آج پھر طبیعت اداس تھی، ساحل سمندر کی سیر کو نکلا، مگر اداسی کی آگ سمندر کے پانی سے سرد نہیں ہوئی۔ لانگ ڈرائیو کا سوچا مگر موڈ نہ بن سکا، قریب کے ایک ریستوران میں جا کر بیٹھا اور کافی آرڈر کی، اتنے میں کالج کا ایک پرانا دوست دیپک مل گیا۔ دیپک کالج میں ہندی اسٹریم سے تھا اور میں عربی، مگر انگریزی کا لکچر ہم دونوں ساتھ اٹینڈ کرتے، میرے چہرے کی ویرانی دیکھ کر اس نے خیریت پوچھی، میں نے حال دل عرض کردیا، مشورہ ہوا کہ مووی دیکھنے چلتے ہیں شاید کہ دل بہل جائے، چنانچہ ہم نے سنیما کی راہ لی۔ دیپک نے بتایا کہ کل ایک مشہور سپر اسٹار کی نئی فلم ریلیز ہوئی ہے وہی دیکھتے ہیں، میں نے اثبات میں سر ہلا دیا۔
آرام دہ سیٹ تھی، دیپک بڑی دلچسپی سے فلم انجوائے کر رہا تھا، ہر نئے ڈائیلاگ پر صدائے آفرین اور ہر دلکش منظر پر تالیاں، ناظرین سراپا توجہ بن کر مووی دیکھ رہے تھے مگر میں اکتاہٹ کا شکار ہو رہا تھا، فلم کا ربر مایوسی کی لکیر مٹانے میں ناکام رہا، میں بور ہوتا رہا یہاں تک کہ وقفہ Intermission ہوا، میں نے دیپک سے کہا “یار چلو گھر چلتے ہیں، فلم ختم ہوگئی”
“جب اتنا دیکھ چکے ہیں تو مکمل دیکھ کر ہی جائیں گے، جب نہیں دیکھنا تھا تو آنا ہی نہیں چاہیے تھا” دیپک نے غصیلے انداز میں کہا۔
“مکمل دیکھنا ضروری ہے کیا؟” میں بھی غصہ ہو گیا۔
“کیوں نہیں! ابھی اصلی کہانی باقی ہے، ہیروئن غنڈوں کے نرغے میں ہے، ہیرو کی بہن بیمار ہے، اس کے ماننے والے مظلوم و مقہور ہیں، ہیرو بذات خود villain کی قید میں ہے، ایسی حالت میں مووی چھوڑ کر گھر چلا گیا تو مجھے نیند نہیں آئے گی” دیپک نے سمجھاتے ہوئے کہا۔
دیپک کی یہ بات سن کر میرے دل میں ایک نیا خیال آیا، میں نے کہا “یار دیپک! تم روز ایسی ہی آدھی ادھوری کہانی دیکھتے ہو، آئے دن ناقص فلموں کا مشاہدہ کرتے ہو پھر تمھیں کیسے نیند آ جاتی ہے؟”
دیپک نے تعجب آمیز لہجے میں کہا “وہ کیسے؟”
اب سمجھانے کی باری میری تھی، میں نے کہا “تم نے کتنی بار دیکھا ہے کہ ایک ظالم ظلم کرتے کرتے اور ایک مظلوم ظلم سہتے سہتے مر گیا، دونوں میں سے کسی کو کوئی بدلہ نہیں ملا، ہمارے زمینی معاشرے کا ہیرو غنڈوں کی قید میں مر جاتا ہے، انصاف کی آواز دبا دی جاتی ہے، ولین معصوموں کی لاشوں پر چڑھ کر اپنی فتح کا جشن مناتا ہے، کیا یہ فلمیں ادھوری نہیں، کیا ظلم اور انصاف کے بیچ میں موت کا وقفہ نہیں آ رہا ہے؟ آخر ہیرو کب فتحیاب ہوگا، منفی کرداروں کو کہاں ان کے اعمال کی سزا ملے گی؟ یقینا موت کے Intermission پر فلم مکمل نہیں ہوتی، بلکہ اصلی کہانی اس کے بعد شروع ہوتی ہے، جہاں سب کو ایک نئی دنیا اور حیات نو حاصل ہوتی ہے، وہاں ہر ایک کے ساتھ انصاف ہوگا، ظالموں کے لیے دوزخ ہوگی اور نیکوکاروں کے لیے جنت، ہیرو ولین پر ہنسے گا، غنڈے اپنے کرتوتوں پر نادم ہوں گے، اور یہی آخرت کا دن ہوگا جس کا تم انکار کرتے ہو۔”
“واقعی!” اس نے سر ہلاتے ہوئے کہا، اور میرے ساتھ گھر چلنے کے لیے بائک پر بیٹھ گیا۔
“فلم مکمل نہیں کروگے؟” میں نے اگنیشن کی (Ignition key) گھماتے ہوئے کہا۔
“نہیں ! اب مجھے موت کے وقفے کے بعد کی زندگی کی فکر ہو رہی ہے” قدرے رقت آمیز لہجے میں جواب آیا۔
بہت شکریہ بھائی
میرے ہر دلعزیز صحافی
صرف آپ کے بارے میں اتنا کہونگا کے ہر آنے والی نسل نو کو ضرور بضرور آپ سے استفادہ اٹھانا چاہیے
اللہ آپ کو ہمیشہ اپنے حفظ و امان میں رکھے
جزاکم اللہ خیرا و احسن الجزاء بھائی
عمدہ کہانی ہے۔
ماشاءاللہ بارک اللہ فی علمک ۔۔۔۔ بہت ہی بہترین اور قابل ستائش تحریر ہے اللہ آپ کو اپنے حفظ و امان میں رکھے آمین
بہت ہی عمدہ۔ماشاء الله
ماشاءاللہ
قابل ستائش
حقیقت کی عکاسی
واہ شیخ محترم!
کیا ہی پُر حکمث انداز میں آپ نے ایسے شخص کو قیامت کے قائم ہونے پر قائل کر لیا جس نے قیامت کا انکار کیا ہوا تھا!
اللہ آپ کے علم و عمل میں مزید ترقی عطا فرمائے!!!
آمین ثم آمین!!!