رسالہ  ’’استقامت‘‘

صاحب ’’رحمۃ للعالمین‘‘ کا بیش قیمتی رسالہ ’’استقامت‘‘

یاسر اسعد

ایک متذبذب مسلمان کے مکتوب کے جواب میں صاحب ’’رحمۃ للعالمین‘‘ کا بیش قیمتی رسالہ ’’استقامت‘‘


سیرت نبوی (علی صاحبہا الف صلاۃ وسلام) پر اردو زبان میں لکھی جانے والی لازوال اور شہرۂ آفاق کتاب ’’رحمۃ للعالمین‘‘ کے مصنف حضرت العلام قاضی محمد سلیمان سلمان منصور پوری علیہ الرحمہ ان علمائے اسلام میں سے ہیں جن کے علمی رسوخ، گہرائی وگیرائی، متانت وسنجیدگی کے قائل صرف مسلمان نہیں بلکہ غیر مسلم اہل علم بھی رہے ہیں۔ بیسوی صدی کے نصف اول میں اسلام کے تعارف ودفاع کا جو عظیم الشان فریضہ آپ نے انجام دیا وہ ہمیشہ یاد رکھے جانے کے قابل ہے۔ ایک سراسر دنیوی اور غیر علمی مصروفیت سے شغل ہونے کے باوجود آپ کا امتیاز رہا کہ نہ صرف علوم دینیہ وشرعیہ پر آپ کامل عبور رکھتے تھے، بلکہ دیگر مذاہب کی کتب مقدسہ نیز انگریزی وسنسکرت زبانوں پر بھی آپ کو مکمل دسترس حاصل تھی، مزید برآں حلم، شائستگی، سنجیدگی اور ادب واحترام آپ کے مزاج کا ہمیشہ خاصہ رہا۔
اللہ رب العزت کروٹ کروٹ جنت نصیب فرمائے مورخ اسلام مولانا محمد اسحاق بھٹی رحمۃ اللہ علیہ کو جنھوں نے گزشتہ صدی کے علماء کی مجالس کی صحبت سے ہمیں بھی آشنا کرایا، آپ نے قاضی صاحب مرحوم پر ایک مستقل تصنیف فرماکر اردو داں طبقہ میں ان کو زندۂ جاوید بنادیا ہے۔ قاضی صاحب کے علمی مقام اور دفاع عن الدین میں ان کی مخلصانہ مساعی نیز ان کی متانت وشائستگی کا تفصیلی تذکرہ ایک مستقل وطویل مضمون کا محتاج ہے۔ یہاں آپ کی ایک تصنیف ’’استقامت‘‘ کا تذکرہ کرنا مقصود ہے۔
قاضی محمد سلیمان منصور پوری رحمۃ اللہ علیہ کی تالیفات پر سرسری نگاہ رکھنے والا اس سے بخوبی واقف ہوگا کہ تبلیغ دین کا جذبہ آپ کے اندر اس قدر تھا کہ اس کے لیے کبھی کوئی دقیقہ فروگذاشت نہیں کیا، بلکہ ہر دم یہ شعور ان کو لاحق رہا کہ تبلیغ کا ایک موقع بھی چھوڑنے یا اس میں تاخیر کرنے پر عند اللہ وہ قابل مواخذہ قرار پاسکتے ہیں۔ اسی احساس تلے ایک روز گھر سے دفتر کے لیے روانہ ہوئے تو راہ میں ایک ’’متذبذب مسلمان‘‘ کا ایک خط آپ کو موصول ہوا، آپ بیچ راستے سے گھر واپس لوٹ آئے اور نصف گھنٹے میں اس کا کافی وشافی جواب تحریر فرمایا اور اسے پوسٹ کرنے کے بعد ہی دفتر گئے، چنانچہ لکھتے ہیں:
’’یہ رسالہ دراصل ایک خط ہے جو ایک دوست کے نام بھیجا گیا تھا۔ میں دفتر جارہا تھا کہ راستہ میں پوسٹ مین نے مجھے ایک خط دیا جس میں صاحب مکتوب نے ارقام فرمایا تھا کہ اگر مجھے تسلی بخش جواب نہ ملا تو میں عیسائی ہوجاؤں گا۔ یہ جملہ پڑھ کر معاً گھر کی طرف لوٹا کہ مبادا دیر ہوجائے اور وہ اسلام چھوڑ دے، چنانچہ آدھے گھنٹہ میں یہ خط لکھا، ڈاک میں ڈالا اور پھر دفتر روانہ ہوگیا۔‘‘ (ص:۷)
رسالے کا آغاز مولانا محمد اسماعیل سلفی رحمہ اللہ کے تمہیدی کلمات سے ہے جس میں آپ نے اپنے مخصوص انداز میں اسلام اور مسیحیت کے مابین کشمکش کی گفتگو کو بڑے ہی ایجاز کے ساتھ پونے دو صفحہ میں درج کیا ہے اور مسلم حکمرانوں کی مذہب کے حوالے سے صلح کل کی پالیسی پر نقد کیا ہے۔ اسی سے ملحق مولانا عطاء اللہ حنیف بھوجیانی رحمہ اللہ کا ’’تقریب‘‘ کے عنوان سے رسالے کا تعارف ہے۔ بعد ازاں قاضی صاحب مرحوم نے پیش لفظ لکھا ہے جس میں سبب تالیف مذکور ہے۔
قاضی صاحب علیہ الرحمہ نے مختلف مقامات پر اس متذبذب مسلمان کے اعتراضات کو اپنے الفاظ میں ذکر کرکے اس کا کافی وشافی جواب دیا ہے، اس کے مکتوب کو شامل کتاب نہیں کیا ہے، حالانکہ اس کی شمولیت پس منظر کو سمجھنے میں مزید معاون ہوتی۔ تفصیل سے قبل مناسب معلوم ہوتا ہے کہ قاضی صاحب کا وہ اقتباس درج کردیا جائے جس میں عیسائیت کی طرف اس کے میلان کا سبب بتایا گیا ہے، چنانچہ آپ لکھتے ہیں:
’’میں نے مرحوم سے دریافت کیا کہ عیسائیت کی طرف میلان کی اصلی وجہ کیا تھی، انھوں نے فرمایا کہ وہ فلاں جگہ سخت بیمار ہوگئے تھے، مسلمانوں نے ان کی کچھ خبر گیری نہ کی، ایک پادری صاحب کو خبر ہوئی تو وہ ان کی چارپائی اپنے ہاں اٹھوا لے گئے، علاج، تیمار داری، غمگساری، خدمت کا کوئی دقیقہ فروگذاشت نہ کیا۔ اس لیے پادری صاحب کی جانب سے ان کے دل میں ایک خاص ادب اور عزت پیدا ہوگئی۔ صحت کے بعد جو کچھ وہ اسلام کے خلاف بتاتے، ان کے دل میں جاگزیں ہوجاتا تھا۔‘‘ (ص:۸)
یہ امر واقع ہے کہ ریلیف کے چند کام کرکے بہت سارے مقامات پر عیسائی مشنریاں مسلمانوں سے ایمان کی دولت چھین رہی ہیں، جب کہ مسلمانوں کا آپسی برتاؤ یا غیر مسلموں کے ساتھ ان کا سلوک کیسا ہے یہ جگ ظاہر ہے، اس بارے میں کچھ کہنے کی ضرورت نہیں۔ اللہ ہمیں حسن اخلاق کی توفیق بخشے۔
اسلام سے انحراف کا پہلا سبب اس شخص نے دین کے اندر خلاف عادت اشیاء (معجزات) کا ہونا بتایا ہے، اور اس پر حضرت ابراہیم علیہ السلام کے لیے آگ کے ٹھنڈی ہوجانے کی مثال پیش کی ہے۔ اس کے جواب میں قاضی صاحب نے عیسائی کتب سے انبیاء ودیگر شخصیات سے منسوب پانچ خرق عادت بیانات ذکر کیے ہیں اور پھر اظہار تعجب فرمایا ہے کہ ان سب کی موجودگی میں قصہ ابراہیمی کیوں کر آپ کی ٹھوکر کا سبب ہوا۔
’’محمد (ﷺ) کی تعلیم خدا کی طرف سے نہ تھی، اپنی طرف سے تھی‘‘ اس موضوع پر آپ نے دونکات کی شکل میں لکھا ہے کہ اگر اس تعلیم کے واضع آپ ہوتے تو اپنے مقصد کی برآری کے لیے اس وقت عرب کی تین عظیم قوتوں (نصاری، یہود، مشرکین) میں کسی نہ کسی کا سہارا ضرور لیتے، مگر آپ نے اپنی تبلیغی مساعی سے ان تینوں طاقتوں کے عقائد پر ضرب لگائی اور سب آپ کے دشمن ہوگئے۔ اگر یہ تعلیم خود ساختہ ہوتی تو وقت واحد میں کل دنیا کو اپنا مخالف بنالینا کہاں کی عقلمندی تھی۔ دوسرا نکتہ یہ بیان کیا کہ ایسے وقت میں جب کہ آپ ﷺ کے حامیوں کی تعداد محض پانچ چھ تھی، بزبان الٰہی آپ کے لیے ارض مقدس فتح کرلینے کی پیش گوئی کی گئی، مقام فکر ہے کہ مصیبت کے مارے اس عہد میں اس کا تصور بھی محال تھا، اور پھر یہ ساری پیشین گوئیاں آگے چل کر حق ثابت ہوئیں اور دیار وامصار میں اسلام پہنچ گیا۔
مسلمانوں کے باہمی مسلکی نزاعات سے اسلام کی صحت پر سوالیہ نشان کھڑا کرنے والے اس مائل بہ الحاد مسلمان کے جواب میں آپ نے بڑی سنجیدگی سے خود عیسائیت سے اس کی مثالیں پیش کی ہیں کہ رومن کیتھولک اور پروٹسٹنٹ کے درمیان جھگڑے میں لاکھوں جانیں گئیں، اور یہ اختلاف محض اس بات پر تھا کہ عید پر فطیری روٹی کھائی جائے یا خمیری، لیکن اس کے باوجود اس اختلاف کو عیسائیت کے کذب کی دلیل نہیں سمجھا گیا تو یہ اعتراض مسلمانوں پر کیسے وارد کیا جاسکتا ہے۔
قرآن مجید کی حقانیت اور دیگر کتب کی منسوخیت پر بحث کرتے ہوئے آپ نے بڑے پتے کی بات کہی ہے، لکھتے ہیں کہ ہندو مت، پارسیت، یہودیت اور عیسائیت ان تمام مذاہب کی مقدس کتابوں کی زبان دنیا کے کسی بھی خطے میں نہیں بولی جاتی، بلکہ ان کا وجود مٹ چکا ہے، پس اگر قدرت کے ہاتھوں نے ان زبانوں کو بیخ وبن سے کاٹ دیا ہے تو یہ اس بات کی دلیل ہے کہ ان کتابوں کی حفاظت قدرت کی منشا نہ تھی۔ اس کے بالمقابل اسلام کی کتاب مقدس قرآن کی زبان عرصہ دراز سے جاری وساری ہے بلکہ پھلتی پھولتی جارہی ہے، لکھتے ہیں:
’’کیا آپ یہ نہیں غور کریں گے کہ ایسی عظیم الشان السنہ (زبانوں) کا جو ویدؔ اور ژندؔ اور توراۃ وانجیل کی زبانیں تھیں، جن کو ملکی اور دینی اقتدار سیکڑوں، ہزاروں سال تک کروڑوں اربوں اشخاص پر حاصل تھا دنیا سے ناپید ہوجانا (ایسا ناپید ہونا کہ ایک گاؤں میں بھی اس کا وجود نہ پایا جائے) نوع انسان کی کوشش سے بہت بالاتر ہے۔‘‘ (ص: ۱۶)
قاضی صاحب مرحوم یہ بھی بتلاتے ہیں کہ عیسائیوں کو قرآن پر غصہ ہونے کے بجائے اس کا احسان مند ہونا چاہیے کہ قرآن نے حضرت مسیح اور ان کی والدہ علیہما السلام پر یہودیوں کے ذریعہ لگائے گئے شرمناک الزامات کا رد کیا ہے، اسی طرح انجیل کے بہت سارے لاینحل مقامات کا عقدہ قرآن نے کھولا ہے، جو شخص توراۃ وانجیل غور سے پڑھے گا اس کو قرآن کی ضرورت کا خود بخود اقرار کرنا پڑے گا۔
کتب مقدسہ میں نبی اکرم ﷺ کی بابت پیشین گوئیوں کے بارے میں فرماتے ہیں کہ انجیل یا دیگر الہامی کتابوں میں جس نبی کی آمد کا تذکرہ ہے اس کی تعیین فقط محمد ﷺ پر ہوتی ہے، یہ انھیں تسلیم کرنا چاہیے ورنہ ان پر لازم ہے کہ وہ خود اس شخص کی تعیین کریں، اور تاحال ایسا نہیں ہوسکا ہے۔
نصف گھنٹے میں لکھا گیا یہ تحریری مراسلہ علمیت سے بھرپور اور لائق مطالعہ ہے، اس سے جہاں ایک طرف اسلام اور عیسائیت کے درمیان کشمکش اور اسلام اور پیغمبر اسلام کی اہمیت کا انکشاف خود انہی کی کتابوں سے ہوتا ہے وہیں اس سے علامہ منصورپوری مرحوم کے علمی کمال، استحضار، اعلی طریقۂ دفاع وتنقید اور شائستگی وسنجیدگی پر بھی روشنی پڑتی ہے۔ بلاشبہ اس میں ان لوگوں کے لیے بڑے کام کی چیز ہے جو بین المذاہب یا بین المسالک گفتگو میں احترام وادب کو برقرار رکھنے کے خواہاں ہیں اور اس نوعیت کا مہذب سماج دیکھنا چاہتے ہیں۔
ساتھ ہی مقام افسوس بھی ہے کہ ہمارا مزاج مجموعی طور سے ایسا ہوچکا ہے کہ ہمیں اپنے اسلاف کی علمی وراثت کے احیا سے کوئی خاص دل چسپی نہیں، مسلکی پیمانے پر بھی ہمیں وہی لٹریچر زیادہ محبوب ہے جس میں علمیت سے زیادہ جذباتیت اور مخالف فرقہ کو برا بھلا کہا گیا ہوتا ہے۔ ہم تسلیم کریں یا نہ کریں، مسلک اہل حدیث پر فقط صدی بھر قبل کے علماء کی کتابیں، ان کے مکتوبات، اہل حدیث کانفرنسوں میں پیش کیے گئے ان کے خطبات، ان کی سوانح وغیرہ میں ہمارے مسلک کے تعارف، امتیازی مسائل، ….وغیرہ وغیرہ پر جو مواد موجود ہے وہ ہمیں بڑی حد تک مزید کچھ لکھنے سے مستغنی کرسکتا ہے۔ رفع یدین، آمین بالجہر وغیرہ پر نت نئی تالیفات سے یقیناًصرف نظر نہیں کیا جاسکتا، مگر اس کے ساتھ ہی اگر ان موضوعات پر اپنی علمی تراث کا احیا عمل میں آئے تو یقین مانیے کہ دعوت وتبلیغ اور بحث وتحقیق کے بہت سارے نئے گوشے وا ہوں گے اور مسلک کی تبلیغ کی راہ مزید ہموار ہوگی۔ یہی شکوہ ہمیں اپنے طباعتی اداروں سے بھی ہے کہ ان کی ترجیحات میں ان کتابوں کو بھی جگہ ملنی چاہیے تاکہ گرد پڑے یہ خزانے کہیں مٹی تلے دفن نہ ہوجائیں۔

2
آپ کے تبصرے

3000
2 Comment threads
0 Thread replies
0 Followers
 
Most reacted comment
Hottest comment thread
2 Comment authors
newest oldest most voted
Kashif Shakeel

بہت بہت خوب یاسر بھائی
آخری پیراگراف نے دل موہ لیا
ماشاءاللہ

محمد کلیم الدین یوسف

بہت ہی عمدہ یاسر بھائی، جزاکم اللہ خیرا وبارک فیکم