نہ جانے کہاں وہ ٹھکانا پڑے گا

عبدالکریم شاد شعروسخن

نہ جانے کہاں وہ ٹھکانا پڑے گا

جہاں تک ہمیں غم اٹھانا پڑے گا


ہمیں اپنا ظرف آزمانا ہے یارو!

سو ظرفِ عدو آزمانا پڑے گا


اگر جنگ ہے بھیڑیوں سے تو ہم کو

بقا کے لیے زخم کھانا پڑے گا


جو تشخیص کرنی ہے اپنے مرض کی

لہو جسم سے کچھ بہانا پڑے گا


بھٹکتے رہیں یوں ہی کب تک فضا میں

کوئی آشیانہ بنانا پڑے گا


نہ آگے رکھیں ہم زمانے کی خواہش

نہ پیچھے ہمارے زمانہ پڑے گا


جہاں لطف و انصاف و انسانیت ہو

کہاں شاد جی! وہ ٹھکانا پڑے گا


 

آپ کے تبصرے

3000