عربی کیسے سیکھیں / سکھائیں؟؟

شوکت پرویز عربی زبان و ادب

پچھلے چند سالوں سے مسلمانوں کی ایک بڑی تعداد پھر سے اسلام کی طرف راغب ہو رہی ہے، اور تمام تعریفیں اللہ ہی کے لیے ہیں۔ اس دین واپسی کے اثر میں ایک چیز عام مسلمانوں کی عربی زبان سیکھنے کی دلچسپی اور جذبہ بھی ہے۔

لیکن عربی سیکھنے سکھانے کے معاملے میں اکثر ہمارے یہاں اتنی پیچیدگیاں پیدا ہو جاتی ہیں کہ طلباء عربی سیکھنا شروع تو کر دیتے ہیں لیکن اس پر قائم نہیں رہ پاتے۔ ان مسائل میں سے ایک مسئلہ ہمارا عربی سیکھنے سکھانے کا طریقہ ہے۔ دنیا کی دیگر زبانیں ہم کیسے بھی دیکھیں، لیکن عربی کو ہم گرامر ہی کی نظر سے دیکھتے ہیں۔ وہ بھی تمام اصطلاحات کے ساتھ۔ یہ سراسر ظلم ہے۔

ممکن ہے یہاں ظلم کا استعمال کسی کو ظلم لگے، لیکن اگلے پیراگراف میں ہم نے اس ظلم پر سے ظلمات (اندھیروں) کے بادل ہٹائے ہیں اور اس اندھیرے پر اردو سے ایک مثالی پیراگراف کی روشنی ڈالی ہے۔ تاکہ بات اور واضح ہوجائے۔

اگر آپ نے یہاں تک پڑھ لیا ہے تو ظاہر ہے کہ آپ اردو پڑھ (اور سمجھ) لیتے ہیں۔ الحمد للہ۔ آئیے! اب ایک نظر اردو زبان پر ڈالتے ہیں۔ ہم میں سے کتنے ہیں جو مشبہ اور مشبہ بہ کا فرق جانتے ہیں؟ یا ہمارا پالا کبھی لفظِ استعارہ سے پڑا ہے؟ یا استفہامیہ کی فضا میں ہم نے اڑان بھری ہے؟ یا استہزائیہ کے کھیت میں بیج بویا ہے؟ یا صفت موصوف سے بچپن کے دوست سی آشنائی ہے؟ یا ماضی اسمتراری کی سواری کی ہے؟ یا مستقبلِ ناتمام کے خواب دیکھے ہیں؟ یا ضمیرِ تنکیر کا انکار کیِا ہے؟ یا ضمیرِ موصول کو حاصل کِیا ہے؟ یا اسمِ صوت کی آواز سنی ہے؟ یا اسمِ اشارہ کے اشارے کو سمجھا ہے؟ یا اسمِ ظرف کی اعلیٰ ظرفی کا مشاہدہ کِیا ہے؟ یا ضمیرِ اشارہ بعید کو قریب سے دیکھا ہے؟ یا صفتِ غیر معین کا تعین کِیا ہے؟ یا صفتِ نسبتی سے تعلق جوڑا ہے؟ یا صفتِ استغراقی میں تیراکی کی ہے؟ یا فعلِ تام کا نام سنا ہے؟ یا فعلِ ناقص کو پورا کِیا ہے؟ یا۔۔۔

جب ہماری اکثریت ان قواعدی اصطلاحات کو پروسے بغیر اردو کا ولیمہ دے سکتی ہے۔ تو ہم صرف و نحو کے کھجور کے بغیر عجمیت (غیر عربیت) کا روزہ کیوں نہیں کھول سکتے؟

یقین جانئے!
اسلامی جذبہ کے تحت عربی زبان سیکھنے والا ایک مبتدی جب مبتدا اور خبر سنتا ہے تو خود کی خبر نہیں رکھ پاتا۔ موصوف صفت کی تفصیل کو اپنی سمجھ کا عیب سمجھنے لگتا ہے۔ مرکب اضافی سے اپنے علم میں کمی ہوتے پاتا ہے۔شخصی ضمیریں اسے ملامت کرتی دکھائی دیتی ہیں۔ اضافی اور مفعولی ضمیریں اس کے جذبہ کو گاجر مولی کی طرح کاٹ کر رکھ دیتی ہیں۔ اسمِ اشارہ اس کی طرف کوئی اشارہ ہی نہیں کرتا۔ ضمائرِ استفہامیہ اسے سوالیہ نظروں سے گھورتے رہتے ہیں۔ جمع مکسر اسے توڑ کر رکھ دیتا ہے۔ عدد اور معدود سے اس کا جذبہ ہی معدوم ہونے لگتا ہے۔ اور حرف جر سے لفظ مجرور ہو یا نہ ہو، اس کا عربی سیکھنے کا جذبہ بری طرح مجروح ہو جاتا ہے۔ بالآخر وہ یقین کر بیٹھتا ہے کہ عربی سیکھنا اس کے بس کی بات نہیں۔

تو پھر عربی کیسے سیکھیں / سکھائیں؟؟
آسان جواب ہے: عربی قرآن سے سکھائیں۔ اس سے اسے عربی عبارتیں بنی بنائی ملیں گی، اور اسے صرف اس کا ترجمہ سمجھنا ہوگا۔ اور قرآن سے عمومی وابستگی کی وجہ سے اس کے عام فرامین تو ویسے ہی مسلمان کو پتہ ہوتے ہیں۔ یعنی وہ کئی پیچیدہ مقامات کا ترجمہ تو سیاق سے اور اپنی سابقہ قرآنی معلومات کی بنا پر بھی سمجھ لے گا۔ ان سب کے بعد چند ہی ایسے مقامات بچیں گے جن کے بارے میں وہ بالکل کورا ہو۔ تو اصلا یہی چند نئے الفاظ / صیغے اسے سیکھنے ہوں گے۔ اس طرح اس پر ذہنی دباؤ بہت کم ہوگا۔ بندہ جس اسلامی جذبہ کے تحت عربی سیکھنا شروع کرتا ہے اسے قرآنی عربی کی تعلیم باقی رکھتی ہے، بلکہ بڑھا دیتی ہے۔ قرآن سے محبت اور اس قرآنی عربی کا قابلِ عمل (practical) ہونا اسے عربی سیکھنے پر قائم رکھتا ہے۔ جب وہ سیکھی ہوئی آیتیں قرآن میں پڑھتا ہے، یا سنتا ہے اور اس کا مطلب سمجھنے لگتا ہے تو اس کی دلچسپی اور بڑھتی جاتی ہے۔

آپ ابتدا ہی میں اسے پورا گرامر پڑھانے کی بجائے صرف اتنا بتائیں کہ عربی کے تقریبا سبھی الفاظ کے تین بنیادی حروف (مادہ) ہوتے ہیں۔ تو کسی بھی عربی لفظ کے بنیادی معنی کا تعین کرنے کے لیے بس اس کے (تین حرفی) مادہ کو جاننا ہے۔ اگر وہ مادہ پہچان میں آ گیا تو اس لفظ کا معنی بھی اس سے متعلق ہوگا۔ مثال کے لیے یہ الفاظ دیکھیں:

سجدہ، ساجد، مسجود، مسجد۔۔۔

ان تمام الفاظ کا (تین حرفی) مادہ “س ج د“ ہے۔ اب ہمیں صرف “س ج د“ کا معنی جاننا ہے۔ اگر اس کا معنی معلوم ہو گیا تو اس سے بننے والے تمام الفاظ کا بنیادی معنی اسی مناسبت سے ہوگا۔

س ج د = سجدہ، سر جھکانا وغیرہ

سجدہ = “س ج د“ کا عمل

ساجد = “س ج د“ کرنے والا

مسجود = جسے “س ج د“ کیا گیا ہو

مسجد = “س ج د“ کرنے کی جگہ

وغیرہ۔۔۔

فعل کی پوری چودہ چودہ گردان پڑھانے کے بجائے صرف چھ چھ سے کام چلائیں۔
(1.اس آدمی نے کیا۔
2.ان سب آدمیوں نے کیا۔
3.تو ایک آدمی نے کیا۔
4.تم سب آدمی نے کیا۔
5.میں نے کیا۔
6.ہم نے کیا۔۔۔
اور اسی طرح مضارع کے چھ صیغے)۔
آپ جانتے ہیں کہ قرآن میں تثنیہ یا مؤنث صیغے خال خال ہی استعمال ہوئےہیں، تو ہم بھی اسے ان کے آنے تک مؤخر کریں۔ اور طالب علم کی زیادہ توجہ ان چھ چھ صیغوں تک ہی محدود رکھیں۔ ابتدائی دنوں ہی میں مجہول، اوامر، نہی وغیرہ کی بحث میں نہ پڑیں۔ صیغوں کی عمومی حالت بتانے پر اکتفا کریں، ان کی استثنائی حالتوں کو ان حالتوں کے آنے تک مؤخر کریں۔ (مثلا: تفعل کا مطلب آپ صرف “تو کرتا ہے” بتائیں۔ ابھی یہ نہ بتائیں کہ اس کا مطلب “وہ کرتی ہے” بھی ہوتا ہے۔ کیونکہ اس معنی سے تفعل کا صیغہ قرآن میں خال خال ہی استعمال ہوا ہے۔ لیکن شروع ہی میں دونوں مطلب بتا دینے سے بندہ ہر تفعل پر رک کر سوچے گا کہ یہاں اسے “تو کرتا ہے” سمجھنا ہے یا “وہ کرتی ہے” سمجھنا ہے۔)

استاد پہلی آیت کا لفظ بہ لفظ ترجمہ کرے، پھر سب سے ذہین طالب علم کو اس کا ترجمہ کرنے کہے، پھر اس سے کم ذہین کو، پھر اس سے کم۔۔۔ یعنی اگر دس طلباء ہوں، تو ہر طالب علم دس مرتبہ لفظ بہ لفظ ترجمہ سنےگا اور ایک مرتبہ خود بھی کرے گا۔ اس سے ہر لفظ کا لفظی ترجمہ اس کے ذہن میں بیٹھ جائے گا۔ اور جب اگلی مرتبہ وہ لفظ آئے گا تو ان شاء اللہ ہر کوئی اسے پہلے سے جانتا ہوگا۔ لفظی ترجمہ کرتے وقت اصل مادہ کی طرف توجہ دلاتے رہیں، اس سے وہ لفظ یاد کرنے میں بہت آسانی ہوتی ہے۔ مثلا سورہ کہف کی آیت

(إِذْ أَوَى الْفِتْيَةُ إِلَى الْكَهْفِ فَقَالُوا رَبَّنَا آتِنَا مِن لَّدُنكَ رَحْمَةً وَهَيِّئْ لَنَا مِنْ أَمْرِنَا رَشَدًا)

میں لفظ وَهَيِّئْ کا ترجمہ کرتے وقت اسے اردو میں استعمال لفظ “مہیا” سے جوڑیں۔ اس سے طلباء کو یہ لفظ مانوس اور جانا پہچانا لگے گا۔ اور اسے یاد رکھنا آسان ہوگا۔

درمیان میں تھوڑا تھوڑا ضروری گرامر ضرور بتائیں، لیکن اصل توجہ لفظی ترجمہ پر رکھیں، گرامر پر نہیں۔ ایک بنیادی بات یاد رکھیں کہ ہر وہ چیز جو آپ جانتے ہیں، وہ جاننا ہر طالب علم کے لیے ضروری نہیں، اور کم از کم اس بنیادی درجہ میں تو قطعی نہیں۔

مثال یہ سمجھ لیں کہ کیا ایک ریاضی کا ماہر کسی تیسری جماعت کے بچے کو ریاضی پڑھاتے ہوئے ٹریگنومیٹری (trigonometry) کی تفصیلات بتانے لگ جائے گا؟ نہیں نا!! وہ اسے اپنی علمی وسعت سے نہیں، بلکہ طالب علم کی کی ذہنی استطاعت و ضرورت کے مطابق پڑھائے گا۔ بالکل اسی طرح عربی پڑھانے والے اساتذہ کو چاہیے کہ قرآنی عربی پڑھاتے ہوئے اس بحث میں نہ پڑیں کہ یہ بابِ افتعال سے آیا ہے، پیچھے یہ ہے اس لیے آگے ایسا ہوا ہے، وغیرہ وغیرہ۔۔۔ فی الحال یہ طلباء قرآنی عربی کی تعلیم میں ہیں، انھیں اسی تک محدود رکھیے۔ جب یہ قرآنی عربی کی تعلیم میں 5-6 مہینے گزار دیں گے تو ان شاء اللہ اچھا خاصا عربی جاننے سمجھنے لگ جائیں گے۔ اور ان میں سے جسے اور آگے سیکھنا ہوگا اس کے لیے یہ قرآنی عربی کی تعلیم معاون و مددگار ہوگی۔ اور جو آگے نہیں بھی سیکھے تو کم از کم وہ قرآنی عربی تو سیکھ چکا ہوگا اور عربی میں قرآن سمجھنا شروع کر چکا ہوگا جو کہ عربی سیکھنے سکھانے کا بنیادی مقصد ہے۔

3
آپ کے تبصرے

3000
2 Comment threads
1 Thread replies
0 Followers
 
Most reacted comment
Hottest comment thread
3 Comment authors
newest oldest most voted
Abdul Baseer

ماشاءالله بارك الله فيكم لقد أعجبني أسلوبكم زادكم الله علما وعملا.

Mis Noor Chughtai

اسلام وعلیکم ورحمتہ اللہ وبرکاتہ، سر میں آپ کو اللہ پاک سے اتنا نوازے جتنی بڑی اس کی ذات ہے آمین، مجھے عربی سیکھنے کا بہت شوق ہے ،سیکھنے کی کوئی عمر نہیں۔ ہوتی اس لیے آ پ سے درخواست ہے کہ میری عربی سیکھنے میں مدد کریں ،جزاک اللہ

Shaukat Parvez

وعلیکم السلام بھائی جان!
اپنے اطراف میں کسی مسجد یا مرکز سے رابطہ کیجئے۔ ہفتہ میر روز یا ٣-٤ دن دس سے پندرہ منٹ بھی اگر آپ سنجیدگی سے دے دیں، تو ان شاء اللہ قرآنی عربی سیکھ جائیں گے۔ واللہ، ایسے لوگ بھی عربی سیکھ جاتے ہیں جنہیں اردو لکھنا پڑھنا نہیں آتا۔ پھر آپ تو الحمد للہ اردو زبان بھی جانتے ہیں۔
اپنے اطراف ہی میں کسی مسجد یا مرکز سے رابطہ کیجئے۔
کچھ اور رہنمائی چاہئے ہو تو بتائیے گا۔