے کہ قاری کو لطف حاصل ہو ۔بیسویں صدی کی ابتداءمیں عقاد نے جب سے مضامین لکھنا شروع کیا فصیح و بلیغ اسلوب اس کاطرۂ امتیاز رہا۔ اس سے معلوم ہوتا ہے کہ اسے عربی ادبیات کی ایسی گہری واقفیت تھی جس کے ذریعہ اس نے ایسے اچھوتے اسلوب کی تخلیق کی جس کا ہر لفظ فصیح، مانوس ومحکم اورمضبوط ترکیب وترتیب میں پرویا ہوا معلوم ہوتا ہے۔
عقاد نے نہ صرف عربی بلکہ مغربی ادبیات کی بھی دقیق ترجمانی کرتے ہوئے معانی و مطالب کے ایسے وسیع وعریض خزانوں تک رسائی حاصل کرلی تھی جوصرف مغربی ادب سے مستعار نہ تھے بلکہ ان میں اپنے ملکہ اور قدرت کا خاص رنگ بھرکر اپنا بنالیا تھا اور ان پر اپنی تخلیق کی مہرثبت کردی تھی مختلف ادبیات اور علوم سے واقفیت کے باوجود اس نے اپنی فکری شناخت قائم کرلی تھیں اور اپنی فکر میں ڈوب کربہت سارےآراء ونظریات اور خواطر کے گوہرنکالے۔
سیاست و ادب، فلسفہ و تنقید، سماجیات وشخصیات کےتجزیاتی موضوعات پرتحریرکردہ عقاد کے مضامین کا مطالعہ کریں تو اس کی فکری زرخیزی سے آپ دنگ رہ جائیں گے۔ وہ اپنی استنباطانہ اورخلاقانہ ذہن کے ذریعہ اپنے افکار کو ایسے اسلوب میں ڈھالتا ہے کہ وہ ایک چھوٹے اورمحدودبیج سےمنتقل ہوکر ایک عظیم سایہ دار درخت کی شکل اختیار کر لیتا ہے۔ یہ حقیقت ہے کہ عقاد کے یہاں مشکل پسندی بھی نظر آتی ہے مگر وہ ایسی مشکل پسندی اور صعوبت نہیں جو فکر و خیال کے غموض و ابہام سے تخلیق پاتی ہے بلکہ وہ فکروخیال میں تعمق وتبحر سے تخلیق پاتی ہے۔ اسی لئے عقاد کی فکری گہرائیوں کی شناوری کرنے سے فکر و شعور کو ایک لطف حاصل ہوتا ہے۔ عقاد کی نثر کے بعض گوشے غورو فکر اور ٹھہرٹھہرکر پڑھنے کا تقاضا کرتے ہیں تاکہ آپ کو ایسی حقیقی لذت کا ادراک و احساس ہو جو اس کی فکر و خیال کی لطافت اور گہرائی سے نہیں بلکہ اس کی تحریروں کے منطقی استدلال سے وجود پذیر ہوتی ہے اور قاری کی زمام عقل کو اپنی گرفت میں لے لیتی ہے، اسے اپنا اسیر بنا لیتی ہے اور قاری ان کی قطعی دلیلوں کا قائل ہو جاتا ہے۔ اسی لیے اگرعقاداپنی کسی فکر یا رائے کا دفاع کرتا ہے تو اس کی دلیلوں اور منطقی طرز استدلال کے درمیان گہرا ربط ہونے کی وجہ سے اس میں اسے کامیابی حاصل ہوتی ہے۔
زندگی اور ادبی نظریات سے متعلق عقاد کے ٹھوس موقف نے اسے امتیاز و اہمیت عطا کی۔ کیونکہ وہ اپنے نظریے اور فکر کو ایسے ٹھوس اسلوب میں تعمیر کرتا ہے جیسے وہ اپنے لیے کوئی قلعہ تعمیر کر رہا ہو جس میں وہ سکونت پذیر ہو اور ایک بہادر عربی کی مانند اس کی عزت و ناموس کی پاسبانی کرتا ہو۔ آپ کو حیرت ہوگی کہ وہ ہمیشہ ہی اپنی وطنیت اورعربیت پر یقین کامل اور ایمان راسخ کا اعلان کرتا ہے۔اور اپنی ذات کی گہرائیوں سے اس بات کا ادراک و احساس کرتا ہے کہ اس کی زندگی اس کی قوم کی زندگی سے عبارت ہے، اس کی قوم کی زندگی ہر وقت اس کے مرکز نظر رہتی ہے اور لحظہ بھر کے لیے بھی وہ اس سے غافل نہیں ہوتا بلکہ یہی وہ شئ ہے جوسیاسی واقعات ومسائل کی بیکرانی اور ماضی کی عظمتوں پر افتخار و اعزاز کے وقت اس کے احساسات و ادراک کا دائمی و روحانی سرچشمہ بن کر جلوہ گرہوتی ہے۔ عقاد کی ادبی خدمات کے اعتراف میں 1960 میں اسے ملک کے توصیفی ایوارڈ سےبھی سرفراز کیا گیا۔ عقادکی وفات 12 ؍مارچ 1964ء کو ہوئی۔
شاعری
عقاد ایسا ادیب وشاعر ہے جس کی شعری وادبی شخصیت کی تشکیل میں مختلف عناصر نے حصہ لیا۔وہ ایک ایسا مصری النسل تھاجو مصریوں کی عظمتوں کا اپنے دل وضمیر کی گہرائیوں سے ادراک کرتاتھا۔وہ ایک ایسا عربی تھا جس نے عربی زبان کے فلسفہ وتصوف کی امہات الکتب کا بغور مطالعہ کیا تھا۔ وہ ایک ایسا مغربی مفکر تھا جس نے مغربی ادبیات سے اپنی فکر کو غذا فراہم کی تھی۔ انگریزی زبان پر جسے مکمل عبور حاصل تھا اور انگریزی ادب کے علاوہ مغربی ادبیات اور تنقیدی شہ پاروں کا جس نے غائر مطالعہ کیا تھا۔
یہ بات معلوم ہے کہ اس نے اپنی اعلی تعلیم مکمل نہیں کی بلکہ بمطالعٔہ خود اس نے اپنے آپ کو علم و ادب کی راہ پر لگایا مختلف شعراء کے شعری شہ پاروں میں تدبر وتفکر نے اس کی صلاحیتوں کو جگایا۔
چار حصوں پر مشتمل اس کے پہلے اور آخری دیوان ‘‘بعدالأعاصیر’’ (آندھیوں کے بعد) میں ایک ہی اسلوب اور ایک ہی شخصیت کی نمود ہوتی ہے۔ پہلے دیوان میں ابن الرومی کے طرزو آہنگ میں تخلیق کردہ قصیدۂ نونیہ اور ابن الفارض کے اسلوب میں لکھا ہوا قصیدۂ خمریہ بھی ہے۔ مگر ابن الرومی کا طرز وآہنگ ہی عقاد کی قنوطیت زدہ ادبی جماعت کے مزاج سے ہم آہنگ تھا۔ اسی لیے شاید اس نے ابن الرومی پر ایک کتاب بھی لکھی۔ عقاد اسے اپنی شعری زندگی کے آغاز ہی سے پسند کرتا تھا۔ بلکہ اس پرفریفتہ تھا کیونکہ ابن الرومی کی شاعری میں حزن و ملال زمانے اور لوگوں سے شکوے کے وہی نغمے سنائی دیتے ہیں جو عقاد کے مکتبہ فکر کو محبوب تھے۔ مگر اس کامطلب یہ بھی نہیں کہ وہ بحیثیت شاعرصرف ابن الرومی کی زمین میں شاعری کا اہتمام کرتا تھا اور صرف اسی کے شعری آہنگ میں اپنی شاعری کے نگینے جڑتا تھا جیسا کہ شوقی کے یہاں بحتری کے معارضے کااہتمام پایا جاتا ہے۔بلکہ عقاد اپنی شاعری اور اپنے اسلوب میں ابن الرومی وغیرہ سے اسی طرح علیحدہ نظر آتا ہے جس طرح خلیل مطران عربی شعراء سے آزاد اور علیحدہ نظر آتا ہے۔عقاد خلیل مطران کی مانند کلاسیکی اسلوب اور آہنگ کااحاطہ تو کرتا ہے لیکن اس میں فنا نہیں ہوتا، نہ ہی روایتی سانچوں میں اپنے اسلوب کی تخلیق کرتا ہے۔ اس کے لیے یہی کافی ہے کہ اس نے کلاسیکیت اور روایت کا دامن ہاتھ سے نہیں چھوڑا بلکہ اسے اپنی ملکیت بنا کر اپنی شخصیت اور صلاحیت و قدرت کے مطابق اس کا ایسا استعمال کیا جس میں کلاسیکیت کی اتباع اور تقلید کا دخل کم ہے۔
عقاد ایک ایسا ادیب ہے جس کے ادب کی اساس فصاحت و بلاغت زور بیاں اورفصیح الفاظ کے استعمال پرقائم ہے۔ مگرکبھی کبھی وہ نامانوس الفاظ کے استعمال میں بھی حرج محسوس نہیں کرتا۔ لیکن اس نامانوسیت کا دائرہ بڑا محدود تھا۔ وہ الفاظ وعروض میں جدت کے بجائے معانی میں جدت کا قائل تھا۔ اور اسی چیز نے اس کی جدید شاعری کو ایسا خاص اسلوب عطا کیا جو قدیم آہنگ سے خارج نہیں بلکہ اس میں وسعت دےکر اسے اپنی جدید تجربات کے قابل بنا لیتا ہے۔ وہ قنوطیت ویاسیت سے دوچار ہوتا ہےمگررجائیت کے ساتھ۔ایسی رجائیت جو زندگی میں تمرد پر نہیں بلکہ اکثر و بیشتر زندگی کی نعمتوں اور لذتوں سے انبساط ومسرت پرختم ہوتی ہے۔
سب سے اہم شئ جس سے عقاد کو امتیاز حاصل ہوتا ہے وہ ہے اس کا مغربی افکار کا احاطہ کرنا جس کا وہ اپنے پہلے ہی دیوان سے اعلان کرتا ہے۔ پہلے دیوان کا چوتھا قصیدہ ‘‘فینوس علی جثة أدونیس’’ شکسپئر کے قصیدے کی تعریب ہے۔ اسی دیوان میں وہ قطعہ بھی ہے جورومیوجولیٹ کے ڈرامے کا ترجمہ ہے۔ اس کے علاوہ اس نے انگریزی شاعر کوپر (Cooper) کے ایک قطعہ کا ترجمہ ‘‘الوردة’’ (گلاب کا پھول) سے اور پوپ (Pope) کے ایک قطعے کا ترجمہ ‘‘القدر’’ (مقدر) کے عنوان سے کیا ہے۔
عقاد نے عربی اور مغربی دونوں ثقافتوں سےخود کوآزاد کرکے اپنی شخصیت اور اس جدید مصری روح کی تشکیل کی جو فرعونی آثار قدیمہ، قدیم مصری تہذیب کی تعظیم اور سیاسی و وطنی جذبات سے عبارت ہے۔ فرعونی آثار کی بہترین ترجمانی اس کے دو قصیدوں ‘‘أنس الوجود’’ اور ‘‘تمثال رمسیس’’ (رمسیس یعنی فرعون) کا مجسمی سے ہوتی ہے۔ جبکہ قصیدۂ ‘‘یوم معاد’’ (روز محشر) سے سیاسی وقومی جذبات کی عکاسی ہوتی ہے۔ اس قصیدہ کی تخلیق اس نے سعد زغلول کی جلاوطنی سے واپسی پر کی تھی ۔
عقاد کے پہلے دیوان میں جو چیز اسے ممتاز بناتی ہے وہ ہے اس کے قصیدے کے ابیات میں مکمل وحدت اور ہم آہنگی کاپایا جانا۔ اس کےقصیدے مختلف موضوعات کے درمیان بکھرے ہوئے نظر نہیں آتے بلکہ ان کے درمیان مکمل وحدت اور ارتباط جھلکتا ہے اور قصیدہ کے ہر شعر کو ایک خاص مقام اور خاص جگہ حاصل ہوتی ہے کہ وہاں سے اسے ہٹایا نہیں جاسکتا۔ ہر شعر قصیدے کا ایک جز و لاینفک اور جسدواحد کےایک ایسےعضو کی حیثیت اختیار کر لیتا ہے جسے دوسری جگہ منتقل کرنا مشکل ہوتا ہے۔
جدت آفرینی کے اس تجربے میں عقاد کوصرف اسی ایک چیز سے امتیاز حاصل نہیں ہوتا بلکہ مغربی ادب کی گہری واقفیت ہو نے کی وجہ سے اس نے قصیدے کی عام اساس کو نمو بخشا۔ عام اساس سے مقصود لفظیات نہیں بلکہ معنوی اساس اور اس کےاشعار میں پائے جانے والے وہ عقلی تأملات ہیں جنہیں وہ منطق کے سہارے اپنے گرد و پیش کی ہر شے پر مسلط کرتا ہے۔
محبت وفطرت کو اس کے پہلے دیوان کے چاروں حصوں میں ایک نمایاں مقام حاصل ہے۔ محبت کے موضوعات میں عقاداپنے داخلی محسوسات وشعور کا دقیق اظہار کرتاہے ۔ اس موضوع پر ‘‘نفثة’’ کے عنوان سے لکھا ہوا قصیدہ سب سے شاندار ہے ۔ ‘‘مولد الحب’’ اور ‘‘موت الحب’’ جیسے دو قصیدوں میں عقاد نے محبت کی ابتداء اور سرعت زوال محبت کے درمیان بڑا پر لطف موازنہ کیاہے۔
اس کےدیوان نے فطرت کے موضوع کا بڑا وسیع احاطہ کیا ہے خواہ ان کا تعلق فطرت متحرکہ سے ہو یا فطرت غیر متحرکہ سے ۔ دریائے نیل کے بارے میں اس نے بہت سے قصیدے لکھے جن میں سب سے اہم قصیدہ ‘‘علی النیل’’ (دریائے نیل پر) ہے۔ رات کے بارے میں بھی اس نے بہت سے اشعار کہے۔ صحرا کے متعلق اس کا ایک نادر اور چھوتا قصیدہ ہے۔ دریا کے بارے میں بھی مختلف قصیدے اس کے دیوان میں شامل ہیں۔ چاند کے حسن و جمال سےوہ بہت سے زندہ جذبات کی تخلیق کرتا ہے، موسم کی تصویر کشی کرتا ہے پھولوں میں خاص طور سے گلاب کے پھول سے اسے محبت اور گرویدگی ہے۔ پرندوں کی دنیا کی بھی سیر کرتے ہوئے انھیں رحم اور محبت و شفقت سے معمور کر دیتا ہے۔ ان تمام موضوعات میں وہ اپنے خیالات کے ذریعہ وسیع عقلی تأملات اور شعور و احساسات کی آخری حدوں تک پرواز کرتا ہے ۔ اس کے اشعار مزاج اور دقیق فلسفی افکار سےبھی خالی نہیں ہوتے۔ قصیدۂ ‘‘ثقیل’’ میں مزاح اور ‘‘الدنیا المیتة’’ نیز ‘‘الموسیقي’’ میں فلسفیانہ افکار کی بازگشت سنائی دیتی ہے۔
چار اجزاء پرمشتمل اس کے پہلے دیوان سے لے کربعد کے سارے دواوین میں اسی آواز کا غلبہ ہے۔ ‘‘وحي الأربعین’’ میں زیادہ تر زندگی کی حقیقتوں کے بارے میں غور و فکر اور محبت و فطرت کے متعلق احساسات ہیں۔ ‘‘هدیة الکروان’’ میں متعدد قصیدے مصری پرندے کروان کے بارے میں نظم کئے گئے ہیں ۔ جو وادیٔ نیل کی راتوں کو اپنی شیریں نغموں اور حزین آواز سے معمور کرتا رہتا ہے۔ ان میں سرِفہرست وہ قصیدہ ہے جس کا مطلع ہے۔
هل یسمعون صدی الکروان
صوتایرفرف في الهزیع الثاني
یہ قصیدہ پہلے دیوان میں شامل ہے بلکہ اسی قصیدہ سے اس کے دیوان کا پہلا حصہ شروع ہوتا ہے کیونکہ یہی وہ سر چشمہ ہے جس سے عقاد نے اپنے نغموں کی تشکیل کی ہے۔ بلاشبہ عقائد نے انگریزی شاعر شیلے کے قصیدہ ’’إلیٰ قبرة‘‘ (۳) (قبرہ کے نام) سے اس قصیدے کے لیے خوشہ چینی کی ہے مگر وہ اس میں شیلے کی نقالی نہیں کرتا بلکہ صرف اس سے استفادہ کرتا ہے۔ اس کے علاوہ عقاد کے قصیدوں میں تمام معانی ومطالب اسکے اپنے تخلیق کردہ ہیں۔ بلاشبہ عقاد کے جملہ قصائد میں مغربی ادبیات کے مطالعے کے اثرات ضرور پائے جاتے ہیں۔ لیکن ان میں عقاد کی شخصیت کی چھاپ ہے۔ اس کے افکار و خیالات نے انہیں خالص مصری مزاج وآہنگ عطاکر دیا ہے۔
اس نے یہ ملاحظہ کیا ہے کہ پہلی جنگ عظیم کے بعد مغرب میں ایک نئے رجحان کا ظہور ہوا اور بعض شعراء محبت وفطرت اور قدیم میتھولوجی سے اعراض کرتے ہوئے شہری زندگی کی سمت مائل ہوئے او ر معمولی وروز مرہ کی اشیاء کو بھی ایسا شعری پیکر عطا کرناشروع کیاجو حسن وجمال اورجاہ وجلال میں محبت وفطرت کی شاعری سے بالکل کم تر نہ تھے ۔ ‘‘عابر سبیل’’ میں عقاد ہمیں اسی شاہراہ کا مسافر نظرآتا ہے ۔ اس نے روز مرہ کے موضوعات کو اپنے تخیلات وتاملات کی چادر میں لپیٹ کر شاعری کے خیمے میں داخل کیاجیسا کہ قصیدہ ‘‘کواءالثیاب لیلة الأحد’’ (اتوار کی شب کپڑا پریس کرنے والا، یعنی دھوبی) سے معلوم ہوتا ہے ۔
اس جدید رجحان کی ترجمانی کرنے والے اور قاری پر فی الواقع اثرانداز ہونے والے قصیدوں میں ‘‘صورة الحي في الأذان’’ (اذان کے وقت محلے کامنظر ) اور ‘‘نداء الباعة قبل انصرافهم في الساعةالثامنة’’ (آٹھ بجے شب اپنے اپنے گھر لوٹنے سے قبل پھیری لگانے والوں کی آواز) ہیں۔ ان کے علاوہ دیگر قصیدوں کی بھی گونج سنائی دیتی ہے جن میں سب سے شاندار قصیدہ وہ ہےجس میں اس نے مزدوروں کےلیےقائم کیے گئےمرکز ‘‘دار العمال’’ کا خیر مقدم کیا ہے اور ان پر مالداروں کےظلم وستم کی نوحہ گری کی ہے جبکہ وہ اپنے ہاتھوں سے محنت کرکے اپنے پسینے کی کمائی کھاتے ہیں۔ دوسری جنگ عظیم کے دوران عقاد نے‘‘أعاصیر مغرب’’ (مغرب کی آندھیاں ) کے عنوان سے ایک دیوان شائع کیا۔ اس عنوان سے اس نے اس بات کی طرف اشارہ کیا ہے کہ ایسے حالات میں جب کہ پوری دنیا جنگ کی آندھیوں میں محصور ہے،وہ محبت وغیرہ کی آندھیوں سے بے چین ومضطرب ہے۔ اس دیوان میں بہت سے مرثیے اور خاص تقریبات پر تخلیق کردہ اشعار بھی شامل ہیں۔ تقریبات پر کہے گئے اشعار میں سے سب سے شاندار قصیدہ ریڈیو کے بارے میں ہے جس کا عنوان ‘‘صداح الأثیر’’ ہے اور اس کا مطلع ہے۔
ملأ الآفاق صداح الأثیر
لا فضار الیوم بل صوت ونور
عقاد کا سب سے آخری دیوان ‘‘بعد الأعاصیر’’ ہےاس کے اکثر قصائد کا تعلق مرثیوں اور خاص تقریبات سے ہے۔اس میں عقاد نے اپنےدوست مازنی کے بارے میں ایک اچھوتا مضمون اور مرثیہ شامل کیا ہے۔
خلاصہ کلام: یہ کہ عقاد ہماری جدید شعری دنیا کا بہت ہی عظیم سپوت ہے۔ اس کی جدید شاعری میں کسی اور شاعر سے زیادہ اصالت اور (Originality) پائی جاتی ہے۔ اس کی جدت آفرینی عربی ومغربی ادبیات کے مکمل احاطے اور ایسی جدید شاعری کی تخلیق پر قائم ہے جس میں اس کی روح قومیت اور تشخص سبھی جلوہ گر نظر آتے ہیں۔
گذشتہ صفحات میں عقاد کی بیشتر تالیفات کا ذکرمتفرق طور پر آیا ہے۔ افادۂ مزید کے لیے آئندہ صفحات میں ان کو یکجا ذکرکیا جارہا ہے۔
دارالکتاب العربی (بیروت ) نے ‘‘موسوعة عباس محمود العقاد’’ ( انسائیکلوپیڈیا آف عباس محمود العقاد )کےنام سے اس کی بیشتر تحریروں کو پانچ جلدوں میں شائع کیا ہے سن طباعت 1970-1971 عیسوی ہے۔ اس موسوعہ کے تفصیل کچھ اس طرح ہیں ۔
پہلی جلد عقیدۂ توحید و انبیاء (علیہم السلام) سے متعلق ہے۔ 892 صفحات پر مشتمل اس پہلے حصے میں چار کتابیں جمع کی گئی ہیں (1) الله (2) ابراهیم ابو الأنبیاء (3) عبقرية المسیح (4) مطلع النور ۔
دوسری جلد ‘‘العبقریات الإسلامیة’’ کے عنوان سے ہے، جس میں چھ کتابیں شامل اشاعت ہیں۔ تعداد صفحات 992 ہے۔ (1) عبقریة محمد ( صلی اللہ علیہ وسلم) (2) عبقریة الصدیق (3) عبقریة عمر (4) عبقریة عثمان ذی النورین (5) عبقریة علي (6) عبقریة خالد (رضی اللہ عنہم اجمعین )۔
تیسری جلد ‘‘شخصیات إسلامیہ’’ کے عنوان سے ہے۔ 866 صفحات پرمشتمل اس جلد میں اسلام کی چھ عظیم شخصیات کے تراجم ہیں۔
(۱) فاطمة الزهراء والفاطمیون (۲) الحسین بن علي أبو الشهداء (۳) عائشة الصدیقة بنت الصدیق (۴) عمرو بن العاص (۵) معاویة بن أبي سفیان (۶) داعی السماء بلال (رضی اللہ عنہم أجمعین )
چوتھی جلد کا عنوان ‘‘القرآن والإنسان’’ تعداد صفحات 815 اور تعداد کتب چھ ہے:
(۱) الفلسفة القرآنیة (۲) الانسان في القرآن (۳) المرأة في القرآن (۴) الإسلام في القرن العشرین (۵) الإسلام والمسلمون في القرن التاسع عشر (۶) الدیمقراطیة في الإسلام ۔
پانچویں جلد کا عنوان ‘‘بحوث إسلامیات’’ ہے۔ اس کے کل صفحات 978 ہیں،جلد میں چار کتابیں ہیں:
(۱) حقائق الإسلام وأباطیل خصومه (۲) مایقال عن الإسلام (۳) الشیوعیة والإنسانیة في شریعة الإسلام (۴) التفکیر فریضة الإسلامیة ۔
دار الکتاب العربی نےعقادکی بعض دیگر کتابیں بھی شائع کی ہیں۔ مثلا:
الإسلام دعوة عالمیة (ص ۲۵۳) ا
عبقری الإصلاح والتعلیم الإمام محمد عبده (ص ۲۲۰)۔
اسی طرح دارالمعارف (مصر ) نے ‘‘اقراء’’ نام سے کتابوں کی اشاعت کا سلسلہ شروع کیا جس میں عقاد نے شرکت کرتے ہوئے درج ذیل کتابیں تالیف کیں :
(۱) شاعرالغزل عمر بن أبي ربیعة
(۲) جمیل بئسینة (ص ۱۴۳)
(۳) في بیتي (ص ۱۲۵)
(۴) الشیخ الرئیس ابن سینا
(۵) برنادشو
(Bernard Shaw) (۶) فلاسفة الحکیم في العصر الحدیث
(۷) سارة (3) ( ص ۱۶۶)
عقادکے دیگر ۱۹ تالیفات جنہیں مختلف مطابع نےشائع کیا ہے ۔یہ ہیں:
(۱) حیاة قلم (ص ۳۴۱)
(۲) أنا (۴)(ص۳۴۲)
(۳) آراء في الأدب والفنون ( ص۳۶۴)
(۴) أفیون الشب (ص ۱۴۴)
(۵) شعراء مصر وبیئاتهم في الجیل الماضي (ص۱۵۹)
(۶) هذه الشجرة (ص ۸۲)
(۷) یومیات ( ص ۴۴۶)
(۸) جحا اتضاحک المضحك ( ۱۹۲)
(۹) أبونواس ( ص۲۰۵)
(۱۰) ابن الرومي وحیاته من شعره ( ص۳۵۳)
(۱۱) أثر العرب في الحضارة الأوروبیة
(۱۲) سن یاتسن أبوالحصین
(Sun yat sen) (۱۳) فرانسیس بینکون
(Lard Francis Bacon) (۱۴) بنجامن فرانکلین مشهور امریکی وطني (Benjamin Franklin) (ص۲۳۴)
(۱۵) یسأ لونك
(۱۶) هتلر في میزان
(۱۷) ابلیس
(۱۸) عید القلم (ص ۳۰۴)
(۱۹) ردود وحدود (ص ۳۷۰) ۔
عقاد کا پہلادیوان 1916ء میں شائع ہوا۔ اس کے بعد 350 صفحات پر مشتمل اس کے چار دیوانوں کا مجموعہ بنام ‘‘دیوان العقاد ’’ 1928 ء میں شائع ہوا۔ ان چاروں کے نام یہ ہیں:(۱) وهج الظهیرة
(۲) أشباه الأصیل
(3)یقظة الصباح
(4)أشجان اللیل ۔
اس کے بعد اس کے دیگر جن دواوین کی اشاعت عمل میں آئی وہ یہ ہیں:
(۱) وحي الأربعین
(۲) هدیة الکروان
(۳) عابر سبیل (ط:۱۹۳۷ ء)
(۴) أعاصیر مغرب
(۵) سب سے آخر میں شائع ہونے والا دیوان بعد الأعاصیر ہے ۔
اس کی نثر کا نمونہ
اپنی کتاب ‘‘عبقریة محمدصلی الله علیه وسلم’’ میں ‘‘رجل’’ کے عنوان سے لکھتا ہے:
عالم یتطلع إلیٰ بیتي .. وأمة تتطلع إلیٰ نبي ، ومدینة تتطلع إلیٰ نبي ،وقبلیة وبیت وأبوان أصلح مایکونون لإنجاب ذلك النبي .
ثم ماهو ذارجل لایشركه رجل آخر في صفاته ومقدماته ،ولایدینه رجل آخر في مناقبه الفضلیٰ التي هیأته لتلك الرسالة الروحیة المأمولة في المدینة .. وفي الجزیرة ، وفي العالم بالأسرة.
نبیل .. عریق النسب .. ولیس بالوضیع الخامل ،فیصفر قدرته في أمة الأنساب والأحساب ..
فقیر.. ولیس بالغني المترف ، فبطغیه بأ س النبلاء، والأغنیاء ،ویغلق قلبه مایغلق القلوب من حشع القوة والیسار .
یتیم بین رحماء……..فلیس هو بالمدلل الذي یقتل فیه التدلیل ملکة الجد والإرادة، والاستقلال،ولیس هو بالمهجور المنبوذ الذي تقتل فیه القسوة روح الأمل ، وعزةالنفس ، وسلیقة الطرح ، وفضیلة العطف علی الآخرین .
خبیر بکل مایختبره العرب من ضروب العیش في البادیة والحاضرة .. تربی في الصحراء وأریف المدینة ،ورعی القطعان ،واشتغل بالتجارة ،شهد العرب والأحلاف ، واقترب من السراة ،ولم یبتعل من الفقراء.
فهو خلاصة الکفایة العربیة في خیر ماتکون علیه الکفایة العربیة ..
وهوعلی صلة بالدنیا التي أحاطت بقومه ..فلاهو یجهلها فیغفل عنها،ولاهو یغامسهاکل المغامسة فیغرق في لجتها.
أصلح رجل من أصلح بیت في أصلح زمان لرسالة النجاةالمرقوبة ، علی غیرعلم من الدنیا التي ترقبها.
ذلك محمد بن عبدالله علیه الصلاة والسلام .
قد ظهر والمدینة (۵) مهیأة لظهوره، لأنهامحتاجة إلیه، والجزيرة مھیأة لظھوره لأنھا محتاجة إليه والدنیا مهیأة لظهوره لأنهامحتاجة إلیه، وماذا من علامات الرسالة أصدق من هذه العلامة ؟.. وماذا من تدبیر المقادیرأصدق من هذا التدبیر؟.. وماذامن أساطیر المخترعین للأساطیر أعجب من هذا الواقع ومن هذاالتوفیق؟.. علامات الرسالة الصادقة هی عقیدة تحتاج إلیها الأمة ، وهی أسباب تتمهد لظهوره ، وهی رجل یضطلع (۶) بأمانتها في أوانها..
فإذا تجمعت هذه العلامات ، فماذا یاجئناإلیٰ علامة غیرها؟.. وإذا تعذر علیها أن تجتمع فأي علامة غیرهاتنوب عنها أوتعوض مانقص منها؟
خلق محمد بن عبدالله لیکون رسولا مبشرا بدین ،وإلافلأي شيء خلق ؟!.. ولأي عمل عن أعمال هذه الحیاة ترشحه کل هاتیك المقدمات والتوفیقات ، وکل هاتیك المناقب والصفات . (۷)
اس کی شاعری کا نمونہ
سعد زغلول کی جلاوطنی سے واپسی پر کہے گئے قصیدۂ ’’یوم المعاد ‘‘ (روزمحشر) کے چند اشعار ملاحظہ ہوں:
مایبتغ الشعب لا یدفعه مقتدر من الطغاة ولا یمنعه مغتصب
فالطلب نصیبك شعب النیل واسم له
وانظر بعینك ماذا یفعل الدأب
مابین أن تطلبوا المجدالمعدلکم وأن تنالوه إلا العزم والطلب
( عوام کو ان کے ارادوں سے نہ تو کوئی ظالم حکمران باز رکھ سکتا ہے، نہ ہی کوئی غاصب ان کی امنگوں پر قابو پا سکتا ہے۔ اے نیل کے بیٹو ! اپنا حق مانگو حوصلوں کو بلند رکھو اور پھر دیکھو کہ محنت کیا رنگ لاتی ہے، کیوں کی عزت اور عظمت کی تمہاری طلب اور انہیں حاصل کرلینے کے درمیان صرف عزم اور حوصلے کا فاصلہ ہے۔ )
جولائی۱۹۳۱ء میں نو ماہ کی قید سے رہائی کے بعد اس نے جو قصیدہ لکھا اس کے آخری تین اشعارملاحظہ ہوں:
وکنت جنین السجن تسعة أشهر فها أناذا في ساحة الخلد أولد
ففي کل یوم یولد المرء ذوالجحي
وفي کل یوم ذوالجهالة یلحد
عداتي وصحبي لا اختلاف علیهما
سیعهد ني کل کما کان یعهد
محبت کےمتعلق اسکے اچھوتے اشعار ملاحظہ ہوں:
لست أهواك للجمال وإن کان جمیلا ذاك المحیا العفیف
لست أهواك للذکاء وإن کان طریقا یصبوا إلیه الظریف
لست أهواك للخصال وإن رف علینا منهن ظل وریف
أنا أهواك (أنت ) فلا شيء سوی (أنت ) بالفؤاد یطیف
وإن حبا یاقلب بمنسیك جمال الجمیل حب ضعیف
اس کے عمدہ اشعار میں سے دو شعر یہ ہیں:
إذا صاحت الأطاع فاصبر فإنها تنام إذا طال الصباح علی النهم
وقهر الفتی آلامه فیه لذة وفي طاعة اللذات شيء من الألم
حواشی:
۱۔ أعلام النثر والشعر في العصر العربي الحدیث لمحمد یوسف کوکن ۳ ؍۲۴۹۔۳۲۱ ، و جدیدعربی أدب از ڈاکٹر شوقی ضیف (اردو ترجمہ) از ڈاکٹر شمس کمال انجم ص ۱۸۰۔۱۸۹، وتاریخ العربیة وآدابها لمحمد الفاروقي ومحمد إسماعیل المجددي ص ۱۶۹۔۱۷۱ ، والأدب العربي بین عرض ونقد لمحمد الرابع الحسني ص ۲۳۰
۲۔ ’’ قبرة ‘‘ ایک پرندہ ہے جسے شیلے نے اپنے قصیدے میں فرحت و انبساط مطلق سے تشبیہ دی ہے۔
۳۔ اس کے متعلق ڈاکٹرشوقی ضیف لکھتے ہیں : ’’سارہ ‘‘کے عنوان سے لکھاہوا عقاد کا یہ ناول مازنی کے ذوق سے قریب ہے اور منطقی تجزیات سے ممتاز ہوتاہے ۔ مگر اس میں نفسیاتی تجزے کا بھی امتزاج پایاجاتاہے اور دونوں تجزیات میں عقاد کی وہ شخصیت غالب ہے جومنطقی استدلال اور اسباب ونتائج اخذو اظہار میں مبالغہ سے کام لیتی ہے ۔ ( جدید عربی ادب ص ۲۵۶ ۔)
۴۔ حضرت الأستاذ علام ڈاکٹر مقتدی حسن ازہری رحمہ اللہ کے قلم سے اس کتاب کا انتہائی سلیس ترجمہ بنام ’’آپ بیتی‘‘ جامعہ سلفیہ سے شائع ہو چکا ہے ۔
۵۔ هی مکة المکرمة .
۶۔ یتحمل مسؤولیتها.
۷۔عبقریة محمد صلی الله علی وسلم ص ۲۵۔۲۶ ( ط، دارالیقین ۔ مصر المنصورة ۲۰۱۷ ء ۔ ۱۴۳۸ ھ)



آپ کے تبصرے