دین اسلام ایک آفاقی وعالمگیر مذہب ہے جس کی تعلیمات زمان ومکان کی قید کے بغیر تمام عالم انسانیت کے لیے قابل عمل ومفید ہیں کیوں کہ اسلام اعتدال پر مبنی انسانی فطرت کے مطابق ایک ایسا نظام حیات ودستورعبادت پیش کرتا ہے جو حقیقت دنیا اور فکر آخرت کا جامع ہے اور اس میں انسان کی دنیاوی فوزوفلاح کے ساتھ اخروی سعادت وکامرانی مضمر ہے۔
اعتدال کا مطلب دو متضاد انتہاؤں کے درمیان درمیانی راہ اختیار کرنا ہے ۔ اسلامی اعتدال کا مفہوم یہ ہے کہ اسلام اپنے متبعین وپیروکاروں کو دین ودنیا کے معاملہ میں افراط وتفریط، غلووتنقیص، تشدد و مداہنت، طرفداری وحق تلفی سے اجتناب کرنے کی تلقین کرتا ہے اور ہرمعاملہ میں اعتدال ووسطیت کی راہ اپنانے کی تاکید کرتا ہے ۔اعتدال امت محمدیہ کی شان منصبی اور طرۂ امتیاز ہے جیسا کہ اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے:
(وَکَذَلِکَ جَعَلْنَاکُمْ أُمَّۃً وَسَطاً لِّتَکُونُواْ شُہَدَاءَ عَلَی النَّاسِ وَیَکُونَ الرَّسُولُ عَلَیْْکُمْ شَہِیْداً) (سورۃ البقرۃ:۱۴۳)
“ہم نے اسی طرح تمھیں افضل امت بنایا ہے تاکہ تم لوگوں پر گواہ ہوجاؤ اور رسول تم پر گواہ ہوجائیں”-
اور اللہ تعالیٰ کے فرمان:
(یُرِیْدُ اللّٰہُ بِکُمُ الْیُسْرَ وَلاَ یُرِیْدُ بِکُمُ الْعُسْرَ) (سورۃ البقرۃ :۱۸۵)
“اللہ تعالیٰ تمھارے ساتھ آسانی کا ارادہ کرتا ہے اور تمھارے ساتھ تنگی کا ارادہ نہیں فرماتا” میں بھی اعتدال کا واضح اشارہ ہے۔ اور اس امت کو خیرامت سے ملقب کرنے میں بھی اعتدال کا عنصر نمایاں ہے نیز درحقیقت سورہ فاتحہ کی تلاوت میں
(اِہْدِنَا الصِّرَاطَ الْمُستَقِیْمَ* صِرَاطَ الَّذِیْنَ أَنعَمْتَ عَلَیْہِمْ غَیْرِ المَغْضُوبِ عَلَیْہِمْ وَلاَ الضَّالِّیْنَ) (سورۃ الفاتحۃ:۶-۷)
“ہمیں صراطِ مستقیم کی رہنمائی فرماجوان لوگوں کا راستہ ہے جن پر تیرا انعام ہوا ان لوگوں کے راستے کے علاوہ جن پر تیرا غضب ہوا اور نہ ہی ان لوگوں کا جو گمراہ ہوئے” کے ذریعہ ہم اللہ تعالیٰ سے راہ اعتدال کو ہی طلب کرتے ہیں۔
اسلامی اعتدال تمام اسلامی احکامات وفرامین کی خصوصیات میں سے ہے، اسلامی تعلیمات خواہ وہ ایمان وعقائد سے متعلق ہوں یا عبادات ومعاملات سے وابستہ ہوں سب کی سب اعتدال پر مبنی ہیں۔ عقائد وایمان کے باب میں اسلام ہمیں کسی ایسی چیز کے اعتقاد اور کسی ایسی بات پر ایمان لانے کا مکلف نہیں کرتا ہے جو امرواقع کے برخلاف ہو اور سلیم عقل وفطرت کے لیے ناقابل قبول ہو ۔ عبادات کی ادائیگی میں بھی اللہ تعالیٰ نے
(لاَ یُکَلِّفُ اللّٰہُ نَفْساً إِلاَّ وُسْعَہَا) (سورۃ البقرۃ:۲۸۶)
“اللہ تعالیٰ کسی نفس کو اس کی وسعت کے بقدر مکلف کرتا ہے” کے ذریعہ اعتدال ووسطیت کا ایک جامع سنہری اصول مقرر فرمادیا ہے ۔ اللہ تعالیٰ پر ایمان لانے کے بعد ارکان اسلام نماز، روزہ، حج وزکاۃ اور دیگر تمام واجبات وفرائض میں اعتدال کے پہلو کو پیش نظر رکھا گیا ہے ۔نفلی عبادات میں بھی اعتدال کی راہ اپنانے کی تاکید کے لیے نبی ﷺ نے اُن تین صحابۂ کرام کو سخت تنبیہ فرمائی جنھوں نے عائشہ رضی اللہ عنہا سے نبی ﷺ کی نفلی عبادات کی کیفیت دریافت کرنے کے بعد ایک نے پوری رات عبادت میں گزار دینے، دوسرے نے ہمیشہ روزہ رکھنے اور تیسرے نے شادی نہ کرنے کا عزام کرلیا تھا۔ آپ ﷺ نے اعتدال کی راہ کو واضح کرتے ہوئے ان سے فرمایا:
“وَاللّٰہِ إِنِّي لَأَخْشَاکُمْ لِلّٰہِ وَأَتْقَاکُمْ لَہُ لٰکِنْ أَصُومُ وَأُفْطِرُ وَأُصَلِّي وَأَرْقُدُ وَأَتَزَوَّجُ النِّسَاءَ فَمَنْ رَغِبَ عَنْ سُنَّتِي فَلَیْسَ مِنِّي” (صحیح البخاری:۵۰۶۳)
“اللہ کی قسم بے شک میں تم لوگوں میں اللہ سے سب سے زیادہ ڈرنے والا اور اللہ کے لیے تقویٰ اختیار کرنے والا ہوں لیکن میں روزہ رکھتا ہوں اور چھوڑتا ہوں (نفلی) نماز بھی پڑھتا ہوں اور سوتا ہوں اور عورتوں سے شادی کرتا ہوں توجو شخص میری سنت سے اعراض کرے وہ مجھ سے نہیں” حقوق اللہ کی انجام دہی کے ساتھ اپنے نفس، اہل وعیال اور دیگر حقوق کی تعیین میں بھی اعتدال کا حسین امتزاج ہے۔ معاملات اور دنیاداری میں بھی اصل اباحت کے اصول کو مقرر فرماکر اعتدال کو لازم پکڑنے کی شریعت نے ہمیں تاکید فرمائی ہے ۔قرآن نے جہاں فکر آخرت اور اس کی کامیابی کو حقیقی کامرانی قرار دیا ہے وہیں
(وَلَا تَنْسَ نَصِیْبَکَ مِنَ الدُّنْیَا) (سورۃ القصص:۷۷)
کے ذریعہ جائز دنیاوی امور کو اپنانے کی اجازت مرحمت فرمائی ہے اور دنیا سے بالکل لاتعلقی قائم کرکے رہبانیت اختیار کرنے سے منع فرمایا ہے ۔ خوردونوش کے باب میں بھی قرآن نے ہمیں
(کُلُواْ وَاشْرَبُواْ وَلاَ تُسْرِفُواْ) (سورۃ الاعراف:۳۱)
“کھاؤ اور پیو اور اسراف نہ کرو” کا اصول وضابطہ عطا کیا ہے ۔ اسی طرح اسلام نے بات چیت، چال ڈھال میں بھی اعتدال پر گامزن رہنے کی نصیحت کی ہے
(وَاقْصِدْ فِیْ مَشْیِکَ وَاغْضُضْ مِنْ صَوْتِکَ إِنَّ أَنکَرَ الْأَصْوَاتِ لَصَوْتُ الْحَمِیْرِ ) (سورۃ لقمان:۱۹)
“اپنی چال میں میانہ روی اختیار کرو اور اپنی آواز کو پست رکھو بے شک سب سے ناپسند آواز گدھے کی ہے۔”
دعوت وتبلیغ ،ارشاد واصلاح کی راہ میں بھی نبی ﷺ نے
“یَسِّرُوا وَلَاتُعَسِّرُوا وَبَشِّرُوا وَلَاتُنَفِّرُوا” (صحیح البخاری:۶۹)
(آسانی کرو اور مشقت نہ کرو ،بشارت دو اور نفرت نہ دلاؤ) کے ذریعہ اعتدال کی راہ پر چلنے کا حکم دیا ہے۔
اسلام جہاں اعتدال کو اپنانے کا حکم دیتا ہے وہیں بے اعتدالی سے ہمیں منع بھی کرتا ہے اور بے اعتدالی کو ہلاکت وبربادی کا پیش خیمہ قرار دیتا ہے ۔ نبی ﷺ کے فرمان
“ھَلَکَ المُتَنَطِّعُونَ” (صحیح مسلم:۷)
“غلو کرنے والے ہلاک ہوگئے”
اور
“إِیَّاکُمْ وَالْغُلُوُّفِي الدِّیْنِ فَإِنَّہُ أَھْلَکَ مَنْ کَانَ قَبْلَکُمْ اَلْغُلُوُّفِي الدِّیْنِ” (صحیح سنن ابن ماجہ:۳۰۲۹)
(تم لوگ دین میں غلو سے بچو بے شک تم سے پہلے کے لوگوں کو دین میں غلو نے ہلاک کردیا) میں اسی بات کو واضح کیا گیا ہے۔
اسلام نے اعتدال کو ایسے حدودوضوابط سے محدودومنضبط کردیا ہے جس کی روشنی میں اسلامی تعلیمات پر مکمل طور پر عمل کیا جائے گا اور کسی قسم کی مداہنت نہیں برتی جائے گی ۔سورۃ الکافرون میں اسی بات کا باربار اعادہ ہے۔ دعوت وتبلیغ کی راہ میں حکمت ومصلحت کو پیش نظر رکھتے ہوئے اسلامی اہداف ومقاصد سے چشم پوشی نہیں کی جائے گی۔ صلح جوئی سے کام لیتے ہوئے اسلامی اصول وکلیات کا سودا نہیں کیا جائے گا ۔جائز ومباح امور کو اختیار کیا جائے گا لیکن شبہات سے بچا بھی جائے گا۔
اللہ تعالیٰ سے دعا ہے کہ ہمیں اسلامی تعلیمات کی جامعیت ومعنویت کو سمجھنے اور اس کی روشنی میں زندگی گزارنے کی توفیق عطا فرمائے۔ آمین
آپ کے تبصرے