زندگانی لہو آشام ہوئی جاتی ہے
موت تو ایسے ہی بدنام ہوئی جاتی ہے
صبح افکار پریشاں کی کشاکش ٹھہری
درد میں ڈوبی ہوئی شام ہوئی جاتی ہے
وصل بھی بن نہ سکا باعث تسکیں آخر
زندگی آپ میں کہرام ہوئی جاتی ہے
خواب محشر ہے مرے پارہ جگر گوشوں کا
نیند میرے لیے انعام ہوئی جاتی ہے
آتش عشق میں افراط کی حالت مت پوچھ
جیسے دنیا مری کہرام ہوئی جاتی ہے
جس کو سمجھا تھا کبھی میں نے وفا کی مورت
بے وفا وہ بھی سر انجام ہوئی جاتی ہے
اضطراب دل نادان جُنوں میں مت پوچھ
وحشت اب لرزہ بر اندام ہوئی جاتی ہے
خود فراموشی کا عالَم ہے یہ کیسا کاشف
جستجوئے دل نا کام ہوئی جاتی ہے
بہت خوب کاشف یہ غزل میری زبان پر رہتی ہے
بہت خوب، زبردست کاشف بھائی
Masha allah awesome bro
کیا کہنے ہیں کاشف بھائی بہت عمدہ کمال است کمال است
ماشاءاللہ بہت زببببردست