نطق ہے عجز کا اظہار زبانِ دل میں
سوزِ خاموش ہے دلگیر بیانِ دل میں
دل کے دروازے پہ دیتا ہے جو پہلی دستک
وہی رہتا ہے شب و روز مکانِ دل میں
موند لو آنکھیں اگر کرنا ہو دیدارِ حبیب
چشمِ ظاہر تو ہے اک پردہ جہانِ دل میں
تپتا صحرا بھی پہن لیتا ہے شاخِ گلشن
وقت کھو دیتا ہے پہچان زمانِ دل میں
سر جھکانے کا یہ فرمان عبث ہے کافر
خود ہی خم رہتا ہے سر جائے بتانِ دل میں
بے حسی جرم ہے کیسا یہ بتانا تھا فقط
گھونپ دی شمسؔ نے تلوار نشانِ دل میں
آپ کے تبصرے