عربی گفتگو اور فارغینِ مدارس

عربی گفتگو اور فارغینِ مدارس

شوکت پرویز عربی زبان و ادب

علم (بمعنی جاننے) کی چار قسمیں ہیں:
1۔ آپ جانتے ہیں کہ آپ جانتے ہیں (مثال: آپ جانتے ہیں کہ آپ اردو زبان جانتے ہیں)
2۔ آپ جانتے ہیں کہ آپ نہیں جانتے (مثال: آپ جانتے ہیں کہ آپ چینی زبان نہیں جانتے)
3۔ آپ نہیں جانتے کہ آپ جانتے ہیں (مثال: اس کی مثال ہم اگلے پیراگراف میں بیان کریں گے)
4۔ آپ نہیں جانتے کہ آپ نہیں جانتے (مثال: وہ تمام زبانیں جن کا نام بھی آپ نے نہیں سنا ہے، مثلا افریقہ کی زولو زبان)

تو جو تیسری قسم ہے (آپ نہیں جانتے کہ آپ جانتے ہیں) اس کی مثال اس مضمون کا عنوان ہے یعنی “عربی گفتگو اور فارغینِ مدارس“۔

فارغینِ مدارس کی اکثریت اس سے بے خبر ہے کہ وہ عربی میں گفتگو کر سکتی ہے۔ اس بے خبری کی ایک اہم وجہ ہمارا زبان کے تئیں غلط مفروضہ ہے۔ ہم نے یہ سمجھ رکھا ہے کہ کسی بھی زبان میں گفتگو ‘شروع‘ کرنے کے لیے وہ زبان ہمیں مکمل آنا چاہیے۔ یعنی ہم تب تک کسی زبان میں گفتگو نہیں کر سکتے جب تک ہمیں اس زبان کا ہر ایک لفظ، ہر ایک قاعدہ، ہر ایک ساخت، ہر ایک ترکیب، ہر ایک تلفظ، ہر ایک۔۔۔۔۔ نہ آ جائے۔

یہ مفروضہ غلط ہے۔ یہی مفروضہ اگر ایمانداری سے اردو پر بھی اپلائی کیا جائے تو اس مضمون کو پڑھنے والوں کی اکثریت اردو میں بھی گفتگو کی اہل نہ بن سکے گی۔

فارغینِ مدارس کئی سال تک عربی کتابوں کو پڑھتے ہیں۔ عربی کتابیں ان کے نصاب میں شامل ہوتی ہیں۔ وہ اگر حافظِ قرآن ہوں تو کیا کہنے! لیکن اگر وہ حافظِ قرآن نہ بھی ہوں، تب بھی انھیں کئی سورتیں، آیتیں، حدیثیں عربی میں یاد ہوتی ہیں۔ یعنی vocabulary (لغت) کے لیے ان کے پاس اچھا خاصا ذخیرہ ہوتا ہے۔ اور بنیادی قواعد تو وہ جانتے ہی ہیں۔ تو حضرات و خواتین! کسی زبان میں گفتگو کرنے کے لیے اور کیا چاہیے؟

آپ جن عجمیوں کی عربی پر رشک کرتے ہیں، کبھی ان کا سفر بھی دیکھیے! کیا وہ ابتدا ہی سے ایسی عربی جانتے ہیں؟ یا ان کا یہ عربی کا سفر بتدریج طے ہوا ہے؟ عین ممکن ہے کہ جب انھوں نے عربی میں گفتگو شروع کی ہوگی اس وقت وہ اس سے بھی کم جانتے ہوں گے جتنا آج آپ جانتے ہیں۔ بس فرق اتنا ہے کہ انھوں نے ‘شروع‘ کیا، اور آپ ہچکچا رہے ہیں۔

آپ شروع تو کیجیے! کئی موقعوں کے لیے آپ کو قرآن و احادیث سے بنے بنائے جملے مل جائیں گے۔ جن کو آپ اپنی گفتگو میں شامل کر سکتے ہیں۔ اور کئی موقعوں کے لیے گرامر کی معمولی سی تبدیلی کرنا ہوگی۔ اور کبھی لفظ کی معمولی سی تبدیلی کرنا ہوگی۔ پھر جب آپ اتنا شروع کر لیں گے، تو خود بخود آپ کو نئے نئے الفاظ اور نئے نئے جملے ملتے جائیں گے جیسا دوسری زبان سیکھنے کے معاملہ میں ہوتا ہے۔

اور اگر آپ کو کوئی لفظ عربی میں نہیں ملے تو آپ بقیہ جملہ عربی میں کہیں اور صرف وہ لفظ اپنی زبان (اردو / انگریزی) ہی میں کہہ لیں۔ کوئی حرج نہیں۔ ہم خود اردو زبان میں گفتگو کرتے ہوئے بغیر کسی احساسِ کمتری کے دوسری زبان کے کئی الفاظ استعمال کر لیتے ہیں۔

قرآن کی زبان متکلم ہے۔ آپ بآسانی اسے اپنی گفتگو میں استعمال کر سکتے ہیں۔
مثلا یہ آیت دیکھیں:

وَلَا تَمُوۡتُنَّ اِلَّا وَاَنۡـتُمۡ مُّسۡلِمُوۡنَ‌ (سورہ آل عمران 102)

“اور ہرگز تمھیں موت نہ آئے سوائے اس حالت میں کہ تم مومن ہو“
اب اس کی مدد سے آپ عربی گفتگو کے لیے کئی جملے بنا سکتے ہیں، مثلا اگر آپ کو کہنا ہو:
“اور ہرگز تمھیں نیند نہ آئے سوائے اس حالت میں کہ تم طاہر (پاک) ہو“
تو آپ کہہ سکتے ہیں:

وَلَا تَنُوْمُنَّ اِلَّا وَاَنۡـتُمۡ طَاهِرُوْنَ

آپ نے دیکھا؟ عربی گفتگو کتنی آسان ہے۔ مزید چند مثالیں دیکھتے ہیں:

يٰۤاَيُّهَا الَّذِيۡنَ اٰمَنُوۡا لِمَ تَقُوۡلُوۡنَ مَا لَا تَفۡعَلُوۡنَ (سورہ صف 2)

“اے ایمان والو! تم وہ کیوں کہتے ہو جو کرتے نہیں؟؟“
اب اسی صیغہ سے کئی اور جملے بنا سکتے ہیں۔ مثلا:
“اے بچّو! تم وہ کیوں کرتے ہو جو تم کو پسند نہیں؟؟“

يٰۤاَيُّهَا الۡاَطۡفَالُ لِمَ تَفۡعَلُوۡنَ مَا لَا تُحِبُّوۡنَ

یا
“اے بچّو! تم وہ کیوں کرتے ہو جو تم کو ضرر پہنچائے؟؟“

يٰۤاَيُّهَا الۡاَطۡفَالُ لِمَ تَفۡعَلُوۡنَ مَا يَضُرُّكُمۡ

مَا يَضُرُّكُمۡ =< یہ الفاظ سورہ انبیاء کی آیت 66 سے ماخوذ ہیں

یہ کچھ ایسے جملے ہیں جو ایک ہی قرآنی آیت سے براہِ راست حاصل ہو جاتے ہیں۔ ایسی کئی اور مثالیں دی جا سکتی ہیں۔
اور اگر ہم دو تین آیتوں کے صیغوں کو ملا لیں تو سوچیے ہمیں کتنے جملے مل سکتے ہیں!
مثلا:
“اے بچو! مدرسہ جاؤ ، پھر جب تعلیم ختم ہو جائے تو کھیلو، کوئی حرج نہیں“

يٰۤاَيُّهَا الۡاَطۡفَالُ اِذۡهَبُوۡا اِلَى الْمَكْتَبِ فَاِذَا قُضِيَ التَّعْلِيمُ فَالْعَبُوا وَلَا حَرَجٌ‌
يٰۤاَيُّهَا الۡاَطۡفَالُ =< پچھلی مثال سے
اِذۡهَبُوۡا اِلَى الْمَكْتَبِ =< اِذۡهَبَاۤ اِلٰى فِرۡعَوۡنَ اِنَّهٗ طَغٰى‌ (سورہ طٰهٰ‌ 43)
فَاِذَا قُضِيَ التَّعْلِيمُ فَالْعَبُوا =< فَاِذَا قُضِيَتِ الصَّلٰوةُ فَانْتَشِرُوۡا (سورہ جمعہ 10)
وَلَا حَرَجٌ‌ =< وَّلَا عَلَى الۡمَرِيۡضِ حَرَجٌ‌ (سورہ فتح 17)

پھر سے دیکھیے! کیا آپ متفق نہیں کہ آپ کے لیے عربی میں گفتگو تیسری قسم کا علم ہے (جو آپ نہیں جانتے کہ آپ جانتے ہیں۔۔۔)۔ یہاں ہم نے احادیث سے مثالیں نہیں لی ہیں۔ اگر آپ احادیث کے الفاظ و صیغے بھی ملا لیں تو پھر ان شاء اللہ آپ اس طرح عربی بول لے جائیں گے جس طرح اہلِ اردو ہندی بول لیتے ہیں۔

ہم یہ نہیں کہتے کہ اس طریقہ سے کوئی غلطی ممکن نہیں! بالکل ممکن ہے۔ لیکن ان شاء اللہ صواب (صحیح) کے مقابلہ میں غلطیاں بہت کم ہوں گی۔ اور کہیں نہ کہیں سے وہ غلطیاں بھی درست ہو ہی جائیں گی۔ اور ویسے بھی غلطیاں کرنے والا نقصان نہیں اٹھاتا، بلکہ کوشش نہ کرنے والا نقصان اٹھاتا ہے۔ اس تعلق سے اردو کا ایک مشہور شعر (اپنی اصل حالت میں) دیکھیے:
شہزور اپنے زور میں گرتا ہے مثلِ برق
وہ طفل کیا گرے گا جو گھٹنے کے بل چلے
(مرزا عظیم بیگ عظیم)

تو غلطیاں وہی کرتا ہے جو کوشش کرتا ہے۔ اگر کوئی خود کو غلطیوں سے بالکل پاک ہی رکھنا چاہتا ہے تو اس کے لیے جینا ہی ممکن نہیں۔

آپ کے تبصرے

3000