۱۸۹۱۔۔۔۔۔۔۔۱۹۲۱ء
محمد تیمور ۱۸۹۱ء میں قاہرہ میں پیدا ہوئے۔ دولت و ثروت اور علم وادب کے ماحول میں پروان چڑھے۔ باپ احمد تیمور اپنے زمانے کے مشہور ادیب، مؤرخ، ماہر لغت اور بہت بڑے اسکالر تھے۔ اور پھوپھی عائشہ تیموریہ عبوری دور کی معروف شاعرہ تھیں۔ بچپن ہی سے وہ ذہین اور محنتی تھے۔ آٹھ برس کی عمر میں امرؤالقیس کا معلقہ اور شعرائے عرب کے بعض قصائد زبانی یاد کرلیے تھے۔ قدرت نے طبیعت میں موزونیت عطاکی تھی، دس سال کی عمر سے شعر و شاعری اور رسالوں کے لیے مضامین لکھنا شروع کر دیے تھے۔ جب ہائی اسکول میں آئے اور قدرے فہم و شعور میں اضافہ ہوا تو قدیم شعراء کے دواوین خاص طور سے دیوان المتنبی، دیوان المعری اور محدثین (عباسی دور کے نئے شعراء) میں دیوان ابو نواس کا ذوق و شوق سے مطالعہ کرنے لگے تھے۔ اس کا اثر یہ ہوا کہ شعر و شاعری سے ان کی دلچسپی اور بڑھ گئی اور مدرسہ میں مختلف مناسبات کے موقع پر اشعار کہنے کا اہتمام کرنے لگے جس سے سارے مدرسہ میں ان کی دھوم مچ گئی اور ’’شاعر مدرسہ خدیویہ‘‘ کے لقب سے نوازے گئے۔
محمد تیمور کو بچپن ہی سے ڈرامہ کا بہت شوق تھا، اور عمر کے ساتھ ساتھ یہ شوق ذوق میں اور پھر فن میں بدل گیا۔ کچھ دنوں تک شیخ سلامہ حجازی کے ڈراموں کو پابندی سے دیکھنے کے بعد انہوں نے گھریلو ڈرامہ پارٹیاں بنانا شروع کردیں اور خود ہی ان کے لیے ڈرامے لکھتے اور خود ہی ان میں ہیرو کاپارٹ لیتے اور اس طرح ڈرامہ نگاری اور بحیثیت کردار کام کرنے کے ذوق کی آبیاری کرتے۔
بی، اے پاس کرنے کے بعد وکالت پڑھنے کے لیے انہوں نے فرانس کا سفر کیا اور وہاں تین سال رہے، تعلیم تو ان کی ادھوری رہی البتہ اس دوران انہوں نے وہاں علم و ادب، فکر و فن اور تنقید میں جو آزادی پائی اور تہذیب و معاشرت میں جو رنگا رنگی دیکھی تو اس سے ان کی آنکھیں کھل گئیں اور جب فرانسیسی ادب کا گہرائی سے مطالعہ کیا تو انہیں اندازہ ہواکہ ہم اس کے مقابلہ میں کتنے پیچھے ہیں، اور یہیں سے ان کے دل میں عربی ادب اور مصری افسانہ اور ڈرامہ کو مغربی انداز پر ڈھالنے اور ان کے رنگ میں رنگنے کی طرف شدید رجحان پیدا ہوا۔ چنانچہ انہوں نے زور دیا کہ ہمیں اپنی کہانیوں اور ڈراموں میں اپنی سرزمین، اپنی زندگی، اپنے مسائل اور اپنی تہذیب و تمدن کے خدو خال نمایاں کرنا چاہیئے۔ چنانچہ اب محمد تیمور نے نظم و نثر میں جو کچھ لکھا اس میں مصری رنگ اور مصری زندگی اور اپنی خوکی جھلک صاف نظر آنے لگی۔
قیام فرانس کے دوران جب انہیں اپنے بھائی محمود تیمور سے خط و کتابت کے ذریعے یہ اطلاع ملتی کہ مصر میں بھی ڈرامہ کا کام اچھا خاصا چل رہا ہے اور اس میدان میں جورج ابیض، عبدالرحمن رشدی اور ڈرامہ نگار ادیب فؤاد آفندی سلیم کی کوششوں سے بڑی مفید اصلاحات ہوئی ہیں تو یہ سن کر انہیں بڑی خوشی ہوتی۔ اور جب مصر واپس آئے تو ان لوگوں سے بڑے شوق سے ملے اور اس صنف ادب کو ترقی دینے کے لیے جن اقدامات اور اصطلاحات کی ضرورت تھی اس کا خاکہ بنایا لیکن افسوس کہ موت نے انہیں عملی جامہ پہنانے کا موقعہ نہ دیا۔ اور اپنی زندگی میں اپنی کوششوں کو بار آور نہ دیکھ سکے۔
جنگ کے ابتدائی برسوں میں محمد تیمور کے دوست عبدالرحیم نے ڈرامہ کی نشونما و ترقی کے لیے ایک تنظیم جمعیۃ انصار التمثیل (انجمن مدد گاران ڈرامہ) کے نام سے قائم کی تو محمد تیمور اس میں شریک ہوگئے۔ اور ایکٹر ڈیوڈ چوک کے ناول کو ڈرامہ کے طور پر اسٹیج کرنے میں معاون رہے، اگرچہ انہوں نے اس میں کسی کردار کی حیثیت سے کام نہیں کیا۔ اس کے بعد النادی الأھلي (مصر کی مشہور کلچرل سوسائٹی) جب اپنے رات کے پروگرام پیش کرتی تو محمد تیمور ان میں اپنے کہے ہوئے منظوم ڈرامائی مونو لوگ پیش کرنے لگے اور اس طرح ڈرامہ میں عملی کام کرنے کی ابتداء ہوئی۔ جمعیۃ انصار التمثیل کے بانی عبد الرحیم کی وفات کے بعد یہ انجمن مردہ سی ہوگئی، مگر محمد تیمور نے اس کو سنبھالا دیا اور اس میں پھر سے نئی جان ڈالی۔
اس زمانے میں النادی الأھلی کے علاوہ، نادی الموسیقی اور گورنمنٹ ملازمین کی سوسائٹی ہر رات اپنے شبانہ پروگرام منعقد کیا کرتی تھیں اور ان میں تیمور کے تمثیلی مولو لوگ ضرور پیش کیے جاتے تھے، جو زبان و بیان، طنز و مزاح اور پیش کرنے کے دلچسپ ڈھنگ کی وجہ سے بہت پسند کیے جاتے تھے۔ اور اس طرح ان سوسائٹیوں کے ان شبانہ پروگراموں سے بڑا چرچا اور محمد تیمور کا بحیثیت فنکار کے بڑا شہرہ ہوا، حالانکہ اس زمانے میں ڈرامہ بحیثیت فن کے ابھی مصر میں بڑا ناقص اور بالکل ابتدائی مرحلہ میں تھا لیکن محمد تیمور کی کوششوں سے اس میں جان آنے لگی اور جب خود انہوں نے اس زمانے کے انتہائی مشہور و محبوب ڈرامہ ’’عزہ بنت الخلیفہ‘‘ اور دوسرے ڈرامہ ’’العرائس‘‘ (دلہنیں) میں نہایت شاندار کردار ادا کیا تو ڈرامہ کی شان اور آن بان بہت بڑھ گئی اور خود ان کی شہرت میں چار چاند لگ گئے۔ اول الذکر ڈرامہ میں موصوف نے بڑی کامیابی کے ساتھ ’’سیف الدین‘‘ ڈرامہ کے ہیرو کارول ادا کیا اور یہ پہلا ڈرامہ تھا جسے انہوں نے اسٹیج پر کیا تھا۔
مگر اخلاق سے گرے، غیر سنجیدہ اور مہمل ڈراموں میں لوگوں کی دلچسپیاں دیکھ کر محمود تیمور نے آہستہ آہستہ انہیں سنجیدہ اور اصلاحی پہلو کے حامل ڈراموں کی طرف لانے کے لیے مصری عامی زبان میں مزاحیہ اور فن پر مبنی ہزلی ڈرامے لکھنے شروع کیے۔ چنانچہ اس سلسلہ کا پہلا ڈرامہ انہوں نے ’’عبد الستار آفندی‘‘ کے عنوان سے عامی زبان میں لکھا۔ یہ ڈرامہ عامی زبان میں ہونے کے علاوہ ہنسی، مذاق، پھکڑپن اور ٹھٹھوں کا بھی اچھا اور صحت مند نمونہ ہے، جب یہ اسٹیج پر دکھایا گیا تو لوگوں نے اسے پسند تو کیا لیکن کچھ دن بعد وہ ہماہمی اور جوش و خروش جو شروع میں دکھائی دیاتھا، آہستہ آہستہ کم ہونے لگا اور آخر کار پھر وہی رکاکت، خالص پھکّڑپن، بیہودہ گوئی اور بیچ بیچ میں مہمل گانوں کا ذوق ابھر آیا ۔ لوگوں کی اس بدذوقی اور سنجیدہ علمی وفنی کام کی ناقدری کو دیکھ کر ان کا دل بہت دکھی ہوا اور ہمیشہ کے لیے انہوں نے ڈرامہ اور کاروبار اسٹیج کو تج دینے کا ارادہ کرلیا لیکن کچھ دنوں بعد ذوق طبعی نے پھر انگڑائی لینا شروع کیا اور محمد تیمور نے ایک ڈرامہ بعنوان ’’الھاویۃ‘‘ (گڈھا) لکھا۔ شاید یہ عنوان اس بات کا اشارہ تھا کہ اب تم بھی قبر کے گڈھے میں ابدی نیند سونے والے ہو۔ بہر حال انہی ایام میں وہ یرقان کے مرض (پیلیا) میں مبتلا ہوئے اور اپنے بستر مرگ پر پڑے اس ڈرامہ کا خود ہی ریہرسل کرارہے تھے کہ مرض نے زور پکڑلیا، دو دورے پڑے اور مورخہ ۲۴؍فروری ۱۹۲۱ء کو عین عالم شباب میں جبکہ عمر عزیز کی صرف تیس بہاریں دیکھ پائے تھے موت کی آغوش میں چلے گئے۔اور یوں کاروان ڈرامہ اور اسٹیج چلتے چلتے ایک جھٹکے کے ساتھ گویا رک سا گیا۔
محمد تیمور کی تالیفات، ڈرامے اورکہانیاں:
محمد تیمور شعر و سخن اور تالیف کابھی ذوق رکھتے تھے، کم عمر پانے کے باوجود انہوں نے چند کتابیں بطور یاد گار چھوڑی ہیں جو یہ ہیں:
’’دیوان محمد تیمور، و میض الروح، حیاتنا التمثیل، المسرح المصرح، الأقاصیص المصریۃ، الأدب والاجتماع، مذکرات باریس، مقالات من الشعر المنثور، خواطر وملاحظات عن الحیاۃ‘‘۔
محمد تیمور نے چار ڈرامے لکھے:
(۱) العصفور في القفص (چڑیا پنجرے میں)
(۲) عبدالستار آفندی
(۳) الھاویۃ (گڈھا)
(۴) العشرۃ الطیبة
یہ ڈرامے ایسے ہیں جو اس زمانے میں فنی اعتبار سے معیاری کردار نگاری، تمثیل اور مکالمہ کے اعتبار سے مکمل اور بے مثال ہیں، ان میں اداکاری کے اصول و ضوابط کی دقیق پابندی کی گئی ہے البتہ عامۃ الناس کا خیال کرتے ہوئے انہیں عامیانہ زبان میں تحریر کیا گیا ہے۔
پہلا ڈرامہ ’’العصفور في القفص‘‘ کومیڈی ہے اور اس میں چار سین ہیں، اس کا موضوع موجودہ زمانے میں مصری زندگی کا عکس ہے، جس میں ایک مصری خاندان کے رہن سہن، اخلاق و عادات اور ان کی شخصیت کی اہمیت اور حیثیت کا تجربہ بہت ہی خوبصورت انداز سے کیا ہے۔ چنانچہ ان کی مشرقی اخلاقی کمزوریوں کی نشاندہی کرنے کے بعد یہ دکھایا ہے کہ ان کمزوریوں کی وجہ سے اکثر اوقات خاندان میں بڑے بڑے المناک حادثات ہوگئے ہیں جن کا بعض اوقات بہت ہی تکلیف دہ انجام ہوا ہے۔
دوسرے ڈرامہ ’’عبد الستار آفندی‘‘ میں مصر کے ایک متوسط طبقہ کے خاندان کی زندگی کو نمایاں کیا گیا ہے۔
تیسرے ڈرامہ ’’الھاویہ‘‘ کے متعلق کوئی تفصیل نہیں ملتی (البتہ ’’الھاویہ‘‘ نام سے ایک ناول ہے جس میں بیوی اپنے میاں کے حق میں اس کے دوست سے ہی ملوّث ہوکر خیانت کرتی ہے، اس لیے کہ وہ اس کی خبر نہیں لیتا۔ کوٹھوں اور نگار خانوں میں کوکین وغیرہ کھا کر راتیں گزارتاہے اور بیوی دوسروں کے ساتھ مزے اڑاتی ہے)۔
آخر الذکر ڈرامہ میں محمد تیمور کے علاوہ دوسرے فنکاروں کی بھی شرکت تھی۔ یہ ڈرامہ فرانسیسی ڈرامہ سے ماخوذہے جسے مصری آہنگ عطا کرنے کے بعد اس کے اوقات کو مملوکی عہد کی وقوع پذیر ہونے والے واقعات میں بدل کر ترکیوں کے تصرفات کو شدید تنقید کا نشانہ بنایا گیا ہے۔
محمد تیمور نے ڈراموں کے علاوہ چھوٹی بڑی اور لمبی کہانیوں یعنی افسانوں کا ایک مجموعہ بھی مرتب کیا تھا جو ’’ماتراہ العیون‘‘ (آنکھیں جو دیکھتی ہیں) کے نام سے شائع ہوکر مقبول عام ہے۔ یہ افسانے اپنی واقعیت اور فنی حیثیت سے ممتاز ہوتے ہیں۔ اس مجموعہ کی دلچسپ کہانیوں میں ’’بیت الکرم‘‘ (مہمان خانہ)، صفارۃ العید‘‘ (عید کی پپہری) اور ’’ کان طفلاً فصار شابّاً‘‘ (تھا تو بچہ لیکن ہوگیا جوان) قابل ذکر ہیں(۱)۔
یہاں یہ بات قابل ذکر ہے کہ محمد تیمور عربی میں پہلے فنی نگار کی حیثیت سے جانے جاتے ہیں۔ مؤرخین ادب کے بقول صحیح معنوں میں فنی اور تکنیکی اعتبار سے بھرپور کہانی لکھنے کی ابتداء انہیں سے ہوئی۔ ان کی پہلی کہانی ’’في القطار‘‘ ہے جس نے دنیائے ادب میں دھوم مچادی تھی۔انہوں نے اپنی کہانیوں میں مصری سماج اور اس کے مسائل، کسان اور اس کی پریشانیاں اور حالت زار، عورت اور اس پر ظلم و ستم اور اس کے ساتھ ناروا سلوک کو اپنی کہانیوں کا موضوع بنایا ہے، بعض میں حکومت کے کارندوں اور ان کی بیجا حرکتوں اور چیرہ دستیوں کا نقشہ بھی کھینچا ہے۔
محمد تیمور نے اپنی کہانیوں میں بڑی میٹھی سلیس اور شگفتہ زبان استعمال کی ہے جس میں سطحیت، تعقید یا لفظی شعبدہ بازی نہیں ہے۔ کہانیوں کے کردار بڑے جاندار اور بولتے ہوئے ہیں، اور مکالمات بڑے نپے تلے حسب حال اور موزوں ہیں۔ اپنی کہانیوں میں محمد تیمور فرانسیسی ادب سے خاصے متاثر ہیں۔ بعض کہانیوں میں انہوں نے مشہور فرانسیسی افسانہ نگار موپساں کی بعض کہانیوں کا چربہ بڑی کامیابی سے اتارا ہے۔ جیساکہ اپنی کہانیوں کے مجموعہ ’’ربی لمن خلقت ھذا لنعیم‘‘ کے مقدمہ میں انہوں نے اس بات کا کھلے لفظوں میں اعتراف کیا ہے کہ اس کہانی کو میں نے اس انداز سے مصری رنگ میں ڈھال دیا ہے کہ اس میں سوائے لکھنے والے کی روح کے اب کچھ نہیں رہ گیا ہے‘‘۔
محمد تیمور کی ادبی نگارشات کو دیکھ کر مشہور روسی مستشرق کراچکووسکی نے جدید عربی ادب سے متعلق اپنے مقالہ میں پہل کرنے والے ادیب تھے۔ جنہیں پوری ادب پر مکمل عبور تھا۔ بڑے باریک بیں اور گہری نظر رکھنے والے تھے۔ انہیں خالص مصری زندگی سے متعلق بہت سی چھوٹی موٹی کہانیاں لکھیں جن میں وہ چیخوف اور موپساں کے اسلوب نگارش کی پیروی کرتے تھے‘‘(۲)
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
(۱) عربی ادب کی تاریخ از عبد الحلیم ندوی ۴؍۹۲-۱۰۴ وأعلام النثر والشعر في العصر العربي الحدیث لمحمد یوسف کوکن ۳؍۳۷۶،۳۷۵ وجدید عربی ادب از شوقی ضیف (اردو ترجمہ) ڈاکٹر شمس کمال انجم ص ۲۵۵،۲۶۰ و تاریخ العربیۃ و آدابھا لمحمد الفاروقي و محمد اسماعیل المجددي ص ۱۵۴،۱۵۵۔
(۲) عربی ادب کی تاریخ از عبدالحلیم ندوی ص۴؍۶۴-۶۶


آپ کے تبصرے