زمانے کے دوش پر چلتے ہوئے جب دین کے اندر خرابی رونما ہوتی ہے تو اس کی اصلاح کے لیے مجددین کی آمد ہوتی رہتی ہے۔ ان مجددین کی برپا کی گئی تحریکات کے اثرات گرچہ کافی پایہ دار رہے ہیں، مگر دوسری طرف ان سے ناواقفیت کی بنا پر یا کسی چپقلش کے سبب ان کو بدنام بھی کیا گیا ہے۔ اسی وجہ سے کسی تحریک کی بابت جانکاری کے لیے لازم ہے کہ اس کے لٹریچر کو مذہب یا مسلک کے تنگ دائرے سے اوپر اٹھ کر پڑھا جائے، اور یہی شئے فی زمانہ سب سے زیادہ مفقود ہے، جس کے نتیجے میں بین المسلمین کشیدگی میں دن بدن کمی آنے کے بجائے اضافہ ہی ہوتا جارہا ہے۔
روزنامہ انقلاب کے۴؍نومبر کے ایڈیشن میں موقر صحافی جناب احمد جاوید صاحب نے ’’ایک عہد پر آشوب کے سو سال‘‘ کے عنوان سے ماضی کی ایک اصلاحی تحریک کو موضوع سخن بنایا، اور سعودی صحافی جمال خاشقجی مرحوم کے قتل کا ربط اس سے جوڑنے کی سعی کی۔ ہمارا المیہ ہے کہ عوامی اخبارات کے کالم نگار حضرات بسا اوقات اپنے منصب کا فائدہ مسلک کو پہنچانے کی کوشش کرتے ہیں، اور ان کے مضمون اور ایک ٹھیٹھ مسلکی ملا کی بڑ میں کوئی فرق نہیں رہ جاتا۔ ایک اصلاحی تحریک کا اتنے بڑے سیاسی ایشو سے کیونکر تعلق ہوسکتا ہے یہ تو وہی بتاسکتے ہیں، البتہ زیر نظر آرٹیکل میں اس تحریک کی بابت کافی غلط فہمیاں موجود ہیں، بلکہ اسے اسلامیت کے دائرے سے نکال کر یہودیت کے زمرے میں درج کیا گیا ہے، اور اس پر نوع بہ نوع کے الزامات موجود ہیں۔ سر دست ہمارا تبصرہ انہی سے متعلق ہے، تاکہ تحریک کے لٹریچر کی روشنی میں ان اتہامات کا جائزہ لیا جائے اور اس کے حقیقی خدوخال کی تعیین کی جائے۔
اٹھارہویں صدی عیسوی کے نصف اول میں شیخ الاسلام محمد بن عبد الوہاب کے ذریعہ برپا کی گئی تحریک ان جملہ تحریکات میں سر فہرست ہے جن کو روز اول سے بدنام کرنے کی مذموم سعی کی گئی ہے، اور اس میں مغربی دنیا کے پروپیگنڈوں نے خاص رول نبھایا ہے۔ تحریک آزادی ہند میں مجاہدین آزادی کی ایک بڑی تعداد کو انگریزوں نے ’’وہابی‘‘ قرار دے کر ان پر ظلم وستم کے پہاڑ توڑے، اور انھیں اپنی حکمرانی کے لیے سب سے بڑا خطرہ جانا۔ اس تعلق سے ڈاکٹر قیام الدین احمد کی کتاب The Wahhabi Movement in India کے اندر کافی تفصیلات ہیں۔
جناب احمد جاوید نے توحید ورسالت کے حوالے سے مقام نبوت کی اہمیت بیان کرتے ہوئے یہودیوں کے بعض خصائل ذکر کیے ہیں، اور پھر اسی مقام نبوت میں ’’تخفیف‘‘ کا خطرناک الزام اس تحریک کے بانی پر رکھا ہے اور اخیر میں نجدیت بمقابلہ بریلویت کے تحت اول الذکر کو اسلام کے پردے میں یہودیت قرار دیا، واللہ المستعان۔ ان سب کے ماحصل کے طور پر کہا جاسکتا ہے کہ انھوں نے دوسرے لفظوں میں تکفیری ذہنیت کی ہمنوائی کی ہے، اعلیٰ حضرت کے فتاوی جات میں جابہ جا ’’وہابیت‘‘ کو اسلام سے خارج بتایا گیا ہے۔ بلحاظ مجموعی یہ مضمون اسی مخصوص مسلک کی ترجمانی ہے۔امر واقع یہ ہے کہ ہندوستان میں تکفیر کا فتنہ احمد رضا خان ہی سے شروع ہوا ہے، انگریزی حکومت کے سایے تلے اسلام سے منسوب جن تنظیموں کی تاسیس ہوئی ہے ان میں مسلمانوں کے درمیان انتشار وافتراق پیدا کرنے کا مادہ بدرجہ اتم موجود رہا ہے، جس کی ایک جھلک خود ہم مضمون نگار کی محبوب ہستی میں دیکھ سکتے ہیں۔ یہ موضوع بذات خود ایک مستقل اور تفصیلی مضمون کا محتاج ہے کہ وہابیت اور نجدیت میں سے کون اسلام کی حقیقی علمبردار ہے اور کون مبالغہ آرائی اور تکفیری ذہنیت کی ہمنوا۔
اب آئیے شیخ الاسلام محمد بن عبد الوہاب کی تحریک کی طرف، یہ تحریک کسی خاص مکتب فکر کے زیر اثر وجود پذیر نہیں ہوئی تھی، بلکہ اس کا فیض عام تھا، یہی وجہ ہے کہ مخالفین کی اکثریت ایک مسلک سے منسوب تھی، جب کہ سلفی مکتب فکر کے ساتھ احناف کے ایک بڑے طبقے نے اس تحریک کا ساتھ دیا، اور اس کی موافقت ظاہر کی۔ حتی کہ مولانا حسین احمد مدنی مرحوم نے اول اول اس تحریک کی بابت سنی سنائی باتوں پر اعتماد کرکے ’’شہاب ثاقب‘‘ لکھ ڈالی تھی، بعد ازاں حقائق کا علم ہونے پر اخبار زمیندار ۱۷؍مئی ۱۹۲۵ء کے صفحات پر انھوں نے رجوع کا اعلان کیا اور ان کی تکفیر تو درکنار، ان کو فاسق وفاجر کہنے سے روکتے ہوئے ان کو اہل سنت والجماعت کا فرد بتایا۔ آپ کے اس بیان کی تائید مولانا شفیع الحسن دیوبند نے بھی فرمائی۔ اسی طبقہ فکر سے معروف محقق مولانا مسعود عالم ندوی مرحوم نے تو ان کے دفاع میں ایک مستقل کتاب ’’محمد بن عبد الوہاب: ایک بدنام اور مظلوم مصلح‘‘ تصنیف فرمائی اور جملہ اعتراضات کے جوابات دیے۔ یہ اس تحریک کی بین المسلمین مقبولیت کی ایک بڑی دلیل ہے۔
محمد بن عبد الوہاب علیہ الرحمہ کی تحریک بجز اس کے کچھ نہیں تھی کہ سرزمین حجاز میں اس دین کا بول بالا ہو جو ہزار برس قبل وہاں نازل ہوا تھا، اور شرک وبدعات کے سارے مظاہر جن سے حضرت مصطفی ﷺ نے منع کیا تھا ان کا خاتمہ ہو، بلاد حرمین میں امن وامان قائم ہو۔ تاریخ کے اوراق گواہ ہیں کہ اس تحریک کی بدولت خطہ حجاز بلکہ پوری مملکت سعودیہ عربیہ میں وہ امن وامان قائم ہوا جس کی نظیر دنیا کے کسی اور خطے میں نہیں ہے۔ ورنہ اس سے قبل حج کا نظام اور حرمین میں امن کی کیفیت اتنی مضطر تھی حجاج کے جان ومال بھی محفوظ نہ تھے، لوٹ مار، قتل وغارت گری اور بدامنی کی ساری صورتیں موجود تھیں۔
محمد بن عبدالوہاب کے اساتذہ میں سے بعض کا تعلق وطن عزیز سے بھی تھا۔ آپ کی تصنیفات پر نظر ڈالنے سے معلوم ہوگا کہ دینی امور میں آپ نے اپنی طرف سے کوئی بات کہنے کے بجائے عموما ہر موضوع پر پہلے قرآنی آیات ذکر کی ہیں، پھر احادیث نبویہ ذکر کی ہیں، اور آخر میں اس کی مختصر سی تشریح فرمائی ہے، گویا بالفاظ دیگر ان کی تحریریں کتاب وسنت کی ترجمان ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ ان کا لٹریچر طویل ترین نہیں بلکہ محض دو جلدوں کے اندر سماجاتا ہے۔ اس کی اثر آفرینی کی بابت مولانا مسعود عالم ندوی لکھتے ہیں: ’’ان تحریروں میں متکلمانہ موشگافیاں اور یونانی علوم سے متاخرین فقہاء کی دور از کار باتیں نہیں ملیں گی۔ وہ ٹھیٹھ محدثانہ طریقے پر لکھتے ہیں، جو بات کہی دو ٹوک سیدھے سادے الفاظ میں، کتاب وسنت کے نصوص سے آراستہ وپیراستہ اور بس، سچائی اور حقانیت کے پیکر کو ظاہری جمال وآرائش کی کیا ضرورت؟ سچائی اپنے اندر خود ایک نامعلوم کشش رکھتی ہے۔‘‘ (ص:۱۱۸)
کتاب وسنت کی آئینہ دار اس تحریک کو نجد کے شیطان کے طلوع ہونے کے موافق بتلانا حدیث رسول کا استخفاف ہے، کیونکہ مجموعہ احادیث سے ثابت ہوتا ہے یہاں لفظ نجد اپنے لغوی معنی ’’اونچی زمین‘‘ میں مستعمل ہے، اور اس سے مراد مدینے سے مشرق کا خطہ ہے جس سے صحابی رسول ابن عمر رضی اللہ عنہما سرزمین عراق مراد لیا کرتے تھے جہاں سے واقعی فتنے رونما ہوئے۔
چلتے چلاتے احمد جاوید صاحب نے امام مسجد حرام اور لاکھوں دلوں کی دھڑکن شیخ عبد الرحمن السدیس پر بھی اعتراض جتایا ہے کہ محمد بن سلمان کو انھوں نے ملہم ومحدث کہہ کر شریعت کی پامالی کی ہے۔ حالانکہ یہ غلط فہمی زبانوں کے اختلاف سے پیدا ہوئی ہے، شریعت کے لحاظ سے یہ لفظ اس پر بولا جاتا ہے جس کو اللہ رب العزت کی جانب سے الہام ہوتا ہو، جب کہ عمومی عربی زبان میں یہ تعریف کا ایک پیرایہ ہے جس کے معنی یہ ہیں کہ ممدوح شخص فلاں فن یا فلاں امور میں اچھا خاصا فہم وادراک رکھتا ہے۔ الہام کا نکتہ اردو شعر واودب کے لیے اس درجہ اجنبی بھی نہیں کہ اس پر اس طرح کی پوری عمارت کھڑی کردی جائے، بس برا ہو تعصب کا، غالب کا مشہور زمانہ شعر اس کی اعلیٰ مثال ہے
آتے ہیں غیب سے یہ مضامیں خیال میں
غالب صریر خامہ نوائے سروش ہے
یہ رعایا کے ایک فرد کی طرف سے حکومت کے متعلق نیک خواہشات تھیں جو غلط فہمی اور تعصب کی بھینٹ چڑھ کر امام حرم سے متعلق بدظنی کا باعث بن گئیں۔
خلاصہ یہ ہے کہ وہابی تحریک خالص قرآن وحدیث کی ترجمان رہی ہے، بایں سبب ہر اس گروہ نے اس کی مخالفت کی ہے جسے اسلام کے ان دو مصادر پر کلی اعتماد نہیں۔ جہاں غلط فہمیوں کی بنیاد پر چند علماء نے اس کی مخالفت کی ہے وہیں بلا اختلاف مسلک متعدد علماء نے اس تحریک اور اس کے بانی کو سراہا ہے، اور اس میں ہندوستانی علماء پیش پیش رہے ہیں۔ بہر حال جو حضرات بھی اس کے تعلق سے اچھا نظریہ نہیں رکھتے ان سے گزارش یہی ہے کہ مسلکی حضرات کی باتوں سے صرف نظر خود محمد بن عبد الوہاب کی کتابوں کا براہ راست مطالعہ کریں، ان شاء اللہ ان پر حقیقت آشکار ہوجائے گی۔ اللہ رب العزت ہمیں حق بات کہنے کی توفیق بخشے، اور باطل کے شکنجے سے محفوظ رکھے۔


فرض کفایہ ادا ہوا ۔۔۔۔جزاک الله عنا و عن جميع المسلمين خيرا
کاش کوئی روزنامہ انقلاب کے اسی صفحہ پر اس مضمون کی بھی اشاعت کی سبیل نکسل پائے ۔۔۔